آلو
کہانی کی کہانی
پیٹ کی آگ کس طرح انسان کو نقطۂ نظر تبدیل کرنے پر مجبور کرتی ہے، اور بھلے برے میں تمیز کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے، وہ اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ لکھی سنگھ ایک انتہائی غریب کامریڈ تھا جو بیل گاڑیوں اور چھکڑوں میں اٹکے رہ گئے آلو جمع کرکے گھر لے جاتا تھا۔ ایک دن کمیٹی کی طرف سے بیل گاڑیوں کے لئے نیو میٹک ٹائروں کا بل پاس ہو گیا، جس کی مخالفت میں گاڑی بانوں نے ہڑتال کی اور ہڑتال کے نتیجے میں لکھی سنگھ اس دن بغیر آلووں کے گھر پہنچا اس کی بیوی بسنتو نے ہر موقع پر ایک کامریڈ کی طرح لکھی سنگھ کاساتھ دیا تھا، آج بپھر گئی، اور اس نے لکھی سنگھ سے پوچھا کہ اس نے ہڑتال کی مخالفت کیوں نہ کی، لکھی سنگھ سوچنے لگا کیا بسنتو بھی رجعت پسند ہو گئی ہے؟
لکھی سنگھ سائیکلوسٹائل کے قریب بیٹھا سوچ رہا تھا،اس وقت نہ تو اسے ہندوستان کی اقتصادی بدحالی کا خیال تھا اور نہ خاکروبوں کی ہڑتال کے متعلق تشویش تھی۔ آج شام کو گھر پکانے کے لیے کیا لے جائے، بس اسی بات نے اسے پریشان کر رکھا تھا۔ گھر میں صحن کا تین چوتھائی حصہ چھوڑ کر باقی میں بسنتو نے پام اور پاراکر اس کے علاوہ پودینہ اور بینگن کے پودے لگا رکھے تھے۔ لیکن ابھی تو بینگن کے پودوں نے نیلے نیلے، اودے اودے پھول ہی نکالے تھے۔ ابھی تو ان میں پگمنٹس (Pigments) کی نشو و نما بھی اچھی طرح سے نہیں ہوئی تھی۔ ایسے میں بینگنوں کا خیال کرنا تو محض ایک احمقانہ بات تھی۔
لکھی سنگھ شروع ہی سے پودوں کی کاشت کے خلاف تھا۔ حالانکہ بسنتو گھر میں ہریاول کو بہت پسند کرتی تھی۔ سبزی آنکھوں کو طراوت دیتی ہے، یہ تو ٹھیک ہے، لیکن لکھی سنگھ نہایت بے صبر انسان تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ آج ہی بیج بو دیا جائے اور آج ہی پھل لگ جائیں۔ہندوستان کی آزادی کے متعلق بھی اس کا کچھ ایسا ہی خیال تھا۔ پودوں کو روزمرہ پانی دینا، ان کی نگہداشت اور پھر انھیں نہایت سست رفتار سے بڑھتے دیکھنا، اس کی تاب و تواں سے باہر تھا۔ اسی لیے تو اس نے بسنتو کو صاف کہہ دیا تھا کہ پودے اگانے کے بعد میں ولگا چلا جاؤں گا۔ وہاں دو چار ماہ رہوں گا تاکہ میری واپسی پر بینگن پھل رہے ہوں اور یہی محسوس ہو، جیسے میں نے کل ہی انھیں بویا ہے اور آج پھل بھی لے لیے ہیں۔
لکھی سنگھ نے اٹھ کر چاروں طرف دیکھا۔ سب کامریڈ جا چکے تھے، لیکن اس کے کانوں میں ان کی پر شور بحث کی گونج باقی تھی۔ پھر اسے خیال آیا، خاکروبوں کی ہڑتال کس قدر مکمل ہوئی ہے۔ شہر کی تنگ و تاریک گلیوں، گنجان آباد محلوں، گزر گاہوں اور سڑکوں پر جا بجا کوڑے کے ڈھیر لگ رہے ہیں۔ شاہ عالمی کے باہر، گھوڑوں کے حوض کے قریب میلے کا پہاڑ پڑا ہے۔ ٹھنڈی سڑک کی طرف جانے والی سڑک پر تین دن سے ایک بیل مرا پڑا ہے جس کی لاش سے سڑاند اٹھ کر ہسپتال کے مریضوں تک پہنچ رہی ہے۔ اس کے اپنے کوچہ بھولا مصر میں، جہاں شہر کے مردے جلانے والے اچارج رہتے ہیں، اتنا تعفن پیدا ہو رہا ہے کہ اچارج باہر نہیں نکلتے اور ہندو کا مردہ بغیر اچارج کے کیسے جلایا جا سکتا ہے؟ یقینا بہت سے مردے گلی محلوں میں پڑے بدبو پھیلا رہے ہوں گے۔ ٹھنڈی سڑک کے قریب مرے ہوئے بیل کی طرح۔
کھڑکی میں سے ایک تیز بدبو آنے سے لکھی سنگھ اٹھا اور اس نے تمام دروازے بند کر لیے۔ دائیں طرف گھومنے سے اس کی نگاہیں سائیکلوسٹائل کے اوپر ایک کھونٹی پر جا پڑیں۔ اس کھونٹی پر کامریڈ بخشی کی ہیٹ ٹنگی رہ گئی تھی، جس کے ایک طرف سرخ پروں کا ایک خوبصورت پلوم لگا ہوا تھا۔ آخر بخشی نے سرکاری ملازمت کر لی تھی، اس لیے سب کامریڈ مل کر بروننگ کی نظم ’’وہ چند چاندی کی ٹکلیوں کے عوض ہمیں چھوڑ گیا‘‘ گاتے رہے تھے۔ بخشی رجعت پسند ہو گیا تھا۔ سب نے کامریڈ سے محبت کی تھی اور راہبری کے لیے اس کی طرف دیکھا تھا۔ اس کے گیت گائے تھے۔ اس کے افسانوں کی تعریف کی تھی اور اب؟۔۔۔ لیکن سو روپیہ ماہانہ پا لینے پر بھی اس کا چہرہ اس قدر اترا ہوا تھا۔ وہ بار بار گھبرا کر اپنی پتلون کی کریز ٹھیک کرتا تھا اور بے تحاشا آنکھیں جھپکتا تھا۔۔۔ شروع بحث میں نوبت ہا تھا پائی تک پہنچ گئی تھی اور اسے پیٹا بھی گیا تھا۔ اس کی قمیص کا ایک چیتھڑا ابھی تک ایک کرسی کے ابھرے ہوئے کیل میں اڑا ہوا تھا۔ اس نے پیٹ کی مجبوریوں کا تذکرہ کر کے ہر ایک کے جذبۂ رحم کو اکسانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن وہاں سب کی آنکھوں میں نفرت تھی۔ معلوم ہوتا ہے اتنے بڑے نصب العین سے گر جانے کا اسے خود بھی احساس تھا۔ لیکن وہ ایک حد تک مجبور تھا۔ اس کی تین بہنیں تھیں، شادی کے قابل۔ ایک بوڑھا باپ۔۔۔ ڈاکٹر، جو کہ کسی ریاست سے ریٹائرڈ ہوا تھا اور جس کی بینائی زیادہ احتیاط کی وجہ سے کم ہو گئی تھی۔ ماں کے علاوہ چار بھائی تھے، جن میں سے دو مقامی ہائی اسکول میں اور سب سے بڑا شہر سے باہر ایک کالج میں تعلیم پاتا تھا اور ان سب کے پیٹ ایندھن مانگتے تھے۔ بخشی نے ہر ایک کے اعتراض کا فردا فردا جواب دینے کی کوشش کی، لیکن کسی نے اس کی ایک نہ سنی اور پیٹے جانے کے فورا بعد ہی وہ کمرہ سے باہر بھاگ گیا اور اس سراسیمگی میں اپنی ہیٹ بھی وہیں چھوڑ گیا۔
