1919 کی ایک بات
جدوجہد آزادی میں انگریز کی گولی سے شہید ہونے والے ایک طوائف زادے کی کہانی ہے۔ طفیل عرف تھیلا کنجر کی دوبہنیں بھی طوائف تھیں۔ طفیل ایک انگریز کو موت کے گھاٹ اتار کر خود شہید ہو گیا تھا۔ انگریزوں نے بدلہ لینے کی غرض سے دونوں بہنوں کو بلا کر مجرا کرایا اور ان کی عزت کو تار تار کیا۔
سعادت حسن منٹو
ہتک
پیار کے دو بول کے لیے ترستی ہوئی ایک ایسی بے بس و بے سہارا طوائف کی کہانی ہے جو ذلت کی انتہا پر پہنچ کر خود آگہی سے دو چار ہوتی ہے۔ سوگندھی ایک پیشہ ور طوائف ہے، رات کے دو بجے جب ایک سیٹھ اسے ٹھکرا کر چلا جاتا ہے تو اس کے اندر کی عورت جاگتی ہے اور پھر ایک شدید قسم کی نفسیاتی کیفیت میں مبتلا ہو کر وہ پیار کا ڈھونگ رچانے والے مادھو لال کو بھی دھتکار کر بھگا دیتی ہے اور اپنے خارش زدہ کتے کو پہلو میں لٹا کر سو جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
انار کلی
سلیم نام کے ایک ایسے نوجوان کی کہانی جو خود کو شہزادہ سلیم سمجھنے لگتا ہے۔ اسے کالج کی ایک خوبصورت لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے، لیکن وہ لڑکی اسے قابل توجہ نہیں سمجھتی۔ اس کی محبت میں دیوانہ ہو کر وہ اسے انارکلی کا نام دیتا ہے۔ ایک دن اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کے والدین نے اسی نام کی لڑکی سے اس کی شادی طے کر دی ہے۔ شادی کی خبر سن کر وہ دیوانہ ہو جاتا ہے اور طرح طرح کے خواب دیکھنے لگتا ہے۔ سہاگ رات کو جب وہ دلہن کا گھونگھٹ ہٹاتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ اسی نام کی کوئی دوسری لڑکی تھی۔
سعادت حسن منٹو
دیوانہ شاعر
یہ امرتسر کے جلیانوالا باغ میں ہوئے قتل عام پر مبنی افسانہ ہے۔ اس قتل عام کے بعد شہر میں بہت کچھ بدلا تھا۔ اس سے کئی انقلابی پیدا ہوئے تھے اور بہتوں نے انتقام کے لیے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ انہیں لوگوں میں ایک انقلابی شاعر بھی تھا، جس کی شاعری دل چیر دینے والی تھی۔ ایک روز شام کو ادیب کو وہ دیوانہ شاعر باغ کے ایک کنویں کے پاس ملا تھا، جہاں اس نے اس سے اپنے انقلابی ہو جانے کی داستان بیان کی تھی۔
سعادت حسن منٹو
پھولوں کی سازش
مختلف حیلوں اور بہانوں سے اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کرنے والے عناصر کی نشاندہی تمثیلی پیرایہ میں کی گئی ہے۔ ایک دن گلاب مالی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے اور سارے پھولوں کو اپنی آزادی اور حقوق کی طرف متوجہ کرتا ہے لیکن چنبیلی اپنی نرم و نازک باتوں سے گلاب کو اپنی طرف ملتفت کرکے اصل مقصد سے غافل کر دیتی ہے۔ صبح مالی آکر دونوں کو توڑ لیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
میرا اور اس کا انتقام
یہ ایک شوخ، چنچل اور چلبلی لڑکی کی کہانی ہے، جو پورے محلے میں ہر کسی سے مذاق کرتی رہتی ہے۔ ایک دن جب وہ اپنی سہیلی بملا سے ملنے گئی تو وہاں بملا کے بھائی نے اس سے انتقام لینے کے لیے جھوٹ بول کر گھر میں بند کر لیا اور اس کے نم ہونٹوں کو چوم لیا۔ وہاں وہ شام تک بند رہی۔ کچھ دنوں بعد جب بملا کو موقع ملا تو وہ بھی اپنا انتقام لینے سے پیچھے نہیں رہی۔
سعادت حسن منٹو
سجدہ
ایک بہت شرارتی اور زندہ دل شخص حمید کی کہانی ہے۔ حمید ایک ملنسار انسان تھا۔ اپنے دوستوں سے بڑی بے تکلفی سے ملا کرتا تھا۔ ایک دن اس نے شرارت میں اپنے ایک مولانا دوست کو جن پلا دی۔ اپنی اس حرکت پر مولانا کا ردعمل دیکھ کر اسے سخت صدمہ پہنچا۔ اس نے خدا سے توبہ کی اور معافی کے لیے گلی کے فرش پر ہی سجدہ کر لیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کا وہی مولانا دوست شراب کی کئی بوتلیں لے کر آیا اور اس کے ساتھ بیٹھ کر پینے لگا۔ اس کا یہ رویہ دیکھ کر حمید کو بہت صدمہ پہنچا اور اسے اپنا وہ سجدہ فضول لگنے لگا۔
