وہ لڑکی
کہانی ایک ایسے شخص کی ہے جس نے فسادات کے دوران چار مسلمانوں کا قتل کیا تھا۔ ایک دن وہ گھر میں تنہا تھا تو اس نے باہر درخت کے نیچے ایک لڑکی کو بیٹھے دیکھا۔ اشاروں سے اسے بلانے میں ناکام رہنے کے بعد وہ اس کے پاس گیا اور زبردستی اسے اپنے گھر لے آیا۔ جلدی ہی اس نے اسے قابو میں کر لیا اور چومنے لگا۔ بستر پر جانے سے پہلے لڑکی نے اس سے پستول دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو اس نے اپنی پستول لاکر اسے دے دی۔ لڑکی نے پستول ہاتھ میں لیتے ہی چلا دی اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ جب اس نے پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تو لڑکی نے بتایا کہ اس نے جن چار مسلمانوں کا قتل کیا تھا ان میں ایک اس لڑکی کا باپ بھی تھا۔
سعادت حسن منٹو
بیگو
’’کشمیر کی سیر کے لیے گئے ایک ایسے نوجوان کی کہانی جسے وہاں ایک مقامی لڑکی بیگو سے محبت ہو جاتی ہے۔ وہ بیگو پر پوری طرح مر مٹتا ہے کہ تبھی اس نوجوان کا دوست بیگو کے کردار کے بارے میں کئی طرح کی باتیں اسے بتاتا ہے۔ ویسی ہی باتیں وہ دوسرے لوگوں سے بھی سنتا ہے۔ یہ سب باتیں سننے کے بعد اسے بیگو سے نفرت ہو جاتی ہے، مگر بیگو اس کی جدائی میں اپنی جان دے دیتی ہے۔ بیگو کی موت کے بعد وہ نوجوان بھی عشق کی لگی آگ میں جل کر مر جاتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
بائے بائے
کہانی ایک ایسے نوجوان کی ہے جسے کشمیر کی وادیوں میں فاطمہ نام کی لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے۔ فاطمہ پہلے تو اس کا مذاق اڑاتی ہے، پھر وہ بھی اس سے محبت کرنے لگتی ہے۔ فاطمہ سے شادی کے لیے وہ لڑکا اپنے والدین کو بھی راضی کر لیتا ہے۔ مگر شادی سے پہلے اس کے والدین چاہتے ہیں کہ وہ فاطمہ کی ایک دو تصویریں انہیں بھیج دے۔ علاقے میں کوئی اسٹوڈیو تو تھا نہیں۔ ایک دن اس نوجوان کا ایک دوست وہاں سے گزر رہا تھا تو اس نے اس سے فاطمہ کی تصویر لینے کے لیے کہا۔ جیسے ہی اس نے فاطمہ کو دیکھا تو وہ اسے زبردستی اپنی گاڑی میں ڈال کر فرار ہو گیا۔
سعادت حسن منٹو
مہاوٹوں کی ایک رات
مہاوٹوں کی رات ہے اور زبردست بارش ہو رہی ہے۔ ایک غریب کنبہ جس میں تین چھوٹے بچے بھی شامل ہیں ایک چھوٹے سے کمرے میں سمٹے سکڑے لیٹے ہوئے ہیں۔ گھر کی چھت ٹپک رہی ہے، انھیں ٹھنڈ لگ رہی ہے اور وہ بھوک سے بدحال ہیں۔ بچوں کی ماں اپنے پرانے دنوں کو یاد کرتی ہے اور سوچتی ہے کہ شاید وہ جنت میں ہے۔ جب بچے باربار اس سے کھانے کے لیے کہتے ہیں تو وہ اس کے بارے میں سوچتی اور کہتی ہے اگر وہ ہوتا تو کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ لاتا۔
احمد علی
ماہی گیر
اس میں ایک غریب مچھوارے میاں بیوی کے جذبۂ ہمدردی کو بیان کیا گیا ہے۔ مچھوارے کے پانچ بچے ہیں اور وہ رات بھر سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر بڑی مشکل سے گھر کا خرچ چلاتا ہے۔ ایک رات اس کی پڑوسن بیوہ کا انتقال ہو جاتا ہے۔ ماہی گیر کی بیوی اس کے دونوں بچوں کو اٹھا لاتی ہے۔ صبح ماہی گیر کو اس حادثہ کی اطلاع دیتی ہے اور بتاتی ہے کہ دو بچے اس کی لاش کے برابر لیٹے ہوئے ہیں تو ماہی گیر کہتا ہے پہلے پانچ بچے تھے اب سات ہو گئے۔ جاؤ انہیں لے آو۔ ماہی گیر کی بیوی چادر اٹھا کر دکھاتی ہے کہ وہ دونوں بچے یہاں ہیں۔
