کہانی کی کہانی
یہ مذہب، روحانیت اور انسانیت کی ناگوار حالات کی کہانی ہے۔ یہ ایک ایسے دور افتادہ گاؤں کی کہانی ہے جہاں کے زیادہ تر لوگ غریب ہیں۔ اس گاؤں میں کھپریل کی ایک مسجد ہے۔ کہانی مسجد کے دوپیش اماموں کے گرد گھومتی ہے۔ پہلا امام نوکری چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو دھول کے غبار سے ایک دوسرا امام نمودار ہوتا ہے۔ شروع میں تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہتا ہے، پھر گاؤں میں عجیب و غریب واقعات پیش آنے لگتے ہیں۔ نیا امام جو کچھ بھی پیشن گوئی کرتا ہے وہ سچ ثابت ہوتا ہے، اور اس کی بد دعاؤں سے سارا گاؤں پریشان ہو جاتا ہے ۔دوسری طرف خود پیش امام معاشی بدحالی کا شکار ہے۔اس کی بیوی کے مردہ بچہ پیدا ہوتا ہے اور متواتر بھوک سے پریشان ہو کر بیوی پیش امام کو چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے۔ ایک دن لوگ دیکھتے ہیں کہ پیش امام نے مسجد کے چھپر کو آگ لگا دی ہے۔
’’ ایسا نہیں ہے کہ خدا کی ذات میں میرا یقین نہیں ہے۔ میں تو صرف بہت ہی احترام کے ساتھ ان کا دیا ہوا ٹکٹ انھیں واپس لوٹا رہا ہوں۔‘‘ آئیوان کارامازوو
(دوستوئفسکی کے ناول کا ایک کرادار)
محرابوں والا دقیانوسی پل سنسان پڑا تھا۔ اس پر آخری ٹرین کو گذرے آدھا گھنٹہ سے زیادہ ہو چکا تھا۔پل سے نصف فرلانگ دور ایک بوڑھا اپنی پیوند لگی چھتری اور اردو اخبار کے ساتھ، جسے وہ صبح سے شام تک پڑھا کرتا ایک ٹیلے پر بیٹھا نیچے ڈھال کی طرف تاک رہا تھا جہاں اس کی بکریاں گھاس چر رہی تھیں۔ نیچے جہاں کھیت شروع ہو گئے تھے ایک ٹیلی گراف پول کے نیچے سوکھی جھاڑیوں سے گھرا ہوا منحنی سا پوکھر تھا جس کے کنارے ایک نو سال کا بچہ سفید نیکر اور آدھی آستین والی عنابی رنگ کی ٹی شرٹ پہنے ایڑیوں کے بل بیٹھا مٹی پر کچھ کر رہا تھا۔ جاڑا ختم ہو رہا تھا مگر رات ہلکی بارش ہو جانے کے سبب ہوا میں خنکی آ گئی تھی جو دھوپ کی تمازت میں آرامدہ لگ رہی تھی۔ پوکھر میں بہت کم پانی رہ گیا تھا جس پر بچھے کنول کے پتوں پر پانی کے قطرے موتی کی طرح ڈول رہے تھے۔
’’یہ تم وہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ بوڑھے نے چلا کر کہا۔ ’’تمہاری بکریوں کو اچھی گھاس نہیں مل رہی ہے۔‘‘
’’میں چیونٹیوں کے ساتھ کھیل رہا ہوں دادا۔‘‘
’’کالی کہ لال؟‘‘
’’لال!‘‘
بوڑھے نے آسمان پر نظر دوڑائی جس کے نیلے پن میں جگہ جگہ سفید دھاریاں پڑی ہوئی تھیں جیسے بادلوں کے کچھ تراشے وہاں رہ گئے ہوں۔ سورج مشرقی آسمان پر کافی اوپر آ گیا تھا اور اس طرح تمتما رہا تھا جیسے آج وہ زمین کے زیادہ سے زیادہ حصے پر اپنی روشنی پھیلانے پر بضد ہو۔’’تم انھیں چھوٹی چیز سمجھنے کی غلطی نہ کرو بچے۔۔۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔ ’’لال چیونٹیاں خطرناک ہوتی ہیں۔ یہ سارا علاقہ ان چیونٹیوں سے بھرا پڑا ہے۔‘‘
’’میں انھیں سبق سکھانا چاہتا ہوں۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا اور اپنی چھوٹی چھوٹی مضبوط ٹانگوں سے چھلانگ لگاتا ہوا بوڑھے کے پاس آ گیا۔ اس کے ہات میں پلاسٹک کی ایک چھوٹی شیشی تھی جس کے اندر اس نے چیونٹیاں جمع کر رکھی تھیں۔
’’یہ تم نے کہاں سے سیکھا؟ ‘‘بوڑھے نے شیشی اس کے ہات سے لیتے ہوئے کہا جواندر کلبلاتی چیونٹیوں کے سبب سرخی مائل ہو گئی تھی۔ ’’ہمارے وقت میں ہم اسے سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔‘‘
’’میں نے سنا ہے، آپ لوگ بہت ظالم ہوا کرتے تھے۔‘‘ لڑکے نے شیشی واپس لیتے ہوئے کہا۔ ’’یہ آپ لوگوں کے سبب ہے کہ اب تتلیاں بہت کم نظر آتی ہیں۔‘‘
بوڑھے نے ایک بار پھر آسمان پر نظر دوڑائی اور مسکرایا۔ ’’لگ رہا ہے اب اسکولوں میں اچھی پڑھائی ہو رہی ہے۔ تم بکریوں کو سامنے چڑھائی پر کیوں نہیں لے جاتے جہاں کچنار کے پیڑ ہیں؟ وہاں دوسری طرف ڈھال پر تمہیں دوب نظر آئے گی۔ پھر تم ایک اچھے چرواہے نہیں بن سکتے۔‘‘
’’مجھے پرواہ نہیں، میں تو ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کو زیادہ پسند کرتا ہوں۔‘‘
ہاں، اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے، بوڑھے نے سوچا۔ ہم بچوں کو ہمیشہ وہی چیزیں نہیں سکھا سکتے جو صدیوں سے چلی آ رہی ہیں۔ بوڑھے نے بچے کے ہات سے شیشی لے کر اس کے اندر کلبلاتی چیونٹیوں کی طرف غور سے دیکھا، گرچہ اس کی آنکھوں میں اتنی طاقت نہ تھی کہ وہ ان چیونٹیوں کو انفرادی طور پر دیکھ پاتا۔ شاید وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ یہ معمولی چیونٹیاں نہیں ہیں۔ ایک بار ہم لوگوں نے اپنے بچپن میں مٹی کے ایک ڈھیر کو توڑا تھا جس کے اندر چیونٹیوں نے اپنی کالونی بسا رکھی تھی۔ اتنی ساری چیونٹنیوں کو ایک ساتھ کلبلاتے دیکھ کر وہ لوگ حیران رہ گئے تھے۔ ان میں بہت ساروں کے پر بھی نکل آئے تھے۔ ’’تم ان چیونٹیوں کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ان کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔ ’’یہ بکریاں نہیں کہ جدھر چاہے ہانک دو، جب چاہو گردن پر رسی ڈال دو یا سینگ سے پکڑ کر باڑے میں بند کر دو۔ انھیں قیدرہنا پسند نہیں۔ تم انھیں ہمیشہ کے لئے روک نہیں سکتے۔‘‘
بچہ بوڑھے کی چھڑی لے کر نشیب میں اتر چکا تھا۔’’دادا، ڈھکن مت کھولنا، چیونٹیاں باہر نکل آئیں گی۔ ‘‘
’’تمہارا دماغ تو صحیح ہے؟‘‘ بوڑھا چلایا۔ دراصل اپنی لا علمی میں وہ ٹن کا زنگ کھایا ہواڈھکن کھول چکا تھا اور دیکھتے دیکھتے چیونٹیاں اس کی انگلیوں پر نکل آئی تھیں۔ انگلیوں کو جھاڑتے ہوئے اس نے جلدی سے ڈھکن واپس لگا دیا۔ ’’ایسا کیسے چل سکتا ہے۔ تم انھیں اس طرح قید نہیں کر سکتے۔ آخر تمہارا ارادہ کیا ہے برخوردار؟‘‘
بچے کو جواب میں دلچسپی نہیں تھی۔ وہ بکریوں کو ہنکاتے ہوئے نیچے دھان کے کھیت میں اتر رہا تھا جس کی فصل کاٹ لی گئی تھی اور اب ہر طرف پیال کے برش نما ٹھنٹھ پر بھنبیریاں منڈلا رہی تھیں۔ کھیت کی مٹی رات کی بارش کے سبب گیلی ہو رہی تھی۔ اس سے احتراز کرتے ہوئے وہ چڑھائی چڑھنے لگا جہاں کچنار کے پتے بچھے ہوئے تھے۔ اونٹ کے سموں کا آکار لیے ہوئے یہ پتے بچے کو ہمیشہ حیران کر دیتے۔
بوڑھے نے مڑکر نصف میل دور اپنے چھوٹے سے گاؤں پر نظر ڈالی جس کے زیادہ تر چھپر پھوس کے تھے مگر چند ٹن کی چھتیں بھی تھیں جو مورچہ کھاکر کتھئی رنگ کی ہو گئی تھیں۔ یہاں سے گھروں اور کھلیانوں کے باہر لگائی گئی کھپچ کی ٹٹریوں یا مٹی کی دیواروں کے آس پاس ساذ و نادر ہی کوئی جانور یا انسان دکھائی دے رہا تھا۔ اب لوگ گاؤں میں رہنا پسند نہیں کرتے، بوڑھے نے آہ بھر کر سوچا۔ میں اس گاؤں میں پیدا ہوا اور ساری زندگی اسی گاؤں میں رہا۔ ایک آدھ بار رشتہ داری یا شادی بیاہ کی خاطر دوسرے گاؤں جانا تو پڑا اور کئی بار علاج کے لئے یا ضروری سامان کی خریداری کے لئے شہر کا رخ بھی کرنا پڑا بلکہ ایک بار عدالت کے چکر میں میں بڑے شہر تک ہو آیا جس کے بڑے سے لوہے کے پل سے جتنے لوگ بقچہ اٹھائے باہر آ رہے تھے اس سے کہیں زیادہ تعداد میں لوگ اندر جا رہے تھے جیسے کوئی ان دیکھی طاقت انھیں اس جہنم میں ڈھکیل رہی ہو، مگر اس سے بڑا عجوبہ یہ تھا کہ وہاں بجلی کے تار کے نیچے لوہے کی پٹریوں پر چوکور کھڑکیوں والے ڈبے رینگ رہے تھے جن کے اندر لوگ بدھو کی طرح بیٹھے ہوئے تھے جب کہ وہ پیدل زیادہ تیز جا سکتے تھے۔ بعد میں مجھے لوگوں نے بتایا کہ بجلی کے آنے سے پہلے ان ڈبوں کو گھوڑے کھینچتے تھے جیسے وہ اللہ کی مخلوق نہ ہو کر کوئی مشین ہوں جس سے جوبھی کام چاہو لے سکتے ہو۔ مگر کل ملا کر دیکھا جائے تو اس گاؤں سے میں کبھی باہر نہیں گیا اور مجھے نہیں لگتا اس سے میں نے کہیں کچھ کھویا ہے۔ مگر یہ بچے، ان کے دودھ کے دانت ٹھیک سے ٹوٹ بھی نہیں پاتے اور ان کے پر نکل آتے ہیں۔ اس نے شیشی کے اندر کلبلاتی چیونٹیوں کی طرف شرارت سے دیکھا۔ اسے ایسا لگا جیسے وہ لال چیونٹیاں نہ ہوں، سینکڑوں چھوٹے چھوٹے بچے ہوں ہو جن کے پر نکل آئے ہوں۔
بچے کوبکرے بکریاں پسند تھیں۔ وہ ان کے ساتھ ہی کھیلتے ہوئے بڑا ہو رہا تھا۔ یہ اس وقت بھی خطرناک نہیں ہوتے جب ان کے سینگ نکل آتے ہیں۔ یہ جب آپس میں لڑتے ہیں تو ان کے سینگ یا سروں کے ٹکرانے میں کوئی وحشی پن نہیں ہوتا۔ ایسا لگتا ہے جیسے ایک آدھ ٹکر لگا کر وہ دیکھنا چاہتے ہوں کہ سینگ مضبوطی سے اپنی جگہ قائم ہیں یا نہیں۔ بڑے بڑوں کی دیکھا دیکھی میمنے بھی ان کی نقل کرنے سے باز نہیں آتے۔ اسے ان میمنوں کی منحنی دمیں پسند تھیں جو ہر وقت ہلتی رہتیں، جنھیں آپ ہزار کوشش کے باوجود پکڑ نہیں سکتے۔ اور بکریاں، وہ جب چلّاتی ہیں تو دور تک کتنے سکون کا احساس ہوتا ہے۔ یہ چلانا ان کتوں کے بھونکنے سے کتنا مختلف ہوتا ہے جو اچانک سناٹے کو چونکا دیتے ہیں۔ اگر میرا ڈا منا مر نہ گیا ہوتا تو میں اسے ان بکریوں کی تہذیب سکھاتا۔ اسے یاد نہیں تھا اس کا اور ڈامناکا ساتھ کب شروع ہوا۔ گاؤں کی زندگی میں کوئی چیز باہر سے نہیں آتی، نہ کسی چیز کی شروعات ہوتی ہے۔ سب کچھ یہاں کے ماحول میں موجود ہوتا ہے، ہمیشہ سے موجود ہوتا ہے، اس کے اپنے گاؤں کی طرح جو ہمیشہ سے موجود ہے، اس آسمان کے نیچے جو اس کی پیدائش کے پہلے دن سے موجود ہے اور اس کی موت کے بعد بھی موجود رہےگا چاہے وہ کہیں بھی رہے اور کہیں بھی چلا جائے، یا اس تالاب کی طرح جس کی عمر کوئی نہیں جانتا یا درختوں کے جھنڈ کی طرح جو ڈھلانوں پر ایک ہی اندازسے کھڑے بادلوں کا انتظار کرتے ہیں، بادل جو زیادہ تر انھیں نظرانداز کرتے ہوئے گذر جاتے ہیں یا زمین سے لہروں کے مانند نکلی ہوئی ان عفریتی چٹانوں کی طرح جن کی کسی نوکیلی چوٹی سے کبھی کبھار کسی مہم جومیمنے کو اتارتے وقت اچھا خاصہ ہنگامہ مچ جاتا ہے۔ ڈامنا، وہ بڑا ہی کمینہ کتا تھا جسے چھوٹے چھوٹے جانوروں میں دہشت پھیلانا پسند تھا۔ ڈامنا نے کبھی کسی کو کاٹا نہیں تھا، مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ کسی کو کاٹ نہیں سکتا تھا۔ دراصل اس گاؤں میں کاٹنے کے لئے اوسطاً لوگ کم تھے یا پھر یوں ہے کہ گاؤں والوں کے پاس اتنا پیسہ نہ تھا کہ وہ کتوں سے کٹوانے کا خطرہ مول لیتے۔ اس کے گاؤں میں ڈامنا واحد کتا نہ تھا، مگر یہ ڈامنا بھی عجیب تھا۔ اس نے پچھلے سال اچانک ایک دن چپ رہنے کی عادت ڈال لی اور کھانا پینا بند کر دیا۔اس واقعے کو کچھ ہی دن گذر پائے تھے کہ ایک صبح لوگوں نے دیکھا وہ اپنی دم کے گرد چکر لگا رہا تھا جیسے کسی نے اس کی مقعد پر پٹرول ڈال دیا ہو۔وہ بلا وجہ بھونکنے اور غرانے بھی لگا تھا۔ اس نے ڈھلان کی طرف بھاگنے کی عادت ڈال لی جہاں سے اسے لانے کے لئے اچھی خاصی محنت کرنی پڑتی۔ ’’اس نے کوئی سایہ دیکھ لیا ہوگا۔‘‘ بوڑھے نے بچے کو تاکید کی۔ ’’اس سے دور رہنا۔ وہ پہلے بھی کوئی اچھا کتا نہ تھا۔‘‘ بچے کو دادا کی بات سے تکلیف پہنچی تھی۔ کیا صرف اس لئے کہ وہ ایک جانور تھا؟ اگر وہ بیمار ہے تو اس کا علاج کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ بوڑھے کو اس کی بات سن کر ہنسی آ گئی تھی۔ ’’تم ان کتوں کا کچھ نہیں کر سکتے۔ وہ اگر مرنے کی ٹھان لیں تو تم انھیں روک نہیں سکتے۔ لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ہر بار ایک دوسرا کتا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ یہ ان جانوروں کی پرانی عادت ہے۔‘‘ ڈامنا کو مرے ہوئے ایک برس ہو چکا تھا، مگر کسی دوسرے کتے نے اس کی جگہ نہیں لی تھی گرچہ گاؤں میں کتوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔
اسے ڈامنا کی موت پر حیرت ہوئی تھی۔ وہ ایک شام ڈھلان سے گھرواپس نہیں لوٹا اور چار دن بعد دو کوس دور جنگل کے اندر مردہ پایا گیا۔ اس کے سارے جسم پر زخم کے نشان تھے، دیدے پھٹے ہوئے تھے، پپوٹوں اور نتھنوں پر پسو بیٹھے ہوئے تھے اور زخموں پر بھاری تعداد میں مکھیاں بھنبنا رہی تھیں۔ (بعد میں اسے پتہ چلا تھا کہ اس نے دور کے کسی آدیباسی گاؤں میں کافی تباہی مچائی تھی، ایک گھر میں گھس کر نہ صرف ایک عورت کو کاٹنے کے بعد اسکول کے میدان میں چار بچوں کے منہ اور پاؤں میں کاٹ لیا تھا بلکہ دو بکریوں اور ایک کتے کو بھی کاٹا تھا۔ آدیباسیوں کو جب اس بات کا پتہ چلا تو انھوں نے لاٹھی ڈنڈوں سے اس کی خوب ٹھکائی کی اور اسے جان بچا کر جنگل کی طرف بھاگنے پر مجبور کر دیا جہاں زخموں کی تاب نہ لا کر اس نے دم توڑ دیا تھا۔) یہ ہوا میں تیرتی اس کے جسم کی باس تھی جس کے سبب اسے ڈھونڈنا ممکن ہو سکا۔ چھوٹے چاچا نے جو اب اسی طرح کے کاموں کے لئے رہ گئے تھے، اسے ڈھونڈنے میں اس کا ساتھ دیا تھا۔ شاید ڈامنا کے زخموں میں زہر پھیل چکا تھا کیونکہ چیل اور کوے اس سے کچھ دور کھڑے چپ چاپ اس کی طرف دیکھ رہے تھے بلکہ ایک بوڑھا گدھ جس کی گردن پر ایک بھی بال نہ تھا ایک قریب کی چٹان پر بیٹھا تذبذب سے اس کی طرف تاک رہا تھا۔ دونوں ناک پر کپڑا دبائے گھر واپس لوٹ آئے۔ شاید یہی وہ موت ہے جسے بڑے بوڑھے کتے کی موت کہتے ہیں۔بچہ ایک جھاڑی کے سائے میں ہری دوب پر بیٹھا ہوا تھا جہاں سے وہ بکریوں پر نظر رکھ سکتا تھا۔ اس کے سامنے ایک بہت ہی ٹھگنا درخت اپنے پھپھوندی سے ڈھکے ہوئے تنے کے ساتھ کھڑا تھا جیسے اسے فیل پا کی بیماری ہو گئی ہو۔ اس کی خشک ٹہنیوں پر حیرت انگیز طور پر نئے نئے مدور پتے نکل آئے تھے۔ مٹی سے نکلی ہوئی جڑوں پر لال بیگ رینگ رہے تھے اور چیونٹیاں چکردار سیڑھی کی شکل میں درخت کے کھردرے تنے پر چل رہی تھیں جن کا ایک قافلہ اوپر کی طرف جا رہا تھا جبکہ دوسرا نیچے اتر رہا تھا۔ نیچے اترتی چیونٹیوں نے کافی بڑی جسامت کی ہری ہری پتیاں بادبان کی شکل میں اوپر اٹھا رکھی تھیں جن کے بوجھ سے وہ ڈگمگاتے ہوئے چل رہی تھیں۔ دادا ٹھیک کہتے ہیں، یہ سارا علاقہ چیونٹیوں سے بھرا پڑا ہے۔ مگر جانے چیونٹیاں ان پتیوں کا کیا کرتی ہوں گی؟