سعادت حسن منٹو
موچنا
یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کے چہرے اور جسم پر مردوں کی طرح بال اگ آتے تھے، جنھیں اکھاڑنے کے لیے وہ اپنے ساتھ ایک موچنا رکھا کرتی تھی۔ حالانکہ دیکھنے میں وہ کوئی زیادہ خوبصورت نہیں تھی پھر بھی اس میں کوئی تو ایسی بات تھی کہ جو مرد اسے دیکھتا اس پر عاشق ہو جاتا۔ اس طرح اس نے بہت سے مرد بدلے۔ جس مرد کے بھی پاس بھی وہ گئی اپنا موچنا ساتھ لیتی گئی۔ اگر کبھی وہ پرانے مرد کے پاس چھوٹ گیا تو اس نے خط لکھ کر اسے منگوا لیا۔ جب وہ ایک شاعر کو چھوڑ کر گئی تو اس نے اس کا موچنا دینے سے انکار کر دیا تاکہ رشتہ کی ایک وجہ تو بنی رہے۔
سعادت حسن منٹو
آلو
پیٹ کی آگ کس طرح انسان کو نقطۂ نظر تبدیل کرنے پر مجبور کرتی ہے، اور بھلے برے میں تمیز کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے، وہ اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ لکھی سنگھ ایک انتہائی غریب کامریڈ تھا جو بیل گاڑیوں اور چھکڑوں میں اٹکے رہ گئے آلو جمع کرکے گھر لے جاتا تھا۔ ایک دن کمیٹی کی طرف سے بیل گاڑیوں کے لئے نیو میٹک ٹائروں کا بل پاس ہو گیا، جس کی مخالفت میں گاڑی بانوں نے ہڑتال کی اور ہڑتال کے نتیجے میں لکھی سنگھ اس دن بغیر آلووں کے گھر پہنچا اس کی بیوی بسنتو نے ہر موقع پر ایک کامریڈ کی طرح لکھی سنگھ کاساتھ دیا تھا، آج بپھر گئی، اور اس نے لکھی سنگھ سے پوچھا کہ اس نے ہڑتال کی مخالفت کیوں نہ کی، لکھی سنگھ سوچنے لگا کیا بسنتو بھی رجعت پسند ہو گئی ہے؟
راجندر سنگھ بیدی
قید خانہ
ایک ایسے شخص کی کہانی جو تنہا ہے اور وقت گزارنے کے لیے ہر روز شام کو شراب خانے میں جاتا ہے۔ وہاں روز کے ساتھیوں سے اس کی بات چیت ہوتی ہے اور پھر وہ درختوں کے جھرمٹ میں چھپے اپنے گھر میں آ جاتا ہے۔ گھر اسے کسی قید خانے کی طرح لگتا ہے۔ وہ گھر سے نکل پڑتا ہے، قبرستان، پہاڑیوں اور دوسری جگہوں سے گزرتے، لوگوں سے میل ملاقات کرتے، ان کے ساتھ وقت گزارتے وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ یہ زندگی ایک قید خانہ ہے۔
احمد علی
شاہی رقاصہ
ایک ایسی رقاصہ کی داستان جو محل کی زندگی سے اوب کر آزادی کے لیے بے چین رہتی ہے۔ وہ جب بھی باہر نکلتی ہے وہاں لوگوں کو ہنستے گاتے اپنی مرضی کی زندگی گزارتے دیکھتی ہے تو اسے اپنی زندگی سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ اسے وہ محل کسی سونے کے پنجرے کی طرح لگتا ہے اور وہ خود کو اس میں قید چڑیا کی طرح تصور کرتی ہے۔
مرزا ادیب
انقلاب
’’یہ امریا نام کے ایک گاؤں کی کہانی ہے، جہاں ہوائی جہاز کا کارخانہ بننے کی خوشی اور امیر بننے کی چاہت میں زمیندار اپنی زمین خوشی خوشی سرکار کو دے دیتے ہیں۔ لیکن جب کارخانہ بننا شروع ہوتا ہے تو گاؤں کے نظام میں ایسی تبدیلی ہوتی ہے کہ ان زمینداروں کی حالت مزدوروں سے بھی بدتر ہو جاتی ہے۔‘‘
اعظم کریوی
آخری ذریعہ
’’یہ آزادی سے پہلے کے ایک تاجر کی کہانی ہے، جو انگریز افسروں کو خوش رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ ایک روز جب وہ گھر آتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کی بیوی اپنے سارے ولایتی کپڑے نکال کر کانگریسیوں کو دے رہی ہے۔ وہ اسے ایسا کرنے سے روک دیتا ہے۔ اس کی اس کارروائی کا اس کی بیوی پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ اس صدمے سے اس کی موت ہو جاتی ہے۔‘‘