پالی ہل کی ایک رات
کہانی کی کہانی
ڈرامے کی شکل مٰیں لکھا گیا ایک ایسا افسانہ ہے جس کے سارے کردار علامتی ہیں۔ افراد خانہ جب عبادت کی تیاری میں مصروف تھا جبھی بارش میں بھیگتا ہوا ایک غیر ملکی جوڑا دروازے پر دستک دیتا ہے اور اندر چلا آتا ہے۔ بات چیت سے پتہ چلتا ہے کہ نو وارد کا تعلق ایران سے ہے۔ اس کے بعد واقعات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو سب کچھ بدل کر رکھ دیتا ہے۔
(ایک تمثیل جس کے سارے کردار قطعی فرضی ہیں۔)
کردار۔
(۱) ہومائے ارد شیر جنک والا
(۲) رودا بہ جنک والا
(۳) آنٹ فیروزہ
(۴) آغائے وار اب کا ظم زادہ
(۵) خانم گلچہر اسفند یاری
مقام: پالی ہل، بمبئی
زمانہ: جولائی ۱۹۷۶ء وقت آٹھ بجے شب
وسیع اسٹیج۔۔۔ عقبی دیوار کے وسط میں کھلا دریچہ۔ اس کے دونوں طرف گوا کی سیاہ تپائیوں پر منگؔ گلدان، بائیں دیوار پر دو روغنی اکیڈمی پورٹریٹ، ان کے عین نیچے کوئن این صوفہ، دو کرسیاں، ایک کارڈ ٹیبل، کونے میں کاٹیج پیانو، اس کے اوپر رو پہلی فریم میں ایک متبسم خوب رو نوجوان کا بہت بڑا فوٹو گراف۔ بلوری مرتبان میں ایک جنک (چینی جہاز) کا ماڈل۔ ایک یونانی گلدان۔ دیواروں پر ولایتی وال پیپر جو جگہ جگہ سے اکھڑ چکا ہے۔ اسٹیج کے دائیں حصے میں گول ڈائننگ ٹیبل اور دو کرسیاں وکٹورین سائڈ بورڈ۔ اس پر ایک شمع دان willow pattern کی نیلی برطانوی پلیٹیں۔۔۔ اور ملکہ الزبتھ، پرنس فلپ، شہنشاہ ایران اور شہ بانو فرح پہلوی کی تصاویر۔ دو ٹوبی مگ (Toby mugs) میز پر تین افراد کے لیے پلیٹیں، چھری کانٹے اور گلاس مع نیپکن۔
فٹ لائٹس کے قریب اسٹیج کے بائیں کنارے چوبی منقش چینی صندوق پر ایک سیاہ ایرانی بلی نخوت سے متمکن ہے۔ کمرے کا سارا سازو سامان خستہ اور بوسیدہ۔ دائیں اور بائیں پہلو کی دیواروں میں دروازے۔ دریچے کے اوپر کُکو کلاک جو آٹھ بجا رہا ہے۔ سیاہ ریشمی کیمونو پہنے، جس پر رنگ برنگے دھاگے سے ایک مہیب ڈریگن کڑھا ہے۔ ناظرین کی طرف سے پشت کیے ہومائے جنک والا دریچے میں کھڑی ہے۔ رودابہ جنک والا انگریزی ڈریس میں ملبوس پیانو کے سامنے بیٹھی Let's all go down the strand بجا رہی ہے۔ پھر وہ اچانک On richmond hill there lives a lass شروع کردیتی ہے۔
ہومائے: اوہ، شٹ اپ۔ روڈی۔۔۔ میں دعا میں مصروف ہوں، ڈسٹرب مت کرو۔
(رودابہ Tis the last rose of summer left blooming alone بجانے میں مصروف ہوجاتی ہے۔)
ہومائے: روڈی۔۔۔ آج پورنماشی کی رات ہے اور میں آج ہی وضو کرنے میں گڑبڑا گئی۔۔۔ بتاؤ۔۔۔ منہ دھونے سے پہلے واشیمؔ ووہو پڑھتے ہیں نا۔۔۔ پھر کلّی کرنا۔ پھر تین دفعہ پنجے دھونا۔۔۔ پھر تین دفعہ کہنیوں تک ہاتھ۔۔۔ ہاتھ کی طرف کہنیوں تک نا۔۔۔؟ پھر پاؤں۔۔۔ ذرا سی بھول چوک میں گناہ ہوگا۔
(رودابہ منہ اٹھا کر ’’لاسٹ روز آف سمر‘‘ گانا شروع کردیتی ہے۔ دونوں عورتوں کے چہرے اب تک چھپے ہوئے ہیں۔ اب ہومائے پہلی بار حاضرین کی طرف رخ کرتی ہے۔ ایک معمر پریشان صورت عورت)
ہومائے: روڈی۔۔۔ بتاؤ اسکولی چھوکریوں کی طرح شورمت کرو۔۔۔ کل میں نے پنج گاہ کی نمازیں قضا کردیں۔ قضا پڑھنا فرض ہے نا۔۔۔؟ کل دستور جمشید جی سے پوچھوں گی۔ آج پورنماشی ہے۔ میں ماہ ینایشؔ کی تلاوت کرنا چاہتی ہوں۔ لیکن بادلوں میں چاند نظر ہی نہیں آرہا۔۔۔ بڑے زور کی بارش آنے والی ہے۔ ہوشنگ کیسے پہنچے گا۔ (رودابہ سنی ان سنی کر کے پیانو بجاتی رہتی ہے۔ باہر بارش شروع ہوجاتی ہے بجلی چمکتی ہے۔ اوپر چھت پر سے کھٹ کھٹ کھٹ کی آواز آنے لگتی ہے۔ باہر بلّیاں رو رہی ہیں۔ چینی صندوق پر بیٹھی ایرانی بلی کاہلی سے اترکر صوفے کے نیچے چلی جاتی ہے۔ بادل گرجتے ہیں۔ ہومائے اونچی آواز میں خدا کے ایک سوناموں کا ورد شروع کردیتی ہے)
ہومائے: یزد۔۔۔ ہروسپ تواں (۱) ہروسپ آگاہ(۲) ہروسپ خدا (۳) اوری انجام۔ افزا۔ پرورا۔ خروشیدتم۔ ہریمد۔ ہر نیک فرہ۔ فرمان کام۔ افرموش۔ اترس۔ افرازدم۔ آورباد گرد۔
رودابہ: (زور سے گاتی ہے)
Weep no more my lady O weep no more today we shall sing one song of the old kentucky home of the old kentucky home, Far away
ہومائے: (کانوں پر ہاتھ رکھ کر) آدرنمگر۔ بادگل گر۔ اگمان۔ ازمان۔ فیروزگر۔ نیا فرید۔ دادار۔ خرہ مند۔ داور۔ (باہر دریچے کے نیچے قدموں کی چاپ)
رودابہ: (رک کر) (دائیں دروازے کی کال بیل بجتی ہے) (کواڑ ذرا سا کھول کرباہرجھانکتی ہے پھر رودابہ سے کہتی ہے) ینگ فارنرز۔۔۔! رودابہ: ہپّی۔۔۔؟
ہومائے: نہیں۔۔۔ ہپی نہیں۔ نہایت شان دار انگریز۔۔۔ (دروازہ کھولتی ہے۔ ایک نوجوان لڑکا اور لڑکی پانی میں شرابور ذرا جھجھکتے ہوئے اندر آتے ہیں)
لڑکا: (اوکسفرڈ لہجے میں) تھنک یو میم۔۔۔ موسٹ کائنڈ آف یو۔ (برساتی اتارنے میں لڑکی کی مدد کرتاہے پھر اپنی برساتی اتارتا ہے۔۔۔ لڑکی سنہرے بال، خوب صورت۔۔۔ بیش قیمت امریکن فراک، دونوں بہت متمول معلوم ہوتے ہیں۔ لڑکی کے ہاتھ میں ایک پارسل ہے)
لڑکی: (امریکن لہجے میں) معاف کیجئے گا ہم نے آپ کو ڈسٹرب کیا۔ ہم مسز کلثوم زری والاکا بنگلہ تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ کیا آپ بتا سکیں گی؟ (ایک پرچہ دکھاتی ہے، ہومائے جواب نہیں دیتی۔ وہ حیرت اور رشک کے ساتھ اس نو عمر حسین اور صحت مندر جوڑے کو تکے جارہی ہے۔ گویا دونوںکسی پرانے خوش گوار خواب میں سے اچانک نمودار ہوگیے ہوں۔ رودابہ فوراً اسٹول سے اٹھ کر آتی ہے۔ عینک لگا کر لڑکی کے پرچے پر لکھا پتہ پڑھتی ہے۔)
لڑکی: کیبی نے کہا شاید آپ کے یہاں سے معلوم ہوجائے۔ سڑک تویہی ہے۔
(رودابہ نفی میں سر ہلاتی ہے)
لڑکا: بلّیاں اور کتّے برس رہے ہیں۔ کیا ہم آپ کے ہاں چند منٹ ٹھہر سکتے ہیں؟ ٹیکسی ڈرائیور اس طوفان میں آگے جانے سے انکار کر رہا ہے۔
ہومائے: (چونک کر) اوہ۔۔۔! یقینا۔۔۔ اندر آجاؤ۔۔۔
(لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے پر نظر ڈال کر کمرے میں داخل ہوتے ہیں)
لڑکی: Gee تھینکس!
ہومائے: امریکن۔۔۔؟
لڑکی: نومیم۔۔۔ ایرانین۔۔۔
لڑکا: (جھک کر) خانم گلچہر اسفند یاری۔۔۔ داراب کاظم زادے۔
ہومائے۔
رودابہ۔
ہاؤ ڈو یوڈو۔۔۔
(وہ دونوں صوفے پر بیٹھ جاتے ہیں۔ روشنی میں گلچہر کے لاکٹ پر ہیروں سے بنا ’’یا علی‘‘ جگمگانے لگتا ہے۔ ہومائے کرسی پر ٹک کربلّی کو گود میں اٹھا لیتی ہے۔ رودابہ سرعت اور احساس مصروفیت کے ساتھ بائیں دروازے سے باہر چلی جاتی ہے)
ہومائے: تم لوگ کہاں سے آرہے ہو؟
داراب کاظم زادہ: آج صبح لندن سے۔ میں کیمبرج میں پڑھتا ہوں۔۔۔ یہ میری کزن اور منگیتر۔۔۔ گلچہر۔۔۔ سیرہ لارنس میں زیر تعلیم ہے۔ امریکہ میں۔
گلچہر: کالج میں میری ایک انڈین کلاس فیلو ہے۔۔۔ خدیجہ زری والا۔۔۔ اس نے ایک پیکٹ اور خط دیا تھا کہ بمبئی میں اس کی والدہ کو دے دوں۔۔۔
داراب کاظم زادہ: (کلپڈ برطانوی لہجے میں) مس زری والا نے اپنے مکان کا فون نمبر بھی دیا تھا۔ ہم لوگ ایئر پورٹ پر ہوٹل سینٹور میں ٹھہرے ہیں۔ وہاں سے فون کیا مگر بارش کی وجہ سے لائن خراب تھی۔ شام کو ٹیکسی لے کر مکان ڈھونڈنے نکلے۔ (رودابہ چائے کی ٹرے لیے کمرے میں واپس آتی ہے) ہم دونوں۔۔۔ کزن گلچہر اور میں۔۔۔ چھٹیوں میں ہندوستان کی سیاحت کے لیے آئے ہیں۔ وطن ہوتے ہوئے اپنے اپنے والدین سے مل کر مغرب واپس جائیں گے۔
ہومائے: وطن۔۔۔؟
داراب: طہران۔۔۔ ایران۔۔۔
ہومائے: اوہ۔۔۔ اوف کورس۔۔۔!
(داراب نظریں اٹھا کر سائیڈ بورڈ کو دیکھتا ہے جس پر شاہ اور شہبانوے ایران کی تصویر رکھی ہے۔ وہ ذرا تعجب اور مسرت سے مسکراتا ہے۔ ہومائے چپ بیٹھی ہے۔ ایسا لگتا ہے شاید مدتوں بعد گھر پہ مہمان آئے ہیں اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ان سے کیا بات کرے)
رودابہ: (چائے کی ٹرے کارڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے) ہومائے! تم نے ہم لوگوںکا تعارف کرا دیا۔۔۔؟ ینگ مین۔۔۔! میں رودابہ ارد شیر جنک والا ہوں۔ یہ میری بڑی بہن مس ہومائے جنک والا۔ (داراب اور گلچہر مسکرا کر سرخم کرتے ہیں) اور وہ ہمارے والدین۔۔۔ سرارد شیر کے کاؤس جنک والا۔۔۔ لیڈی تہمینہ جنک والا۔
داراب: (زیر لب) ہاؤ فیسی نیٹنگ۔۔۔!
رودابہ: (پیانو پر رکھی خوش شکل نوجوان کی تصویر کی طرف اشارہ کر کے) یہ ہوشنگ سروش یار مرزا۔۔۔ ہومائے کا منگیتر۔۔۔
(ہومائے ذرا شرما کر سر جھکا لیتی ہے۔ لفظ ’’منگیتر‘‘ پر داراب کاظم زادہ اور گلچہر اسفند یاری قدرے متحیر نظر آتے ہیں۔ چھت پر کھٹ کھٹ کھٹ کی آواز۔ دونوں نووارد گھبرا کر ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔ رودابہ چائے بناتی ہے۔)
داراب: تھینکس۔ ہاؤ ویری نائس آف یو۔۔۔
رودابہ: یہ لوکیک۔۔۔ آج ہی ہومائے نے بیک کیا ہے اور کاٹج چیز اور اسکونز میں نے بنائے ہیں۔
داراب کاظم زادہ: گڈ لارڈ۔۔۔! کاٹج چیز اور اسکونز۔۔۔! معلوم ہوتا ہے جیسے میں ابھی انگلستان ہی میں ہوں!
ہومائے: (ہونٹ پچکا کر) ہا ہا۔۔۔ اس مکان سے باہر نکلو گے تو پتہ چلے گا کہ یہاں کے اسٹینڈرڈ کتنے گر گیے ہیں۔ میں امیدکرتی ہوں تم کو مسز پوچ کھانا والا کا بنگلہ مل جائے گا۔۔۔ اگر اب تک گرانہ ہو۔۔۔
گلچہر اسفند یاری: مسز کلثوم زری والا۔
رودابہ: کارٹر روڈ۔۔۔؟
گلچہر: جی نہیں۔۔۔ الی مالا روڈ۔۔۔ ٹیکسی والا ساری پالی ہل پر لیے پھرا۔ ہوٹل میں کسی نے ہمیں بتایا تھا کہ یہ جگہ دلیپ کمار کے بنگلے کے نزدیک ہوگی۔۔۔ ایک راہ گیر بولا راجیش کھنّہ کے بنگلے کے آگے دائیں ہاتھ کو جو سڑک جاتی ہے۔ میں نے کیبی سے کہا یہ دونوں بنگلے پالی ہل کے لینڈ مارک معلوم ہوتے ہیں تو وہ فوراً بولا، ’’میڈیم! لینڈ مارک میں تو مرحومہ مینا کماری رہتی تھیں!‘‘ (ہنستی ہے) اور راجیش کھنّہ کا بنگلہ۔۔۔
ہومائے: (ذرا ناگواری سے) راجیش کھنّہ کون ہے؟
رودابہ: ہومائے ڈیر۔۔۔ راجیش کھنہ ایک انڈین سنیما ایکٹر ہے۔ دلیپ کمار بھی۔۔۔
گلچہر: (ذرا جوش سے) دلیپ کمار، مینا کماری، وجینتی مالا، ممتاز۔ میں ان سب کی موویز طہران میں دیکھ چکی ہوں۔ اپنے بچپن میں۔ آئی لو انڈین موویز۔۔۔ میری ممی نے تو سنگم پانچ مرتبہ دیکھی تھی۔ اور داراب یاد ہے ہمارے بچپن میں وہ انڈین فلم سونگ ہمارے طہران میں کس قدر مقبول تھے۔ ’’دوست دوست نہ رہا‘‘ اور ’’میری جان شب بخیر!‘‘ آپ کو یہ گیت آتے ہیں۔۔۔؟
(رودابہ نفی میں سر ہلاتی ہے۔)
داراب: گلچہر! میرا خیال ہے کل صبح دن کی روشنی میں تمہاری سہیلی کی والدہ کا مکان تلاش کریں۔ اب ان مہربان خواتین کا شکریہ ادا کر کے چلتے ہیں۔ بارش کا زور کچھ کم ہورہا ہے۔ (ٹھٹھک کر) میم۔۔۔ آپ کے ہاں چینی نوادر کا بہت عمدہ ذخیرہ موجود ہے!
ہومائے: (چونک کر، خوشی سے) میرے گریٹ گرینڈ فادر نے چائنا سے تجارت شروع کی تھی۔ ان کے اپنے جنک تھے۔۔۔ سمندری جہاز۔۔۔
داراب: ہاؤ انٹرسٹنگ۔۔۔!
ہومائے: (جواب اپنے متعلق بتانے کے لیے دفعتاً بہت بے چین نظر آتی ہے۔) ڈپریشن سے قبل اس سڑک کے متعدد بنگلے ہمارے خاندان کی ملکیت تھے۔ کرشن کے بعد سب بک گیے۔ چین سے ٹریڈ بھی ختم ہوگئی۔
داراب: اور آپ کے والدین؟
ہومائے: دونوںمر گیے۔
داراب: بہن بھائی۔۔۔؟
رودابہ: وہ بھی مر گیے۔
داراب: دوسرے رشتہ دار۔۔۔؟
رودابہ: وہ بھی مر گیے۔
داراب: اوہ۔۔۔ آئی ایم سوری۔
ہومائے: ٹھیک ہے۔ اس کے متعلق تم کیا کرسکتے ہو۔ (اوپر چھت پرکھٹ کھٹ شروع ہوجاتی ہے۔)
گلچہر: (چائے کی پیالی ختم کر کے داراب سے) اجازت لیں؟
رودابہ: نہیں نہیں۔۔۔ ابھی بیٹھو۔۔۔ ڈنر کھا کر جانا۔
داراب: میم۔۔۔ شکریہ۔۔۔ لیکن بہت رات ہوجائے گی۔ باہر ٹیکسی منتظر ہے۔
رودابہ: ٹیکسی رخصت کردو۔ ابھی ہوشنگ آنے والا ہے۔ تم کو تمہارے ہوٹل پہنچا آئے گا۔ سانتا کروز یہاں سے زیادہ دور نہیں۔
ہومائے: (چونک کر) ہمارے پاس ۳۸ء ماڈل کی پیکارڈ ہے۔ پہلے میں اسے چلایا کرتی تھی فرّاٹے سے۔۔۔ ویک اینڈ کے لیے پونا۔۔۔ گرمیوں میں مہا بلیشور۔۔۔ ماتھیران۔۔۔ اب میرے گھٹنوں میں گٹھیا کا اثر ہوجاتا رہا ہے۔ پیکارڈ پندرہ برس سے موٹر خانے میں بند پڑی ہے۔۔۔ ہوشنگ آجائے میں اس سے کہوں گی تم کو اسی میں تمہارے ہوٹل پہنچادے۔
داراب: (گھبرا کر) جی نہیں۔۔۔ زحمت نہ کیجئے، ہم ٹیکسی پر ہی چلے جائیں گے۔
ہومائے: (یکلخت سکون سے) اچھا۔ جو تمہاری مرضی۔ ہوشنگ بھی میری پیکارڈ چلانے پر راضی نہیں ہوتا، ٹیکسی پر آتاجاتا ہے۔
گلچہر: (اب ذرا اکتا کر) مسٹر ہوشنگ کب آئیں گے؟ (ککو کلاک میں سے پرندہ باہر نکل کر سریلی سیٹی بجاتا ہے۔)
رودابہ: اب آتا ہی ہوگا۔ اسے تاش کی لت ہے۔ روزانہ پابندی سے ولنگڈن کلب جاتا ہے۔ پہلے ٹینس۔۔۔ پھر کارڈز۔۔۔ نو دس بجے تک یہاں آتاہے۔۔۔ تم لوگ بمبئی میں کب تک ہو۔۔۔؟ کسی شام ہوشنگ کے ساتھ ولنگڈن کلب ہو آؤ۔ آج بھی نو دولتوں کے اس بد صورت نئے شہر میں اس کلب کا پرانا برٹش ماحول برقرار ہے۔ پرانی نسل کے چند وضع دار جنٹلمین اب بھی دستانے پہن کر چھڑی ہاتھ میں لے کر وہاں برج کھیلنے آتے ہیں۔
داراب: ہاؤ انٹرسٹنگ۔۔۔!
گلچہر: جیسے نیو انگلینڈ کے پرانے کنٹری کلب۔۔۔!
