خودداری پر اشعار
خوداری بہترین انسانی
صفات میں سے ایک صفت ہے۔ اس کے ذریعے انسان اپنے وجود کی اہمیت کو پہچانتا ہے اوراپنےآس پاس پھیلی ہوئی دنیا سے اپنے رشتوں کو ازسرنوترتیب دیتا ہے ۔ ایک تخلیق کارسے زیادہ جس کا سارا کا سارا سروکار اپنے وجودی معاملات سے ہوتا ہے خودرای اوراس کی مختلف صورتوں سے کون واقف ہوگا۔ ہمارے اس انتخاب میں آپ خودداری کی پیدا کردہ داخلی قوت کے کئی رنگوں سے گزریں گے۔
مجھے دشمن سے بھی خودداری کی امید رہتی ہے
کسی کا بھی ہو سر قدموں میں سر اچھا نہیں لگتا
کسی رئیس کی محفل کا ذکر ہی کیا ہے
خدا کے گھر بھی نہ جائیں گے بن بلائے ہوئے
دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے
-
موضوع : موت
وقت کے ساتھ بدلنا تو بہت آساں تھا
مجھ سے ہر وقت مخاطب رہی غیرت میری
میں ترے در کا بھکاری تو مرے در کا فقیر
آدمی اس دور میں خوددار ہو سکتا نہیں
-
موضوع : آدمی
ہم ترے خوابوں کی جنت سے نکل کر آ گئے
دیکھ تیرا قصر عالی شان خالی کر دیا
-
موضوع : خواب
گرد شہرت کو بھی دامن سے لپٹنے نہ دیا
کوئی احسان زمانے کا اٹھایا ہی نہیں
جس دن مری جبیں کسی دہلیز پر جھکے
اس دن خدا شگاف مرے سر میں ڈال دے
اذن خرام لیتے ہوئے آسماں سے ہم
ہٹ کر چلے ہیں رہ گزر کارواں سے ہم
کیا معلوم کسی کی مشکل
خود داری ہے یا خود بینی