سعادت حسن منٹو
موسم کی شرارت
یہ ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے، جو کشمیر گھومنے گیا ہے۔ صبح کی سیر کے وقت وہ وہاں کے دلکش مناظر کو دیکھتا ہے اور اس میں کھویا ہوا چلتا چلا جاتا ہے۔ تبھی اسے کچھ بھینسوں، گایوں اور بکریوں کو لیے آتی ایک چرواہے کی لڑکی دکھائی دیتی ہے۔ وہ اسے اتنی خوبصورت نظر آتی ہے کہ اسے اس سے محبت ہو جاتی ہے۔ لڑکی بھی گھر جاتے ہوئے تین بار اسے مڑ کر دیکھتی ہے۔ کچھ دیر اس کے گھر کے پاس کھڑے رہنے کے دوران بارش ہونے لگتی ہے، اور جب تک وہ ڈاک بنگلے پر پہنچتا ہے تب تک وہ پوری طرح بھیگ جاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
میرا اور اس کا انتقام
یہ ایک شوخ، چنچل اور چلبلی لڑکی کی کہانی ہے، جو پورے محلے میں ہر کسی سے مذاق کرتی رہتی ہے۔ ایک دن جب وہ اپنی سہیلی بملا سے ملنے گئی تو وہاں بملا کے بھائی نے اس سے انتقام لینے کے لیے جھوٹ بول کر گھر میں بند کر لیا اور اس کے نم ہونٹوں کو چوم لیا۔ وہاں وہ شام تک بند رہی۔ کچھ دنوں بعد جب بملا کو موقع ملا تو وہ بھی اپنا انتقام لینے سے پیچھے نہیں رہی۔
سعادت حسن منٹو
رحمن کے جوتے
جوتے کے اوپر جوتے چڑھ جانے کو سفر سے جوڑ کر توہم پرستی کو بیان کرتی خوبصورت کہانی۔ کھانا کھاتے وقت رحمان کا جوتا دوسرے جوتے پر چڑھا تو اس کی بیوی نے کہا کہ اسے اپنی بیٹی جینا سے ملنے جانا ہے۔ جینا سے ملنے جانےکے لیے اس کی ماں نے بہت سارے ساز و سامان تیار کر رکھے تھے۔ دوران سفر اسکے سامان کی گٹھری کہیں گم ہو جاتی ہے جس کے لیے وہ پولیس کے ایک کانسٹیبل سے الجھ جاتا ہے۔ زخمی حالت میں اسے ہسپتال میں داخل کیا جاتا ہے، وہاں بھی اس کا جوتا دوسرے جوتے پر چڑھا ہوا ہے جو اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ اب ایک لمبے سفر پر جانے والا ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
چھوکری کی لوٹ
کہانی میں شادی جیسے روایتی سنسکار کو ایک دوسری ہی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ بیٹیوں کے جوان ہونے پر مائیں اپنی چھوکریوں کی لوٹ مچاتی ہیں جس سے ان کا رشتہ پکا ہو جاتا ہے۔ پرسادی کی بہن کی جب لوٹ مچی تو اسے بہت غصہ آیا، کیونکہ رتنا خوب روئی تھی۔ بعد میں اس نے دیکھا کہ رتنا اپنے کالے کلوٹے پتی ساتھ خوش ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ رتنا کی شادی زبردستی کی شادی نہیں تھی بلکہ وہ تو خود سے اپنا لوٹ مچوانا چاہتی تھی۔
راجندر سنگھ بیدی
میٹھا معشوق
یہ اس وقت کی کہانی ہے جب ریل ایجاد نہیں، ہوئی تھی لوگ پیدل،اونٹ یا پھر گھوڑوں پر سفر کیا کرتے تھے۔ لکھنئو شہر میں ایک شخص پر مقدمہ چل رہا تھا اور وہ شخص شہر سے کافی دور رہتا تھا۔ مقدمے کی تاریخ پر حاضر ہونے کے لیے وہ اپنے قافلے کے ساتھ شہر کے لیے روانہ ہو گیا، ساتھ میں نذرانے کے طور پر میٹھائی کا ٹوکرا بھی تھا۔ پورے راستے اس میٹھے معشوق کی وجہ سے انھیں کچھ ایسی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ آرام سے سو تک نہیں سکے۔
چودھری محمد علی ردولوی
کالی تتری
’’یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو اپنے ساتھی ڈاکوؤں کے ساتھ ملکر اپنی ہی بہن کے گھر میں ڈاکہ ڈالتا ہے۔ جب وہ زیور چرا کر جانے لگتے ہیں تو غلطی سے ان کا ایک ساتھی گولی چلا دیتا ہے۔ اس سے پورا گاؤں جاگ جاتا ہے۔ گاؤں والوں سے باقی ڈاکو تو بچ کر نکل جاتے ہیں لیکن کالی تتری پھنس جاتا ہے۔ گاؤں کے کئی لوگ اسے پہچان لیتے ہیں اور ان میں سے ایک آگے بڑھکر ایک ہی وار میں اس کے پیٹ کی انتڑیا ں باہر کر دیتا ہے۔‘‘
بلونت سنگھ
بابا مہنگا سنگھ
’’ایک ایسے شخص کی کہانی، جو کسی زمانہ میں بڑا خونخوار ڈاکو تھا اور اب گاؤں میں عام سی زندگی گزار رہا تھا۔ رات کو گاؤں کے نوجوان اس کے پاس جا بیٹھتے تھے اور وہ انہیں اپنی بیتی زندگی کے قصہ سنایا کرتا تھا۔ ایک روز اس نے ایسا قصہ سنایا جس میں ان کے سامنے عورت کی فطرت، اس کی بہادری اور چالاکی کا ایک ایسا پہلو پیش کیا جس سے وہ سبھی ابھی تک پوری طرح سے انجان تھے۔‘‘
بلونت سنگھ
باغی
’’یہ کہانی ایک ریلوے اسٹیشن، اس کےاسٹیشن ماسٹر اور ٹکٹ بابو کے گرد گھومتی ہے۔ اسٹیشن ماسٹر کا ماننا ہے کہ پورے ہندوستان میں ہر چیز ایک دوسرے سے جڑی ہے۔ بہت کم لوگ ہی اس رشتہ کو دیکھ پاتے ہیں اور اس کی قدر کرتے ہیں۔ مگر جو لوگ اس رشتہ سے انکار کرتے ہیں وہ باغی ہیں۔ اسٹیشن ماسٹر کے مطابق ان رشتوں کو جوڑے رکھنے میں آم کے باغ اہم رول نبھاتے ہیں۔ اگر کہیں آم کے باغ نہیں ہیں تو وہ علاقہ اور وہاں کے لوگ سرے سے ہندوستانی ہی نہیں ہے۔ کسی بھی شخص کو ہندستانی ہونے کے لیے یہاں کی تہذیب میں آم کے باغ کی اہمیت کو سمجھنا ہی ہوگا۔‘‘
محمد مجیب
دوسرا کنارہ
تین مزدور پیشہ بھائیوں کی جد و جہد کی کہانی ہے، جس میں باپ اپنے بیٹوں کی نفسیات کو سمجھ نیں پاتا ہے۔ سندر سوہنا اور رجو اپنے باپ کے ساتھ بیکری میں کام کرتے تھے۔ ان کا گاؤں کھاڑی کے ایک کنارہ پر تھا اور دوسرا کنارہ ان کو بہت خوشنما اور دلفریب معلوم ہوتا تھا۔ جب سندر کا بچپن کا دوست علم الدین تحصیلدار بن کر آیا تو سندر نے بھی تحصیلدار بننے کی ٹھانی اور دوسرے کنارے چلا گیا، سوہنا نے بھی دوسرے کنارے جانے کی کوشش کی لیکن باپ نے مار پیٹ کر اسے روک لیا اور ایک دن اس نے خود کشی کر لی، پھر باپ بھی مر گیا۔ ایک دن سندر جھریوں بھرا چہرہ لے کر واپس آیا تو وہ خون تھوک رہا تھا۔ رجو کو اس نے نصیحت کی کہ وہ دوسرے کنارے کی کبھی خواہش نہ کرے۔
راجندر سنگھ بیدی
غلامی
سرمایہ داری نے ہر غریب انسان کو غلام بنا دیا ہے۔ ایک خوشگوار شام کو دو دوست ندی کنارے بیٹھ کر اپنی غربت کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔ وہ اس بات سے افسردہ ہیں کہ غریب کتنی مصیبتوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے۔ دونوں دوست اب یہاں سے چلنے کی تیاری کرتے ہیں، جبھی ایک غریب عورت ان کے پاس سے گزرتی ہے۔ ان میں سے ایک اس عورت سے فصل کے بارے میں دریافت کرتا ہے کہ وہ عورت رونے لگتی ہے۔ دوسرا دوست اس کی مدد کرنا چاہتا ہے کہ پہلا دوست یہ کہہ کر اسے مدد کرنے سے روک دیتا ہے کہ غلامی تو ان کے اندر بسی ہوئی ہے۔
احمد علی
اندھیرا
ایسے دو لوگوں کی کہانی جو دن بھر شہر میں کام کرنے کے بعد شام ڈھلے اپنے گاؤں کو لوٹ رہے ہوتے ہیں۔ راستے میں چلتے ہوئے جیسے جیسے اندھیرا بڑھتا جاتا ہے ان میں سے ایک کو ڈر لگنے لگتا ہے۔ ڈر سے بچنے کے لیے وہ اپنے ساتھی سے بات چیت شروع کرتا ہے اور اس کا ساتھی اس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ایک ایسی کہانی سناتا ہے جو ڈر سے جڑی ہوتی ہے۔
محمد مجیب
چیچک کے داغ
جے رام بی اے پاس ریلوے میں اکسٹھ روپے کا ملازم ہے۔ جے رام کے چہرے پر چیچک کے داغ ہیں، اس کی شادی سکھیا سے ہوئی ہے جو انتہائی خوبصورت ہے، سکھیا کو اول اول تو جے رام سے نفرت ہوتی ہے لیکن پھر اس کی شرافت، تعلیم اور برسر روزگار ہونے کے خیال سے اس کے چیچک کے داغ کو ایک دم فراموش کر دیتی ہے اور شدت سے اس کی آمد کی منتظر رہتی ہے، جے رام کئی بار اس کے پاس سے آکر گزر جاتا ہے، سکھیا سوچتی ہے کہ شاید وہ اپنے چیچک کے داغوں سے شرمندہ ہے اور شرمیلے پن کی وجہ سے نہیں آ رہا ہے، رات میں سکھیا کو اس کی نند بتاتی ہے کہ جے رام نے سکھیا کی ناک لمبی ہونے پر اعتراض کیا ہے اور اس کے پاس آنے سے انکار کر دیا ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
لچھمن
ایک کنوارے آدمی کے جذباتی استحصال کی کہانی ہے۔ لچھمن کاٹھ گودام گاؤں کا پچپن برس کا آدمی تھا، جسے گاؤں کی عورتیں اور آدمی شادی کا لالچ دے کر خوب خوب کام لیتے، اس کی بہادری کے تذکرے کرتے اور مختلف ناموں کی لڑکیوں سے اس کے رشتے کی بات جوڑتے۔ ایک دن وہ گوری کی چھت پر کام کرتے کرتے اچانک نیچے گرا اور مر گیا، اس کی چتا کو جب جلایا گیا تو گاؤں کے سب لوگ رو رہے تھے۔
راجندر سنگھ بیدی
نازو
کہانی ایک ایسے شخص کی ہے جو صحنچی نہ ملنے کی وجہ سے اپنی بیوی نازو کو طلاق دے دیتا ہے۔ حالانکہ اس نے شادی ہی اسلیے کی تھی کہ وہ بہت خوبصورت تھی اور اسے لگتا تھا کہ اسی کے پاس صحنچی ہے، مگر اس کے جانے کے بعد جب اس نے پرانے صندوق کو کھلوا کر دیکھا تو صحنچی اسی صندوق میں سے بر آمد ہوئی ۔
قاضی عبد الستار
پنچایت
یہ ایک بوڑھی برہمنی کی کہانی ہے، جو اپنے پتی کے انتقال کے بعد تیرتھ یاترا پر جاتی ہے۔ تیرتھ یاترا پر جانے سے پہلے وہ بغیر رسید کے اپنی جمع پونجی گاؤں کے ساہوکار کے پاس رکھ جاتی ہے۔ واپس لوٹ کر جب وہ ساہوکار سے اپنی امانت واپس مانگتی ہے تو ساہوکار انکار کر دیتا ہے۔ ساہوکار کے انکار پرگاؤں کی پنچائت بلائی جاتی ہے۔ پنچایت میں بوڑھی برہمنی ساہوکار کی بیوی کو ہی اپنا گواہ بنا لیتی ہے۔