ہومائے: یو آر رائٹ۔۔۔ میں بھی جنگ سے پہلے والدین کے ساتھ امریکہ گئی تھی۔ اس سے بھی کئی سال قبل ماما جب پہلی بار پاپا کے ساتھ امریکہ گئیں۔۔۔ ہالی وڈ میں رڈولف ویلنٹینو نے اپنے ہاتھ سے ان کو اپنی تصویر بھی دی تھی۔۔۔ دکھاؤں۔۔۔؟ (اٹھتی ہے)
گلچہر: مائی گوڈ۔۔۔!
رودابہ: اب وہ تصویر کہاں تلاش کروگی۔ چھوڑو۔۔۔
ہومائے: (پھر بیٹھ جاتی ہے۔ اب داراب کو مخاطب کر کے) ہم دونوں بہنوں نے سوئٹرز لینڈ میں فنشنگ اسکول کیا۔ ہوشنگ نے تمہاری طرح اوکسفورڈ میں پڑھا تھا۔
داراب: میں کیمبرج میں ہوں۔
ہومائے: نیور مائنڈ۔۔۔ اچھا ذرا میں کچن میں ہو آؤں۔۔۔ ایکسکیوزمی۔۔۔ (اٹھ کر بائیں دروازے سے باہر چلی جاتی ہے۔ رودابہ اس کے پیچھے پیچھے جاتی ہے۔ دریچے کے باہر طوفان بادو باراں کی گرج۔۔۔ سمندر کا شور بڑھتا جارہا ہے۔ داراب اٹھ کر دریچے سے باہر جھانکتا ہے۔ پھر آہستہ سے) افوہ کتنا گھپ اندھیرا ہے۔ میں نے ایسی تاریک رات کبھی نہیں دیکھی۔ انڈین مونسون کی رات۔۔۔! سمندر۔ بادل اور رات سب گھل مل کر ایک ہوگیے ہیں۔
(گلچہر ذرا خوف زدہ ہوکر داراب کے پاس جاکھڑی ہوتی ہے۔ احساس تحفظ کے لیے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ دیتی ہے۔)
گلچہر: داریوش۔۔۔!
داراب: (گھبرا کر) ارے ہماری کیب غائب ہوگئی ہے۔۔۔؟
گلچہر: (کھڑکی سے باہر جھانک کر) نہیں۔۔۔ نیچے پورٹیکو میں کھڑی تو ہے۔ کیا گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے۔۔۔ (ذرا توقف کے بعد) اس طرح قدیم شان دار جارجین مکان جنوبی اسٹیٹس میں بھی موجود ہیں۔ کوٹن پلانٹیشنز پر۔۔۔ ہماری میزبان کہاں چلی گئیں؟
داراب: بے چاریاں ہمارے لیے ڈنر کا انتظام کرنے گئی ہیں۔
گلچہر: ڈیلائٹ فل اولڈ لیڈیز۔۔۔ سوکیوٹ۔۔۔ بالکل پھدکتی ہوئی چڑیاں معلوم ہوتی ہیں۔
گلچہر: (ندامت سے) آئی ایم سوری۔۔۔ ہنی۔۔۔
داراب: (سوچتی ہوئی آواز میں۔۔۔ آہستہ آہستہ) انسانوں کی طرح نسلیں بھی بوڑھی ہوجاتی ہیں۔۔۔ کیمبرج میں ایک مرتبہ میرے ایک انڈین پارسی دوست نے بتلایا تھاکہ اس وقت ساری دنیا میں پارسیوں کی تعداد السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا کی سرکولیشن سے ایک تہائی کم ہے۔
گلچہر: گڈ گوڈ!
داراب: آج تیسرے پہر جب ہم لوگ سیر کرتے مالا بارہل کی ڈھلوان پر سے آرہے تھے۔ راستے میں ٹیکسی ڈرائیور نے ایک گھنے سر سبز جنگل کی طرف اشارہ کرکے بتایا تھا کہ اس میں پارسی لوگ کا دخمہ ہے۔۔۔ یاد ہے۔۔۔؟
گلچہر: ہاں۔۔۔
داراب: اس وقت مجھے ایک خیال آیا۔۔۔ پسار گارد۔۔۔ پرسی پولس۔ طاق کسریٰ۔۔۔ اور آخر میں فقط مالا بارہل بمبئی کا دخمہ۔۔۔ لارڈ۔۔۔! واٹ این اینٹی کلائمکس!
گلچہر: ہاؤئیڈ۔۔۔
داراب: نہیں۔۔۔ رنج نہ کرو۔۔۔ ہم تو زندہ ہیں اور ہماری قدیم تہذیب کے خالق یہ غیر معمولی لوگ بھی باقی رہیں گے۔
(بارش دفعتاً تھم جاتی ہے۔ دریچے کے باہر مدھم سی دودھیا روشنی آہستہ آہستہ تیز ہوتی ہے۔)
داراب: گلچہر۔۔۔ دیکھو بادل ذرا سے چھٹے اور چاند نکل آیا۔۔۔ ماہ کامل۔ سامنے والے بنگلے کے پیچھے بادلوں میں سے نمودار ہوتا کتنا فسوں خیز معلوم ہورہا ہے۔ بالکل جیسے کانسٹبل کی ایک پینٹنگ۔۔۔ کبھی یہ جگہ بے حد خوب صورت رہی ہوگی۔
گلچہر: ٹیکسی ڈرائیور کہہ رہا تھا صرف دس برس پہلے تک سارے پالی ہل پر انتہائی پکچریسک بنگلے موجود تھے۔ اب سب غائب ہوتے جارہے ہیں۔ انہیں گرا کر ان کی جگہ اسکائی اسکریپر بنا دیےگیے۔۔۔ داراب! میں امریکہ سے ہندوستان اسکائی اسکریپر دیکھنے تو نہیں آئی۔ کل ہی چلو بمبئی سے۔
داراب: ڈارلنگ۔۔۔ ہم لوگ اصل ہندوستان کی سیر کے لیے پرسوں صبح سویرے یہاں سے روانہ ہورہے ہیں۔ جے پور۔ آگرہ۔ دلّی۔ کھجورا ہو۔۔۔ دی ورکس! اکتاؤ نہیں۔۔۔ (باہر مینھ پھر برسنے لگتا ہے۔ ہومائے اور رودابہ دو کشتیاں اٹھائے کمرے میں واپس آتی ہیں۔ کشتیاں جن میں ڈھکے ہوئے ڈونگے چنے ہیں ڈائننگ ٹیبل پر رکھ کر اپنی اپنی جگہ واپس آ بیٹھتی ہیں۔ داراب اور گلچہر دریچے سے ہٹ کر صوفے کی طرف آتے ہیں۔ ہومائے اپنے ہاتھوں کو دھیان سے دیکھ رہی ہے۔)
داراب: ماو موزیل۔۔۔ آپ دونوں کے ہاتھ کتنے خوب صورت ہیں۔ ارسٹو کریٹک۔۔۔ چھوٹے چھوٹے ہاتھ جنہوں نے کبھی کام نہیں کیا۔ سوائے پیانو بجانے اور کشیدہ کاری کے۔۔۔!
(دونوں بہنیں تشکر آمیز نگاہوں سے داراب کاظم زادہ کو دیکھتی ہیں۔)
ہومائے: (ذرا بھرّائی ہوئی آواز میں) پیارے نوجوان آدمی تم بہت مہربان ہو۔۔۔ اوربہت مہذب۔۔۔ لیکن ہمارے بٹلر کک، میڈ، سب کب کے رخصت ہوئے۔ عرصے سے ہم دونوں خود ہی کھانا پکاتے ہیں۔ خود گھر کا سارا کام کرتے ہیں۔
داراب: (خلوص سے) اب ہمارے لیے مزید تکلیف نہ اٹھائیے۔ ہم اپنے ہوٹل واپس جاکر۔۔۔
ہومائے: نہیں نہیں۔۔۔ ہوشنگ آنے والا ہے۔۔۔ ہم سب کے ساتھ ڈنر میں شریک ہو۔۔۔ پلیز۔۔۔!
داراب: بہت خوب۔۔۔ شکریہ۔۔۔ (کمرے میں ٹہل ٹہل کر سامان آرائش دیکھنے لگتا ہے۔ پھر سر اور شیر اور لیڈی جنک والا کی روغنی اکیڈمی تصاویر کے سامنے جاکھڑا ہوتا ہے۔)
ہومائے: (فخر سے) ہمارے پاپا اور ماما۔۔۔! (رومال سے آنکھیں خشک کرتی ہے)
داراب: جی ہاں۔۔۔ آپ نے بتایا تھا۔ (بیٹھ جاتا ہے)
ہومائے: دی ایئر نائنٹین تھرٹی فور میں جب پاپا دیوالیہ ہوئے، اسی کمرے میں بھری برسات کی ایک ایسی ہی اندھیری رات انہوں نے تولیہ سر پر لپیٹ کر اپنی کنپٹی پر پستول چلا دیا تھا۔ (گلچہر خفیف سالرز کرداراب کو دیکھتی ہے) کچھ عرصے بعد ماما شدت غم سے چل بسیں۔۔۔۔ دستور جمشید جی ہمارے فیملی پریسٹ نے ہمیں سمجھایا۔۔۔ روؤ مت۔۔۔ باؤدخت نسخ میں لکھا ہے، ’’ خدا اور اس کے پیغمبر ۱؎(حضرت زرتشت) کا ارشاد ہے کہ مرنے والے کی موت پر رونا گناہ ہے۔ جب مرنے والا عالم نزع میں ہوتا ہے دیواستاگ واد اس کی روح قبض کرنے آتا ہے، بالا روانے کے کاؤس جس نے آسمان پر پرواز کرنے کی کوشش کی تھی۔ دیواستاگ واد کے پنجے سے نہ بچا۔۔۔ نہ افرا سیاب شاہِ توران جس نے موت سے بھاگنے کی سعی میں سمندر کی تہہ میں آہنی محل بنوایا تھا۔۔۔‘‘ ماما کی لاش کے لیے زمین پر بستر بچھایا گیا۔ سروش باج کی تلاوت ہوئی۔۔۔ سگ وید کروائی گئی۔ کفن پہنایا گیا۔۔۔ دستور لوگ یشت گاہاں کے لیے تیار ہوئے۔۔۔ دخمے میں میت چڑھا کر دروازہ مقفل کیا گیا۔۔۔ پس ماندگان نے بعد وضو نماز دخمہ ادا کی۔۔۔ تین رات تک ہمارے گھر میں اور دخمے کے نزدیک چراغ جلا۔
جانتے ہو۔۔۔؟ اگر ان تین راتوں میں اوستانہ پڑھی جائے تو سروش (۵) رواںکی مدد نہیں کرتا۔۔۔ رواں کے لیے پہلی تین راتیں بہت بھاری ہیں جو اسے نو ہزار راتیں معلوم ہوتی ہیں۔۔۔ انبوہ در انبوہ دیو آکر اسے ڈراتے ہیں۔ لیکن ان ہی تین راتوں میں سروش پُل۶؎ پر اس کی رہبری کرتا ہے۔۔۔ نیک رواں کو امیتا سپند پل چنوات پر سے گزار لے جاتے ہیں۔ مقدس ارواح اور فردوس کی حوریں پُل کے سرے پر زر مایہ روغنا (۷) سے اس کا خیر مقدم کرتی ہیں۔ وہ تا قیامت مسرور رہتی ہے۔ چوتھے روز طلوع آفتاب سے قبل آفرنگاںؔ کی تلاوت کی گئی تاکہ رواںؔ برزخ میں سے نکل جائے۔ دستور آدھی رات کو آکر گھر کی دہلیز پر کھڑے ہو کے پس ماندگان کو اطلاع دیتے ہیں۔۔۔ اب متوفی کی رواں فلاں مقام پر ہے۔۔۔ اب فلاں جگہ پہنچ چکی ہے۔۔۔ پاپا اور ماما کے لیے بھی انہوں نے یہی کیا داراب—! مجھےیقین ہے پایا اور ماما کی روحیں اب فردوس میں موجود ہوں گیرومال سے پلکیں خشک کرتی ہے)
داراب: (چند لمحوں بعد، گہری آواز میں) مجھے بھی یقین ہے ماوموزیل۔
(خاموشی کا مختصر وقفہ۔۔۔ معاً چھت پر کھٹ کھٹ کھٹ از سرِ نو شروع ہوجاتی ہے۔ دونوں ایرانی مہمان گھبرا کر اوپر دیکھتے ہیں۔)
گلچہر: (کھنکار کر) معاف کیجئے گا۔۔۔ میم۔۔۔ کیا بالائی منزل پر کرائے دار رہتے ہیں؟
(دونوں بہنیں متوحش ہوکر ایک دوسرے پر نظر ڈالتی ہیں۔)
ہومائے: (رودابہ سے) انہیں بتلا دوں؟
(اسٹیج کے باہر ونگ میں کسی کے زینہ اترنے کی آواز۔۔۔ کھٹ کھٹ کھٹ۔۔۔ دائیں دروازے میں ایک بے حد ضعیف پارسن آسیب کے مانند نمودار ہوتی ہے۔ سفید لیس کا بلاؤز، سفید ریشمی ساڑی جس کی سیاہ مخملیں بیل پر رنگ برنگے پھول بنے ہیں۔ ہیرے کا بروچ۔ گوشوارے۔۔۔ سچے موتیوں کی مالا۔۔۔ جالی کے سفید دستانے، ساٹن کے سبک سفید سینڈل، دائیں ہاتھ میں رنگین پیراسول۔۔۔ معلوم ہوتا ہے گویا سیدھی بکنگھم پیلیس کی گارڈن پارٹی سے واپس آرہی ہیں۔۔۔ عمر تقریباً پچانوے سال۔)
ضعیفہ: (جھر جھری آواز میں) ہومائے۔۔۔! رودابہ۔۔۔! سروش کسی کی مدد نہیں کرتا۔۔۔ نہ بہرام (۸) یزد۔۔۔ نہ خود اہر مزد۔۔۔ اس دھوکے میں بھی نہ رہنا۔۔۔ سمجھیں۔۔۔؟ سب عالم برزخ ہی برزخ ہے۔ یا جہنم۔۔۔ فردوس کہیں نہیں ہے۔۔۔ سمجھیں۔۔۔؟ باقی یہ کہ وہ پُل پر مہرِ داور کے سامنے پہنچ چکا ہے اور اب اس کا اور میرا مقدمہ مہرِ یزد کے سامنے پیش ہونے ہی والا ہے۔۔۔ آدھی رات کو تمہیں یہ اطلاع دینے آئی ہوں۔۔۔ گڈ نائٹ۔
(ضعیفہ کھٹ کھٹ کھٹ چلتی اسٹیج پر سے گزرجاتی ہے۔۔۔ گلچہر سہم کر داراب سے لپٹ گئی ہے۔۔۔ رودابہ اور ہومائے بھونچکی بیٹھی ہیں۔ باہر ونگ میں سیڑھیاں چڑھنے کی آواز۔۔۔ کمرے میں سناٹا)
(سنبھل کر) آئی ایم سوری۔۔۔ یہ بے چاری ہماری دیوانی آنٹ فیروزہ ہیں۔
سابق لیڈی فیروزہ ڈائمنڈکٹر۔۔۔ اوپر کی منزل پر رہتی ہیں۔۔۔ بالکل تنہا۔ دماغ چل گیا ہے لیکن پچانوے سال کی عمر میں کیا قابلِ رشک صحت ہے۔۔۔ سارے وقت پیرا سول کی نوک سے فرش کھٹکھٹایاکرتی ہیں۔۔۔ چوبی چھت ہے اس وجہ سے آواز صاف آتی ہے۔۔۔ ہمیں تنگ کرنا ان کااصل مقصد ہے۔ (داراب اور گلچہر ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے رہتے ہیں۔)
ہومائے: میرا خیال ہے ہوشنگ کے آنے سے قبل تم دونوں کو بے چاری کریزی آنٹ فیروزہ کا قصہ سنا ہی دوں۔
رودابہ: ( ڈانٹ کر) نہیں ہومائے۔۔۔ خاموش رہو۔
ہومائے: ہرگز نہیں۔ ضرور سناؤں گی۔۔۔ (داراب اور گلچہر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور تیزی سے دروازے کی جانب بڑھتے ہیں۔ ہومائے لپک کر داراب کا بازو پکڑ لیتی ہے اور غیر معمولی طاقت سے دونوں نوجوانوں کو ڈھکیلتی دریچے کے پاس لے جاتی ہے) وہ سامنے جلا ہوا کھنڈر دیکھتے ہو۔۔۔؟ املتاس کے ادھر۔۔۔؟
داراب: (ہکلا کر) جی ہاں۔
ہومائے: یہ لیڈی فیروزہ کا مکان تھا۔ (داراب عادتاً ’’ ہاؤ انٹرسٹنگ‘‘ کہنا چاہتا ہے مگر سہم کر رک جاتا ہے) آنٹ فیروزہ ہماری والدہ کی دور کی رشتے دار تھیں۔ امیر کبیر ماں باپ کی اکلوتی۔۔۔ دی ایئرنائنٹین ناٹ فائیو میں جب اپنے سوئیس اسکول سے واپس آئیں یوروپ سے۔۔۔ ان کی شادی سر فریدوں جی ڈائمنڈ کٹر سے کردی گئی۔ سرفریدوں بلجیم سے ہیروں کی تجارت کرتے تھے۔
رودابہ: شادی کے اٹھارہ انیس سال بعد وہ مر گیے۔۔۔ لیڈی فیروزہ ڈائمنڈکٹر ایک کروڑ پتی لا ولد بیوہ بن گئیں۔
ہومائے: ہوشنگ سروشیار مرزا میرا لڑکپن کا دوست تھا۔ مگر اس کے ماں باپ معمولی لوگ تھے۔ باپ ایک بنک میں ہیڈ کلرک۔۔۔ سرارد شیر جنک والا کی لڑکی سے اس کی شادی ناممکن۔۔۔ وہ ہمارے تعلیمی ٹرسٹ سے وظیفہ حاصل کر کے پڑھنے کے لیے ولایت چلا گیا تاکہ واپس آکر کچھ بن سکے اور مجھے بیاہ لے جائے۔ اس دوران میں ڈپریشن ہوا۔۔۔ پا پا ما ما مرے۔۔۔ ہمارا اپنا گھر تباہ ہوگیا۔ دی ایئر نائنٹین تھرٹی ایٹ میں ہوشنگ ولایت سے لوٹا۔۔۔ مگر قسمت خراب تھی، حسب دلخواہ ملازمت نہیں ملی۔ تین سال بے کار رہا۔۔۔
ہومائے: تب ایک شام اسی کھڑکی میں کھڑے ہو کر اس نے مجھ سے کہا، ’’ہومائے۔۔۔ اجازت دوکہ میں لیڈی فیروزہ ڈائمنڈکٹر سے شادی کرلوں۔ بڑھیا بیمار رہتی ہے۔ چند سال میں لڑھک جائے گی۔ پھر ہم تم اپنا گھر بسالیں گے۔۔۔ اس وقت تم اور ہم دونوں افلاس کے شکار ہیں۔ اور اپنی مالی پریشانیوں سے چھٹکارا پانے کا یہ واحد اور سہل ترین نسخہ ہے۔‘‘
مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا اور میں گم سم رہ گئی۔ وہ میرے جواب کا انتظار کیے بغیر زینہ اتر کر پور ٹیکو سے نکلا اورلیڈی ڈائمنڈکٹر کے بنگلے کی سمت روانہ ہوگیا۔
رودابہ: ٹرف کلب میں دعوت ہوئی۔ دستوروں نے مقدس منتر پڑھ کر دونوںکو ایک دوسرے کا کتخدا (۹) اور کد بانو (۱۰) بنا دیا اور وہ ہمارا ’’انکل ہوشنگ‘‘ بن گیا۔۔۔ آنٹ فیروزہ خوشی سے پھولی نہ سمائیں۔۔۔ اس عمر میں ایسا خوب صورت نوجوان شوہر مل گیا۔ ناقابل یقین خوش نصیبی۔۔۔
ہومائے: بنام یزد (۱۱) ہوشنگ کتنا شکیل اور طرح دار تھا۔۔۔ اب ہم سب نے مل کر آنٹ فیروزہ کے انتقال کا انتظار شروع کیا۔۔۔ شادی کے وقت ان کی عمر ساٹھ سے اوپر تھی۔۔۔ گلچہرا۔۔۔ اس وقت میں تمہارے ہی برابر رہی ہوں گی۔۔۔ اور ہوشنگ بالکل تمہارے داراب جیسا تھا۔۔۔!
