Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نا مراد

MORE BYراجندر سنگھ بیدی

    کہانی کی کہانی

    صفدر ایک مذہبی گھرانے کا روشن خیال فرد ہے، رابعہ اس کی منگیتر ہے جس کا اچانک انتقال ہو جاتا ہے۔ رابعہ کی ماں صفدر کو آخری دیدار کے لئے بلوا بھیجتی ہے۔۔۔ صفدر راستے بھر فرسودہ خیالات کے نقصانات کے بارے میں غور کرتا رہتا ہے۔ اسے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ رشتہ طے کرتے وقت نہ اس سے کوئی مشورہ کیا گیا نہ رابعہ کو ہونے والا شوہر دکھایا گیا تو پھر اس تکلف کی کیا ضرورت۔ وہ رابعہ کے گھر پہنچتا ہے تو رابعہ کی ماں ہائے واویلا کرتی ہے اور بار بار رابعہ کو نامراد کہتی رہتی ہے۔ رابعہ کا چہرہ دیکھنے کے بعد صفدر فیصلہ نہیں کر پاتا ہے کہ رابعہ نا مراد ہے یا صفدر یا رابعہ کی ماں جو دونوں سے واقف تھی۔

    صفدر، نقش بندوں کے ہاں کا بڑا لڑکا کالج سے گھر لوٹا، تو کھانا کھا کر قیلولہ کے لیے لیٹ گیا۔سونے سے پہلے اس کے ہاتھ میں اخبار تھا جس میں لکھی ہوئی خبریں پیٹ میں تخمیر کے ساتھ دھندلی ہوتی گئیں۔۔۔ ہوتی گئیں۔۔۔ صفدر کو پتہ تھا کہ وہ سو رہا ہے، اس کے اعضاء ایک تفریح اور تفرج کے قائل ہو رہے تھے۔ آپ سے آپ یہ خیال بھی اس کے دماغ میں آیا، کہ مرتے وقت بھی تو کچھ اس قسم کا عالم ہوتا ہے۔ جسم کے اعضاء تھک کر چور ہو جاتے ہیں، اور ایک ایسی تفریح اور تفرج کے قائل، جس کا کوئی انجام نہیں ۔ صفدر سو گیا لیکن وہ مرا نہیں۔

    تفرج کا احساس کہاں۔ ابھی اس کے اعضاء نے تفریح بھی نہیں پائی تھی کہ اسے جھنجھوڑ کر جگا دیا گیا۔ اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں، لیکن وہ کھل نہ سکیں۔ پلکوں کے لطیف پردوں میں خواب کی شاہرا ہیں۔۔۔ شریانیں، شرابی ہو رہی تھیں۔ اس نے اپنی آنکھیں دبائیں اور کھولیں۔ وہ اس منظر کے لیے تیار نہ تھا۔ وہ اس خبر کے لیے تیار نہ تھا جو آج کے اخبار میں نہیں چھپی تھی۔ بڑے نقشبند۔ امیر علی نقشبند، اس کے والد کھاٹ کے پاس کھڑے تھے اور قریب ہی ماں دروازے میں کھڑی کسی دکھ کے اظہار میں آنسو بہا رہی تھی۔

    ’’اٹھ بیٹا۔۔۔ ارے اٹھ بھی، اس قدر غافل مت ہو۔‘‘

    غافل کا لفظ نقشبندوں کے ہاں کثرت سے استعمال ہوتا تھا، اور اس کے معانی بھی مختلف تھے۔ ان معانی سے مختلف جن میں ہم تم اور زید بکر اسے استعمال کرتے ہیں۔ نقشبند تمام کے تمام بڑے متقی اور پرہیزگار لوگ تھے۔ ان کے خیال کے مطابق خدا کی یاد کے علاوہ جو وقت بھی گزرتا تھا، غفلت میں گزرتا تھا۔ کھانا پینا، نصاب رٹنا، سینما دیکھنا، سونا، سب غفلت میں شمار ہوتا تھا۔ صفدر نے اپنے آپ اندازہ کر لیا کہ نماز کے متعلق کچھ کہتے ہوں گے، اور وہ جی چرا کے سونے لگا۔ جب بڑے نقشبند نماز، تسبیح اور روزہ استغفار کے متعلق کچھ کہتے، تو صفدر جگر کا ایک شعر پڑھ دیتا۔

    محو تسبیح تو سب ہیں مگر ادراک کہاں

    زندگی خود ہی عبادت ہے مگر ہوش کہاں

    اس شعر میں انسان کے لیے کس قدر آزادی تھی۔ وہ ثواب میں بھی آزاد تھا تو گناہ میں بھی آزاد، گناہ بھی عبادت تھی ۔ پودوں کے ہوا سے سر ہلانے کا عالمگیر اثبات، پرندوں کے چہچہے، ستاروں کا ایک انجانے مرکز کے گرد طواف، یہ سب کچھ عبادت تھی جو اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے ہو رہی تھی۔ بڑی مچھلی کا چھوٹی مچھلی کو کھا لینا، انسان کا انسان کو کچل دینا، بطلان کا حق پر چھا جانا۔ یہ سب کچھ عبادت ہی تو تھی۔ لیکن اگر وہ کاہل نہ ہوتا، اگر وہ سست نہ ہوتا تو اس کی عبادت مکمل ہو جاتی، کیونکہ ماں اور بڑے نقشبند بھی اس شعر کو کاہلی کا ایک جواز سمجھتے تھے۔ ان کے خیال میں زندگی کے دریا میں بہتا ہوا تنکا ایک ارادہ رکھتا تھا۔ چاہے کس قدر بے بضاعت تھا وہ، لیکن چند لہریں تھیں جو اس سے خوف کھاتی تھیں، اس تنکے سے، اس پر کاہ سے۔۔۔ لیکن ماں کی سسکیاں، یہ محض وہ غفلت نہ تھی، صفدر گویا بجلی کے کسی ننگے تار سے چھو گیا اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔

    بڑے نقشبند نے متانت سے کہا ’’بیٹا! اٹھ کپڑے بدل لے۔ تمھارے سسرال سے بلاوا آیا ہے۔‘‘

    ’’میرے سسرال سے؟‘‘ صفدر نے حیرت سے پوچھا اور ماں کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ ’’ماں!‘‘

    ماں نے اپنے جذبات کو دباتے ہوئے کہا ’’نامراد! اٹھ۔۔۔ جا تجھے میری خوشدامن نے بلایا ہے۔‘‘

    ’’نامراد‘‘ اور ’’خوشدامن‘‘ کے الفاظ کچھ عجیب طریقے سے استعمال کیے گئے تھے۔ وہ نامراد کا لفظ اس وقت کہا کرتی تھیں جب وہ گور میں پٹے، خون تھوکے، کی معنوی حد سے ورے، بہت ورے محبت اور نفرت کی الجھنوں میں خفیف سی خفگی کا اظہار کرنا چاہتی تھی۔ لیکن آج اس نے نامراد کچھ اس طرح کہا تھا جیسے اس کا بیٹا صفدر واقعی نامراد ہو۔ اور اس کی منگیتر کی ماں کو وہ خوشدامن کے نام سے کم ہی پکارا کرتی تھی۔ وہ صرف رابعہ کی ماں کہہ دیتی تھی۔ صفدر کا ما تھا ٹھنکا۔ آج خوشدامن کے لفظ پر زور دینے اور دہلیز پر کھڑے آنسو بہانے کی یہ وجہ تو نہیں کہ ماں کے ہاتھ سے خوشی کا دامن چھوٹ گیا ہے اور رابعہ کی ماں کے ہاتھ سے بھی؟

    لیکن کیا مضائقہ ہے؟ صفدر نے پل بھر میں سوچ لیا۔ اس نے اپنے ہاتھ سگریٹ کی طرف بڑھائے ،لیکن بڑے نقشبند کو دیکھ کر رک گیا۔ ان کے سامنے سگریٹ پینا، گھر بدر ہونا تھا۔ لیکن اپنی لاپروائی کا اظہار کسی طرح ممکن نہیں تھا۔ صفدر نے جھک کے چارپائی کے نیچے سے، بوٹ کٹوا کر بنائے ہوئے سلیپر نکالے اور انھیں پہن کر کھڑا ہو گیا اور اپنی ماں کی طرف خالی خولی نگاہوں سے دیکھنے لگا۔‘‘ کیا رابعہ کی ماں نے کوئی اور رشتہ دیکھ لیا ہے؟ یا۔۔۔ ؟‘‘ وہ اپنے آپ کو فریب دینا چاہتا تھا۔۔۔ بالفرض محال اگر رابعہ، رابعہ بے چاری کو کچھ ہو گیا ہو، تو پھر اسے بلانے کی کیا ضرورت ہے؟

    نیچے زینے پر دھم دھم کی آوازیں آنے لگیں۔ سڑک پر کھلنے والی کھڑکی سے گھر کے زینہ کا آخری حصہ بھی نظر آتا تھا۔ گھر میں کون ہے، یہ دیکھنے کے لیے صفدر نے کھڑکی کو کھولا اور نیچے جھانکا۔ جمن تھا۔ رابعہ کا نوکر۔ شاید یہی وہ خبر لایا تھا جسے ایکا ایکی بتا دینے میں بڑے نقشبند اور اس کی ماں ایک قدرتی خوف کی وجہ سے تامل کر رہے تھے۔ اس وقت ابھی دوپہر ڈھل رہی تھی کہ آسمان پر سلاروں کی قطاریں بڑے بڑے اور سست پروں کی طرح اڑنے لگیں۔ شہر کا دھواں گاڑھا ہو رہا تھا اور شہر کو پیش از وقت اندھیرے میں مبتلا کر رہا تھا۔

    ماں ابھی تک کچھ بول نہ سکی تھی۔ یہ اس کی عادت تھی۔ وہ پیدائش، شادی اور موت، تینوں موقعوں پر اپنے جذبات کو لفظوں سے آسودہ نہیں کرسکتی تھی۔ بڑے نقشبند نے ارد گرد کوئی کرسی نہ دیکھی تو صراحی والی تپائی لے کر بیٹھ گئے ،جس پر سے عرصہ ہوا صراحی ہٹا دی گئی تھی۔ بولے۔۔۔ ’’بیٹا! یہ بڑی بری خبر ہے، تمھاری رابعہ چل بسی‘‘ ماں نے اپنا منھ چھپا لیا اور پھر جلدی سے اپنے بیٹے کی طرف دیکھنے لگی۔ صفدر اس خبر کے لیے تیار نہ تھا، لیکن اس نے حیرانی سے منھ کھول دینے کے علاوہ اور کچھ نہ کیا۔

    نقشبند، زمانے کی دوڑ سے بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ صفدر کو اس بات کا شدید گلہ تھا۔ اس لڑکی کے لیے اسے کیسے افسوس ہو سکتا تھا، جسے اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کا چہرہ صاف کہہ رہا تھا کہ رابعہ مر گئی ہے تو کیا ہوا؟ اسے صرف اس قدر افسوس ہوا جتنا کسی راہ چلتے کو میت مل جانے سے مرنے والے پر ہوتا ہے۔ شاید اس سے کچھ زیادہ ، کیونکہ رابعہ کا نام اب اس کے نام کے ساتھ لیا جاتا تھا اور اس کے کان رابعہ صفدر، صفدر رابعہ کی گردان سے مانوس ہو گئے تھے۔ جب پہلے پہل وامق عذرا، ہیر رانجھا، رومیو جولیٹ کے نام اکٹھے لیے گئے ہوں گے، تو کانوں کو کس قدر ٹھیس پہنچتی رہی ہو گی۔ لیکن اب یہ نام گھریلو بن گئے تھے۔ روزمرہ ، اسی طرح رابعہ اور صفدر کے نام روزمرہ تھے۔ آج رابعہ امتحان دے رہی ہے۔ آج صفدر تقریر کر رہا ہے۔ رابعہ کس قدر خوبصورت ہے اور اتنی اچھی صحت والی۔۔۔ صفدر۔۔۔ صفدر گورا چٹا ہے۔ رابعہ سرخ بہت ہے اور اس لیے کچھ کھولائے ہوئے خون کی طرح سیاہی مائل۔ صفدر کو کچھ رنج ہوا۔ اس نے سوچا صفدر رشیدہ، صفدر منور، صفدر نزہت۔ لیکن اس کے کانوں کو کچھ برا معلوم ہوا۔ اس نے کچھ شرماتے ہوئے کہا۔

    ’’ابا جان مجھے افسوس ہے۔ لیکن میں جا کر کیا کروں گا؟‘‘

    اماں جان نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا ’’بیٹا! یہ تو ٹھیک ہے، لیکن تمھاری رابعہ کی ماں نے خواہش ظاہر کی ہے۔‘‘

    صفدر کو لفظ ’تمھاری‘ کے دہرائے جانے پر جی ہی جی میں ہنسی آئی۔ اس سے پہلے بھی وہ اس کی تھی، لیکن کسی نے اس طور پر اسے صفدر کے ساتھ منسوب نہیں کیا تھا۔ اب مر کر وہ اور بھی تمھاری ہو گئی تھی۔ اب جب کہ وہ دراصل کسی کی بھی نہ تھی۔ لیکن وہ مر کیسے گئی، یہ اب تک صفدر نے نہ پوچھا تھا۔ درحقیقت وہ اس خبر سے بھونچکا سا رہ گیا تھا، لیکن نقشبندوں کے ہاں کی جھوٹی حیا کی خاطر اس نے حیرت کا اظہار نہ کیا۔ اس نے بڑی مشکل سے کہا،

