Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

جرأت قلندر بخش

1748 - 1809 | لکھنؤ, انڈیا

اپنی شاعری میں محبوب کے ساتھ معاملہ بندی کےمضمون کے لیے مشہور،نوجوانی میں بینائی سے محروم ہوگئے

اپنی شاعری میں محبوب کے ساتھ معاملہ بندی کےمضمون کے لیے مشہور،نوجوانی میں بینائی سے محروم ہوگئے

جرأت قلندر بخش کے اشعار

7.6K
Favorite

باعتبار

الٰہی کیا علاقہ ہے وہ جب لیتا ہے انگڑائی

مرے سینے میں سب زخموں کے ٹانکے ٹوٹ جاتے ہیں

مل گئے تھے ایک بار اس کے جو میرے لب سے لب

عمر بھر ہونٹوں پہ اپنے میں زباں پھیرا کیا

کیفیت محفل خوباں کی نہ اس بن پوچھو

اس کو دیکھوں نہ تو پھر دے مجھے دکھلائی کیا

احوال کیا بیاں میں کروں ہائے اے طبیب

ہے درد اس جگہ کہ جہاں کا نہیں علاج

بھری جو حسرت و یاس اپنی گفتگو میں ہے

خدا ہی جانے کہ بندہ کس آرزو میں ہے

لب خیال سے اس لب کا جو لیا بوسہ

تو منہ ہی منہ میں عجب طرح کا مزا آیا

سبھی انعام نت پاتے ہیں اے شیریں دہن تجھ سے

کبھو تو ایک بوسے سے ہمارا منہ بھی میٹھا کر

اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی

اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی

ہیں لازم و ملزوم بہم حسن و محبت

ہم ہوتے نہ طالب جو وہ مطلوب نہ ہوتا

آنکھ اٹھا کر اسے دیکھوں ہوں تو نظروں میں مجھے

یوں جتاتا ہے کہ کیا تجھ کو نہیں ڈر میرا

دل وحشی کو خواہش ہے تمہارے در پہ آنے کی

دوانا ہے ولیکن بات کرتا ہے ٹھکانے کی

لگتے ہی ہاتھ کے جو کھینچے ہے روح تن سے

کیا جانیں کیا وہ شے ہے اس کے بدن کے اندر

کل اس صنم کے کوچے سے نکلا جو شیخ وقت

کہتے تھے سب ادھر سے عجب برہمن گیا

اللہ رے بھلاپا منہ دھو کے خود وہ بولے

سونگھو تو ہو گیا یہ پانی گلاب کیوں کر

جب تلک ہم نہ چاہتے تھے تجھے

تب تک ایسا ترا جمال نہ تھا

چاہ کی چتون مری آنکھ اس کی شرمائی ہوئی

تاڑ لی مجلس میں سب نے سخت رسوائی ہوئی

پوچھو نہ کچھ سبب مرے حال تباہ کا

الفت کا یہ ثمر ہے نتیجہ ہے چاہ کا

اک بوسہ مانگتا ہوں میں خیرات حسن کی

دو مال کی زکوٰۃ کہ دولت زیادہ ہو

رنجشیں ایسی ہزار آپس میں ہوتی ہیں دلا

وہ اگر تجھ سے خفا ہے تو ہی جا مل کیا ہوا

جہاں کچھ درد کا مذکور ہوگا

ہمارا شعر بھی مشہور ہوگا

رکھے ہے لذت بوسہ سے مجھ کو گر محروم

تو اپنے تو بھی نہ ہونٹوں تلک زباں پہنچا

غم مجھے ناتوان رکھتا ہے

عشق بھی اک نشان رکھتا ہے

چلی جاتی ہے تو اے عمر رفتہ

یہ ہم کو کس مصیبت میں پھنسا کر

بال ہیں بکھرے بینڈ ہیں ٹوٹے کان میں ٹیڑھا بالا ہے

جرأتؔ ہم پہچان گئے ہیں دال میں کالا کالا ہے

پیچھے پیچھے مرے چلنے سے رکو مت صاحب

کوئی پوچھے گا تو کہیو یہ ہے نوکر میرا

اس شخص نے کل ہاتوں ہی ہاتوں میں فلک پر

سو بار چڑھایا مجھے سو بار اتارا

چپکے چپکے روتے ہیں منہ پر دوپٹہ تان کر

گھر جو یاد آیا کسی کا اپنے گھر میں آن کر

جلدی طلب بوسہ پہ کیجے تو کہے واہ

ایسا اسے کیا سمجھے ہو تم منہ کا نوالا

ہجر میں مضطرب سا ہو ہو کے

چار سو دیکھتا ہوں رو رو کے

تا فلک لے گئی بیتابیٔ دل تب بولے

حضرت عشق کہ پہلا ہے یہ زینا اپنا

پیام اب وہ نہیں بھیجتا زبانی بھی

کہ جس کی ہونٹوں میں لیتے تھے ہم زباں ہر روز

میں تو حیراں ہوں مطب ہے کہ در یار ہے یہ

یاں تو بیمار پہ بیمار چلے آتے ہیں

کیا کیا کیا ہے کوچہ بہ کوچہ مجھے خراب

خانہ خراب ہو دل خانہ خراب کا

آنکھ لگتی نہیں جرأتؔ مری اب ساری رات

آنکھ لگتے ہی یہ کیسا مجھے آزار لگا

مثل مجنوں جو پریشاں ہے بیابان میں آج

کیوں دلا کون سمایا ہے ترے دھیان میں آج

جو آج چڑھاتے ہیں ہمیں عرش بریں پر

دو دن کو اتاریں گے وہی لوگ زمیں پر

جلد خو اپنی بدل ورنہ کوئی کر کے طلسم

آ کے دل اپنا ترے دل سے بدل جاؤں گا

آج گھیرا ہی تھا اسے میں نے

کر کے اقرار مجھ سے چھوٹ گیا

شب خواب میں جو اس کے دہن سے دہن لگا

کھلتے ہی آنکھ کانپنے سارا بدن لگا

بوسے گر ہم نے لیے ہیں تو دیے بھی تم کو

چھٹ گئے آپ کے احساں سے برابر ہو کر

بن دیکھے اس کے جاوے رنج و عذاب کیوں کر

وہ خواب میں تو آوے پر آوے خواب کیوں کر

شب ہجر تھی اور میں رو رہا تھا

کوئی جاگتا تھا کوئی سو رہا تھا

لاش کو میری چھپا کر اک کنویں میں ڈال دو

یارو میں کشتہ ہوں اک پردہ نشیں کی چاہ کا

تجھ سا جو کوئی تجھ کو مل جائے گا تو باتیں

میری طرح سے تو بھی چپکا سنا کرے گا

مجھ مست کو کیوں بھائے نہ وہ سانولی صورت

جی دوڑے ہے میکش کا غذائے نمکیں پر

آیا تھا شب کو چھپ کے وہ رشک چمن سو آہ

پھیلی یہ گھر میں بو کہ محلہ مہک گیا

واں سے آیا ہے جواب خط کوئی سنیو تو ذرا

میں نہیں ہوں آپ میں مجھ سے نہ سمجھا جائے گا

ہے عاشق و معشوق میں یہ فرق کہ محبوب

تصویر تفرج ہے وہ پتلا ہے الم کا

میرے مرنے کی خبر سن کر لگا کہنے وہ شوخ

دل ہی دل میں اپنے کچھ کچھ سوچ کر اچھا ہوا

بعد مدت وہ دیکھ کر بولا

کس نے یاں خاک کا یہ ڈھیر رکھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے