نازو
کہانی کی کہانی
کہانی ایک ایسے شخص کی ہے جو صحنچی نہ ملنے کی وجہ سے اپنی بیوی نازو کو طلاق دے دیتا ہے۔ حالانکہ اس نے شادی ہی اسلیے کی تھی کہ وہ بہت خوبصورت تھی اور اسے لگتا تھا کہ اسی کے پاس صحنچی ہے، مگر اس کے جانے کے بعد جب اس نے پرانے صندوق کو کھلوا کر دیکھا تو صحنچی اسی صندوق میں سے بر آمد ہوئی ۔
’’چھن چھن۔‘‘
آواز نے کانوں کو چور چور کردیا جیسے اس کے سامنے اس کی نازو نے سرخ چوڑیوں سے بھرے ہوئے دونوں ہاتھ دہلیز پر پٹخ دیے ہوں۔ دونوں سفید تندرست کلائیاں خون کی چھوٹی چھوٹی مہین لکیروں سے لالوں لال ہوگئیں۔ کتنی شدت سے جی چاہا تھا کہ اس جیتے جاگتے خون پر اپنے ہونٹ رکھ دوں۔ آج پھر اس کی زبان نمکین ہوگئی۔ آنکھیں چیخ پڑیں۔ دونوں زخمی کلائیاں دو بچوں کی لاشوں کی طرح اس کے پہلو میں جھول رہی تھیں۔ آنکھوں سے آنسو ابل رہے تھے۔ دھاروں دھار ہونٹ کانپ رہے تھے۔ عذابوں کی بددعائیں دے رہے تھے۔ اسےیقین نہ آرہا تھا کہ یہ وہی عورت ہے، اس کی وہی بیوی ہے جس کی بے مزہ قربت کی چکی میں سیکڑوں راتیں پس کرنابود ہوگئیں۔ طلاق کی چلمن کے پیچھے سے وہ کتنی پراسرار اور زرنگار لگ رہی تھی۔
ٹریکٹر پھر چلنےلگا۔ تھوڑا سا کھیت باقی رہ گیا تھا۔ گیہوں کی پوری فصل کٹی پڑی تھی۔ کہیں کہیں بڑےانبار لگے تھے۔ کہیں چھوٹے چھوٹے ڈھیر۔ جیسے بیتے ہوئے سال اور مہینے۔ انہوں نے ایک چھوٹے سے ڈھیر کو اپنی چھڑی سے الٹ دیا، سنہرے تنکوں اور ڈنٹھلوں کے ہجوم سے کچھ دانے نکل آئے،زندہ چمک دار جیسے گزرے دنوں کے ان گنت لمحوں کے بھوسے میں کچھ یادیں چمک رہی ہوں۔۔۔ یادیں ہماری بوئی ہوئی فصلوں کے دانے۔ ابھی نہ دھوپ تیز ہوئی تھی اور نہ ہوا گرم۔ لیکن وہ اپنے ادھیڑ جسم کے ساتھ ٹیوب ویل کے پانی سےلبریز پختہ نالی کے کنارے کنارے چلتا ہوا ڈامر کی سڑک پر آگیا۔
اب انجمنوں کی آوازیں دور اور دلکش ہونےلگی تھیں۔ سڑک کے دونوں طرف اسکولوں کی زرد عمارتوں میں امتحانوں کے پڑاؤ پڑے تھے اور شرارتوں کی ٹولیاں نہ جانے کہاں کھوگئی تھیں۔ بلاک کے دفتر پر بھیڑ لگی تھی۔ تقاوی اور بیسارے کے کاغذات بن رہے تھے۔ اب وہ بھیڑ سے ڈرنے لگا تھا۔ ان کی بے ادب نظروں سے کچلے جانے کے خوف نےاسے ایک گلی میں موڑدیا، جو کھری اور شاداب آوازوں سے چھلک رہی تھی۔ شور مچاتے زیوروں اور بھڑکدار کپڑوں سے چمک رہی تھی اور ان سب میں شرابور ہوتا اپنےمکان تک گیا جو اس کے آبائی مکان کا حصہ تھا۔ دوسرے حصوں میں ہسپتال، ڈاک خانہ اور گورنمنٹ اسٹور تھا۔ اس نے دروازے پر ہلکی سی تھپکی دی کہ ہسپتال میں انتظار کرتے مریضوں میں سےکوئی جان پہچان والا وقت گزارنے اس کے پاس نہ آجائے۔
پورا گھر جیسے بھونسلے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ اس نے لانبے پتلے کمرے میں داخل ہوکر پنکھے کا سوئچ آن کیا جو وہاں اجنبی لگ رہا تھا۔ دروازے پر کسی نے آواز دی،’’مہردین۔‘‘
اور جب نازو طلاق کے کفن میں لپٹی ہوئی زخمی کلائیوں سمیت ہمیشہ ہمیشہ کے واسطے رخصت ہونےکے ادھے میں سوار ہوئی تو وہ لڑکھڑاتے ہوئے اس کے قریب گیا،’’میں تمہارا تمہارے بھائی کو ادا کردوں گا۔‘‘ جواب ملا،’’وہ اپنی ہونے والی کو میری طرف سے منہ دکھائی میں دیدیجیے گا۔‘‘ ایک سناٹا سا چھا گیا۔ وجود کے اندر سے باہر تک سب کچھ سنسان ہوگیا۔ نئی دلہن کے خواب میں بال تو اسی وقت پڑ گیا تھا جب اس نے نازو کو آنسوؤں میں نہاتے ہوئے دیکھاتھا، اس جملے سے چٹخ گیا تھا اور جب اس کی اچانک موت کی اطلاع آئی تو ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔
آج پھر دونوں ہاتھوں میں منہ چھپالیا۔ نازو کے جہیز کی اونچی مسہری کے تکیے کا سہارا لے کر بیٹھ گیا کہ کہیں گر نہ پڑوں اور جب ہاتھ ہٹایا تو بائیں کان کا در دامن میں پڑا تھا۔ سونے کے در میں بیضاوی موتی دمک رہاتھا۔ وہ اسےدیکھتارہااور داہنا ہاتھ ہمیشہ کی طرح داہنے کان پر لرزتا رہا۔ اس لو میں بھی سوراخ تھااور اس میں بھی بائیں کان کی طرح در چمکا کرتاتھا۔ جس رات وہ کھوگیا تھا۔ کان کی لو کا سوراخ دل میں منتقل ہوگیا۔ ماں نے منت کے ذر اس لیے پہنائے تھے کہ بیٹے نہ جیتے تھے۔ بچپن لڑکیوں کی طرح برتا گیا۔ دوپٹےاوڑھائےگیے۔ گھروندے بنائے گیے۔ ہنڈ کلیاں بنائی گئیں۔ گڑیوں کی شادی رچائی گئیں۔ اور سب کچھ تو بھول گیا، چھوٹ گیا، لیکن کانوں کے در شحصیت کا حصہ بن گئے۔ خدوخال کی طرح وجود میں شامل ہوگیے۔ وہ نوجوانی میں بھی شوق سے پہنتا رہا۔ پھر دروازے پر شور سا مچ گیا۔ باورچی خانےسے بوڑھی عورت نے کوے کی طرح کون کون کی رٹ لگادی۔۔۔ وہ اطمینان سے سوچنےکے لیے خود باہر نکلا۔ دروازے پر مندر کھڑی تھی۔ ادھیڑ عمر کی گوری چٹی مندر! جس کی جوان رانوں میں انہوں نے اپنے بوسوں کے چراغ جلائے تھے۔
’’کیا ہے؟‘‘
’’میاں! آج برات آئے رہی ہے آپ کی بیٹوا کی۔‘‘
’’ہاں ہاں پھر۔‘‘
’’سب انتجام آپ کے ری دعا سے پکا ہے۔۔۔ مل مسند نائن مل رہی ہے۔‘‘
’’مسند ہے تو۔۔۔ لیکن معلوم نہیں کہاں ہے۔ جب وہ گئیں نہ ضرورت پڑی نہ تلاش کی گئی۔ تم باہر سے کسی کو بھیجو میں ڈھونڈوادوں۔‘‘ مندر کےجانےکے بعد اس کے تصور نے فراغت کا سانس لیا۔
برناپور کی شادی تھی اور اس کی نوجوانی۔ باپ کی موت کے بعد پہلی بار کسی تقریب میں شرکت کو نکلا تھا۔ آدھی رات کو کھانا ہوا۔ اور پچھیارے سے دولہا اندر آیا۔ تلچوری چلی اور ہنگامہ ہوا۔بوڑھی بوڑھی کٹکھنی عورتیں جو بولتے جلووں پر بھی کاڑھے بیٹھی تھیں ایک ہی ریلے میں بہہ گئیں۔روشنیاں جو دن رہے سے جل رہی تھیں اب سونے لگی تھیں۔ یہاں سے وہاں تک پھیلی ہوئی عمارت کے کئی حصے تاریک ہوچکے تھے۔ وہ کوئی چیز لینے اپنے کمرے میں آیا جو اندرونی اور بیرونی عمارتوں کے درمیان دوہرے دالانوں میں چھپا کھڑاتھا۔ وہ دیاسلائی کی روشنی میں لیمپ ڈھونڈ رہاتھا کہ اندرونی عمارت کی صحنچی میں ایک چہرہ چمک اٹھا اور اس طرح کہ دیا سلائی نے اسے جلادیا۔ وہ اتنا روشن تھا کہ اگر تھوڑا سا اور قریب آجاتا تو اس کے اپنے کمرے میں روشنی کی ضرورت نہ رہتی۔ وہ اسی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ جیسے جادو کےزور سے کھنچا ہوا چلا گیا۔ گھاس کے تختوں پر ڈھیر سامان سے بچتا ہوا صحنچی کے سامنے دالان کی سیڑھیوں پر پہنچ گیا۔
