Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جادوئی حقیقت پسندی پر افسانے

خدا کا بھیجا ہوا پرندا

یہ حقائق اور خیالی تصورات پر مبنی بنی نوع انسان کی اصل دنیا سے متعارف کراتی کہانی ہے۔ انگریز ملک چھوڑ کر جا چکے تھے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی مشرقی پاکستان کا رخ کر چکی تھی۔ بستی میں چند ہی مسلمان رہ گئے تھے جو اب تک راوی کے دادا کی دو منزلہ عمارت سے آس لگائے بیٹھے تھے اور جب بھی شہر میں فساد کا بازار گرم ہوتا پناہ لینے کے لئے آ جاتے۔ اس کے دادا کو اس بات کا دکھ تھا کہ آئے دن انھیں پاکستانی جاسوس ہونے کے الزام کا سامنا کرنے کے لئے تھانہ جانا پڑتا۔ پھر ایک دن فسادیوں نے انھیں اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر مار ڈالا۔ اس کے دادا کے گھر میں کئی کرایہ دار رہتے تھے جن میں ایک کرایہ دار بدھ رام تھا جو دادا کے ساتھ لمبے عرصے تک ریلوے میں نوکری کر چکا تھا۔ اس کی ساری زندگی کا اثاثہ ایک ٹرنک کے اندر بند تھا جس پر بیٹھے بیٹھے وہ کھڑکی سے باہر آسمان پر نظریں ٹکائے رہنے کا عادی تھا۔ ان ہی تنہائی کے دنوں میں ایک دن اس نے ایک طوطے کی کہانی سنائی جس کے جسم پر اللہ کا نام لکھا ہوا تھا۔ یہ طوطا ایک ادھیڑ عمر کی عورت اس کے پاس بیچنے آئی تھی، جسے دیکھتے ہی بدھ رام نے محسوس کیا کہ اب یہاں برا وقت آنے والا ہے۔

صدیق عالم

اچھا خاصا چیروا

یہ ایک فنتاسی ہے۔ جاڑے کی ایک صبح ایک قبائلی اپنے سور کے ساتھ پہاڑ سے اُتر کر اسے بیچنے کے لئے قصبہ کی طرف جارہا تھا ۔ حالانکہ یہ اتنا آسان کام نہ تھا۔ اس قصبہ میں دوسرے چوپایوں کی طرح سوروں کا کوئی ہفتہ وار ہاٹ نہیں لگتا تھا اور سور کو کسی چوراہے پر کھڑے ہوکر بیچنے کے لئے آواز لگانا کچھ عجیب سا عمل تھا۔ وہ مایوس ہو کر واپس آ رہا تھا کہ پہاڑی ڈھلان پر ایک تین جھونپڑوں والے گاؤں کے پاس رات ہوگئی۔ یہ تینوں جھونپڑیاں دراصل تین چڑیلوں کی تھیں جو سورج ڈوبتے ہی پیڑوں پر جابستی تھیں۔ چڑیلوں نے قبائلی سے سور چھیننے کی بھرپور کوشش کی کہ اسلیے ان سے بچنے کے لیے ایک مقامی کسان کے گھر میں پناہ لینی پڑی۔ قبائلی کے لئے وہ رات بد روحوں والی رات ثابت ہوئی۔ صبح ہوتے ہی قبائلی نے فیصلہ کیا کہ وہ سور کے ساتھ ان راستوں سے گزر کر کبھی اپنے گھر نہیں پہنچ سکتا۔ لہذا اس نے کسان کو وہ سور تحفے کے طور پر دے دیا جسے اس کی بیٹی نے فوراً ایک نام دے ڈالا اور سرسوں کے کھیت میں سیر کرانے چل دی۔

صدیق عالم

بین

یہ بارہ برس کے ایک ایسے لڑکے کی کہانی ہےجو اپنی چچا زاد بہن انگورا جو عمر میں اس سے کئی سال بڑی تھی کو پسند کرتا تھا اور جس کے لیے اس کے اندر جنسی خواہشات کے جراثیم کلبلانے لگے تھے۔ چچا ریلوے میں انجن چلایا کرتے تھے۔ ان دنوں اس کی پوسٹنگ ایک دور استادہ اسٹیشن میں تھی جو پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا۔ ایک دن انگورا نے اسے اس لڑکے کے بارے میں بتایا جس سے وہ ریلوے کے ایک متروک کوارٹر میں ملا کرتی تھی اور اب وہ کچھ ہی دنوں میں اس لڑکے کے ساتھ بھاگنے والی ہے۔ اس کا چچازاد اس سے کہتا ہے کہ وہ اپنے باپ کو اس لڑکے کے بارے میں بتا دے، ممکن ہے وہ دونوں کی شادی کے لیے راضی ہو جائیں۔ انگورا نے بتا یا کہ اس کا باپ اس کے لیےکبھی راضی نہ ہوگا کیونکہ اس لڑکے پر کئی خون کے الزام ہیں اور پولس ہمیشہ اس کی تلاش میں رہتی ہے۔ چچازاد اس لڑکے سے ملنے سے منع کرتا ہے تو انگورا نےجواب دیا کہ وہ ایک ایسے باپ کی بیٹی ہے جس کے بازو پر اس کی رکھیل کا نام گدا ہوا ہے۔

صدیق عالم

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے