پان پر اشعار
پان ہندوستانی تہذیب
کا ایک اہم حصہ رہا ہے ۔ اس کے کھانے اور کھلانے سے سماجی زندگی میں میل جول اور یگانگت کی قدریں وابستہ ہیں لیکن شاعروں نے پان کو اور بھی کئی جہتوں سے برتا ہے ۔ پان کی لالی اور اس کی سرخی ایک سطح پر عاشق کے خون کا استعارہ بھی ہے ۔ معشوق کا منھ جو پان سے لال رہتا ہے وہ دراصل عاشق کے خون سے رنگین ہے ۔ شاعرانہ تخیل کے پیدا کئے ہوئے ان مضامین کا لطف لیجئے ۔
بہت سے خون خرابے مچیں گے خانہ خراب
یہی ہے رنگ اگر تیرے پان کھانے کا
کاجل مہندی پان مسی اور کنگھی چوٹی میں ہر آن
کیا کیا رنگ بناویگی اور کیا کیا نقشے ڈھالے گی
آئے بھی تو کھائے نہ گلوری نہ ملا عطر
روکی مری دعوت مجھے مہماں سے گلا ہے
کیا ہے مجھے دیتے ہو گلوری
چونے میں کہیں نہ سنکھیا ہو
مرے قتل پر تم نے بیڑا اٹھایا
مرے ہاتھ کا پان کھایا تو ہوتا
تھا بہت ان کو گلوری کا اٹھانا مشکل
دست نازک سے دیا پان بڑی مشکل سے
لگاوٹ کی ادا سے ان کا کہنا پان حاضر ہے
قیامت ہے ستم ہے دل فدا ہے جان حاضر ہے
اٹھایا اس نے بیڑا قتل کا کچھ دل میں ٹھانا ہے
چبانا پان کا بھی خوں بہانے کا بہانہ ہے
پان بن بن کے مری جان کہاں جاتے ہیں
یہ مرے قتل کے سامان کہاں جاتے ہیں
خون عشاق ہے معانی میں
شوق سے پان کھائیے صاحب
ہاتھ میں لے کر گلوری مجھ کو دکھلا کر کہا
منہ تو بنوائے کوئی اس پان کھانے کے لیے
کب پان رقیبوں کو عنایت نہیں ہوتے
کس روز مرے قتل کا بیڑا نہیں اٹھتا
تشریح
یہ شعر اپنے تلازمات کی وجہ سے کافی دلچسپ ہے۔ مضمون روایتی ہے مگر طرزِ بیان نے اس میں جان ڈال دی ہے۔ پان اور بیڑا ہم معنی ہیں۔ مگر شاعر کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے پان کی مناسبت سے بیڑا اٹھانا استعمال کرکے شعر میں لطف کا عنصر ڈال دیا ہے۔ بیڑا اٹھانا محاورہ ہے جس کے معنی ذمہ لینا، عہد لینا، آمادہ ہونا اور مستعد ہونا ہے۔ مضمون اس شعر کا یہ ہے کہ شاعر کا محبوب اس کے رقیبوں پر مہربان ہوکر انہیں پان عنایت کرتا ہے جس کی وجہ سے شاعر کو یہ احساس ہوتا ہے دراصل ایسا کرکے اس کا محبوب اسے قتل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس شعر میں عشق میں رقابت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی عاشق کی جلن بھی ہے اور محبوب کی عاشق کے تئیں بےاعتنائی بھی۔ یعنی شعری کردار اس بات پر شاکی ہے کہ اس کا محبوب اس کے رقیبوں کی طرف ملتفت ہوکر انہیں پان عنایت کرتا ہے اور ایسا کرکے جیسے اس نے اپنے عاشق کو قتل کرنے کا عہد کیا ہے۔
شفق سوپوری
گلوری رقیبوں نے بھیجی ہے صاحب
کسی اور کو بھی کھلا لیجئے گا
جبھی تو پان کھا کر مسکرایا
تبھی دل کھل گیا گل کی کلی کا
گر مزہ چاہو تو کترو دل سروتے سے مرا
تم سپاری کی ڈلی رکھتے ہو ناحق پان میں
پان کے ٹھیلے ہوٹل لوگوں کا جمگھٹ
اپنے تنہا ہونے کا احساس بھی کیا
آتے ہیں وہ کہیں سے تو اے مہرؔ قرض دام
چکنی ڈلی الاچی منگا پان چھالیا
سنا کے کوئی کہانی ہمیں سلاتی تھی
دعاؤں جیسی بڑے پان دان کی خوشبو
پان کھانے کی ادا یہ ہے تو اک عالم کو
خوں رلائے گا مری جاں دہن سرخ ترا
ہم نہ اٹھتے ہیں نہ وہ دیتے ہیں
ہاتھ میں پان ہے کیا مشکل ہے
ہونٹھوں میں داب کر جو گلوری دی یار نے
کیا دانت پیسے غیروں نے کیا کیا چبائے ہونٹھ
تمہارے لب کی سرخی لعل کی مانند اصلی ہے
اگر تم پان اے پیارے نہ کھاؤ گے تو کیا ہوگا
بالوں میں بل ہے آنکھ میں سرمہ ہے منہ میں پان
گھر سے نکل کے پاؤں نکالے نکل چلے
پان کھا کر جو اگال آپ نے تھوکا صاحب
جوہری محو ہوے لعل یمن یاد آیا
سدا پان کھا کھا کے نکلے ہے باہر
زمانے میں خوں خوار پیدا ہوا ہے
جب ہم کلام ہم سے ہوتا ہے پان کھا کر
کس رنگ سے کرے ہے باتیں چبا چبا کر
خون عشاق کا اٹھا بیڑا
بے سبب کب وہ پان کھاتا ہے