’’میاں سامنے والی کوٹھری میں تو مسند ہے نہیں۔ کاجی جی صاحب کابڑا بکس کھولیں؟‘‘
’’ہاں‘‘
صحنچی اس کے نور سے سنگ مرمر کی بن گئی تھی۔۔۔ سانس پھولنے لگاتھا۔ پہلوؤں میں درد کے نشتر اتر گیے۔ اریبی پائجامے کی چوڑیاں پسینے سے بھرگئیں کہ ایک آواز طلوع ہوئی۔
’’آپ؟‘‘
اور جیسے ہی وہ آگے بڑھا۔ روشنی،نور اور رنگ کاایک پیکر، ایک ہیولی اس سے ٹکرا گیا، اس پر بکھر گیا۔ داہنے کان پر کنول کا تازہ پھول لرز گیا اور اس کا کان اس کے سینے کی طرح خالی ہوگیا اور وہ ایک چھلاوے کی طرح اس کی بانہوں سےنکل گئی اور جب وہ جاگتی آنکھوں کے خواب سے بیدار ہوا تو کمرے میں سپاہی لیمپ جلا رہاتھا۔
’’میاں آپ کے داہنے کان کا در۔‘‘
پھر بہت سی روشنیاں صحنچی دالان اور صحن میں در ڈھونڈتی پھریں اور بہت دنوں بعد کسی بنت عم نے اس کے حال پر ترس کھاکر بتلادیا کہ دیبی پور کی بٹیا نازو سے بیاہ کرلیا۔ لیکن دیبی پور کی بٹیا نازو نے دلہن بن کر ساری ساری تفتیش کے جواب میں صرف اتنا کہا کہ میں نے تو وہ صحنچی دیکھی بھی نہیں اور اسی گھڑی نازو اس کی نگاہ سے گر گئی۔ خواب جتنا سنگین ہوتا گیا، زندہ موجود اور معصوم نازو کی حقیقت اتنی ہی پگھلتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ آسودگی اور فراغت سے خواب دیکھنے کی آرزو اور تعبیر کو دوبارہ پالینے کی جستجو میں نازو کو طلاق دے دی گئی۔
’’میاں! بکس کھل گیا۔‘‘ میاں چونک کر اٹھے اور خواب میں چلنے لگے۔ لکڑی کا بڑا سا مٹیالا بکس کھلا پڑا تھا،’’اسے کیوں کھول دیا کمبختوں؟‘‘
’’جی؟‘‘
’’اب کھول ڈالا ہے تو ڈھونڈو۔‘‘
جازم، پردے، توشک، لحاف،رضائیاں اور دوشالے نکل نکل کر پھیل گیے، مگر مسند نہ ملی۔ پھر ایک چھوٹا سا صندوقچہ نکلا جس میں بڑا سا تالا پڑا تھا۔ سامان رکھواکر وہ اپنے کمرے میں آگیے۔ صندوقچہ کھولا تو چاندی کے چھوٹے چھوٹے زیور کنمناکر جاگ اٹھے۔ گڑیوں کے ننھے منے کپڑے جگر جگر کرنے لگے۔ سونے کی ٹوٹی ہوئی بالیاں ملیں، جن میں ایک سیس پھول پھنسا ہوا تھا۔ معلوم نہیں کتنے دنوں بعد وہ پہلی بار تنہائی میں مسکرایا۔ نازو اور حسین اور قاتل ہوگئی۔ پھر چور خانے سے سونے کا ایک در برآمد ہوا۔ جس میں بیضوی موتی پڑا تھا۔ ہاتھ کانپنے لگے۔ آنکھوں کے نیچے اندھیرا چھا گیا۔ وہ اگر کھڑے ہوتے تو گرپڑتے۔ سنبھل کر بیٹھے تو ہاتھ نےکان سے در کھینچ لیا اور اس طرح کہ سارے میں ننھے ننھے خون کے نگینے جڑ گیے۔ وہ دونوں کو ایک ہتھیلی پر رکھے دیکھتے رہے، دیکھتے رہے۔ یہاں تک کہ سن ہوگیے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.