شاید ان بےضرر لال بیگ کی طرح انھیں بھی پتوں کا رس مرغوب ہو۔ یہ چیونٹیاں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ یہ مردہ جڑوں سے لے کر مردہ کیڑوں مکوڑوں تک کو نہیں چھوڑتیں۔ ان کی اچھی خاصی تعداد یہاں سے سات فرلانگ دور برساتی نالے کے کنارے دیکھی جا سکتی تھی جو نالا کہلا تا تو تھا مگر سال کے نو مہینے سوکھا پڑا رہتا یا اس میں پانی برائے نام رہتا۔ اس نالے کے کنارے کوڑھیوں کی بستی تھی جہاں کے درخت ان جذام کے مریضوں کی طرح ہی مرگھلے تھے اور ہر دوسرے یا تیسرے پیڑ پر دم کوڑوں کا غلبہ تھا۔ موسم کوئی بھی ہو ان کے تنوں سے لاسے رستے رہتے۔ ڈامنا کی تلاش میں وہ ایک بار اس نالے کے اوپر جا نکلا تھا۔ نالا کافی نیچے واقع تھا۔ وہ جس چٹان پر کھڑا تھا وہ کسی چونچ کی طرح نکلی ہوئی تھی جہاں سے نیچے نالے کے پانی کو دیکھا جا سکتا تھا۔ اس نالے میں پانی سے زیادہ پتھر اور چٹانیں تھیں۔ نالا کے دوسرے کنارے کوڑھیوں کے گھاس پھوس کے چھپر تھے جن کی مٹی کی دیواروں سے ہانڈیاں اور بانس کے ٹوکرے لٹک رہے ہوتے۔ ایک ٹن کا گھر بھی تھا جس کی چمنی سے دھواں نکل رہا تھا۔ اس چمنی کو دیکھ کر لگ رہا تھا کسی متروک ریلوے کوارٹر کی چھت سے اکھاڑ کر اس جگہ لگا دیا گیا تھا۔ شاید وہ کسی قسم کا پنچایتی کچن ہو۔ مٹی کی دیواروں پر کھریا مٹی اور چونے سے پھول بنائے گئے تھے۔ ہر جھونپڑے کے باہر اوکھ کی چٹائیوں سے گھرے سبزی کے کھیت تھے۔ ایک گھر سے لگے ہوئے ڈربے کے باہر ایک چینی مرغی کھڑی اپنے پنجوں سے زمین کو کھرچ کھرچ کر چوزوں کو دانہ چگنے کی تعلیم دے رہی تھی جب کہ ایک دوسرے گھر کے باہر سور کی ایک لحیم شحیم مادہ دیوار سے گتھی ہوئی ناند کے اندر اپنی تھوتھنی ڈالے پیروں سے اپنے ان گنت بچوں کو ڈھکیلتی جا رہی تھی جو اس کے بڑے سے بے شمار گھنڈیوں والے تھن میں گھسے جا رہے تھے۔ وہ دیر تک نالے کے اوپر کھڑا نیچے کوڑھیوں کی بستی کی طرف دیکھتا رہا۔ مگر کل ملا کر اسے جذام کا صرف ایک ہی مریض دکھائی دیا جس کے پیچھے ایک کتے کا پلا چل رہا تھا جیسے وہ اس کے سائے کے ساتھ گھسٹ رہا ہو۔ وہ شاید کوئی عورت تھی جس نے لنگی پہن رکھی تھی۔ پیروں کی ساری انگلیاں گل جانے کے سبب وہ مشکل سے چل پا رہی تھی۔ مگر فاصلہ کچھ کم ہونے پر اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس کا چہرا تو کسی مرد سے ملتا جلتا تھا۔ اس نے پرانے ٹائر کی بڑی جسامت کی چپلیں پہن رکھی تھیں جنھیں بچے نے اپنے گاؤں میں آنے والے زیادہ تر بھکاریوں کو پہنتے دیکھا تھا۔ کوڑھی نے بچے کو دیکھ لیا۔ اس کی ناک کی جگہ ایک سوراخ تھا اور اس کی آنکھوں پر تار کے حلقوں میں پھنسی کانچ کی دو تاریک ٹکیاں تھیں جنھیں اس نے ڈنڈیوں کی غیرموجودگی میں ستلی کی مدد سے سر کی پشت سے باندھ رکھی تھیں۔ شاید اسے دھوپ سے پریشانی ہوتی ہو۔ وہ اپنے پوپلے منہ سے عجیب انداز سے ہنس رہا تھا یا ہنس رہی تھی۔ ڈامنا اس گاؤں میں کبھی نہیں ہو سکتا، بچے نے فیصلہ کیا اور واپس لوٹ آیا۔ اس نے جب دادا سے اس بات کا ذکر کیا تو اس نے اپنے مضبوط دانتوں سے ہنستے ہوئے اس کا سر سہلایا۔ ’’وہاں پر ہر گاؤں کے نمایندے تمہیں نظر آئیں گے۔ ان میں کافی پڑھے لکھے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ تھوڑا قریب جانے پر تم انھیں پہچان سکتے تھے۔ کوڑھیوں کے ہسپتال سے نکلنے کے بعد انھیں اپنے لوگ قبول نہیں کرتے اس لئے وہ انسانی آبادی سے الگ تھلگ اپنی کالونی بسا لیتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ نالے کے پانی سے سبزی اگاتے ہیں اور عبادت گاہوں کے باہر یا اسٹیشنوں میں بھیک مانگتے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگوں کے بارے میں میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ ہو سکتا ہے ان کے لوگ پیسے بھیجتے ہوں۔ مگر پھر میں سوچتا ہوں، ان کی انگلیاں تو ہوتی نہیں، جانے وہ منی آرڈر پر کیسے دستخط کرتے ہوں گے! ان کے چہرے پھول کر کپا ہو جانے کے سبب کبھی کبھی پتہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ تم کسی مرد کو دیکھ رہے ہو یا عورت کو اور وہ زیادہ تر تمہیں پوپلے نظر آئیں گے کیونکہ ان کے جبڑے فساد خون کے سبب پہلے تو غبارے کی طرح پھول جاتے ہیں اور پھر سکڑ نے لگتے ہیں جو دانتوں کو سنبھال نہیں پاتے۔‘‘ اسے دادا پر حیرت ہوتی۔ انھیں ہر بات کا کیسے پتہ ہوتا ہے؟ شاید ان کا اخبار جسے وہ ہر روز بلا ناغہ صبح سے شام تک پڑھا کرتے ہیں یا پھر آسمان یہ سب کچھ دادا کو بتاتا ہے۔ اس نے اکثر دادا کو آسمان سے باتیں کرتے دیکھا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے دادا کی باتیں غور سے سنا کرتا اور ان کے نا مانوس لفظوں کو ان کے مبہم مفاہیم کے ساتھ ذہن نشیں کرنے کی کوشش کرتا۔ ایک بار جب دادا ڈاکیہ سے منی آرڈر کی رقم وصول کر رہے تھے جسے بچے کا باپ شہر سے بھیجا کرتا جہاں وہ ایک سرکاری بینک میں ملازم تھا، تو انھوں نے ڈاکیہ کی سائکل کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔ ’’میں نے ایک انگریز گارڈ کو دیکھا تھا جو اسی طرح کی ایک سائکل اپنی ٹرین کے کیبن میں رکھا کرتا۔ وہ اپنی سائکل کی بڑی حفاظت کرتا تھا۔ اسے گاؤں کے راستوں پر سائکل چلانا پسند تھا۔‘‘ ’’پھر تو وہ بالکل پاگل تھا۔‘‘ ڈاکیہ نے کہا ۔ ’’کوئی بلا وجہ بھی سائکل چلاتا ہے بھلا۔ ‘‘, ’’ہمیں ہر وہ چیز پاگل دکھائی دیتی ہے جسے ہم سمجھ نہیں پاتے۔‘‘ ڈاکیہ کے جانے کے بعد دادا نے روپیوں کو دوبارا گنتے ہوئے کہا۔ پھر اس نے نوٹ پر بنی آدمی کی تصویر پر اپنی انگلی رکھ کر بچے کی توجہ اس کی طرف مبذول کی۔ ’’اس تصویر کو دیکھ رہے ہو۔ آدمی اپنی تصویر میں کبھی بوڑھا نہیں ہوتا۔ نہ ہی وہ مرتا ہے۔ لیکن کیا وہ اپنی تصویر میں بھی اتنا ہی عقلمند یا بےوقوف ہوتا ہے، مجھے یہ نہیں پتہ۔‘‘
اگلے برس جب مجھے بڑے اسکول میں داخلہ ملےگا جو چار کوس دور ہے تو ابو نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مجھے ایک سائکل دلا دیں گے۔ بڑے چاچا کی سائکل کی طرح زنگ کھائی ہوئی مریل سائکل نہیں جس کی چین ہر دس منٹ پر اتر جاتی ہے، بلکہ ایک مضبوط اور بالکل نئی سائکل۔ ممکن ہے وہ اس انگریز گارڈ کی سائکل نکل آئے یا اس جیسا کچھ اور میں وعدہ کرتا ہوں میں اس سائکل کا پورا خیال رکھوں گا۔
اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور ایک سفید فام کو دیکھنے لگا جو ایک چمکدار سائکل پر چلا جا رہا تھا ۔دھو پ سے بچنے کے لئے اس نے سر پر تنکے کا ایک ہیٹ چڑھا رکھا تھا اور اس کے تاریک اور مخروطی ہونٹوں کے بیچ ایک بیڑی سلگ رہی تھی۔ اس نے دادا اور ڈاکیہ کو بھی دیکھا جو ایک اونچی جگہ پر کھڑے اس انگریز گارڈ کو حیرت سے دیکھ رہے تھے جیسے اس سے پہلے انھوں نے کسی احمق کو نہ دیکھا ہو۔
گاؤں کی مسجد کے کھپریلوں کو کووں نے تحس نحس کر رکھا تھا۔ اس کے مٹی کے برامدے پر قطار سے سجے ہوئے پلاسٹک کے رنگین لوٹوں میں وضو کے بعد جان بوجھ کرتھوڑا پانی چھوڑ دیا جاتا تاکہ وہ ہوا سے الٹ نہ جائیں اور ہر اذان کے بعد اس کا پیش امام جو اس کا موذن بھی تھا ہمیشہ سوچا کرتا، میں یہاں بھٹک کر کیسے آ گیا اور ایسا کیا ہے یہاں میرے رکنے کے لئے کہ میں رک گیا جب کہ یہاں میرے بھرپیٹ کھانے کا انتظام تک نہیں؟ مسجد کے پیچھے جہاں وہ تالاب کے پانی کی مدد سے ٹماٹر اگایا کرتا، بچے کلام پاک پڑھنے آتے جن سے ہر ہفتے اسے ایک اٹھنی کی امید ہوتی۔ فاتحہ اور جھاڑ پھونک سے وہ بس اتنا بھر نکال پاتاکہ گھر کچھ رقم بھیج سکے جس کے لئے ڈھال میں ڈاکخانے کی طرف اسے دو کوس کا فاصلہ پیدل طئے کرنا پڑتا اور جب وہ بہت پریشان ہو جاتا تو بڑے کافرانہ انداز سے سوچتا، خدا کو ہم جیسوں کے لئے فرصت نہیں ہے اور اس بوڑھے کو اپنے پوتے اور بکرے بکریوں سے کبھی فرصت ہی نہیں ہوتی کہ وہ نماز کے لئے مسجد آوے۔ میرا بس چلتا تو میں اس کے لئے کوڑے کی سزا تجویز کرتا اور اس بچے کو میں چھوٹے سے دیکھ رہا ہوں۔ وہ اپنے دادا کی طرح ہی سر پھرا ہے۔ یہ سارا گاؤں ہی سر پھرا ہے۔ خدا کو اگر مجھے یہاں بھیجنا تھا تو اس کی کوئی مصلحت رہی ہوگی۔ مجھے ایسی کوئی مصلحت دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ شاید خدا کے پاس میرے لئے فرصت نہیں ہے اور اب تو لوگ جھاڑ پھونک کے لئے بھی کتنا کم آنے لگے ہیں۔ کیا سارے بھوت پریت نیست نابود ہو گئے؟ اسے عمل برائے نام آتا تھا ورنہ وہ جنوں کو بلا کر اس گاؤں پر نازل کرتا۔ مگر آدھی رات کو چھپر پر کھٹ پٹ سن کر اس کی نیند کھل جاتی تو مارے خوف کے اس کی گھگھی بندھ جاتی۔ وہ دفیعہِ بلیات کی ساری سورتیں بھول جاتا۔ پھر ایک رات جب اس نے مسجد کے صحن پر سفید چادر سے لپٹی ایک عورت کودیکھا جو بال بکھرائے بیٹھی اپنی خونیں آنکھوں سے اس کی طرف تا ک رہی تھی تو اس کے ہات پاؤں پھول گئے۔ اس نے سور اخلاص پڑھ کر اپنے گرد حصار کھینچنے کی کوشش کی، مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ اس سورت کو سرے سے بھول چکا تھا۔ اسی ادھیڑ بن میں اس کے پیشاب خطا ہو گئی اور اس نے دیکھا وہ عورت اپنی جگہ سے غائب ہو چکی تھی۔ اس صبح جب اذان کی آواز نہیں آئی تو تفتیش کے لئے کئی کٹر نمازی منہ اندھیرے مسجد کی طرف آئے۔ انھوں نے دیکھا امام تالاب کے پتھر پر جنگھیا پہنے بیٹھا تھا اور سر پر لوٹے سے پانی انڈیل رہا تھا۔ اس کے دانت ٹھنڈ سے بج رہے تھے۔ دوسرے دن سے وہ نماز عشاء کے بعد مسجد کے کواڑ پر قفل لٹکا کر گاؤں کے ایک گھر میں سونے لگا۔ بوڑھے نے پیش امام کو ہمیشہ ایک بے وقوف کی طرح دیکھا تھا جس کے سر پر قاعدے کی ہڈیاں تک نہ تھیں کہ ٹوپی ٹھیک طرح سے کھڑی رہ سکے۔ ایسا فاقہ کش انسان میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا ہے۔ بوڑھے کو جمعہ یا جنازہ کی نماز نیز عید بقرعید کے علاوہ کبھی گاؤں والوں نے مسجد جاتے نہیں دیکھا تھا۔ مگر اس سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ گاؤں کی تاریخ میں ہمیشہ ایسے بوڑھے موجود رہتے ہیں۔ گاؤں میں کچھ ایسے بوڑھے تھے جن کی بینائی جاچکی تھی مگر جنھیں ایک جگہ بیٹھے رہنے سے خدا واسطے کا بیر تھا اور وہ ٹٹولتے ہوئے ہمیشہ غلط جگہ پہنچ جایا کرتے جہاں سے انھیں واپس لانے میں اچھا خاصہ وقت لگ جاتا اور ایسے بوڑھے بھی تھے جو اونچا سننے لگے تھے مگر وہ لوگوں سے دنیا جہان کی خبریں سننے کے لئے بے تاب نظر آتے اور ایسے بھی کئی بوڑھے تھے جو اپنا کھایا ہوا کھانا ہضم نہ کر پانے کے سبب پر یشان پھرا کرتے اور ہمیشہ تالاب کے کنارے کی ملائم مٹی کو اپنی لاٹھی کی نوک سے ٹٹولتے نظر آتے اور جو صحت مند تھے ان سے کسی طرح کی امید فضول تھی۔ کل ملا کر دیکھا جائے تو سارے بوڑھے ایک جیسے تھے جیسے اپنی قبر کا راستہ بھول گئے ہوں۔
اگلے سو برس تک یہ دنیا بدلنے والی نہیں، پیش امام کچے راستے کے کنارے کھڑا گاؤں کی واحد چائے کی دکان کے بارے میں سوچ رہا تھا جہاں اس کا ادھار چلتا تھا۔ میں دیکھ رہا ہوں اس آسمان میں اب تارے بھی نہیں ٹوٹتے اور دور تک کتنی کانٹے دار جھاڑیوں اور اونٹ کٹاروں سے ڈھکی زمینیں ہیں اور یہ لاغر پیڑ اتنی بنجر مٹی پر پانی کے بغیر کیسے زندہ رہ لیتے ہیں۔ یہ زمین تو خاص طور پر فاقہ کشوں کے لئے بنائی گئی ہے۔
دراصل اس میں قصور اس کا نہ تھا۔ ہم جس طرح کی زندگی گذارتے ہیں دنیا ہمیں ویسی ہی نظر آتی ہے۔ (راوی)
دراصل پانی کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پودوں کو اگنے یا انسانوں کو مرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ (بوڑھا)
دراصل یہ بکریاں بڑی سخت جان ہوتی ہیں۔ جب پتوں کا موسم نہیں ہوتا تب بھی یہ نہیں مرتیں، بس دم ہلاتی رہتی ہیں۔(بچہ)
اور پھر ایک دن ایسا ہوا کہ پیش امام نے گاؤں والوں کو ایک جگہ جمع کر کے حکم صادر فرمایا کہ اسے بھر پیٹ کھانا کھلایا جائے اور اسے ایک گائے کی ضرورت ہے جو اس کے لئے دودھ دے سکے اور چند بطخ تاکہ تالا ب کے جس پانی سے وہ ٹماٹر اگاتا ہے وہ اس میں تیر سکیں اور خدا نے یہ حکم صادر فرمایا ہے کہ جس قوم کے عالم فاقہ کرتے ہیں اس قوم کا علم مر جاتا ہے۔ گاؤں والے پیش امام کو پسند کرتے تھے۔ انھوں نے سوچا اس کے لئے کچھ کرنا چاہئے۔ مگر دن گذرتے رہے اور پیش امام خود اپنی مانگوں کو بھول گیا۔ لیکن ایک دن چھپر پر بیٹھے کووں نے دیکھا اس کے پاس تین بطخ تھے۔ اس کے ایک ماہ کے بعد وہ ڈھال پر ایک مریل گائے کی گردن پر رسی ڈالے آتا نظر آیا۔ لوگوں پر یہ بھی کھلا کہ گاؤں کے چھپروں پر سائے کھسر پھسر کرنے لگے ہیں اور ٹن کی چھتوں پر دھما کہ چوکڑی ہونے لگی ہے۔ انھوں نے پیش امام سے اس کا ذکر کیا تو اس نے ان کی باتوں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی۔ اس نے صرف اتنا کہا ’’یہ ڈر ثابت کرتا ہے کہ خدا کی ذات میں تم لوگوں کا یقین پختہ ہے۔‘‘ اس سال جاڑے کے آخر میں پیش امام نے کئی کافی بڑی جسامت کے ٹماٹر اگائے۔ ’’سائنس!‘‘ پیش امام ہنسا۔ لوگوں نے جب اس کی بطخوں کو انڈا دیتے دیکھا تو انڈوں کی جسامت دیکھ کر ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ ’’سائنس!‘‘ پیش امام پھر ہنسا۔ اپنی گائے کے لئے پیش امام نے ایک چرواہے کو رشوت دی۔ جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ گائے کو زبردست حمل آیا اور وہ دو بچھڑوں کی ماں بن گئی۔ اب پیش امام کے پاس ضرورت سے زیادہ دودھ تھا جس کا بڑا حصہ وہ بیچ دیا کرتا۔ وہ جب اپنا جھاگ سے بھرا ہوا گلاس ہونٹوں سے لگاتا تو آنکھوں کو نچا کر کہتا: ’’سائنس!‘‘ لیکن بہت جلد اسے پتہ چل گیا کہ ان تمام چیزوں کے باوجود وہ ویسا ہی تھا، فاقہ کش،مفلس اور ایک بےحس زمین پر زندہ جو چاروں طرف سے بنجر ڈھلانون سے گھری ہوئی تھی۔ تو اس نے سوچا اسے کاروبار کرنا چاہئے۔ اس نے کچھ رقم ادھار لی اور کپڑوں کا بیوپار شروع کر دیا۔ وہ دن کے وقت گٹھر پیٹھ پر لاد کر ہفتہ وار ہاٹ یا میلوں کی طرف نکل جاتا اور ظہر کی نماز سے قبل لوٹ آتا۔ کسی کسی دن صبح سویرے وہ ریلوے اسٹیشن کی راہ لیتا، یا بس میں بیٹھ کر دوردراز کے قصبوں کا رخ کرتا۔ ایک بار وہ واپس لوٹا تو اس کے ساتھ ایک بائیسکوپ والا تھا۔ اس کے بال لانبے تھے جسے اس نے چوٹی کی شکل میں باندھ کر پشت پرلٹکا رکھی تھی اور بات کرتے وقت اس کی کنٹھ کی ہڈی ہمیشہ گرتی رہتی۔’’یہ چودھری گر نارائن ہے۔‘‘ امام صاحب نے کہا۔ ’’اس نے اسلام قبول کر لیا ہے اور اب اس کا نام شیخ سلامت علی ہے۔‘‘