    ’’ماں، کل تو مجھے اس کا بھائی ملا تھا۔۔۔‘‘

    بڑے نقشبند نے اٹھتے ہوئے کہا۔

    ’’بیٹا صفدر!۔۔۔ بے چاری اچانک چل بسی۔ اچانک۔۔۔ اسے ایک خاص بیماری تھی۔‘‘

    اس خاص بیماری کے متعلق صفدر کچھ نہ پوچھ سکا۔ اس نے کپڑے اتارنے کے لیے کھونٹی کا رخ کیا اور اس کے ہاتھ خود بخود لباس میں کالے عنصر والی چیزوں کی طرف اٹھ گئے۔ خاص بیماری؟ اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔ وہ جانتا تھا کہ عورتوں کو کئی قسم کی کہنے اور نہ کہنے لائق بیماریاں ہوتی ہیں۔ اس کے گھر میں خود اس کی ماں ہر وقت کسی نہ کسی تکلیف میں مبتلا رہتی ہے۔ گھر کے سب طاقچے شیشیوں سے بھرے رہتے تھے۔ جیسے اسے کتابیں سجانے کا شوق تھا، اسی طرح اس کی ماں کو شیشیاں سجانے کا۔ لیکن دوسرے ڈاکٹر کے پاس جاتے وقت کوئی شیشی نہ ہوتی تھی اور بڑے نقشبند سٹپٹایا کرتے تھے۔ وہ جتنا ماں کو اس بیماری کے متعلق پوچھتا، اتنا ہی اسے یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا۔’’پیٹ درد ہے۔ سر دکھ رہا ہے۔ چھاتی پھنک رہی ہے ابکائیاں آ رہی ہیں۔‘‘وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اور اب اس نے عورتوں کی بیماریوں کے متعلق پوچھنا چھوڑ دیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ عورتوں میں برداشت کا مادہ زیادہ ہوتا ہے اور وہ عام طور سے بیماریوں سے بچ نکلتی ہیں۔ لیکن رابعہ مر گئی۔

    صفدر نے پوچھا، ’’میت کب اٹھے گی، میاں جی؟‘‘

    میاں جی نے جواب دیا، ’’آٹھ بجے۔ اس سے پہلے نہ اٹھ سکے گی۔‘‘

    ماں نے کہا، ’’ایک بھائی جالندھر میں دکان کرتا ہے، اسے بھی تار دیا گیا ہے۔‘‘

    ’’آپ بھی شامل ہوں گے؟‘‘ صفدر نے پوچھا۔

    ’’کسی پہ احسان تھوڑے ہے۔ ‘‘

    صفدر نے اصرار کرتے ہوئے کہا، ’’میاں جی،میں بھی آپ کے ساتھ شامل ہو جاؤں گا۔‘‘

    صفدر نے دیکھا، اس قسم کے سوال بڑے نقشبند کو کچھ درست نہیں معلوم ہو رہے ہیں، انھوں نے اپنے ہونٹ کاٹے اور کہا ’’تم میری بات مانو گے یا اپنی کہے جاؤ گے؟‘‘

    صفدر نے سر جھکا لیا۔ ماں دخل دیتے ہوئے نرمی سے بولی۔

    ’’بیٹا، رابعہ کو تمھارے پہنچنے کے بعد نہلایا جائے گا۔‘‘

    اور ماں فرط غم سے رونے لگی۔ اس نے دیوار کے ساتھ اپنا سر مارتے ہوئے کہا۔

    ’’ہائے میری بیٹی۔ میں تجھے بہو بنا کر لاتی اس گھر میں۔‘‘

    صفدر کو اور بھی حیرت ہوئی۔ لیکن وہ بغیر مزید سوال کیے چل دیا۔ سیڑھیاں اترتے ہی اسے جمن مل گیا۔ جمن بڑی شدت سے صفدر کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے بھی پتہ چل رہا تھا کہ وہ روتا رہا ہے۔ صفدر نے کہا۔ ’’جمن!‘‘ لیکن جمن نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ صفدر کو دیکھ کر پھر سے رونے لگا۔ صفدر نے کہا ’’چلو۔‘‘ اور جمن روتا ہوا ساتھ ہولیا۔ صفدر چلتا گیا اور سوچتا گیا۔ اس کے جانے کے بعد ہی رابعہ کو نہلایا جائے گا۔ کیوں؟ کیوں؟ رابعہ کے ہاں لوگ سخت پردے کے قائل تھے۔ آج اس کا، اس گھر میں دخل کیسے ہو گا؟ اس گھر میں، جس میں اسے داماد بن کر، سہرے باندھ کر داخل ہونا تھا۔ وہ اندر کیسے جائے گا؟ اس نے اپنی ’’تمھاری‘‘ کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ وہ ’’نامراد‘‘ تھا۔ ماں اور خالہ کے کہنے کے مطابق رابعہ خوبصورت تھی، ہزاروں میں سے ایک۔ لیکن اگر وہ شادی کے بعد بدصورت نکلتی تو وہ کیا کر لیتا؟ اس سے کسی نے پوچھا نہیں تھا۔ ممکن ہے لوگ لمبوترہ چہرہ ناپسند کرتے ہوں۔ لیکن اسے ایسا چہرہ پسند ہے، اور اس نے بچپن سے ہی ایک خاص قسم کے گوشوارے اپنی دلہن کو پہنانے کا ارادہ کر رکھا ہے، جو لمبوترے چہرے پر اچھے دکھائی دیں۔

    جمن بڑی خاموشی سے میلا کچیلا تولیہ کندھے پر ڈالے، ننگے پاؤں صفدر کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے وہ صفدر بابو کے نقوش پا پر اپنے پاؤں رکھ کر چل رہا ہے۔ لیکن صفدر نے اس مضروب جذبات والے فرماں بردار نوکر کو باتوں سے آزمانا نہ چاہا۔ اور وہ چلتا گیا۔ اسے دو سے تین فرلانگ شہر کی تنگ و تاریک گلیوں اور بازاروں میں سے، جہاں بہت ہی شور و شغف تھا، گزرنا تھا۔ ممکن ہے رابعہ کو اپنا منگیتر یاد نہ ہوتا۔ اور صفدر نے اپنے گورے چٹے ہاتھوں کو دیکھا، اور بازار میں چلتے ہوئے ایک بہانے سے سوڈا واٹر والی دکان میں لگے ہوئے شیشے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس کے بال سلجھے ہوئے نہیں تھے، لیکن اس کے چہرے سے ایک حسین بے نیازی دکھائی دے رہی تھی ،جسے صفدر نے خود بھی محسوس کیا۔ لیکن یہ تو ’’عطار بگوید‘‘ والی بات تھی۔ اس وقت دوپہر شام میں ڈھل چکی تھی۔ کبوتروں نے اڑ اڑ کر تاروں پر بیٹھنا شروع کر دیا تھا۔ ایک کبوتر نے ستم ظریفی سے صفدر کے کوٹ پر بیٹ کر دی۔ جمن نے دوڑ کر اسے تولیہ سے پونچھ دیا۔

    ’’رہنے دو۔۔۔‘‘ صفدر نے کہا۔ ’’میں ایسی ہی ذلت کے لیے پیدا ہوا ہوں۔‘‘

    وہمی صفدر نے یہ فقرہ یونہی کہہ دیا۔ لیکن اس سے جمن کو بہت تسلی ہوئی اور وہ اب تک یہی سوچتا آ رہا تھا کہ صفدر کو رابعہ بی بی کے مرنے کا ذرا بھی افسوس نہیں۔ لیکن صفدر اپنی گتھیاں سلجھا رہا تھا۔ اسے افسوس تھا، لیکن اس کی آنکھوں میں آنسو نہ آسکے۔ اور دکھاوے کے لیے وہ رونا نہیں چاہتا تھا۔ اسے خیال آیا کہ عجب کیا، جو اسے ناپسند کرتے ہوئے رابعہ نے کچھ کھا لیا ہو، اور خوف سے اس کا جسم اور روح کانپنے لگے۔ شاید رابعہ کی ماں نے اپنی اسی حماقت کی طرف توجہ دلانے کے لیے اسے بلایا ہو۔ لیکن ایسی باتیں کہنے کے لیے تو اسے دنیا کے ماں باپ کی طرف رجوع کرنا چاہیے تھا۔

    ایک جگہ صفدر نے پیچھے مڑکر جمن کو پکارا۔

    جمن نے کہا، ’’ہاں سرکار۔‘‘

    ’’بی بی کو کیا تکلیف تھی؟‘‘

    جمن کا گلا پھر رقت سے بھر آیا۔ اس نے کہا۔

    ’’بڑا جلم ہوا سرکار۔ بڑا گھور جلم ہوا۔‘‘

    ’’رابعہ بی بی نے کھا لیا کچھ؟‘‘

    ’’ہے ہے۔‘‘

    جمن نے دونوں ہاتھ ہلاتے اور کانوں کو چھوتے ہوئے کہا۔

    ’’رابعہ بی بی ایسی نہ تھی صفدر بابو۔۔۔ اس ایسی نیک لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ تمھاری نوکرانی نے بتایا ہے۔‘‘

    ’’ہماری نوکرانی؟‘‘

    صفدر نے حیرت سے پوچھا اور پھر کہا۔

    ’’اچھا۔۔۔ تمھاری بیوی نے!‘‘

    جمن نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’کنواری بی بی کے متعلق یہ بات کہنے لائق نہیں ہے۔ جو میں گناہ کرتا ہوں تو۔۔۔ ’’اور یہ کہتے ہوئے جمن نے زمین پر سے مٹی چھوئی اور کانوں کو ہاتھ لگایا‘‘ تو اللہ بخش دے۔ بی نہانے والی تھی کہ اس نے ٹھنڈے پانی سے نہا لیا اور اس کے بعد وہ بالکل جڑ گئی۔‘‘

    ’’نہانے والی تھی تو نہا لیا۔‘‘ صفدر نے حیرت سے پوچھا اور پھر سمجھتے ہوئے بولا۔‘‘ اوہ۔۔۔ ہاں ۔۔۔ میں سمجھ گیا جمن۔ اس میں گناہ کی کون سی بات ہے؟‘‘

    اور پھر دونوں خاموشی سے چلنے لگے۔ صفدر کا بلانا ،اس کے لیے اور بھی معمہ بن گیا۔ اسے ایک گونہ تسلی ہوئی، کہ رابعہ اپنے منگیتر کی وجہ سے مایوس نہیں ہوئی۔وہ اس قدر اچھی لڑکی تھی، اسی لیے وہ ’’نامراد‘‘ تھا۔ صفدر کو پھر محسوس ہوا کہ وہ رابعہ کے لیے ہمدردی کا جذبہ پیدا کر رہا ہے۔ کوشش سے ۔ محنت سے ۔ دراصل اسے اپنے آپ کو کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ شاید ماتم کدے میں پہنچ کر اس کا دل پسیج جائے۔ لیکن اگر اس سے رویا نہ گیا تو بری بات ہو گی، اور اگر وہ رو دیا تو اور بھی بری بات ہو گی۔

    صفدر کے خیالات پیچھے کی طرف دوڑ گئے، جب رابعہ کی ماں لڑکا دیکھنے آئی تھی، جب اس نے صفدر کو دیکھا تھا۔ مجھے دیکھا تھا اور رابعہ کو کسی نے نہ پوچھا تھا۔ وہ خود رابعہ تھی، ورنہ وہ کس طرح اسے پسند کرسکتی تھی؟ اس وقت وہ رابعہ کی ماں کا داماد نہیں تھا۔ وہ ایک لڑکا تھا، خوش شکل، متناسب جسم والا۔ ایک مرد۔۔۔ اور رابعہ کی ماں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ رابعہ کے لیے یہ مناسب بَر ہے۔ اس نے اپنے ذہن میں رابعہ اور صفدر کو اکٹھے کھڑے دیکھ لیا تھا۔ کیا اچھی جوڑی تھی۔ لیکن اس وقت رابعہ کہاں تھی؟ تخیل میں صفدر کے ساتھ کھڑی رابعہ کی ماں تھی، رابعہ نہیں تھی۔ اور صفدر کو ان فرسودہ رسموں سے نفرت تھی۔ کیوں نہیں اسے رابعہ کو دکھایا گیا؟ اور کیوں نہ رابعہ اسے دکھائی گئی۔ اب رابعہ مر چکی ہے اور وہ اس کے لیے کچھ بھی محسوس نہیں کر رہا۔ وہ کیوں ان کے دکھ درد میں شریک نہیں ہو سکتا؟ اب اسے کیوں بلایا جا رہا ہے۔ اسے چڑانے کے لیے؟ ان پابندیوں پر آنسو بہانے کے لیے؟ سر پیٹنے کے لیے؟

    ’’آفتاب منزل‘‘ کے سامنے پہنچ کر صفدر کھڑا ہو گیا۔ گھر میں خاموشی تھی۔ ایک پراسرار قسم کی خاموشی، جو عام طور پر ماتم والے گھر میں نہیں ہوتی۔ شاید ماتم کرنے والے صبح سے رو رو کر نڈھال ہو چکے تھے۔ ان کے گلے سوکھ گئے تھے اور اب ان کے جسم کا رواں رواں رو رہا تھا۔ یہ خاموش رونا تھا، جو نالوں سے کہیں زیادہ تھا۔ دکھاوا تو تھا نہیں، جوان بیٹی دیکھتے دیکھتے ہاتھوں سے چلی گئی تھی۔ صفدر رک گیا۔ وہ خود حیران تھا کہ وہ اس گھر میں کس طرح داخل ہو رہا ہے۔ رابعہ کو بھی اس قسم کی تعلیم نہ دی گئی تھی، جس سے وہ یہ حرکت نہ کرتی۔ وہ شرم و حیا کی پتلی، عفت اور پاکیزگی کا مجسمہ ایک جھوٹی شرم کا شکار ہو کر رہ گئی۔ کیا اس نے مرنے سے پہلے ایک بار بھی صفدر کے متعلق سوچا؟۔۔۔ نہیں قطعا نہیں۔ اسے کیا معلوم صفدر کس قسم کا آدمی ہے۔ اس کا کوئی خیالی دولھا ہو گا، جیسے ہر لڑکی کا ہوتا ہے۔ لیکن وہ صفدر نہیں ہو گا۔ وہ کوئی اور ہو گا۔ ایسے ہی جیسے اس کی خیالی دلہن یقینا رابعہ سے مختلف ہو گی۔ اور وہ رابعہ کے لیے اسی طرح محسوس کرے گا، جیسے اس نے کسی بھی مرنے والی لڑکی کے لیے محسوس کیا ہو۔ وہ اس گھر میں کیا استحقاق رکھتا ہے؟ وہ کیوں داخل ہوا۔ اسے کیا حق ہے؟۔۔۔ وہ آگے بڑھا۔ ٹھٹکا۔۔۔ بڑھا۔ اسے جمن کو بھیج کر بلایا گیا ہے۔

    رابعہ کی چھوٹی بہن قمر، جو منگنی میں بھی صفدر کے ہاں آئی تھی، دوڑی ہوئی باہر آ گئی۔ اس کے منھ سے چیخ نکل گئی۔ ’’دولھا بھائی آ گئے۔‘‘ صفدر نے اپنی طرف دیکھا۔ وہ دولھا بھائی تھا، کالے کپڑے پہن کر اپنی دلہن کو لینے آیا تھا۔ اسے سب کچھ عجیب معلوم ہوا، ایک ڈھونگ، ایک نیم سیاسی چال۔ اسے یہاں کیوں بلایا گیا تھا؟ رابعہ کا بھائی آیا۔ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ اس کی قمیص کے بٹن کھل رہے تھے۔ شلوار کا ایک پائچہ اوپر نیفے میں تھا اور دوسرا زمین پر گھسٹ رہا تھا۔ وہ مادے کے احساس سے اوپر، روح کی تکلیف میں مبتلا تھا۔ روح، جس نے جسم کا حلیہ بگاڑ دیا تھا، وہ چیخا اور اس نے صفدر کو بازو سے پکڑ لیا۔ گویا وہی ان کا مجرم تھا۔ وہ اسے دولھا بھائی کہنا چاہتا تھا، لیکن اس نے نہ کہا۔ وہ فقط روتا رہا۔ بالغ آدمی کا رونا، جو ہر عمر کے انسان کے رونے سے زیادہ کریہہ ہوتا ہے، کیونکہ وہ رونا نہیں چاہتا لیکن روتا ہے۔ پھر اس کے چہرے کے تناؤ کسے جاتے ہیں اور وہ انھیں چھپاتا ہے۔

    صفدر گھر میں داخل ہوا۔ گھر میں برتن اور کپڑے ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے۔ رابعہ کی ماں بال بکھیرے بیٹھی تھی۔ وہ جھول رہی تھی۔ فرط غم سے وہ ایک جگہ بیٹھ نہ سکتی تھی۔ وہ جیتی تھوڑے ہی تھی۔ وہ مر چکی تھی۔ رابعہ جیتی تھی۔ رابعہ کی ماں مر چکی تھی۔ صفدر کو دیکھتے ہوئے اس نے نہایت خوفناک آواز سے چلانا شروع کیا۔ ایک بند دروازوں والے کمرے کے اندر سے بھی کسی بزرگ آدمی کے رونے کی آواز آئی۔ غالبا یہ رابعہ کے باپ تھے، جو کسی کے سامنے رونا نہیں چاہتے تھے۔ اب صفدر کو رونے کے لیے کوشش کی ضرورت نہ تھی۔ آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔

    رابعہ کی ماں گرتی پڑتی اٹھی اور وحشیانہ انداز سے صفدر کے گلے میں بازو ڈالتے ہوئے بولی۔ ’’بیٹا! تو اس گھر میں سہرے باندھ کر آتا، بیٹا میں تیرے شگن مناتی، میں تیرا سر چومتی، لیکن میں رونے کے سوا کچھ نہیں کرسکتی۔ اللہ کو میرا رونا منظور تھا۔‘‘ صفدر کے سامنے ایک لاش ڈھکی پڑی تھی۔ ماں باپ، ساس سسر کے ارمانوں کی لاش۔ رابعہ۔۔۔ صفدر۔۔۔ صفدر کو رونے کے لیے کوئی بھی کوشش نہ کرنا پڑی۔ اس کے دل میں ایک ابال سا آیا وقتی ابال، جو شاید رابعہ کو سامنے پڑے دیکھ کر نہیں آیا تھا، بلکہ اپنے ارد گرد انسانیت کے دکھ درد کو دیکھ کر آیا تھا۔ رابعہ کی ماں نے کہا۔ ’’بیٹا! تو کیوں روتا ہے؟‘‘۔۔۔ لیکن رابعہ کی ماں نے اس کے رونے میں ایک خوشی، ایک تسکین سی محسوس کی۔ اگر وہ نہ روتا تو۔۔۔ صفدر کو رابعہ کی ماں نے آخر کس لیے بلایا تھا؟ رابعہ کی ماں نے کہا ’’بیٹا! تو کیوں روتا ہے، تیرے لیے دلہنیں بہتیری ۔ میرے لیے بیٹی نہیں کوئی۔ میری رابعہ مجھے کہیں نہیں ملے گی۔‘‘ صفدر نے جی ہی جی میں غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’تمھارے اوہام! تمھاری جھوٹی حیا کا شکار لڑکی شاید اب تمھیں نہ ملے گی۔ شاید تم اس سے اس کھوٹے سکے کے طلبگار نہ ہو گے۔ تم لوگ ظالم ہو۔ بے رحم۔۔۔ میں ظالم ہوں، بے رحم اور سنگ دل۔ شاید میں دل کی تہ سے آنسو لاتا، لیکن اب رابعہ کون ہے؟۔۔۔ یہ میری دلہن نہیں۔‘‘

    رابعہ کی ماں نے صفدر کو روتے دیکھا تو خاموش ہو گئی۔ نہ جانے کیوں خاموش ہو گئی اور پھر بولی ۔’’بیٹا!، تو مت رو، میں تیرے لیے دلہن لاؤں گی۔ رابعہ سے بھی زیادہ خوبصورت۔ اس سے بھی زیادہ لمبے بالوں والی۔ تیری روتی ہے پیزار لیکن میری بیٹی نامراد جا رہی ہے اس دنیا سے۔ اسے ایک بار دیکھ لے۔ اس کی شادی یہی ہے کہ تو اسے ایک نظر دیکھ لے۔ دیکھ دیکھ میں تجھے کیا دے رہی تھی۔ نصیبوں جلے۔

    صفدر اس بات کے لیے تیار نہ تھا۔ اسے اپنے ماحول سے نفرت ہو رہی تھی۔ ایک عجیب طرح کی ہمدردی آمیز نفرت، ان بکھرے ہوئے برتنوں، ان پھٹے ہوئے کپڑوں، اس کفن۔۔۔ اس لاش۔۔۔ سے ایک قسم کی ہمدردی اور نفر ت۔ وہ یہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا۔ اسے پورا بھروسا تھا کہ اسے ناحق پریشان کیا جا رہا ہے۔ اسے یقین تھا کہ مرنے والی کی روح کو ناحق اذیت دی جا رہی ہے۔ محض خود غرضی، محض اپنی آسودگی کے لیے وہ اس ماتم والے گھر میں اس ’’دوسری لڑکی‘‘ کے متعلق کچھ بھی سننے کے لیے اور پھر مرنے والی کی ماں کے منھ سے۔ اسے حیرت ہوئی۔ لیکن وہ چپ رہا ۔ وہ بھاگ نہ سکا۔ ایک خاص قسم کا تحیر اس پر چھا گیا، جو مردے کو دیکھنے کے لیے ہر زندہ شخص پر چھا جاتا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ ڈر جائے گا، لیکن وہ رابعہ کو دیکھنا چاہتا تھا۔ اسے سہاگن بنانا چاہتا تھا۔ وہ نامراد تھی اور صفدر خود نامراد تھا۔ رابعہ کی ماں نے رابعہ کے منھ پر سے کپڑا ہٹا دیا۔ رابعہ خون کے کھولنے کی وجہ سے سیاہی مائل بتائی جاتی تھی۔ لیکن اب اس کا خون کھول نہیں رہا تھا۔ اس کا خون سرد ہو گیا تھا، جم چکا تھا۔ سرخی اور زردی نے مل کر ایک عجیب قسم کی سفیدی پیدا کر دی تھی۔ ہَوا میں اس کے بالوں کی ہلتی ہوئی لٹ سے اس کے زندہ ہونے کا گمان ہوتا تھا۔ وہ کس قدر خوبصورت تھی ۔ موت میں اور بھی حسین ہو گئی تھی۔ اس کا لمبوترہ چہرہ، جس پر صفدر کے تخیل میں بسے ہوئے گوشوارے کتنے مناسب دکھائی دیں۔ لیکن وہ سب غیرمانوس تھا۔ وہ اس گھر کا دولھا تھا، لیکن ایک اجنبی تھا۔ اور پھر ایک دولھا! رابعہ کی ماں اسے کوئی کم درجہ دینے کو تیار نہ تھی۔ اس نے ایک بار پھر چلا تے ہوئے کہا، ’’صفدر بیٹا! دیکھ میں تجھے کیا دے رہی تھی ۔ میری بیٹی نامراد جا رہی ہے۔ نہیں، میری بیٹی نامراد نہیں ہے صفدر ‘‘

    صفدر نے پھر ایک دفعہ بھاگنے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے پاؤں زمین میں گڑے ہوئے تھے۔ اس کا دماغ چکرا گیا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ رابعہ نامراد ہے یا وہ خود ۔ صفدر۔۔۔ جو دونوں ایک دوسرے سے نا محرم ہیں۔۔۔ یا رابعہ کی ماں نامراد ہے، جو دونوں کو جانتی ہے۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے