ننگی آوازیں
اس کہانی میں شہری زندگی کے مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ بھولو ایک مزدور پیشہ آدمی ہے۔ جس بلڈنگ میں وہ رہتا ہے اس میں سارے لوگ رات میں گرمی سے بچنے کے لیے چھت پر ٹاٹ کے پردے لگا کر سوتے ہیں۔ ان پردوں کے پیچھے سے آنے والی مختلف آوازیں اس کے اندر جنسی ہیجان پیدا کرتی ہیں اور وہ شادی کر لیتا ہے۔ لیکن شادی کی پہلی ہی رات اسے محسوس ہوتا ہے کہ پوری بلڈنگ کے لوگ اسے دیکھ رہے ہیں۔ اسی ادھیڑ بن میں وہ بیوی کی توقعات پوری نہیں کر پاتا اور جب بیوی کی یہ بات اس تک پہنچتی ہے کہ اس کے اندر کچھ کمی ہے تو اس کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے اور پھر وہ جہاں ٹاٹ کا پردہ دیکھتا ہے اکھاڑنا شروع کر دیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
اولاد
یہ اولاد نہ ہونے کے غم میں پاگل ہو گئی ایک عورت کی کہانی ہے۔ زبیدہ کی شادی کے بعد ہی اس کے والد کی موت ہو گئی تو وہ اپنی ماں کو اپنے گھر لے آئی۔ ماں بیٹی ایک ساتھ رہنے لگیں تو ماں کو فکر ہوئی کہ اس کی بیٹی کو ابھی تک بچہ کیوں نہیں ہوا۔ بچہ کے لیے ماں نے بیٹی کا ہر طرح کا علاج کرایا، پر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ماں دن رات اسے اولاد نہ ہونے کے طعنے دیتی رہتی ہے تو اس کا دماغ چل جاتا ہے اور ہر طرف اسے بچے ہی نظر آنے لگتے ہیں۔ اس کی اس دیوانگی کو دیکھ کر اس کا شوہر ایک نوزائیدہ کو اس کی گود میں لاکر ڈال دیتا ہے۔ جب اس کے لیے اس کی چھاتیوں سے دودھ نہیں اترتا ہے تو وہ استرے سے اپنی چھاتیوں کو کاٹ ڈالتی ہے جس سے اس کی موت ہو جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
یزید
کریم داد ایک ٹھنڈے دماغ کا آدمی ہے جس نے تقسیم کے وقت کے فساد کی ہولناکیوں کو دیکھا تھا۔ ہندوستان پاکستان جنگ کے تناظر میں یہ افواہ اڑتی ہے کہ ہندوستان والے پاکستان کی طرف آنے والے دریا کا پانی بند کر رہے ہیں۔ اسی دوران اس کے یہاں ایک بچے کی ولادت ہوتی ہے جس کا نام وہ یزید رکھتا ہے اور کہتا ہے اس یزید نے دریا بند کیا تھا، یہ کھولے گا۔
سعادت حسن منٹو
اپنے دکھ مجھے دے دو
کہانی ایک ایسے جوڑے کی داستان کو بیان کرتی ہے جن کی نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ سہاگ رات میں شوہر کے دکھوں کو سن کر بیوی اس کے سبھی دکھ مانگ لیتی ہے مگر وہ اس سے کچھ نہیں مانگتا ہے۔ بیوی نے گھر کی ساری ذمہ داری اپنے اوپر لے لی ہے۔ عمر کے آخر پڑاؤ پر ایک روز شوہر کو جب اس بات کا احساس ہوتا ہے تو وہ اس سے پوچھتا ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ وہ کہتی ہے کہ میں نے تم سے تمھارے سارے دکھ مانگ لیے تھے مگر تم نے مجھ سے میری خوشی نہیں مانگی اس لیے میں تمھیں کچھ نہیں دے سکی۔
راجندر سنگھ بیدی
آمنہ
یہ افسانہ دولت کی ہوس میں رشتوں کی ناقدری اور انسانیت سے عاری حرکات کر گزرنے والے افراد کے انجام کو پیش کرتا ہے۔ دولت کی حریص سوتیلی ماں کے ستائے ہوئے چندو اور بندو کو جب قسمت نوازتی ہے تو وہ دونوں بھی اپنے مشکل دن بھول کر رشتوں کے تقدس کو مجروح کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ چندو اپنے بھائی بندو کے بہکاوے میں آکر اپنی بیوی اور بچے کو صرف دولت کی ہوس میں چھوڑ دیتا ہے۔ جب دولت ختم ہو جاتی ہے اور نشہ اترتا ہے تو وہ اپنی بیوی کے پاس واپس جاتا ہے۔ اس کا بیٹا اسے اسی دریا کے پاس لے جاتا ہے جہاں چندو کی سوتیلی ماں نے ڈوبنے کے لیے ان دونوں بھائیوں کو چھوڑا تھا اور بتاتا ہے کہ یہاں پر ہے میری ماں۔۔۔
سعادت حسن منٹو
آپا
’’افسانہ ایک ایسی لڑکی کی داستان بیان کرتا ہے جو جلے ہوئے اپلے کی مانند ہے۔ باہر سے راکھ کا ڈھیر مگر اندر چنگاریاں ہیں۔ گھر کے کاموں میں بندھی اسکی زندگی خاموشی سے گزر رہی تھی کہ اسکی پھپو کا بیٹا تصدق انکے یہاں رہنے چلا آیا۔ وہ اسے پسند کرنے لگی اور اسکی فرمائشوں کے مطابق خود کو ڈھالتی چلی گئی۔ مگر جب جیون ساتھی کے انتخاب کی باری آئی تو تصدق نے اسے چھوڑ کر سجو باجی سے شادی کر لی۔‘‘
ممتاز مفتی
بدصورتی
اس افسانہ میں دو بہنوں، حامدہ اور ساجدہ کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔ ساجدہ بہت خوبصورت ہے، جبکہ حامدہ بہت بدصورت۔ ساجدہ کو ایک لڑکے سے محبت ہو جاتی ہے، تو حامدہ کو بہت دکھ ہوتا ہے۔ اس بات کو لے کر ان دونوں کے درمیان جھگڑا بھی ہوتا ہے۔ پھر دونوں بہنیں صلح کر لیتی ہے اور ساجدہ کی شادی حامد سے ہو جاتی ہے۔ ایک سال بعد ساجدہ اپنے شوہر کے ساتھ حامدہ سے ملنے آتی ہے۔ رات کو کچھ ایسا ہوتا ہے کہ صبح ہوتے ہی حامد ساجدہ کو طلاق دے دیتا ہے اور کچھ عرصہ بعد حامدہ سے شادی کر لیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
عشقیہ کہانی
یہ عشق میں گرفتار ہو جانے کی خواہش رکھنے والے ایک ایسے نوجوان جمیل کی کہانی ہے جو چاہتا ہے کہ وہ کسی لڑکی کے عشق میں بری طرح گرفتار ہو جائے اور پھر اس سے شادی کر لے۔ اس کے لیے وہ بہت سی لڑکیوں کا انتخاب بھی کرتا ہے۔ ان سے ملنے، انہیں خط لکھنے کے منصوبے بناتا ہے، لیکن اپنے کسی بھی منصوبہ پر وہ عمل نہیں کر پاتا۔ آخر میں اس کی شادی طے ہو جاتی ہے، اور رخصتی کی تاریخ بھی مقرر ہو جاتی ہے۔ اسی رات اس کی خالہ زاد بہن خودکشی کر لیتی ہے، جو جمیل کے عشق میں بری طرح گرفتار ہوتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
اُلو کا پٹھا
قاسم ایک دن صبح سو کر اٹھتا ہے تو اس کے اندر یہ شدید خواہش جاگتی ہے کہ وہ کسی کو الو کا پٹھا کہے۔ بہت سے طریقے اور مواقع سوچنے کے بعد بھی وہ کسی کو الو کا پٹھا نہیں کہہ پاتا اور پھر دفتر کے لئے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ راستے میں ایک لڑکی کی ساڑی سائکل کے پہیے میں پھنس جاتی ہے، جسے وہ نکالنے کی کوشش کرتا ہے لیکن لڑکی کو ناگوار گزرتا ہے اور وہ اسے ’’الو کا پٹھا‘‘ کہہ کر چلی چاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
عشق حقیقی
اخلاق نامی نوجوان کو سنیما ہال میں پروین نامی ایک ایسی لڑکی سے عشق ہو جاتا ہے جس کے گھر میں سخت پابندیوں کا پہرا ہے۔ اخلاق ہمت نہیں ہارتا اور بالآخر ان دونوں میں خط و کتابت شروع ہو جاتی ہے اور پھر ایک دن پروین اخلاق کے ساتھ چلی آتی ہے۔ پروین کے گال کے تل پر بوسہ لینے کے لئے جب اخلاق آگے بڑھتا ہے تو بدبو کا ایک تیز بھبھکا اخلاق کے نتھنوں سے ٹکراتا ہے اور تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ پروین کے مسوڑھوں میں گوشت خورہ ہے۔ اخلاق اسے چھوڑ کر اپنے دوست کے یہاں لائل پور چلا جاتا ہے۔ دوست کے غیرت دلانے پر واپس آتا ہے تو پروین کو موجود نہیں پاتا۔
سعادت حسن منٹو
نیند نہیں آتی
’’ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو غریبی، بے بسی، بھٹکاؤ اور نیم خوابیدگی کے شعور کا شکار ہے۔ وہ اپنی معاشی اور معاشرتی حالت سدھارنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے مگر کامیاب نہیں ہو پاتا۔ رات میں چارپائی پر لیٹے ہوئے مچھروں کی بھنبھناہٹ اور کتوں کے بھونکنے کی آواز سنتا ہوا وہ اپنی بیتی زندگی کے کئی واقعات یاد کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس نے اس زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کتنی جد و جہد کی ہے۔‘‘
سجاد ظہیر
بھنگن
’’ایک غلط فہمی کی بنا پر میاں بیوی کے درمیان ہوئی نوک جھونک پر مبنی افسانہ۔ وہ جب رات کو بیوی کے پاس جاتا ہے تو بیوی ناراضگی سے اسے اپنے سے دور کر دیتی ہے۔ وہ اسے منانے کی کوشش کرتا ہے، پر وہ لگاتار اس سے ناراض رہتی ہے۔ آخر میں جب وہ پوچھتی ہے کہ اس نے صبح بھنگن کو اپنی بانہوں میں کیوں لیا تھا تو شوہر نے بتایا کہ وہ حاملہ تھی اور بیہوش ہو کر گرنے والی تھی۔ اس نے تو بس اسے گرنے سے بچانے کے لیے سنبھال لیا تھا۔ بیوی یہ سن کر خوش ہو گئی۔‘‘
سعادت حسن منٹو
خورشٹ
یہ افسانہ معاشرہ کے ایک نازک پہلو کو سامنے لاتا ہے۔ سردار زور آور سنگھ، ساوک کاپڑیا کا لنگوٹیا یار ہے۔ اپنا اکثر وقت اس کے گھر پہ گزارتا ہے۔ دوست ہونے کی وجہ سے اس کی بیوی خورشید سے بھی بے تکلفی ہے۔ سردار ہر وقت خورشید کی آواز کی تعریف کرتا ہے اور اس کے لیے مناسب اسٹوڈیو کی تلاش میں رہتا ہے۔ اپنے ان حربوں کے ذریعہ وہ خورشید کو رام کر کے اس سے شادی کر لیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
فرشتہ
زندگی کی آزمائشوں سے پریشان شخص کی نفسیاتی کیفیت پر مبنی کہانی۔ بستر مرگ پر پڑا عطاء اللہ اپنے اہل خانہ کی مجبوریوں کو دیکھ کر خلجان میں مبتلا ہو جاتا ہے اور نیم غنودگی کے عالم میں دیکھتا ہے کہ اس نے سب کو مار ڈالا ہے یعنی جو کام وہ اصل میں نہیں کر سکتا اسے خواب میں انجام دیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
ابجی ڈ ڈو
’’یہ میاں بیوی کے درمیان رات میں جسمانی تعلقات کو لے کر ہونے والی نوک جھونک پر مبنی کہانی ہے۔ میاں بیوی کے ساتھ سونا چاہتا ہے، جبکہ بیوی اسے مسلسل انکار کرتی رہتی ہے۔ اس کے انکار کو اقرار میں بدلنے کے لیے میاں اسے ہر طرح کی ترغیب دیتا ہے، پر وہ مانتی نہیں۔ آخر میں وہ اپنا آخری داؤں چلتا ہے اور اسی میں بیوی کو پست کر دیتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
حجامت
میاں بیوی کی نوک جھونک پر مبنی مزاحیہ افسانہ ہے، جس میں بیوی کو شوہر کے بڑے بالوں سے وحشت ہوتی ہے لیکن اس بات کو ظاہر کرنے سے پہلے ہزار قسم کے گلے شکوے کرتی ہے۔ شوہر کہتا ہے کہ بس اتنی سی بات کو تم نے بتنگڑ بنا دیا، میں جا رہا ہوں۔ بیوی کہتی ہے کہ خدا کے لیے بتا دیجیے کہاں جا رہے ہیں ورنہ میں خود کشی کر لوں گی۔ شوہر جواب دیتا ہے نصرت ہیئر کٹنگ سیلون۔
سعادت حسن منٹو
خالد میاں
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو اپنے بیٹے کی موت کے وہم میں ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ خالد میاں ایک بہت تندرست اور خوبصورت بچہ تھا۔ کچھ ہی دنوں میں وہ ایک سال کا ہونے والا تھا، اس کی سالگرہ سے دو دن قبل ہی اس کے باپ ممتاز کو یہ وہم ہونے لگا کہ خالد ایک سال کا ہونے سے پہلے ہی مر جائیگا۔ حالانکہ بچہ بالکل تندرست تھا اور ہنس کھیل رہا تھا۔ مگر جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا تھا، ممتاز کا وہم اور بھی گہرا ہوتا جاتا تھا۔
سعادت حسن منٹو
نکی
’’یہ افسانہ ایک ایسی عورت کی داستان بیان کرتا ہے جس کا شوہر ہر وقت اسے مارا پیٹا کرتا تھا۔ بالآخر شوہر نے ایک طوائف کے کہنے پر اسے طلاق دے دی۔ شوہر کی مار اور ذلیل و خوار ہونےکے بعد اس عورت میں جو غصہ اور نفرت جمع ہو گئی تھی وہ نئے محلے میں آکر باہر آنے لگی۔ وہ بات بات پر پڑوسیوں سے الجھنے لگی، ان سے لڑنے لگی تھی۔ اب اس عورت نے لڑنے جھگڑنے کو ہی اپنا پیشہ بنا لیا اور اپنے لڑنے کی فیس طے کر دی۔ جھگڑنا اس کے مزاج کا ایسا حصہ بن گیا کہ اسے دورے پڑنے لگے اور پڑوسیوں کو گالی بکتے ہوئے ہی اس کی موت ہوگئی۔‘‘
سعادت حسن منٹو
افشائے راز
’’یہ افسانہ میاں بیوی کے درمیان پنجابی زبان کے ایک گیت کو لیکر ہوئے نوک جھونک پر مبنی ہے۔ میاں ایک روز نہاتے ہوئے پنجابی کا کوئی گیت گانے لگا تو بیوی نے اسے ٹوک دیا، کیونکہ اسے پنجابی زبان سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ اس پر شوہر نے اسے کئی طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی۔ مگر بات نہیں بنی۔ تبھی نوکر ڈاک لیکر آ گیا۔ بیوی نے شوہر کی اجازت کے بغیر ڈاک کھولی تو وہ ایک خاتون کا خط تھا، جس میں اسی گیت کی کچھ سطریں لکھی ہوئی تھیں، جو اس کا شوہر کچھ دیر پہلے گنگنا رہا تھا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
شاداں
امیر گھروں میں کام کرنے والی غریب، مظلوم اور کمسن لڑکیوں کی اس گھر کے مردوں کے ذریعہ ہونے والی جنسی استحصال کی کہانی ہے۔ خان بہادر محمد اسلم خان بہت مطمئن اور خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے تین بچے تھے، جو اسکول کے بعد سارا دن گھر میں شور غل مچاتے رہتے تھے۔ انہیں دنوں ایک عیسائی لڑکی شاداں ان کے گھر میں کام کرنے آنے لگی۔ وہ بھی بچی تھی، لیکن اچانک ہی اس میں جوانی کے رنگ ڈھنگ دکھنے لگے۔ ایک روز خان صاحب کو شاداں کے زنا کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ شاداں تو اسی روز مر گئی تھی اور خان صاحب بھی ثبوت نہ ہونے کی بنا پر بری ہو گئے تھے۔
سعادت حسن منٹو
میرا اور اس کا انتقام
یہ ایک شوخ، چنچل اور چلبلی لڑکی کی کہانی ہے، جو پورے محلے میں ہر کسی سے مذاق کرتی رہتی ہے۔ ایک دن جب وہ اپنی سہیلی بملا سے ملنے گئی تو وہاں بملا کے بھائی نے اس سے انتقام لینے کے لیے جھوٹ بول کر گھر میں بند کر لیا اور اس کے نم ہونٹوں کو چوم لیا۔ وہاں وہ شام تک بند رہی۔ کچھ دنوں بعد جب بملا کو موقع ملا تو وہ بھی اپنا انتقام لینے سے پیچھے نہیں رہی۔
سعادت حسن منٹو
تین میں نہ تیرہ میں
افسانہ میاں بیوی کے درمیان ہونے والی نوک جھونک پر مبنی ہے۔ بیوی اپنے شوہر سے ناراض ہے اور اس کے ساتھ جھگڑتے ہوئے محاوروں کا استعمال کرتی ہے۔ شوہر اس کے ہر محاورے کا جواب دیتا ہے اور وہ دونوں جھگڑتے ہوئے عورت مرد کے تعلقات، شادی اور خانگی امور کے بارے میں بڑی دلچسپ گفتگو کرتے جاتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
رحمت خداوندی کے پھول
یہ ایک ایسے شرابی شخص کی کہانی ہے جو جتنا بڑا شرابی ہے، اتنا ہی بڑا کنجوس بھی ہے۔ وہ دوستوں کے ساتھ شراب پینے سے بچتا ہے، کیونکہ اس سے اسے زیادہ روپیے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ وہ گھر پر بھی نہیں پی سکتا، کیونکہ اس سے بیوی کے ناراض ہو جانے کا ڈر ہوتا ہے۔ اس مشکل کا حل وہ کچھ اس طرح نکالتا ہے کہ پیٹ کے درد کا بہانہ کرکے دوائی کی بوتل میں شراب لے آتا ہے اور بیوی سے ہر پندرہ منٹ کے بعد ایک خوراک دینے کے لیے کہتا ہے۔ اس سے اس کی یہ مشکل تو آسان ہو جاتی ہے۔ مگر ایک دوسری مشکل اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ایک روز اس کی بیوی پیٹ کے درد کی وجہ سے اسی بوتل سے تین پیگ پی لیتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
بیمار
یہ ایک تجسس آمیز رومانی کہانی ہے جس میں ایک عورت مصنف کو مسلسل خط لکھ کر اس کے افسانوں کی تعریف کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی بیماری کا ذکر بھی کرتی جاتی ہے جو مسلسل شدید ہوتی جا رہی ہے۔ ایک دن وہ عورت مصنف کے گھر آ جاتی ہے۔ مصنف اس کے حسن پر فریفتہ ہو جاتا ہے اور تبھی اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورت اس کی بیوی ہے جس سے ڈیڑھ برس پہلے اس نے نکاح کیا تھا۔
سعادت حسن منٹو
پھاہا
عنفوان شباب میں ہونے والی جسمانی تبدیلیوں سے بے خبر ایک لڑکی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ آم کھانے سے گوپال کے پھوڑا نکل آتا ہے تو وہ اپنے والدین سے چھپ کر اپنی بہن نرملا کی مدد سے پھوڑے پر پھاہا رکھتا ہے۔ نرملا اس پورے عمل کو بہت غور اور دلچسپی سے دیکھتی ہے اور گوپال کے جانے کے بعد اپنے سینے پر پھاہا رکھتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
آلو
پیٹ کی آگ کس طرح انسان کو نقطۂ نظر تبدیل کرنے پر مجبور کرتی ہے، اور بھلے برے میں تمیز کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے، وہ اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ لکھی سنگھ ایک انتہائی غریب کامریڈ تھا جو بیل گاڑیوں اور چھکڑوں میں اٹکے رہ گئے آلو جمع کرکے گھر لے جاتا تھا۔ ایک دن کمیٹی کی طرف سے بیل گاڑیوں کے لئے نیو میٹک ٹائروں کا بل پاس ہو گیا، جس کی مخالفت میں گاڑی بانوں نے ہڑتال کی اور ہڑتال کے نتیجے میں لکھی سنگھ اس دن بغیر آلووں کے گھر پہنچا اس کی بیوی بسنتو نے ہر موقع پر ایک کامریڈ کی طرح لکھی سنگھ کاساتھ دیا تھا، آج بپھر گئی، اور اس نے لکھی سنگھ سے پوچھا کہ اس نے ہڑتال کی مخالفت کیوں نہ کی، لکھی سنگھ سوچنے لگا کیا بسنتو بھی رجعت پسند ہو گئی ہے؟
راجندر سنگھ بیدی
شلجم
اس کہانی میں رات کو دیر سے گھر آنے والے شوہروں کی بیویوں کے ساتھ ہونے والی بحث کی عکاسی کی گئی ہے۔ شوہر رات میں تین بجے گھر آیا تھا۔ گھر آنے پر جب اس نے بیوی سے کھانا مانگا تو بیوی نے کھانا دینے سے انکار کر دیا۔ اس بات پر دونوں کے درمیان بحث ہونے لگی۔ دونوں اپنی اپنی دلیلیں دینے لگے اور کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوا۔ بحث ہو ہی رہی تھی کہ اندر سے نوکر آیا اور کہنے لگا کہ کھانا تیار ہے۔ کھانے کے بارے میں سنتے ہی میاں بیوی کے درمیان صلح ہو گئی۔
سعادت حسن منٹو
ملاقاتی
’’میاں بیوی کے درمیان چھوٹی چھوٹی باتوں کو لیکر ہونے والی بحث مباحثوں کی عکاسی اس کہانی میں کی گئی ہے۔ صبح آنے والے کسی ملاقاتی پر شک کرتی ہوئی بیوی شوہر سے پوچھتی ہے کہ ان سے صبح کون ملنے آیا تھا؟ بیوی کے اس سوال کے جواب میں شوہر اس کے سامنے ہر طرح کی دلیل پیش کرتا ہے، مگر بیوی کو کسی بات پر یقین نہیں آتا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
نفرت
یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کی ایک معمولی سے واقعہ نے پوری زندگی ہی بدل دی۔ اسے زرد رنگ جتنا پسند تھا اتنا ہی برقعہ ناپسند۔ اس دن جب وہ اپنی نند کے ساتھ ایک سفر پر جا رہی تھی تو اس نے زرد رنگ کی ہی ساڑی پہن رکھی تھی اور برقعے کو اتار کر ایک طرف رکھ دیا تھا۔ مگر لاہور اسٹیشن پر بیٹھی ہوئی جب وہ دونوں گاڑی کا انتظار کر رہی تھی وہاں انہوں نے ایک میلے کچیلے آدمی کی پسند ناپسند سنی تو انہوں نے خود کو پوری طرح ہی بدل لیا۔