لکھی سنگھ نے کہا، کاش! بخشی کا کوٹ ٹنگا رہ جاتا تو آج کی روٹی سے تو نجات حاصل ہو جاتی۔ پھر اسے بسنتو کا خیال آیا اور وہ سوچنے لگا۔ بسنتو صحیح معنوں میں کامریڈ ہے۔ اتنی خستہ حالت ہونے کے باوجود اس نے آج تک مجھے یہ یقین نہیں ہونے دیا کہ میں تم سے قلاش آدمی کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ مجبوری کے دنوں میں وہ میلے کچیلے چیتھڑے، ولگا سے آئی ہوئی گندم کا چھان، ایک گم نام سا پرچہ جس کا لکھی سنکھ ایڈیٹر رہا تھا، اس کی ردی بیچ کر کئی کئی دن گزار دیا کرتی تھی۔ وہ نام نہاد عزت کے خیال سے کبھی نہیں ڈری تھی اور اپنے سوشلسٹ خاوند پر بار ثابت نہ ہونے کے لیے اس نے پڑوس کے لوگوں کی قمیصیں سینی شروع کر دی تھیں۔ ایک دفعہ اس نے کوڑیوں کے مول محلہ کے تمام لوگوں سے پھٹی ہوئی جرابیں خرید لیں۔ ان کے تار نکالے اور انھیں پاپڑ منڈی کے ایک جرابوں کے کارخانے میں بیچ دیا۔ بسنتو بڑی وسیلہ ساز عورت تھی اور لکھی سنگھ مطمئن تھا۔
لکھی سنگھ اٹھا اور ایک انگڑائی لی۔ وہ کچھ تھک سا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ ہنسے لگا۔ ہنسنے کے سوا چارہ بھی تو نہ تھا اور وہ ہنسی نہ رد عمل کی ہنسی تھی اور نہ کوئی درد تھا، جو حد سے گزر کر دوا ہو گیا تھا۔ وہ ایک بے معنی کھوکھلی ہنسی تھی جو کہ آنا فانا جیب میں پیسے ختم ہو جانے سے پیدا ہوتی ہے اور خیال آتا ہے۔۔۔ بھئی خوب رہی ، چلو ، بڑے دیش بھکت بنتے تھے۔ لیکن ایک کامریڈ کی زندگی میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہی رہتے ہیں۔ وہ روس کا میخائلووچ۔۔۔
اور آخر رونے سے بنتا ہی کیا ہے۔ یہ بھی تو ایک وجہ ہے کہ ہنسا جائے اور لکھی سنگھ آہستہ آہستہ بیٹھک پر سے اترا اور پریم محل سے نکل کر سرکلر روڑ کی طرف چل دیا۔ بازار میں کتے دہی بڑے کے خالی پتے چاٹ رہے تھے۔ ایک چھوٹی سی لڑکی کا دودھ سے بھرا ہوا آبخورہ بازار میں گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا اور سرمئی سیاہ سڑک پر بکھرا ہوا دودھ اتنا بھیانک دکھائی دیتا تھا جیسے قحط کے دنوں میں گورنر کے فلاور شو کا کوئی بڑا سا کرائی سینتھیمم سر بازار رکھ دیا جائے۔۔۔ لڑکی حواس باختہ ہو کر آبخورے کے ٹکڑے اکٹھے کرنے لگی، گویا انہی ٹکڑوں کو سمیٹ کر گھر لے جائے گی۔
آسمان پر کاٹن مل کے دھوئیں کی ایک لمبی سی لکیر چیمبر لین روڈ تک چلی آئی تھی۔ اگرچہ گرمی کا موسم شروع ہو چکا تھا ،تاہم فضا میں خنکی باقی تھی اور دھوئیں کے ٹکڑے آسمان کی سپیدی مائل نیلاہٹ کے خلاف دھبوں کی صورت میں چار سو بکھرے ہوئے تھے۔ اچانک ایک تیز سی بدبو نے لکھی سنگھ کو ناک پر رومال رکھنے کے لیے مجبور کر دیا اور وہ سوچنے لگا۔ کمیٹی کی طرف سے اس میلے کے نکاس کا خاطرخواہ بندو بست نہیں۔ لوگوں کے گھر غلاظت سے بھرے پڑے ہیں۔ لیکن پھر بھی لوگ برابر ایک پیٹ کی ضرورت سے زیادہ کھائے جاتے ہیں۔
اب تک لکھی سنگھ سبزی منڈی کے قریب پہنچ چکا تھا۔ منڈی کے دروازے سے کچھ چھکڑے چیں چیں ریں ریں کرتے ہوئے باہر نکل رہے تھے۔ ان کے بیل گردن کے قریب سے زخمی تھے۔ اس کے باوجود نہ تو جوت کو پرے کھسکایا گیا تھا اور نہ ہی لکڑی کے سخت لٹھے اور اس پر زیبائش کے لیے لگائے ہوئے پیتل کے کیلوں کے گرد کوئی چیتھڑا لپیٹا گیا تھا۔ گاڑیبان بیلوں سے گزر کر ا ن کے مالکوں اور رکھنے والوں کو گالیاں دے رہے تھے۔ گوال منڈی چوک کو اکالیوں کے ایک لمبے چوڑے جلوس نے روک رکھا تھا۔ یہ لوگ سرگودھا میں مورچہ لگانے کی بابت سوچ رہے تھے۔ لکھی سنگھ نے اتفاق سے اپنا ہاتھ ایک چھکڑے کے پیچھے رکھا تو اس کے ہاتھ میں ایک آلو آ گیا۔۔۔ یہ وہی چھکڑے تھے جو کہ ہر روز صبح ساندہ شمس الدین کی طرف سے آلوؤں کی بوریاں لے کر سبزی منڈی کو آتے اور اپنی دانست میں تمام آلو انڈیل کر اپنے گھر لوٹ جاتے۔ پھر بھی دھرے کے قریب یا کسی گانٹھ اور اونچ نیچ میں کوئی نہ کوئی آلو اٹکا رہ جاتا۔ لکھی سنگھ نے تمام چھکڑوں کے پیچھے سے ٹٹول ٹٹول کر سیر بھر کے قریب آلو اکٹھے کر لیے اور اس کی آنکھوں میں پانی بھر آیا۔ وہ آنسو نہ تو غم کے تھے اور نہ مسرت کے، بلکہ یونہی خلا میں ایک جذبۂ تشکر و امتنان کا اظہار۔ یا وہ آنسو ایسے تھے جو خالی جیب کے آنا فانا بھر جانے سے پیدا ہوتے ہیں۔
لکھی سنگھ نے گھر پہنچ کر تمام آلو بسنتو کے سامنے بکھیر دیے۔ آج بسنتو شام ہی سے لکھی سنگھ کی راہ تک رہی تھی۔ آج اس وسیلہ ساز عورت کو بھی کامریڈ کے آنے سے پہلے پہلے کوئی چیز پکانے کی ترکیب نہیں سوجھی تھی۔ اچانک اندر سے لکھی سنگھ کا بڑا لڑکا کرنیل نمودار ہوا اور رسوئی میں بکھرے ہوئے آلوؤں کو ہوا میں اچھالنے لگا۔ لکھی سنگھ نے زور سے ایک چپت اس کے منھ پر لگا دی اور آلو سمیٹ کر ایک کونے میں ڈال دیے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی کمائی یونہی برباد کی جائے اور کرنیل رویا نہیں، کیونکہ ایسی باتیں تو ہر روز ہوتی تھیں۔ گھر میں کھانے کو کچھ میسر نہ آتا تھا اور اس کے بعد جب وہ کسی چیز کی طرف حریصانہ نگاہ سے دیکھتا، تو ماں یا باپ کی طرف سے ایک چپت رسید ہو جاتی۔ اگرچہ کل کی چپت سے اس روز کی چپت زیادہ سخت تھی، تاہم اس سے کرنیل کو ایک اور شرارت کا موقع آسانی سے میسر ہو گیا۔ اس نے شیشے کے سامنے سے بام اٹھائی اور نصف سے زیادہ اپنے ماتھے پر مل لی۔ کرنیل کو بام ملنے کا بہت شوق تھا۔ اسے وہ پیشانی پر ٹھنڈی لگا کرتی تھی۔ وہ بام لکھی سنگھ نے بسنتو کے لیے خریدی تھی،کیونکہ وہ لیکوریا کی مریضہ تھی اور اسے ہمیشہ سردرد رہتا تھا۔ لکھی سنگھ نے بام کو ضائع ہوتے دیکھ کر دوسری گال پر بھی طمانچہ مارنے کی کوشش کی،لیکن وہ سوچنے لگا کہ بام تو پہلے ہی نصف سے زیادہ ختم ہو چکی ہے۔
اس وقت لکھی سنگھ کو بھوک لگ رہی تھی اور وہ بسنتو سے لڑنا چاہتا تھا۔ اس نے بات بال بچوں کی تربیت سے شروع کی اور کہنے لگا۔ بچے تو انگریز عورتوں کو پالنے آتے ہیں۔ ہندستانی عورتوں کو ماں بننے کا کوئی حق نہیں۔ اگرچہ بسنتو اس طور پر انگریزوں کی تعریف نہیں سن سکتی تھی اور عموما بات یہاں ختم ہوتی تھی۔۔۔ ان لوگوں کے پاس بچوں کو کھلانے کے لیے آیا ہوتی ہیں۔ روٹیاں پکانے کے لیے خانسامے۔۔۔ اور لکھی سنگھ ایسی باتیں سن کر چپ ہو جایا کرتا تھا۔ سوشلسٹوں کے حلقہ میں وہ گھنٹوں بحث کرسکتا تھا، لیکن اس جگہ وہ پانچ منٹ سے زیادہ نہیں بول سکتا تھا۔ حقیقت اتنی تلخ ہوتی تھی کہ اسے اپنے چہرے کا عکس دکھائی دینے لگتا۔ لیکن آج اس بات پر بھی بسنتو خاموش رہی۔ اچانک دروازے کی طرف سے سخت سڑاند آئی اور لکھی سنگھ گرج کر بولا،’’تم سے یہ بھی نہ ہو سکا۔ کہ دروازہ بند کر لیتیں۔۔۔ بس نواب زادی ہی بننا چاہتی ہو تم۔‘‘
بسنتو نے اٹھ کر چپکے سے دروازہ بند کر دیا۔
لکھی سنگھ اپنی داڑھی کے بکھرے ہوئے بالوں کو سوئی لگا کر صحن میں ٹہلنے لگا۔ بھوک کی وجہ سے اسے ڈکار آرہے تھے اور پیٹ میں ناف سے اوپر ایک عجیب طرح کی آواز پیدا ہو رہی تھی،جیسے سیلاب میں دریا کے کنارے ،ایک پر شور آواز کے ساتھ پانی میں گرتے ہیں۔ اسے بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے پیٹ کی دیواروں سے کوئی چیز اندر معدے میں گر رہی ہے۔ یکایک لکھی سنگھ کو کچھ سوجھ گیا۔ پودوں کو اپنے سامنے پاکر بولا،’’بھلا ان بینگن کے پودوں کا فائدہ ہی کیا؟‘‘
’’فائدہ کیوں نہیں‘‘؟ بسنتو نے آلوؤں کو دیگچی میں ڈالتے اور ہاتھ چھانٹتے ہوئے کہا۔ لیکن لکھی سنگھ اپنے مخصوص، دوآبیہ انداز سے گرجا ’’میرا تو جی چاہتا ہے کہ انھیں ابھی، اسی وقت اکھاڑ کر پھینک دوں۔ دو مہینے سے اوپر ہونے کو آئے ہیں اور ان میں پھل کا نام و نشان تک نہیں۔‘‘
لکھی سنگھ اور بسنتو میں اس بات پر بہت جھگڑا ہوا کرتا تھا۔ کڑھتی ہوئی بسنتو بولی، ’’تبھی تو تمھیں بچوں سے نفرت ہے۔‘‘
’’بچوں سے مجھے کاہے کو نفرت ہو گی؟‘‘
’’اٹھارہ سال کی عمر تک ان کی خدمت کا تم میں صبر کہاں ہے۔ ابھی سے کہہ رہے ہو کہ لکھمیر کو گانا سکھانا چاہتا ہوں، تاکہ وہ بچپن ہی میں کمانے لگے اور اسی عمر سے ہم اس کی کمائی کھانے لگیں۔‘‘
لکھی سنگھ خاموش رہا اور مونگی توری کی بیل کے گرے ہوئے سرے کو کیل پر ٹانگنے لگا۔ بسنتو ماں تھی۔ اس میں بچے اور پودے پالنے اور انھیں آہستہ آہستہ بڑھتے دیکھنے کا حوصلہ تھا۔ وہ ہر روز صبح اٹھتی اور کہتی ۔ آج بینگنوں کو دو پھول لگے ہیں اور دو کی ڈنڈیاں پھول رہی ہیں اور مونگی توری پر بھی شہد کی مکھیاں بیٹھتی ہیں۔ اب توریاں پھلنے کا موسم آیا ہے نا، اور تم نے آخر کرنیل سنگھ سے کس جگ کا بدلہ لینا ہے؟ آخر ہولے ہولے سمجھ دار ہو جائے گا۔ یونہی اسے پیٹتے رہتے ہو۔ لکھی سنگھ کو خیال آیا کہ مونگی توری کی بیل کو جہاں سے کاٹا گیا تھا، وہاں سے زیادہ سرسبز ہے۔ وہاں زیادہ کونپلیں پھوٹی ہیں۔ وہ فورا بول اٹھا، یہ پودے کاٹنے چھانٹنے سے زیادہ نشوونما پاتے ہیں، تبھی تو میں کرنیل کو مارتا ہوں۔
جس دن لکھی سنگھ اور بسنتو کا جھگڑا ہوتا، اس دن بسنتو وہی ڈھیلا ڈھالا گلابی بلاؤز پہنتی جس سے لکھی سنگھ کو سخت نفرت تھی، اور وہ دوپہر تک سر کے بالوں کو سیدھا نہ کرتی۔ اپنے کپڑوں اور اپنی شکل سے وہ یوں سست اور زرد دکھائی دیتی، جیسے وہ حائضہ ہے۔ کبھی کبھی وہ اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر آہستہ آہستہ کراہتی اور لکھی سنگھ آہستہ آہستہ کراہنے سے بہت گھبراتا تھا۔ زور سے رونے کا اس پر کبھی اثر نہیں ہوا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ ہلکی ہلکی چیزیں مثلا ہلکی کھانسی، ہلکا ہلکا بخار، ہلکا ہلکا ہنسنا ہمیشہ خطرناک ہوتا ہے۔ اس وقت بسنتو اسے مزید تنگ کرنے کے لیے کھاٹ پر اوندھی پڑ جاتی اور پائنتی میں پاؤں اڑا کر یونہی زور لگانے لگتی اور بچہ سفری پنگورے میں نصف دھوپ اور نصف چھاؤں میں ایک ہولناک آواز سے کراہتا رہتا اور پھر یک دم چیخ اٹھتا۔ جیسے اسے چیونٹیوں کے کسی دستہ نے یک لخت کاٹ کھایا ہو۔
ہنڈیا میں سے ہلکا ہلکا دھواں اٹھ رہا تھا۔ آلو ابل چکے تھے۔ بسنتو نے انھیں سرد پانی میں انڈیلا اور لکھی سنگھ انھیں چھیل کر کھانے لگا۔ ان آلوؤں کے سوا گھر میں کچھ بھی نہیں تھا، اور لکھی سنگھ یہ بھول جانا چاہتا تھا کہ ان سیر آلوؤں میں بسنتو، کرنیل، لکھمیر اور بچے کا بھی حصہ ہے۔ وہ کہتا، ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ آلو پیٹ کو غلیظ کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ نمک مرچ لگا کر انھیں چٹخارے لیتا ہوا کھا لیتا ۔گویا کہہ رہا ہو، مجھے اپنے پیٹ کی غلاظت بہت پسند ہے۔
زندگی خوشگوار تھی۔ اس میں آسائش نہ تھی۔ سوہن حلوہ نہ تھا، لیکن آلو تو تھے اور لکھی سنگھ ہر روز شام کو چیمبرلین روڈ پر سے ہوتا ہوا سبزی منڈی کے قریب جا کھڑا ہوتا اور ساندہ شمس الدین کو لوٹنے والے چھکڑوں پر سے تمام آلو سمیٹ لیا کرتا۔ اٹھارہ تاریخ کو اسے ہندستان ٹائمز سے ’’گداگروں کے مسائل‘‘ کے مضمون کے پیسوں کی توقع تھی اور آج بارہ تاریخ تھی۔ پیٹ کی آگ کے لیے آلو کافی تھے۔
اچانک کمیٹی کی طرف سے بیل گاڑیوں کے لیے نیومیٹک ٹائروں کا بل پاس ہو گیا۔ یہ سب کچھ غریب گاڑیبانوں کی استطاعت سے باہر تھا۔ وہ سو روپے کے ٹائر کیسے مہیا کرسکتے تھے؟ کامریڈز کے ایک اجلاس نے گاڑیبانوں کی ہڑتال کروانے کا فیصلہ کر لیا اور لکھی سنگھ نے بھی ہڑتال کو کامیاب دیکھنے میں سرگرمی سے کام کرنا شروع کر دیا۔
ہڑتال کے پہلے ہی روز زندگی آلوؤں سے خالی ہو گئی تھی۔ یکسر خالی۔ ٹیوشن کی تلاش میں سارا دن گھر سے باہر گھومتے رہنے کے بعد لکھی سنگھ بسنتو کی وسیلہ سازی پر یقین کرتا ہوا ایک مجرم کی طرح گھر کے اندر داخل ہوا ،لیکن بسنتو روزمرہ کی طرح آلوؤں کا انتظار کر رہی تھی۔ اندر داخل ہوتے ہی لکھی سنگھ غور سے بینگن کے پودوں کی طرف دیکھنے لگا۔ لیکن ابھی تک تو پودوں کے کلوروفل نے بھی اچھی طرح سے نشوونما نہیں پائی تھی۔
لکھی سنگھ بسنتو سے لڑنا چاہتا تھا، تاکہ وہ آلوؤں کے متعلق پوچھے ہی نہیں اور لڑنے کے بعد دونوں ایک دوسرے سے لڑکر خاموشی سے اپنی اپنی جگہ پر پڑ رہیں۔ لکھی سنگھ چاہتا تھا کہ اس لڑائی کے بعد ہمیشہ کی طرح بسنتو اپنے میکے چلے جانے کی دھمکی دے اور وہ فورا رضامند ہو کر اسے اسٹیشن پر بلا ٹکٹ گاڑی میں سوار کروا دے۔ لیکن آج بسنتو نے وہ گلابی بلاؤز نہیں پہنا ہوا تھا۔ آج اس نے دیل کی سفید دھوتی باندھ رکھی تھی جس سے لکھی سنگھ کو عشق تھا۔
اس وقت لکھی سنگھ نے بسنتو کو گاڑی بانوں کی ہڑتال کے متعلق بتایا اور آلوؤں کے نہ لانے کی وجہ بیان کی۔ بسنتو کچھ دیر اپنا سر ہاتھ میں دیے بیٹھی رہی۔ پھر وہ خشمگیں انداز سے لکھی سنگھ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔ ’’تم نے ہڑتال کی مخالفت کیوں نہ کی؟‘‘
لکھی سنگھ نے کوئی جواب نہ دیا۔ بسنتو ہڑتال کے محرکوں کو گالیاں دینے لگی۔ ان محرکوں کو جن میں اس کا اپنا لکھی سنگھ بھی شامل تھا اور جن میں سے بخشی محض اس لیے نکل چکا تھا کہ وہ آلوؤں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ لکھی سنگھ سوچنے لگا۔ بسنتو نے ایک اچھے کامریڈ کی طرح ہمیشہ میرا ساتھ دیا تھا، لیکن اب وہ بھی مجھے جواب دے رہی ہے۔ اس وقت کرنیل گلی میں سے آیا اور باپ کو خالی ہاتھ دیکھ کر رونے لگا۔ بسنتو صبح سے اسے باپ کی آمد کا انتظار کرنے کے لیے کہہ رہی تھی۔ اپنے بیٹے کو یوں روتا دیکھ کر بسنتو اور بھی زہر ناک ہو گئی۔
لکھی سنگھ کو بسنتو سے یہ امید نہ تھی۔ وہ اپنا سر دونوں ہاتھوں میں دے کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا، ’’کیا بسنتو رجعت پسند ہو گئی ہے؟‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.