شیخ سلامت علی کو اپنے ماضی کے بارے میں بات کرنا پسند نہ تھا جسے وہ دورِ جہالت سے تعبیر کرتا۔ اس کا بائیسکوپ جسے وہ اپنی لکڑی کی قینچی نما اسٹینڈ پر رکھ کر اس کے سامنے کھڑا اپنی لمبی چوٹی سے کھیلتے ہوئے جس میں اس کی منحنی کنگھی گھپی ہوتی پان کی جگالی کیا کرتا۔ بائسکوپ کی دیوار پر جگہ جگہ فلمی ہیرو ہیروئن کی تصویریں حال ہی میں اکھاڑ کر ان کی جگہ مکہ مدینہ کی تصویریں چپکا دی گئی تھیں۔ اس کے سیر بین سوراخوں کے گرد قدیم زمانے کے بےشمار سکے کیل سے جڑے ہوئے تھے جن میں زیادہ تر اب رائج نہ تھے جو اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ یہ بائیسکوپ کئی پشتوں سے اس کے ساتھ تھا۔ بائیسکوپ ہر طرح کے پھندنوں اور لڑیوں سے ڈھکا ہوا تھا اور جب وہ اندر کے مناظر بدلنے کے لئے اس کی دونوں چرخیوں میں سے کسی ایک کو گھماتا تو گھنٹی بجاتے ہوئے یہ بھی بتاتا جاتا کہ اندر کون سا منظر چل رہا ہے۔ دادا کے ساتھ کھڑے بچے کو بڑی حیرت ہوتی کہ کس طرح وہ بنا دیکھے اندر کی ساری باتیں بتا دیا کرتا تھا۔ بوڑھا اپنی دائمی ہنسی ہنستا۔ ’’یہ بائیسکوپ والا پچھلے سو سال سے آ رہا ہے۔ یہ ہر بار وہی بائیسکوپ والا ہے۔‘‘
’’اگر بڑھؤ کو اتنا پتہ ہے تو وہ اس گاؤں میں کیا کر رہا ہے؟‘‘ پیش امام کو اس کی بات پسند نہ آتی۔ اسے لگ رہا تھا کہ اس بات کے مقابلے کہ اس نے ایک کافر کو ایمان کا راستہ دکھایا تھا اس کی اہمیت زیادہ ہو گئی تھی کہ وہ ایک بائیسکوپ والا تھا۔ جمعہ کے خطبے میں اس نے خاص طور پر شیخ سلامت علی کا ذکر کیا۔ ’’جب کوئی اندھیرے سے اچانک اجالے میں آتا ہے تو اس کی آنکھیں چکا چوند ہو جاتی ہیں۔‘‘ پیش امام نے کہا۔ ’’شیخ سلامت علی کے سلسلے میں ہمیں اس بات کو دھیان میں رکھنا چاہئے۔ سلامت علی تم کیا محسوس کر رہے ہو؟‘‘
’’حضور امام صاحب، اللہ پاک اور رسول پاک اور لا الہہ الا اللہ محمدرسول اللہ۔‘‘
’’مرحبا! مرحبا!‘ نمازیوں نے بیک وقت آواز بلند کی اور چھپر پر بیٹھے ایک کوے نے ایک کھپریل کو اپنے پنجے سے ہٹاکر نیچے دیکھا تو اسے مسجد میں اور دنوں کے مقابلے زیادہ نمازی نظر آئے۔ کھپریل کے ہٹنے سے دھوپ کا جو نیزہ اندر داخل ہوا تھااس سے بیزار ہو کر ہشت پا مکڑی نے جالا بنتے بنتے کوے کی طرف نا خوشگواری سے دیکھا اور اس پر تھوکنے کی کوشش کی جو تار بن کر ہوا میں لٹک گئی۔‘‘
’’دراصل۔۔۔‘‘ پیش امام نے تائید میں سر ہلایا۔ ’’یہ دنیا سرائے فانی ہے۔ روزِ حشر ہر کسی کو اس کے اعمال کے ساتھ تولا جائے گا۔ اور وہ جنھوں نے نماز قائم کی اور قبلہ درست کیا وہ بخیرو خوبی پْل صراط سے گذر جائیں گے۔ مگر جنھوں نے خدا کے خوف کو بالائے طاق رکھ کر دنیا کی پیروی کی وہ پلْ صراط سے دو نیم ہو کر دوزخ کی زمین پر جا گریں گے جہاں انھیں گندھک کا لباس اور کھجلی کا دوپٹہ پہنایا جائےگا اور ان کے مال و اسباب ان کے ایندھن ہوں گے۔ حضرات درود شریف پڑھئے اور شیخ سلامت علی سے معانقہ کیجئے۔‘‘
شیخ سلامت علی ایک ہفتہ گاؤں میں رہا۔ اس نے بچوں کو بائیسکوپ کے بارے میں بتایا تو پہلی بار لا شعوری طور پر اپنے ماضی کا ذکر چھیڑ بیٹھا۔’’یہ بائیسکوپ پہلی بار لاٹ بہادر نے ولایت سے منگوایا تھا۔ ان دنوں لاٹ بہادر کا دماغ کب کس طرف چل پڑتا کسی کو پتہ نہ تھا۔ اسے میرے دادا چلاتے تھے۔ ایک بار انھوں نے اپنے اونٹ کو کم چارہ کھلایا جس سے اونٹ کو سخت غصہ آ گیا۔ دوسری صبح وہ اسے باہر نکال رہے تھے کہ اونٹ نے ان کے سر کو اپنے جبڑوں میں لے کر توڑ ڈالا۔ اونٹ بڑا ہی خنس جانور ہے۔ جب تک سب کچھ ٹھیک ہے تو ٹھیک ہے، مگر بھگوان نہ کرے کہ اسے طیش آ جائے۔ میری دادی اب بھی زندہ ہے مگر اب اس کے منہ میں صرف ایک دانت بچا ہے اور اسے کچھ بھی یاد نہیں رہتا یہاں تک کہ وہ یہ بھی بھول جاتی ہے کہ اسے پاخانہ جانا ہے۔ لمبی زندگی بھی ایک بڑی مصیبت ہے۔ اوپر والا کسی کو لمبی زندگی نہ دے۔اب یہ بکس میری تحویل میں ہے۔ وہ بڑا بد نصیب ہوتا ہے جو اسے وراثت میں پاتا ہے۔ اسے چلانا آسان کام نہیں۔ اس کے سا تھ ہی تمہیں دنیا میں پیدا ہونا پڑا ہے۔‘‘
شیخ سلامت علی کے ایمان لانے کے واقعے نے امام صاحب کی شہر ت چار دانگ پھیلا دی اور بہت جلداسے شہر کی ایک مسجد میں با قاعدہ ماہانہ تنخواہ کے ساتھ پیش امامی کی نوکری مل گئی۔ وہاں نہ صرف مسجد میں اذان کے لئے الگ سے ایک موذن مقرر تھا بلکہ امام صاحب کو رہنے کے لئے ایک حجرہ بھی پیش کیا گیا جہاں وہ ذاتی آمدنی کے لئے اپنا مدرسہ چلا سکتا تھا۔ کچھ دنوں تک گاؤں کی مسجد میں گاؤں کا ہی ایک آدمی نماز پڑھاتا رہا۔ مگر اسے صحیح زبان نہیں آتی تھی اور علم تجوید سے نابلد ہونے کے سبب وہ حروف کی ادائگی صحیح مخرج کے ساتھ کر نہیں پاتا تھا۔ اس کی یاد داشت بھی کمزور تھی۔ اکثر وہ نماز کے دوران سوریٰ سے بھٹک جاتا تو نمازیوں میں سے کسی کے اندر صلاحیت نہ تھی کہ اس کی تصیح کرتا اور جب وہ پڑھتے پڑھتے رک جاتا تو ایسا کوئی نہ تھا جو اسے لقمہ دیتا۔ نتیجہ: وہ لوگ دیر تک کھڑے کے کھڑے رہ جاتے۔ نمازی خوف سے کانپا کرتے کہ کہیں محض اس لئے وہ جہنم نہ پہنچ جائیں کہ انھوں نے نماز کی ادائگی کے لئے ایک غلط امام کا انتخاب کیا تھا۔ پھر ایک دن ایک دبلا پتلا لاغر سا غیر مرئی لڑکا جس کی ایڑیاں پھٹی ہوئی تھیں، جلد سرمے کے رنگ کی تھی اور چہرے پر ایک بڑی ہی بے کس داڑھی اگی ہوئی تھی دھول کی چادر سے نمودار ہوا۔اس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں، چہرے کی ہڈیاں کھال کو توڑ کر نکل آنے کے لئے بے چین تھیں اور جسم کے مقابلے سر کافی بڑا تھا۔
’’میں نے سنا ہے یہاں پیش امام کی جگہ خالی ہے۔‘‘ اس نے سر سے ٹوپی اتار کر اپنے چہرے سے پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے ایک گلاس پانی مل سکتا ہے؟‘‘
ایسا اس گاؤں میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ مگر بوڑھے نے کہا، جو کبھی نہیں ہوتا اس کے ہونے کا امکان سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ دراصل کسی حد تک اس بات کا تعلق نئے پیش امام سے تھا۔ اسے اس گاؤں سے بہت زیادہ امیدیں نہیں تھیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ اسے کوئی امید ہی نہ تھی اور پھر اس نے ایک بڑی غلطی کا ارتکاب کیا تھا۔ پچھلی جگہ جہاں اس نے تھوڑے دن گذارے تھے اپنی شہوانی خواہش سے مجبور ہو کر ایک یتیم لڑکی سے شادی کر لی تھی جسے وہ دوسرے ہی ہفتے پرانی جگہ سے لے آیا تھا۔ اکثر جمعہ کے خطبہ سے قبل وہ گاؤں والوں کے سامنے اپنی مانگیں پیش کرتا۔ گاؤں والے اپنی طرف سے کوشش بھی کرتے مگر ہر بار وہی ڈھاک کے تین پات۔ برسوں سے اس گاؤں کی یہی روایت رہی تھی۔ تو آخر میں تنگ آکر نوجوان پیش امام نے ہتھیار ڈال کر گاؤں والوں کو بد دعا دینا شروع کر دیا۔
’’ایسے گاؤں پر اولے برستے ہیں جہاں کا امام خالی پیٹ تارے گنتا ہے۔‘‘ اس نے یہ جملہ جب جمعہ کی نماز پر خطبہ کی تقریر میں شامل کیا تو مصلیوں نے بیک زبان سر ہلا کر کہا: سبحان اللہ!
مگر اس ہفتے ایک دو پہر شدید گرمی اور حبس کے ساتھ آسمان اچانک سیاہ ہو گیا، زور کی بجلی کڑکی اور تیز بارش کے ساتھ اتنی شدید اولا باری ہوئی کہ کھیتوں کی زیادہ تر سبزیاں تباہ ہو گئیں۔ ’’یہ ایک اتفاق ہے۔ کوئی اس کے لئے پیش امام کو ملزم نہ ٹھہرائے۔‘‘ بوڑھے نے بچے سے کہا۔ شاید اس بات سے گاؤں کے ہر شخص کو اتفاق تھا۔ کچھ لوگوں نے اپنے طور پر پیش امام کی مدد کرنے کی ٹھانی ۔وہ دیکھ رہے تھے کہ اس کی عورت ٹھنڈے چولھے کے سامنے لمبا گھونگھٹ نکالے ہمیشہ بیٹھی رہتی ہے۔ گاؤں کے کسی شخص نے اس کی آواز نہیں سنی تھی۔ تالاب میں پتھر پر کپڑا دھوتے وقت بھی وہ لمبا گھونگھٹ نکالے رہتی۔ پیش امام کے لئے کوئی الگ گھر نہ تھا۔ کچھ برس قبل گاؤں والوں نے مسجد سے ملحق ایک حجرہ بنانے کی کوشش کی تھی مگر اپنی تمام کوششوں کے باوجود وہ صرف اینٹ اور گارے کے چار ستون ہی کھڑاکر پائے تھے جن میں سے ایک ڈھ بھی چکا تھا۔ پیش امام نے اس کے کچے فرش پر مٹی اور گوبر کا لیپ چڑھاکر اور چوتھے ستون کی جگہ لکڑی کا ایک طوالہ استادہ کر کے سر پر ایک ترپال ٹانگ لیا اور کسی طرح اپنی بیوی کے لئے ایک پناہ گاہ بنا لی۔ اسے یقین تھا برسات آنے تک گاؤں والے ان کے سر پر ایک چھپر کا انتظام کر دیں گے۔ پردا کے لئے اس نے پرانے ٹاٹ اور گاؤں سے اکٹھی کی ہوئی چادریں اور ساریاں جن کے رنگ برسوں تک دھلنے کے سبب بالکل دھندلے ہو چکے تھے لٹکا رکھی تھیں۔ یہ دیوار کا کام کرتی تو تھیں مگر ہوا میں ہمیشہ اپنے کمزور ٹانکوں سے نکلنے کی جدو جہد میں مصروف نظر آتیں۔
گاؤں والوں نے اس حجرے کی تعمیر کے لئے چندے کی رسید چھپوا کر دور دراز کے علاقوں میں بھیجا جہاں فرزندان توحید کی اچھی خاصی تعداد موجودتھی اور گاؤں کے لوگ کام کی تلاش میں اکثر جایا کرتے۔ مگر ساٹھ فیصد کمیشن اور آمدورفت نیز کھانے پینے کے اخراجات کے بعد خدا کے گھر کے لئے پیسہ برائے نام بچتا۔ دوسری طرف زیادہ تر لوگ رسید کے پیسے یا تو کھا جاتے یا سرے سے کتاب کے گم ہو جانے کا بہانہ تراش کر دست بردار ہو جاتے۔ نتیجہ:مہینے نکلتے گئے مگر اتنی رقم اکٹھی نہ ہو پائی کہ کسی طرح کا کام شروع ہو پاتا۔ گاؤں والوں نے صرف اتنا کیا تھا کہ عارضی طور پر پھوس کے ایک چھپر کا انتظام کر دیا جس پر چھوٹی چھوٹی چڑیاں پھدکتی رہتیں اور گرگٹ اپنے سر اٹھائے نیلے آسمان کی طرف تاکتے رہتے۔ کل ملا کر نیا امام ابھی تک اپنی بیوی کے لئے اتنا ہی کر پایا تھا جس کا اسے بہت ملال تھا۔ اس کا اظہار وہ لا شعوری طور پر اپنے جمعہ کے خطبے پر کیا کرتا۔ اولا باری کے واقعے کے دو ماہ بعد گاؤں والوں کو محسوس ہوا کہ اس کی روز کی بول چال میں کفرکی بو شامل ہونے لگی ہے جب ایک دن اس نے ان علمائے دین کا پھر سے ذکر کیا جن کی بیویاں حمل کے دوران پیمبری کے دن گذارتی ہیں۔ ’’بھوک۔۔۔‘‘ اس نے اپنی تقریر میں کہا۔ ’’۔۔۔شیطان کا سب سے مہلک ہتھیار ہے۔ انسان کبھی اسے استعمال نہ کرے ورنہ بچے ٹیڑھے میڑھے پیدا ہوں گے۔‘‘ گاؤں والوں نے اس بات کا کوئی نوٹس نہ لیا ہوتا اگر اگلے چارمہینے کے اندر گاؤں میں جوتین زچگیاں ہوئیں وہ سارے بچے پولیو زدہ نہ نکلتے۔
ہمیں اس کالی زبان والے پیش امام کے لئے کچھ کرنا چاہئے، گاؤں والوں نے آپس میں صلح و مشورہ کیا اور چاول اور سبزیاں اکٹھی کرکے مسجد کے صحن پرلے آئے۔ لیکن اب شاید پیش امام کو ضد آ چکی تھی کیونکہ ہر ہفتے وہ کوئی نہ کوئی چبھتا ہوا سوال لوگوں کے سامنے ڈال دیتا۔’’طوفانِ نوح لوگوں کے گناہوں کا نتیجہ تھا۔ کیا خدا اب آسمان میں چپ بیٹھا رہے گا؟ ‘‘تو لوگوں نے بھاری بارش کی امید کی جو سب کچھ تباہ و برباد کر ڈالنے والی تھی۔ یوں بھی برسات کا موسم آ چلا تھا۔ مگر اس برسات چند چھٹ پٹ بارش کے علاوہ مہینے گذرتے چلے گئے اور بڑا سوکھا پڑا۔ تو پیش امام نے کہا، اگر اسے الٹ کر دیکھا جائے تو یہ ایک طرح کا طوفانِ نوح ہی تھا جو سوکھے کی شکل میں نمودار ہوا تھا۔ اب پیش امام میلا کچیلا رہنے لگا تھا۔ وہ گاؤں میں جب بھی نظر آتا مسکراتا رہتا جیسے اس کے سارے مسائل حل ہو چکے ہوں۔ ’’بھین لوگ خوب کھا پی رہے ہو۔ کھا پی لو۔ بس خدا کے پاس دیر ہے اندھیر نہیں۔‘‘ کبھی وہ گاؤں کی واحد چائے کی دکان پر بیٹھ جاتا جہاں سورج نکلنے سے پہلے دہقان کھیتوں کا کام نپٹانے کے بعد جمع ہوتے۔ ’’کھیتوں میں چوہوں کے بلوں کے اندر ہم عالموں کے مقابلے زیادہ اناج ہوتے ہیں۔‘‘ ایک بار اس نے ایک کنویں کو بد دعا دی اور دیکھتے دیکھتے وہ کنواں سوکھ گیا۔ دوسری باراس نے گاؤں پر ایک نحوست کے نازل ہونے کی بات کہی جس کے دوسرے ہی دن ایک پولس والا نمودار ہو گیا۔ وہ جس پیڑ پر تھوکتا اس کے پتے گرنے لگتے۔ وہ جس مرغی کی طرف دیکھ لیتا وہ کڑک ہو جاتی۔ اب تو ایسا لگنے لگا تھا جیسے اسے اپنی غیبی قوت کا اندازہ ہو چلا تھا کیونکہ نہ صرف وہ کر و فر سے چلنے کا عادی ہو گیا تھا بلکہ اب وہ کھلے عام یا اشارے سے لوگوں کی موت کی پیشن گوئی کرنے لگا تھا جیسے اس کے لئے اسے پیسے ملے ہوں۔
اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ گاؤں کے لوگوں کو موت کی شرح میں اضافہ نظر آنے لگا، یہ الگ بات تھی کہ وہ جن از کار رفتہ بوڑھوں کا ذکر کرتا ان کے گھر والے کافی عرصے سے ان کی موت کا انتظار کر تے کرتے تھک چکے تھے اور انھوں نے مر کر نہ صرف خود کو ایک لمبی تکلیف دہ زندگی سے نجات دلائی تھی بلکہ اپنے گھر والوں کو بھی راحت بخشی تھی۔ اس نے اپنی بد دعا سے کئی تالاب خشک کئے، امرود کے درختوں پر بان مارے، جنوں کو بلانے کے لئے رات رات بھر چلا کسا اور جب اس کی بیوی کے مردہ بچہ پیدا ہوا تو وہ نرا پاگل ہو گیا۔ بچوں نے اطلاع دی کہ وہ مسجد میں غیر وقت میں غلط سمت کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگا ہے اور جب گاؤں والوں نے اسے پیش امامی کے عہدے سے برطرف کرنے کا فیصلہ کیا تو اس نے سال بھر کی تنخواہ مانگی اور ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دیا۔ اس نے کہا وہ اپناحق لئے بغیر ٹلنے والا نہیں۔اس نے اپنے نوزائیدے کو قبرستان لے جانے کی بجائے تالاب کے کنارے ہی دفن کیا تھا جہاں کی مٹی سارا سال گیلی رہتی جس پر اگائے گئے سجنا کے پیڑوں سے لاروے ٹپکتے رہتے جو تتلی بننے سے پہلے ہی کووں کی خوراک بن جاتے۔ وہ اس قبر کے سامنے دن دن بھر بیٹھا رہتا، سستی اگر بتیاں جلاتا اور ہات ہلا ہلا کر انھیں جلائے رکھتا یہاں تک کہ وہ منحنی سی قبر ایک خار پشت میں بدل گئی۔ آخرکار گاؤں والوں نے مسجد سے کترانا شروع کر دیا۔ وہ لوگ اس سے خوفزدہ تھے اور اس کی منحوس نظرکے سامنے آنا نہیں چاہتے تھے۔ مگر ادھر کچھ دنوں سے لوگ دیکھ رہے تھے کہ پیش امام چپ رہنے لگا تھا۔ وہ اپنا کھانا خود پکاتا، خود اپنے کپڑے دھوتا، ہینڈ پمپ سے پانی لاتا۔ جلد ہی اس کا راز کھل گیا۔ لوگوں نے محسوس کیا کہ اس کی بیوی دکھائی دینا بند ہو گئی تھی۔ کچھ لوگوں نے ٹاٹ کے پردے کے اندر جھانکنے کی کوشش کی۔ انھوں نے دیکھا نہ صرف پیش امام کا چولھا ٹھنڈا پڑا تھا بلکہ انھیں اس کی بیوی کہیں نظر نہ آئی۔ شاید وہ اسے چھوڑ کر بھاگ گئی تھی یا پیش امام اسے پچھلی جگہ چھوڑ آیا تھا۔ پیش امام مسجد کے اونچے صحن پر بیٹھا خندہ انگیزی کے ساتھ یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ متواتر فاقوں کے سبب اس کی آنکھوں میں سیاہ حلقے پڑ گئے تھے۔ مگروہ لوگوں کے اس بےجا تجسس سے قطعی پریشان نظر نہیں آ یا۔ ’’اس کے پاس چار ابھی کیا تھا۔‘‘
اس نے مسکراکر اپنی ناقص داڑھی کے بال توڑتے ہوئے کہا جو ایسا لگ رہا تھا جیسے کھال کے بجائے سیدھے ہڈیوں سے نکل آئے ہوں۔’’اب مجھے نہیں معلوم میں اسے کہاں ڈھونڈوں گا۔ مگر واہ ری عورت۔ صبر عیوب کی زندہ مثال تھی وہ اور بھوک برداشت کرنے کی اتنی طاقت تو میں نے اور کسی کے اندر نہیں دیکھی۔‘‘ بچے کی موت اور بیوی کے بھاگ جانے کے بعد پیش امام کے اندر اچانک ایک تبدیلی آ گئی۔ اس نے بد دعا دینا بند کر دیا اور نماز بھی درست کر لی۔ ایک دن مسجد کے چھپر پر چڑھ کر اس نے اس کی مرمت کی، اندر چھت گیری کے کنڈوں اور بانس کی کھپچیوں کو صاف کیا جو نہ صرف گھن کھائے ہوئے تھے بلکہ دنیا جہان کے حشرات الارض کے ٹھکانے تھے۔ اس نے کنڈوں سے مکڑیوں کے جالے صاف کئے جن سے تنکے، مکڑیوں کے انڈے اور بےجان کیڑے مکوڑے بھاری تعداد میں لٹک رہے تھے، دیواروں پر آویزاں طغروں کو جن میں کمخواب پر منبت کاری کے ذریعے قرانی آیات لکھی ہوئی تھیں نیچے اتار کر ان کے شیشے چمکائے، طاقچوں سے گرد جھاڑی، جزدان سے قران پاک کے نسخوں کو نکال کر دھوپ دکھائی اور تسبیح کے دانوں کو لکڑی کے گملے میں ڈال کر میل کاٹنے والے پوڈر سے دھویا۔اس کے اگلے ہفتے تالاب سے مٹی لا کر مسجد کا برامدہ درست کیا جس میں پچھلی برسات چھپر سے پانی متواتر گرتے رہنے کے سبب ایک بڑا ساشگاف بن گیا تھا، فرش کی دڑاروں کو جو کنکھجوروں کے دائمی ٹھکانے بن گئی تھیں مٹی کا لیپ چڑھا کر بند کیا۔ اس نے گاؤں کے لوہار سے کیلیں مانگ کر دروازے کے ساتھ ساتھ میت کی چارپائی کی مرمت کی جو لوگوں کے کندھوں پر خطرناک ڈھنگ سے ہلنے لگی تھی، جائے نماز کے پھٹے ہوئے حصو ں کی پیوند کاری کی۔ وہ دن کے وقت یہ سب کچھ کرتا مگر رات رات بھر مسجد کے برامدے پر بیٹھا دور تک ڈھلانوں کی طرف تاکا کرتاجن پر کھڑے مڑے تڑے نیم جان درختوں کے اوپر تاروں سے ڈھکا آسمان کسی مچھیرے کے جال کی طرح مغرب کی طرف سرکتا جاتا۔
ان ستاروں کی طرف تاکتے ہوئے جانے کیوں اسے ایسا لگتا جیسے آسمانی مچھیرا اپنی جگہ کھڑا اس جال کو اپنی طرف سمیٹ رہا ہو جس میں یہ تارے مچھلیوں کی طرح پھنس کر چار و ناچار گھسٹتے جارہے ہوں۔ اس نے لوگوں کے گھروں میں جانا بند کر دیا تھا۔ وہ کھانے کی کوئی بھی دعوت قبول نہ کرتا۔ ’’جب دانت تھے تب چنے نہ تھے۔ جب چنے ملے تو دانت نہیں۔‘‘ وہ ہنس کر کہتا اور اپنے بچے کی قبر کی طرف اشارا کرتا۔ ’’اسے کہتے ہیں عقلمندی جب بندا پیدا ہونے سے انکار کر دے اور اپنے آپ کو دنیا کی آلودگی سے بچا لے۔‘‘ وہ کہتا۔ ’’برے انسان کو کپڑے اچھا بنا دیتے ہیں جس طرح ہمارے برے اعمال کودولت ڈھانپ لیتی ہے۔‘‘ ’’جب اتنا کچھ ہوا تو باقی بھی ہو جائے گا۔‘‘ ’’ایک مسجد میں لاکھوں گنہ گار سما سکتے ہیں مگر ایک اچھے انسان کے لئے سو مسجد یں بھی کافی نہیں ہوتیں۔‘‘ ’’جو پیسہ عرب سے آئے صرف وہ پاک ہے، باقی سب جہنم کی آلودگی ہے۔‘‘ ’’ایک وہ وقت بھی آئےگا اور ڈرو اس وقت سے جب حرام اور حلال کا فرق مٹ جائےگا، پیسوں کی بہتات ہوگی اور ہر طرف حاجی ہی حاجی دکھائی دیں گے، الو ویرانوں سے انسانی بستیوں پر اتر آئیں گے، بچے کھوٹے پیدا ہوں گے اور عورتوں کی جسمانی بھوک کبھی نہیں مٹےگی لیکن بچے پیدا ہونے سے انکار کر دیں گے۔‘‘
پھر ایک دن گاؤں میں اچانک شور مچ گیا۔’’پیش امام پاگل ہو گیا ہے، پیش امام پاگل ہو گیا ہے۔‘‘ لوگ باگ کام کاج چھوڑ کر مسجد کی طرف بھاگ رہے تھے جس کے سامنے پیش امام مادر زاد برہنہ کھڑا مسجد کے چھپر کی طرف تاک رہا تھا جسے اس نے آگ لگا دی تھی۔وہ زور زور سے قہقہے لگا رہا تھا اور اپنی داڑھی نوچ رہا تھا۔ اس پر اتنی شدید وحشت طاری تھی کہ وہاں پر جمع لوگ مسجد کے قریب جانے کی جرائت جٹا نہیں پا رہے تھے۔ پھر بھی کچھ لوگوں نے ہمت یکجا کرکے اپنے طور پر تالاب سے ڈول میں پانی بھر بھر کر آگ بجھانے کی کوشش کی، مگر پیش امام کے خوف سے وہ مسجد کے قریب جانے سے گریز کر رہے تھے۔ وہ دور ہی کھڑے ڈول سے پانی پھینکتے رہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ مسجد کا چھپر جلتا رہا اور پیش امام قہقہے لگاتا رہا۔ کھپریل کا چھپر جل کر مسجد کی دیواروں کے بیچ زمیں بوس ہو چکا تھا جس سے اڑتی چنگاریوں سے نہ صرف پیش امام کی رہائش گاہ کے چھپر نے آگ پکڑ لی تھی بلکہ ڈوبتے سورج کے سبب سرخ آسمان تک اس طرح نظر آ رہا تھا جیسے اس نے بھی آگ پکڑ لی ہو جب پیش امام اسی برہنہ حالت میں جنگل کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ سارا گاؤں اس کے تعاقب میں تھا۔ حال کی ایک موسلادھار بارش کے سبب پیڑ پودے چمک اٹھے تھے اورچٹانیں دھل کر صاف ہو گئی تھیں۔ چھوٹے موٹے جانور اور کیڑے مکوڑے اس اچانک کے شور سے گھبرا کر افراتفری میں ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ گاؤں والے پیش امام کا تعاقب کرتے ہوئے کوڑھیوں کے نالے تک پہنچ گئے جہاں چٹانوں کے درمیان تیز پانی بہہ رہا تھا۔پیش امام اس آخری چٹان پر رک گیا جو نالے کے اوپر نکلی ہوئی تھی۔ اس سے بس ایک قدم کی دوری پر وہ ساٹھ فیٹ گہری کھائی تھی جس کے اندر چٹانوں کے بیچ نالا شور مچاتے ہوئے بہہ رہا تھا۔اپنی پشت نالے کی طرف پھیر کر وہ گاؤں کے لوگوں کی طرف رخ کرکے کھڑا تھا اور اپنی سرخ آنکھوں سے ان کی طرف تاک رہا تھا جیسے اسے اس کھیل میں مزا آ رہا ہو۔ لوگ ایک محفوظ فاصلے پر سانس روکے کھڑے تھے اور اس کے اگلے قدم کا انتظار کر رہے تھے کہ پیش امام کی داڑھی کا رخ آسمان کی طرف ہو گیا، اس نے اپنے دونوں ہات اوپر اٹھاکر جیسے خداسے مخاطب ہو، ایک وحشیانہ قہقہ بلند کیا اور مڑ کرنیچے کھائی میں چھلانگ لگا دی۔ وہ اس طرح اڑتا ہوا نیچے گیا تھا جیسے کوئی چڑیا ہو جس کے بال و پرنوچ لئے گئے ہوں۔
گاؤں والے جب چٹان پر اس جگہ پہنچے جہاں سے پیش امام نے چھلانگ لگائی تھی تو انھوں نے دیکھا نیچے نالے میں پیش امام کاجسم ایک چٹان پر پڑا تھا۔ اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ کر غلط سمت میں مڑ گئی تھی، داہنا ہات جسم کے نیچے دبا ہوا تھا اور کھوپڑی کے چور ہو جانے سے بھیجا باہر آ گیا تھا۔ آس پاس کے درختوں کے پرندے آسمان میں شور مچاتے ہوئے اڑ رہے تھے اور کوڑھی اپنے اپنے جھونپڑے سے نکل کر پیش امام کے بے جان جسم کے گرد جمع ہو رہے تھے۔
ابھی ابھی ایک مال گاڑی پل کو دہلاتے ہوئے گذری تھی جس کا دھواں تیزی سے ہوا میں منتثر ہو رہا تھا۔
دھوپ کی غیرموجودگی میں پل کے نیچے کا پانی بالکل سیاہ نظر آ رہا تھا۔پانی سے نظر ہٹا کر بوڑھے نے بچے کی طر ف دیکھا جو پل کی ایک محراب سے باہر آ رہا تھا۔
’’تم پلیاکے نیچے کیا کر رہے ہو؟ یہاں آؤ،میں نے بہت دیر سے تمہارے ساتھ کوئی بات نہیں کی ہے۔‘‘
بچہ طوعاً کراہاً اپنے دادا کے پاس لوٹ آیا۔ اسے دادا کی نظروں میں رہتے ہوئے کھیلنا پسند تھا مگراب اس کے اندر اس قید سے آزادی کی چاہت جاگنے لگی تھی۔ بظاہر وہ آج بھی اپنے پرانے جنون میں جی رہا تھا مگر ان دنوں کیڑوں مکوڑوں کے علاوہ کسی اور چیز نے اس کے ذہن پر قبضہ جما رکھا تھا۔ ’’اپنے ہات دکھاؤ‘‘ دادا نے کہا۔ وہ چھتری کے مڑے ہوئے حصے سے کمر ٹکائے دونوں کہنیوں کو ہتھیلیوں سے تھامے چادر میں لپٹے کھڑے تھے جیسے چھتری کے ہٹتے ہی زمین پر جا گریں گے۔ بچے نے پتھر پھینک کر دادا کے سامنے اپنی دونوں مٹھیاں کھول دیں۔اس کی ہتھیلیاں برف کی طرح ٹھنڈی ہو رہی تھیں۔ ملائم جلدسے کائی کی مہک بھی آ رہی تھی۔ دادا اس کی منحنی انگلیوں کو دبا دبا کر دیکھنے لگے۔ ’’تم بھر پیٹ کھایا کرو۔ کہیں تمہارے پیٹ میں جونک تو نہیں۔ بچے،یہ عمر دبلا ہونے کے لئے نہیں ہے۔ جب میری عمر کو پہنچو گے تب یہ انگلیاں تم پر جچے گیں۔ ابھی نہیں۔‘‘
انھوں نے بچے کا ہات چھوڑدیا اور بھووں پر ہتھیلی کا سائبان بنا کر آسمان کی طرف دیکھنے لگے۔ آسمان میں ہواتیزبہہ رہی تھی جس میں ایک واحد چیل اپنے پر پھیلائے ترچھا اڑتی چلی جا رہی تھی۔ دور تک ماحول میں سناٹا طاری تھا۔
’’دادا۔‘‘ لڑکے نے کہا۔ ’’آجکل اتنی لال چیونٹیاں کیوں نظر آ رہی ہیں۔ ‘‘
’’کیونکہ وہ لال ہیں اور یہ رنگ جلد نظر آ جاتا ہے۔ یوں بھی یہ موسم چیونٹیوں کا ہے۔‘‘ بوڑھے نے جواب دیا۔اس نے ایک بار پھر آسمان پر نظر دوڑائی۔ آج اسے کسی وجہ سے آسمان پر اعتراض تھا جوسورج کی عدم موجودگی میں کسی گندے ترپال کی طرح ٹنگا ہوا تھا۔
’’اور پولس مولی صاحب کی لاش اٹھا کر کیوں لے گئی؟‘‘
’’اس ملک کا یہی قانون ہے۔ ایسے معاملات میں لاش کو ہسپتال لے جانا پڑتا ہے، اس کی چیر پھاڑ کرنی پڑتی ہے۔ بڑے ہو جانے پر تمہیں اس طرح کے سوالات کی ضرورت نہ ہوگی۔‘‘ بوڑھے کے چہرے سے یہ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اسے یہ موضوع پسند نہ تھا۔ اس نے اسے بدلنے کی کوشش کی۔ ’’مجھے حیرت ہے، تمہارا چیونٹیوں کا جنون ختم ہو گیا۔ ویسے تم اب سیاہ چیونٹیوں پر غور کر سکتے ہو۔ وہ بےضرر ہوتی ہیں۔‘‘
’’دنیا میں کوئی چیز بےضرر نہیں ہوتی۔‘‘ بچے نے کہا۔ ’’آپ نے ہی کہا تھا ہر کوئی اپنی ضرور ت کے مطابق اچھا یا برا ہوتا ہے۔‘‘
’’کیا میں نے ایسا کہا تھا؟‘‘ بوڑھا ہنسا۔ ’’پھر تو ثابت ہو گیا میں واقعی سٹھیا گیا ہوں۔‘‘
’’مگر مولی صاحب نے مسجد کو آگ کیوں لگائی؟‘‘
’’کیونکہ یہ اس کے اندر کی آگ تھی۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔ ’’اسے کبھی نہ کبھی تو باہر آنا ہی تھا اور بچے، دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے ہمارے پاس خدا سے بہتر چیز اور کیا ہو سکتی ہے؟‘‘
’’لوگ کہتے ہیں اس نے اپنی بیوی کو مار ڈالا تھا۔‘‘
’’کیونکہ لوگ کچھ بھی کہنے سے باز نہیں آتے، آخر اللہ نے انھیں ایک منہ جو دے رکھا ہے۔‘‘ بوڑھے نے پھر سے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔ ’’اور تم پلیا کے نیچے نہ جایا کرو۔ ایسا کیا ہے اس کمزور پل میں جو تم وہاں جاتے رہتے ہو؟‘‘
بچے کو خود پتہ نہ تھا وہ اس پل کے نیچے کیوں جایا کرتا تھا۔ شاید محرابوں سے لٹکتے چمگادڑوں کی کشش اسے وہاں لے جاتی ہو۔ دونوں اپنی جگہ کھڑے تھے جب ہوا میں ایک تیز بھنبھنا ہٹ ابھرنے لگی جیسے سینکڑوں بھنورے اور تتیا ایک ساتھ گا رہی ہوں جن میں جھینگر شامل ہو گئے ہوں۔ بوڑھے نے اپنا سر ہلایا۔’’لگ رہا ہے کوئی طوفان آنے والا ہے۔ ہمیں جلد گاؤں پہنچ جانا چاہئے۔‘‘ اور وہ مڑکر گاؤں کی طرف چل پڑا ۔ٹیلہ سے اترتے ہوئے وہ کسی ایسی ناؤ کی طرح ڈگمگا رہا تھا جس کے بادبان میں تیز ہوا بھر گئی ہو۔ ’’اور تم کیا سوچ رہے ہو۔ جلدی کرو ورنہ ہم طوفان میں گھر جائیں گے۔‘‘اس نے چھتری کھول کر مڑ ے بغیر بچے سے کہا جو اپنی جگہ ساکت و جامد کھڑا پل کی طرف تاک رہا تھا۔ پل پر بارش اتر چکی تھی۔اسے اپنی کھوپڑی پر بارش کے ایک دو بھاری بھرکم قطروں کے گرنے کا احساس ہوا اور وہ دوڑتا ہوا دادا کی چھتری کے نیچے جا گھسا۔ دادا نے اپنی چادر سے فوری طور پر اس کے کندھوں کو ڈھک لیا۔
’’احتیاط سے، احتیاط سے، پیرپھسل گئے تو کافی چوٹ آئےگی۔ یہ ایک بےرحم زمین ہے۔‘‘
بچے نے حیرت سے دادا کے چہرے کی طرف دیکھا۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ دادا کی جگہ کسی اجنبی کو دیکھ رہا ہو۔
وہ آدھے راستے پر تھے جب بارش نے انھیں آ لیا۔ ہوا کافی تیز ہو گئی تھی جس میں دادا کے لئے چھتری سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔ مگروہ چلتے رہے۔ ایسی کوئی جگہ نہ تھی جہاں وہ پناہ لیتے۔ بارش میں گاؤں نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا اور جب کہ وہ پتھریلی زمین پر جہاں گھا س اور مٹی کے سبب پھسلن ہو رہی تھی احتیاط سے پیر رکھتے ہوئے چل رہے تھے جانے کیوں بچے کو ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ بارش اگلے سو سال تک ہوتی رہےگی۔ وہ اسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا جب اچانک بارش کا زور کم پڑ گیا اور دیکھتے دیکھتے بارش رک گئی جیسے کسی نے آسمان پر ٹونٹی بند کر دی ہو۔ اب نہ صرف گاؤں دکھائی دینے لگا تھا بلکہ مغربی آسمان پر سورج بھی پوری تاب کے ساتھ نکل آیا تھا۔ سورج کی طرف حیرت سے تاکتے ہوئے جس کا نچلا حصہ سرخ ہوتا جا رہا تھا وہ گاؤں کے قریب پہنچے تو بچے کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ادھر زمین پر بارش کا کوئی نشان نہ تھا۔ اسے گاؤں کے باہر لوگوں کی اچھی خاصی بھیڑ نظر آئی۔ بچہ کو گاؤں کی طرف لپکتے دیکھ کر بوڑھے نے اسے روک لیا۔ ’’ذرا صبر سے کام لو۔ دادا کے بارے میں بھی سوچو۔ گاؤں کہیں بھاگا نہیں جا رہا ہے۔‘‘
وہ جوہڑ کے کنارے جس کا پانی تقریباً سوکھ چکا تھا کاش کے مرجھائے ہوئے سفید پھولوں کے ساتھ چل رہے تھے جب بچے کی نظر ایک سرخ نالے پر پڑی جو ڈھلان سے نکل کر جوہڑ کے کنارے سے ہوتا ہوا گاؤں کے اندر چلاگیا تھا۔ کچھ لوگ نالے کے قریب کھڑے ایک ٹک اس کی طرف تاک رہے تھے۔ بچے نے غور سے نالے کو دیکھا اور چینخ کر دادا کی کمر تھام لی۔’’لال چیونٹیاں! دادا ، یہ تو چیونٹیوں کے دل ہیں۔‘‘
واقعی یہ چیونٹیوں کا ایک مہیب قافلہ تھا جو نالے کی شکل میں مٹی، پتھر اور خش و خاشاک کو تقریباً ڈھکتا ہوا چل رہا تھا۔ کچھ چیونٹیوں کے پر نکل آئے تھے جن کے غول قافلے کے اوپر دھویں کی شکل میں اڑ رہے تھے۔ وہ کلبلاتے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں گاؤں کی طرف بڑھ رہے تھے، گاؤں جس کے چاروں طرف کھیتوں میں لوگ اپنے ساز و سامان اور ڈھور ڈھنگر کے ساتھ بکھرے پڑے تھے۔ پالتو جانور اور انسانوں کے درمیان مرغیاں آزادی سے کٹکٹاتے ہوئے ادھر ادھر بھاگ رہی تھیں جب کہ کمبل سے ڈھکے ایک تختہ پوش پر رکھے تار کے بڑے سے پنجڑے کے اندر ایک توتا اپنے پر پھڑ پھڑا رہا تھا۔ مرد گاؤں کے اندر راحت کے کام میں لگے ہوئے تھے اور بچے کھچے لوگوں اور سامانوں کو نکالنے میں مصروف تھے۔ بچے کوگاؤں کے تقریباً تمام کتے ننگے کھیتوں میں بھاگتے نظر آ ئے۔وہ بری طرح بھونک رہے تھے، مگرآج ا ن کے بھونکنے کا انداز بالکل جدا تھا جیسے مشکی باجوں میں چھید ہو گئے ہوں۔ شاید شروع میں انھوں نے بغیر سوچے سمجھے چیونٹیوں پر حملہ بول دیا تھا جس کے نتیجے کے طور پر ان کے جسموں پر چیونٹیاں چڑھ آئی تھیں۔ وہ شور مچا تے ہوئے اپنی دموں کو بھنبھوڑ رہے تھے، زمین پر لوٹ رہے تھے، سر اور مقعد کو مٹی پر رگڑ رہے تھے۔ لوگوں کی بھیڑ میں ہر طرف سے مویشیوں کے ڈکرانے کی آوازیں ابھر رہی تھیں۔ انسانوں اور جانوروں کا ملا جلا یہ شور ہی تھا جسے شاید انھوں نے دور سے بھنوروں اور تتیوں کی آواز سمجھ لیا تھا اور جب کہ آسمان کے کنارے دھیرے دھیرے سورج افق پربتدریج بڑا ہوتا جا رہا تھا بچے نے دیکھا، جوہڑ کے دوسرے کنارے سارا گاؤں، اس کی دیواریں، اس کے چھپر، برامدے اور اوسارے، اس کے چاروں طرف پھوٹتی پگ ڈنڈیاں اور ان پرکھڑی بیل گاڑیاں، طوالوں پر استادہ اناج گھر اور پیال کے گول پشتارے یہاں تک کہ تاروں سے لٹکتے کپڑے تک چیونٹیوں کے سبب سرخ ہوتے چلے جا رہے تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.