(گلچہر اور داراب لرز کر ایک دوسرے کا ہاتھ زیادہ مضبوطی سے تھام لیتے ہیں۔)
رودابہ: لیکن آنٹ فیروزہ جیتی ہی چلی گئیں۔۔۔ پینسٹھ سال، ستّر سال، اسّی سال۔۔۔ اور بے چارہ ہوشنگ وفادار ملازم کی طرح خدمت میں حاضر۔۔۔ آنٹ فیروزہ کا حکم تھا وہ چوری چھپے بھی ہم سے نہ ملے۔ ہمارے اور اس کے پیچھے پرائیویٹ جاسوس لگا رکھے تھے۔۔۔ اور خبردار کردیا تھا کہ اگر ہومائے سے ملتا پایا گیا تو وہ اپنی ساری دولت اس کے بجائے کسی خیراتی ادارے کو دے جائیں گی۔۔۔
ہومائے: تب عاجز آکر بے چارے ہوشنگ نے اپنی قسمت سے انتقام لینا شروع کیا۔۔۔ وہ آنٹ فیروزہ کا روپیہ بے دردی سے اڑانے لگا۔۔۔ ریس کورس۔۔۔ جوا۔۔۔ شراب۔۔۔ سٹہ۔۔۔ وہ اسے بھاری بھاری چیک کاٹ کر دیا کیں تاکہ خوش رہے۔
رودابہ: جب آنٹ فیروزہ اکّیاسی کی ہو کر بیاسی میں لگیں ہوشنگ ان کو تقریباً کنگال کر چکا تھا۔ پھر اس نے آنٹ فیروزہ کی اکیاسیویں سال گرہ بڑی دھوم سے منائی۔ سامنے والے بنگلے میں زور دار پارٹی ہوئی۔۔۔ کیک پر ا۸ کے بجائے ۱۸ موم بتیاں لگائی گئیں۔ شہر کا بہترین ڈانس بینڈ آیا۔ ہم دونوں بہنیں اسی کھڑکی میں سے نظارہ دیکھتے رہے۔
ہومائے: اچانک بنگلے میں سے مہیب شعلے بلند ہوئے۔ چاروں طرف شور مچ گیا۔۔۔ آگ۔۔۔! آگ۔۔۔! کسی نے آکر کہا کہ برتھ ڈے کی ایک موم بتی سے اتفاقیہ آگ لگی۔ فائر انجن آتے آتے تین منزلہ بنگلہ جل کر خاک ہوگیا۔۔۔ لیکن آنٹ فیروزہ تب بھی زندہ بچ گئیں۔۔۔ آگ ہوشنگ ہی نے لگائی تھی۔
رودابہ: وہ بھی بچ گیا۔ فوراً رات کے اندھیرے میں بھاگ نکلا۔۔۔ روپوش ہوگیا۔ لیکن ڈرائنگ روم کے ملبے میں پڑی دعوت میں آئے ہوئے کسی Gate Crasher گمنام اجنبی کی لاش کو آنٹ فیروزہ ہوشنگ سمجھیں۔ اتفاق سے وہ بدقسمت اجنبی ہوشنگ کا ہم شکل تھا۔۔۔ آنٹ فیروزہ نے فوراً ایک آرٹسٹ بلوا کر جلد از جلد اس کا ڈیتھ ماسک بنوایا۔۔۔ پھر لاش کی آخری رسوم ادا کی گئیں۔۔۔ اخباروں میں چھپا کہ مسٹر ہوشنگ سروشیار مرزا اس خوف ناک آتش زدگی میں نہایت ٹریجک طور سے۔۔۔ جب وہ دھڑا دھڑ جلتے عالیشان ایوانِ نشست سے بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔۔ (اور میزبان خاتون اور سارے مہمان اور ملازم بخیریت نکلنے میں کامیاب رہے تھے۔)۔۔۔ جلتے ہوئے مخملیں پردوں کے انبار میں پھنس کر جاں بحق تسلیم۔۔۔
ہومائے: (انگلی اٹھا کر رازدارانہ انداز میں) لیکن مجھے اور روڈی کو اصلیت معلوم ہے۔ وہ خبر غلط تھی۔ دنیا کو دھوکا ہوا۔۔۔ آنٹ فیروزہ کو دھوکا ہوا۔۔۔ وہ اسی وہم میں مبتلاہیں کہ ہوشنگ اس خوف ناک رات جل کر بھسم ہوگیا۔
رودابہ: ان کا محل نما بنگلہ راکھ ہوچکا تھا۔۔۔ اور ہم لوگوں کے سوا ان کا کوئی رشتہ دار زندہ نہ تھا۔۔۔ ہوشنگ سے بیاہ کرنے کے بعد وہ پچھلے بیس برس سے ہم سے قطع تعلق کرچکی تھیں۔۔۔ مگر اس نازک وقت میں ہم دونوں اظہار افسوس کے لیے سیڑھیاں اتر کر راکھ کے ڈھیر پر پہنچے۔۔۔ وہ املتاس کے نیچے ایک ادھ جلی کرسی پر خاموش بیٹھی تھیں۔۔۔ چاروں طرف ان کا آتش زدہ بیش قیمت سازو سامان بکھرا پڑا تھا۔۔۔ ڈیتھ ماسک ان کی گود میں رکھا تھا اور اس وقت وہ تقدیر کی خوف ناک دیبی معلوم ہو رہی تھیں۔
ہومائے: لیکن آخری قہقہہ ہمارا تھا۔ ہم نے بحیثیت رشتہ دار ان سے درخواست کی کہ وہ ہمارے یہاں آجائیں۔ آنٹ فیروزہ اپنے تکبر اور نخوت کے لیے مشہور تھیں۔ انہوں نے مغرور شعلہ بار نگاہوں سے ہمیں دیکھا پھر ڈیتھ ماسک کی طرف اشارہ کر کے اپنی شاہانہ جھرجھری آواز میں آہستہ سے بولیں، ’’ہومائے۔۔۔ رودابہ۔۔۔ یہ بدنصیب مجھ سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش میں جس لمحے ’’ ہیپی برتھ ڈے‘‘ گاتے مہمانوں کی بھیڑ کے پیچھے چھپ کرموم بتی کی لو سے پردے کو آگ لگا رہا تھا میں نے اسے دیکھ لیا تھا۔۔۔ مگر اب بھی اسے نجات نہیں ملی۔ اس کی رواں نکلتے نکلتے اپنے پیچھے اپنے نقوش چھوڑ گئی ہے۔۔۔‘‘ انہوں نے ڈیتھ ماسک اوپر اٹھایا پھر گود میں رکھ لیا اور خاموش ہوگئیں۔
رودابہ: اس کے بعد وہ مع اس ڈیتھ ماسک اور باقی ماندہ سامان کےچپ چاپ ہمارے یہاں دوسری منزل پرمنتقل ہوگئیں۔۔۔ ہمارے ساتھ تعلقات حسب معمول منقطع۔۔۔ ہر ماہ کی پہلی تاریخ کوکرائے کی رقم کا لفافہ دروازے کی دراز میں سے اندر سرکا دیتی ہیں۔
ہومائے: کچھ عرصے بعد وہ موت کا چہرہ بھی ان کے بیڈ روم سے چوری ہوگیا۔۔۔ وہ عبادت کے لیے آتش کدہ گئی ہوئی تھیں۔۔۔ واپس آئیں تو چہرہ غائب۔ اس کے بعد سے وہ بالکل باؤلی ہوچکی ہیں( زور سے ہنستی ہے) داراب! میرا ہوشنگ بہت چالاک ہے۔۔۔ وہ بھیس بدل کر کولابہ میں مقیم ہے۔ اپنی شامیں ولنگڈن کلب میں گزارتا ہے۔۔۔ سنیچر کی رات کو چپکے سے آکر ہمارے ساتھ کھانا کھاتا ہے اور پھر کولابہ واپس چلا جاتا ہے۔ آج سنیچر کی رات ہے۔۔۔ (ککو کلاک کی چڑیا سیٹی بجاتی ہے۔۔۔ کو کو۔ کوکو۔ کوکو) لودہ آگیا۔
(ہومائے فوراً باہر جاتی ہے۔۔۔ رودابہ پیانو کا اسٹول گھما کر تیزی سے ’’ویڈنگ مارچ‘‘ بجانا شروع کردیتی ہے۔ چند منٹ بعد ہومائے ایک وھیل چیر ڈھکیلتی کمرے میں داخل ہوتی ہے۔ کرسی پر ایک مومی پتلا سیاہ سوٹ پہنے بیٹھا ہے۔ اس کے سفید مومی ہاتھ دونوں گھٹنوں پر رکھے ہیں جیسے پہلے زمانے میں لوگ تصویر کھنچواتے وقت رکھتے تھے۔ پتلے کی گردن پر خوبرو آنجہانی ہوشنگ سروشیار مرزا کا ڈیتھ ماسک فٹ کردیا گیا ہے۔ مرحوم کا مرتے وقت کا استہزائیہ تبسم پلاسٹر آف پیرس میں خوف ناک انداز میں منجمد ہے)
(خانم گلچہر اسفند یاری اور آغائے داراب کاظم زادہ دہشت زدہ ہوکر چیختے ہیں: یا علی۔۔۔!)
(دونوں اٹھ کر بھاگتے ہیں۔ بائیں دروازے سے سر پٹ باہر نکل جاتے ہیں۔ رودابہ پیانو کے پردوں پر سرجھکائے جوش و خروش سے ’’ویڈنگ مارچ‘‘ بجا رہی ہے۔ ہومائے پتلے کے گلے میں نیپکن باندھتی ہے۔ سائیڈ بورڈ پر رکھے شمع دان میں موم بتیاںجلانے کے بعد شمع دان ڈائننگ ٹیبل کے وسط میں لاکر رکھ دیتی ہے اور بجلی کی روشنی کا سوئچ آف کرتی ہے۔)
ہومائے: (صوفے اور پیانو کی طرف سے پشت کیے پتلے کے سامنے گلاس رکھتے ہوئے) گلچہر۔ داراب ڈنراز سروڈ۔۔۔ مجھے امریکنوں کا یہ رواج بہت پسند ہے۔ موم بتیوں کی روشنی میں طعام شب۔۔۔ اس قدر رومینٹک۔۔۔
(رودابہ فوراً پیانو پر Faery waltz بجاناشروع کردیتی ہے۔ ہومائے پُتلے کے سامنے ڈونگے چنتی ہے۔۔۔ اب رودابہ Moonlight sonata بجانے میں مصروف ہے۔ چند منٹ بعد وہ اٹھ کر میز کی سمت آتی ہے۔ دونوں بہنیں آمنے سامنے کرسیوں پر بیٹھتی ہیں۔ بیچ میں پتلا اپنی وہیل چیر پر ذرا سا ترچھا ہوگیا ہے۔ تینوں کی پرچھائیاں شمعوں کی روشنی میں دیوار پر پھیل گئی ہیں۔)
ہومائے اور رودابہ سر جھکا کر ایک ساتھ دعائے طعام پڑھتی ہیں۔ اتا بزما میدے۔۔۔ اہرمزد۔۔۔ جس نے گاؤ اناج درختوں اور آب کی تخلیق کی۔۔۔ ہر لقمے کے ساتھ خرداد۱۲ اور مرداد ۱۳ کی برکت نازل ہو۔ اور یہ کھانا نوش (۱۴) کی مانند ہو اور عقل اور ذہانت عطا کرے۔ گنہ شکستہ صد ہزار بار۔۔۔
ہومائے: (سر اٹھا کر صوفے کی طرف مڑتی ہے) داراب۔۔۔ گلچہر۔۔۔ آؤ۔۔۔ ارے۔۔۔ یہ دونوں کہاں چلے گیے۔
رودابہ: (چونک کر) چلے گئے (رک کر) اب مجھے ان کے متعلق شبہہ ہو رہا ہے۔ آخر یہ دونوں تھے کون۔۔۔
ہومائے: نیور مائنڈ۔۔۔ کوئی پاگل لوگ تھے۔ کھانے کے لیے اتنا روکا اور اس آندھی اور طوفان میں نکل بھاگے۔۔۔ کریزی فارنرز۔
رودابہ: ہاں۔۔۔ آج کل پاگلوں کی دنیا میں کمی نہیں۔ نہ جانے کیسے کیسے خبط الحواس آجاتے ہیں ہمارا وقت ضائع کرنے۔ (اچانک خوف ناک قہقہہ لگا کر) اچانک غائب۔۔۔ بھوت تو نہیں تھے۔۔۔؟
ہومائے: کریزی فارنرز۔۔۔ پاگل۔۔۔ خیر۔۔۔ ہوشنگ ڈیر۔۔۔ یہ سوپ لو۔ (چمچے سے سوپ نکال کر ڈیتھ ماسک کے ہونٹوں تک لے جاتی ہے۔ موت کا چہرہ اپنی لرزہ خیز منجملہ مسکراہٹ کے ساتھ بھیانک زاویئے سے پلیٹ پر جھک آتا ہے۔ باہر بارش اور طوفان بڑھتا جارہا ہے۔ بلیوں کے رونے کی آواز، بجلی کی چمک، سمندر کی گرج۔ دریچے میں سے ہوا کا جھونکا اندر آتا ہے جس کی وجہ سے موم بتیاں جھلملا کر بجھ جاتی ہیں۔ اسٹیج پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اس تاریکی میں ہومائے اور رودابہ باری باری چمچوں سے ڈیتھ ماسک کے منہ پر سوپ انڈیل رہی ہیں۔ (پردہ آہستہ آہستہ گرتا ہے)
(۱) قادر (۲) علیم (۳) مالک کائنات (۴) حضرت زرتشت (۵) ایک فرشتہ (۶) اوستا، پہلوی، پوہر فرانسی، پون (۷) موسم بہار میں تیار کیا ہوا مکھن۔ (۸) ایک مددگار رہبر فرشتہ۔ (۹) شوہر (۱۰) بیوی (۱۱) ماشااللہ (۱۲) فرشتوں کے نام (۱۵) شہد۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.