ایک ہی شے تھی بہ انداز دگر مانگی تھی
میں نے بینائی نہیں تجھ سے نظر مانگی تھی
آئینہ کیسا تھا وہ شام شکیبائی کا
سامنا کر نہ سکا اپنی ہی بینائی کا
اب اپنے چہرے پر دو پتھر سے سجائے پھرتا ہوں
آنسو لے کر بیچ دیا ہے آنکھوں کی بینائی کو
رو رو کے لوگ کہتے تھے جاتی رہے گی آنکھ
ایسا نہیں ہوا، مری بینائی بڑھ گئی
عشق بینائی بڑھا دیتا ہے
جانے کیا کیا نظر آتا ہے مجھے
بینائی بھی کیا کیا دھوکے دیتی ہے
دور سے دیکھو سارے دریا نیلے ہیں
تیری بینائی کسی دن چھین لے گا دیکھنا
دیر تک رہنا ترا یہ آئنوں کے درمیاں
پل بھر میں کیسے لوگ بدل جاتے ہیں یہاں
دیکھو کہ یہ مفید ہے بینائی کے لئے
عین ممکن ہے کہ بینائی مجھے دھوکہ دے
یہ جو شبنم ہے شرارہ بھی تو ہو سکتا ہے
دھوپ چھاؤں کا کوئی کھیل ہے بینائی بھی
آنکھ کو ڈھونڈ کے لایا ہوں تو منظر گم ہے
زندگی کی ظلمتیں اپنے لہو میں رچ گئیں
تب کہیں جا کر ہمیں آنکھوں کی بینائی ملی
اپنی ہی جلوہ گری ہے یہ کوئی اور نہیں
غور سے دیکھ اگر آنکھ میں بینائی ہے
آنکھ بینائی گنوا بیٹھی تو
تیری تصویر سے منظر نکلا
میں جسے ہیر سمجھتا تھا وہ رانجھا نکلا
بات نیت کی نہیں بات ہے بینائی کی
یوں تو ہم اہل نظر ہیں مگر انجام یہ ہے
ڈھونڈتے ڈھونڈتے کھو دیتے ہیں بینائی تک