آم
’’یہ ایک ایسےبوڑھے پنشن یافتہ منشی کی کہانی ہے جو اپنی پنشن کے سہارے اپنے خاندان کی پرورش کر رہا ہے۔ اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے اس کی امیر لوگوں سے بھی جان پہچان ہے۔ لیکن ان امیروں میں دو لوگ ایسے بھی ہیں جو اسے بہت عزیز ہیں۔ ان کے لیے وہ ہر سال آم کے موسم میں اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف آم کے ٹوکرے بھجواتا ہے۔ مگر اس بار کی گرمی اتنی بھیانک تھی کہ وہ برداشت نہ کر سکا اور اس کی موت ہو گئی۔ اس کے مرنے کی اطلاع جب ان دونوں امیرزادوں کو دی گئی تو دونوں نے ضروری کام کا بہانہ کر کے اس کے گھر آنے سے انکار کر دیا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
اولاد
یہ اولاد نہ ہونے کے غم میں پاگل ہو گئی ایک عورت کی کہانی ہے۔ زبیدہ کی شادی کے بعد ہی اس کے والد کی موت ہو گئی تو وہ اپنی ماں کو اپنے گھر لے آئی۔ ماں بیٹی ایک ساتھ رہنے لگیں تو ماں کو فکر ہوئی کہ اس کی بیٹی کو ابھی تک بچہ کیوں نہیں ہوا۔ بچہ کے لیے ماں نے بیٹی کا ہر طرح کا علاج کرایا، پر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ماں دن رات اسے اولاد نہ ہونے کے طعنے دیتی رہتی ہے تو اس کا دماغ چل جاتا ہے اور ہر طرف اسے بچے ہی نظر آنے لگتے ہیں۔ اس کی اس دیوانگی کو دیکھ کر اس کا شوہر ایک نوزائیدہ کو اس کی گود میں لاکر ڈال دیتا ہے۔ جب اس کے لیے اس کی چھاتیوں سے دودھ نہیں اترتا ہے تو وہ استرے سے اپنی چھاتیوں کو کاٹ ڈالتی ہے جس سے اس کی موت ہو جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
لال ٹین
اس افسانے میں مصنف نے اپنے کشمیر دورے کے کچھ یادگار لمحوں کا ذکر کیا ہے۔ حالانکہ مصنف کو یقین ہے کہ وہ ایک اچھا قصہ گو نہیں ہے اور نہ ہی اپنی یادوں کو ٹھیک سے بیان کر سکتا ہے۔ پھر بھی بٹوت (کشمیر) میں گزارے ہوئے اپنے ان لمحوں کو وہ بیان کئے بغیر نہیں رہ پاتا، جن میں اس کی وزیر نام کی لڑکی سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات کے سبب وہ اپنے دوستوں میں کافی بدنام بھی ہوا تھا۔ وزیر ایسی لڑکی تھی کہ جب مصنف اپنے دوست کے ساتھ رات کو ٹہلنے نکلتا تھا تو سڑک کے کنارے انہیں راستہ دکھانے کے لیے لالٹین لیکر کھڑی ہو جاتی تھی۔
سعادت حسن منٹو
کتبہ
شریف حسین ایک کلرک ہے۔ ان دنوں اس کی بیوی میکے گئی ہوتی ہے۔ وہ ایک دن شہر کے بازار جا پہنچتا ہے اور وہاں نہ چاہتے ہوئے بھی ایک سنگ مرمر کا ٹکڑا خرید لیتا ہے۔ ایک روز وہ سنگ تراش کے پاس جاکر اس سنگ مر مر کے ٹکڑے پر اپنا نام کندہ کرا لیتا ہے کہ جب اس کی ترقی ہو جائے گی تو وہ اپنا گھر خریدے گا اور اپنے مکان پر یہ نیم پلیٹ لگائےگا۔ عمر بیت جاتی ہے لیکن اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہوتی۔ بالآخر یہ کتبہ اس کا بیٹا اس کی قبر پر لگوا دیتا ہے۔
غلام عباس
پالی ہل کی ایک رات
ڈرامے کی شکل مٰیں لکھا گیا ایک ایسا افسانہ ہے جس کے سارے کردار علامتی ہیں۔ افراد خانہ جب عبادت کی تیاری میں مصروف تھا جبھی بارش میں بھیگتا ہوا ایک غیر ملکی جوڑا دروازے پر دستک دیتا ہے اور اندر چلا آتا ہے۔ بات چیت سے پتہ چلتا ہے کہ نو وارد کا تعلق ایران سے ہے۔ اس کے بعد واقعات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو سب کچھ بدل کر رکھ دیتا ہے۔
قرۃالعین حیدر
دیوالی کے دیے
اس کہانی میں انسان کی امیدیں اور آرزویں پوری نہ ہونے کا بیان ہے۔ چھت کی منڈیر پر دیے جل رہے ہیں۔ ایک چھوٹی بچی، ایک جوان، ایک کمہار، ایک مزدور اور ایک فوجی یکے بعد دیگرے آتے ہیں۔ سب اپنی اپنی فکروں میں غلطاں ہیں، دیے سب کو چپ چاپ دیکھتے ہیں اور پھر ایک ایک کرکے بجھ جاتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
مس اڈنا جیکسن
یہ ایک کالج کی ایسی معمر پرنسپل کی کہانی ہے، جس نے اپنی طالبہ کے دوست سے ہی شادی کر لی تھی۔ جب وہ کالج میں آئی تو طالبات نے اسے بالکل منہ نہیں لگایا تھا۔ حالانکہ اپنے اخلاق اور خلوص کی وجہ سے وہ جلدی ہی اپنی طالبات کے درمیان مقبول ہو گئی تھی۔ اسی اثنا اسے ایک لڑکی کی محبت کے بارے میں پتہ چلا، جو ایک لیکچرر سے پیار کرتی تھی۔ لڑکی کی پوری داستان سننے کے بعد پرنسپل نے لیکچرر کو اپنے گھر بلایا اور خود سے آدھی عمر کے اس نوجوان لیکچرر کے ساتھ شادی کر لی۔
سعادت حسن منٹو
منظور
’’اپنی بیماری سے بہادری کے ساتھ لڑنے والے ایک مفلوج بچے کی کہانی۔ اختر کو جب دل کا دورہ پڑا تو اسے اسپتال میں بھرتی کرایا گیا۔ وہاں اس کی ملاقات منظور سے ہوئی۔ منظور کے جسم کا نیچے کا حصہ بالکل بیکار ہو گیا تھا۔ پھر بھی وہ پورے وارڈ میں سب کی خیریت پوچھتا رہتا۔ ہر کسی سے بات کرتا۔ ڈاکٹر، نرس بھی اس سے بہت خوش تھے۔ حالانکہ اس کی حالت میں کوئی بہتری نہیں ہو سکتی تھی۔ اس کے ماں باپ کے اصرار پر ڈاکٹروں نے اپنے یہاں داخل کر لیا تھا۔ اختر منظور سے بہت متاثر ہوا۔ جب اس کی چھٹی کا دن قریب آیا تو ڈسچارج ہونے سے پہلے کی رات کو ہی منظور کا انتقال ہو گیا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
مسٹر حمیدہ
یہ کہانی ایک ایسی عورت کی ہے جس کے چہرے پر مردوں کی طرح داڑھی کے بال ہیں۔ راشد نے اسے پہلی بار بس سٹینڈ پر دیکھا تھا اور وہ اسے دیکھ کر اتنا حیران ہوا تھا کہ اس کے ہوش و حواس ہی گم ہو گئے تھے۔ دوسری بار اس نے اسے کالج میں دیکھا تھا۔ کالج میں لڑکے اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور داڑھی کی وجہ سے انہوں نے اس کا نام مسٹر حمیدہ رکھ دیا تھا۔ راشد کو لڑکوں کی یہ حرکتیں بہت ناپسند تھیں۔ اس نے حمیدہ سے دوستی کرنی چاہی، لیکن حمیدہ نے انکار کر دیا۔ ایک بار حمیدہ بیمار پڑی تو اس نے اپنی شیو کرانے کے لیے راشد کو بلا بھیجا اور اس طرح وہ دونوں دوست ہو کر ایک رشتہ میں بندھ گئے۔
سعادت حسن منٹو
ماہی گیر
اس میں ایک غریب مچھوارے میاں بیوی کے جذبۂ ہمدردی کو بیان کیا گیا ہے۔ مچھوارے کے پانچ بچے ہیں اور وہ رات بھر سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر بڑی مشکل سے گھر کا خرچ چلاتا ہے۔ ایک رات اس کی پڑوسن بیوہ کا انتقال ہو جاتا ہے۔ ماہی گیر کی بیوی اس کے دونوں بچوں کو اٹھا لاتی ہے۔ صبح ماہی گیر کو اس حادثہ کی اطلاع دیتی ہے اور بتاتی ہے کہ دو بچے اس کی لاش کے برابر لیٹے ہوئے ہیں تو ماہی گیر کہتا ہے پہلے پانچ بچے تھے اب سات ہو گئے۔ جاؤ انہیں لے آو۔ ماہی گیر کی بیوی چادر اٹھا کر دکھاتی ہے کہ وہ دونوں بچے یہاں ہیں۔
سعادت حسن منٹو
میرا ہم سفر
’’علیگڑھ سے امرتسر لوٹتے ہوئے ایک ایسے طالب علم کی کہانی ہے جو ٹرین میں سوار ہوا تو اسے الوداع کہنے آئے اس کے ایک ساتھی نے اس سے کوئی ایسی بات کہی کہ اس نے اسے پاگل کہہ کر جھٹک دیا۔ ٹرین میں اس کے ساتھ سفر کر رہے نوجوان نے سوچا کہ وہ اسے پاگل کہہ رہا ہے۔ بات کرنے پر پتہ چلا کہ وہ نوجوان اپنے گھر سے صرف اس لیے نکل آیا ہے کیونکہ اس کا یہودی باپ اسے پاگل کہتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کی بیوی بھی اسے چھوڑکر اپنے مائکے چلی جاتی ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
شیدا
’’یہ امرتسر کے ایک مشہور غنڈے کی اپنی غیرت کے لیے ایک پولیس والے کا قتل کر دینے کی کہانی ہے۔ شیدا کا اصول تھا کہ جب بھی لڑو دشمن کے علاقے میں جاکر لڑو۔ وہ لڑائی بھی اس نے پٹرنگوں کے محلے میں جاکر کی تھی، جس کے لیے اسے دو سال کی سزا ہوئی تھی۔ اس لڑائی میں پٹرنگوں کی ایک لڑکی اس پر فدا ہو گئی تھی۔ جیل سے چھوٹنے پر جب وہ اس سے شادی کی تیاری کر رہا تھا تو ایک پولس والے نے اس لڑکی کا ریپ کرکے اس کا خون کر دیا۔ بدلے میں شیدا نے اس پولیس والے کا سر کلہاڑی سے کاٹ کر دھڑ سے الگ کر دیا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
مسز ڈی کوسٹا
یہ ایک ایسی عیسائی عورت کی کہانی ہے، جسے اپنی پڑوسن کے حمل سے بہت زیادہ دلچسپی ہے۔ حاملہ پڑوسن کے دن پورے ہو چکے ہیں، پر بچہ ہے کہ پیدا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ مسز ڈکوسٹا ہر روز اس سے بچہ کی پیدائش کے بارے میں پوچھتی ہے۔ ساتھ ہی اسے پورے محلے کی خبریں بھی بتاتی جاتی ہے۔ ان دنوں دیش میں شراب بندی قانون کی مانگ بڑھتی جا رہی تھی، جس کی وجہ سے مسز ڈکوسٹا بہت پریشان تھی۔ اس کے باوجود وہ اپنی حاملہ پڑوسن کا بہت خیال کرتی ہے۔ ایک دن اس نے پڑوسن کو گھر بلایا اور اس کا پیٹ دیکھ کر بتایا کہ بچہ کتنے دنوں میں اور کیا (لڑکا یا لڑکی) پیدا ہوگا۔
سعادت حسن منٹو
ڈھارس
’’یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جسے شراب پینے کے بعد عورت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس دن وہ اپنے ایک ہندو دوست کی بارات میں گیا ہوا تھا۔ وہاں بھی پینے پلانے کا دور چلا۔ کسی نے بھی اس کی اس عادت کو قابل توجہ نہیں سمجھا۔ وہ پینے کے بعد چھت پر چلا گیا۔ وہاں اندھیرے میں لیٹی ایک انجان لڑکی کے ساتھ جاکر وہ سو گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ دلہن کی بیوہ بہن تھی۔ اس کی اس نازیبا حرکت پر وہ مسلسل رو رہی تھی۔ پھر لوگوں کے سمجھانے بجھانے پر وہ مان جاتی ہے اور کسی سے کچھ نہیں کہتی۔‘‘
سعادت حسن منٹو
مراسلہ
اس افسانہ میں ایک قدامت پسند گھرانے کی روایات، آداب و اطوار اور طرز رہائش میں ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر ہے، افسانہ کے مرکزی کردار کے گھر سے اس گھرانے کے گہرے مراسم ہوا کرتے تھے لیکن وقت اور مصروفیت کی دھول اس تعلق پر جم گئی۔ ایک طویل عرصے کے بعد جب واحد متکلم اس گھر میں کسی کام سے جاتا ہے تو ان کے طرز زندگی میں آنے والی تبدیلیوں پر حیران ہوتا ہے۔
نیر مسعود
دور کا نشانہ
افسانہ ایک ایسے منشی کی داستان کو بیان کرتا ہے جو اپنی ہر خواہشات کو بصد شوق پورا کرنے کا قائل ہے۔ اس کا کامیاب کاروبار ہے اور چوک جو کہ بازار حسن ہے، تک بھی آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ایسے میں اس کی ملاقات ایک طوائف سے ہو جاتی ہے۔ ایک روز وہ طوائف کے ہاں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک پولیس والے نے اس کے آدمی کے ساتھ مارپیٹ کرلی۔ طوائف چاہتی ہے کہ منشی باہر جائے اور وہ اس پولیس والے کو سبق سکھائے، لیکن منشی جی کی سرد مہری دیکھ کر وہ ان سے خفا ہو جاتی ہے۔
چودھری محمد علی ردولوی
عشق بالواسطہ
افسانے میں ایک بے میل محبت کی عکاسی کی گئی ہے جس میں سیاست، فلسفہ اور اس کے ساتھ ہی مرد کی زندگی میں عورت کی مداخلت پر تبصرہ ہے۔ ایک پارٹی سے واپس آنے کے بعد وہ دونوں جج صاحب کے ہاں تشریف لے گیے، وہاں جج صاحب تو نہیں ملے لیکن ایک نئی خاتون ضرور ملی۔ وہ نظریاتی طور پر کمیونسٹ تھی، وہ اسکے ساتھ گھومنے نکل گئے۔ یہ تفریح ایک نظریات میں شامل ہونے کا اشارہ تھا۔