Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پان پر اشعار

پان ہندوستانی تہذیب

کا ایک اہم حصہ رہا ہے ۔ اس کے کھانے اور کھلانے سے سماجی زندگی میں میل جول اور یگانگت کی قدریں وابستہ ہیں لیکن شاعروں نے پان کو اور بھی کئی جہتوں سے برتا ہے ۔ پان کی لالی اور اس کی سرخی ایک سطح پر عاشق کے خون کا استعارہ بھی ہے ۔ معشوق کا منھ جو پان سے لال رہتا ہے وہ دراصل عاشق کے خون سے رنگین ہے ۔ شاعرانہ تخیل کے پیدا کئے ہوئے ان مضامین کا لطف لیجئے ۔

بہت سے خون خرابے مچیں گے خانہ خراب

یہی ہے رنگ اگر تیرے پان کھانے کا

عبدالرحمان احسان دہلوی

کاجل مہندی پان مسی اور کنگھی چوٹی میں ہر آن

کیا کیا رنگ بناویگی اور کیا کیا نقشے ڈھالے گی

نظیر اکبرآبادی

آئے بھی تو کھائے نہ گلوری نہ ملا عطر

روکی مری دعوت مجھے مہماں سے گلا ہے

امداد علی بحر

کیا ہے مجھے دیتے ہو گلوری

چونے میں کہیں نہ سنکھیا ہو

امداد علی بحر

مرے قتل پر تم نے بیڑا اٹھایا

مرے ہاتھ کا پان کھایا تو ہوتا

امداد علی بحر

تھا بہت ان کو گلوری کا اٹھانا مشکل

دست نازک سے دیا پان بڑی مشکل سے

ریاضؔ خیرآبادی

لگاوٹ کی ادا سے ان کا کہنا پان حاضر ہے

قیامت ہے ستم ہے دل فدا ہے جان حاضر ہے

اکبر الہ آبادی

اٹھایا اس نے بیڑا قتل کا کچھ دل میں ٹھانا ہے

چبانا پان کا بھی خوں بہانے کا بہانہ ہے

مردان علی خاں رانا

پان بن بن کے مری جان کہاں جاتے ہیں

یہ مرے قتل کے سامان کہاں جاتے ہیں

ظہیرؔ دہلوی

خون عشاق ہے معانی میں

شوق سے پان کھائیے صاحب

سخی لکھنوی

ہاتھ میں لے کر گلوری مجھ کو دکھلا کر کہا

منہ تو بنوائے کوئی اس پان کھانے کے لیے

لالہ مادھو رام جوہر

کب پان رقیبوں کو عنایت نہیں ہوتے

کس روز مرے قتل کا بیڑا نہیں اٹھتا

تشریح

یہ شعر اپنے تلازمات کی وجہ سے کافی دلچسپ ہے۔ مضمون روایتی ہے مگر طرزِ بیان نے اس میں جان ڈال دی ہے۔ پان اور بیڑا ہم معنی ہیں۔ مگر شاعر کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے پان کی مناسبت سے بیڑا اٹھانا استعمال کرکے شعر میں لطف کا عنصر ڈال دیا ہے۔ بیڑا اٹھانا محاورہ ہے جس کے معنی ذمہ لینا، عہد لینا، آمادہ ہونا اور مستعد ہونا ہے۔ مضمون اس شعر کا یہ ہے کہ شاعر کا محبوب اس کے رقیبوں پر مہربان ہوکر انہیں پان عنایت کرتا ہے جس کی وجہ سے شاعر کو یہ احساس ہوتا ہے دراصل ایسا کرکے اس کا محبوب اسے قتل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس شعر میں عشق میں رقابت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی عاشق کی جلن بھی ہے اور محبوب کی عاشق کے تئیں بےاعتنائی بھی۔ یعنی شعری کردار اس بات پر شاکی ہے کہ اس کا محبوب اس کے رقیبوں کی طرف ملتفت ہوکر انہیں پان عنایت کرتا ہے اور ایسا کرکے جیسے اس نے اپنے عاشق کو قتل کرنے کا عہد کیا ہے۔

شفق سوپوری

منیر  شکوہ آبادی

گلوری رقیبوں نے بھیجی ہے صاحب

کسی اور کو بھی کھلا لیجئے گا

واجد علی شاہ اختر

جبھی تو پان کھا کر مسکرایا

تبھی دل کھل گیا گل کی کلی کا

عبدالوہاب یکروؔ

گر مزہ چاہو تو کترو دل سروتے سے مرا

تم سپاری کی ڈلی رکھتے ہو ناحق پان میں

مصحفی غلام ہمدانی

پان کے ٹھیلے ہوٹل لوگوں کا جمگھٹ

اپنے تنہا ہونے کا احساس بھی کیا

عبد الرحیم نشتر

آتے ہیں وہ کہیں سے تو اے مہرؔ قرض دام

چکنی ڈلی الاچی منگا پان چھالیا

حاتم علی مہر

تیرے ہونٹھوں کے تئیں پان سے لال

دیکھ کر خون جگر کھاتا ہوں

نامعلوم

سنا کے کوئی کہانی ہمیں سلاتی تھی

دعاؤں جیسی بڑے پان دان کی خوشبو

بشیر بدر

پان کھانے کی ادا یہ ہے تو اک عالم کو

خوں رلائے گا مری جاں دہن سرخ ترا

مصحفی غلام ہمدانی

ہم نہ اٹھتے ہیں نہ وہ دیتے ہیں

ہاتھ میں پان ہے کیا مشکل ہے

حفیظ جونپوری

ہونٹھوں میں داب کر جو گلوری دی یار نے

کیا دانت پیسے غیروں نے کیا کیا چبائے ہونٹھ

اسد علی خان قلق

تمہارے لب کی سرخی لعل کی مانند اصلی ہے

اگر تم پان اے پیارے نہ کھاؤ گے تو کیا ہوگا

آبرو شاہ مبارک

بالوں میں بل ہے آنکھ میں سرمہ ہے منہ میں پان

گھر سے نکل کے پاؤں نکالے نکل چلے

امداد علی بحر

پان کھا کر جو اگال آپ نے تھوکا صاحب

جوہری محو ہوے لعل یمن یاد آیا

آغا اکبرآبادی

سدا پان کھا کھا کے نکلے ہے باہر

زمانے میں خوں خوار پیدا ہوا ہے

مصحفی غلام ہمدانی

جب ہم کلام ہم سے ہوتا ہے پان کھا کر

کس رنگ سے کرے ہے باتیں چبا چبا کر

میر تقی میر

خون عشاق کا اٹھا بیڑا

بے سبب کب وہ پان کھاتا ہے

میر کلو عرش

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے