وقار محل کا سایہ
کہانی کی کہانی
وقار محل کے معرفت ایک گھر اور اس میں رہنے والے لوگوں کے ٹوٹتے بنتے رشتوں کی داستان کو بیان کیا گیا ہے۔ وقار محل کالونی کے وسط میں واقع ہے۔ ہر کالونی والا اس سے نفرت بھی کرتا ہے اور ایک طرح سے اس پر فخر بھی۔ مگر وقار محل کو پچھلے کئی سالوں سے گرایا جا رہا ہے اور وہ اب بھی ویسے کا ویسا کھڑا ہے۔ مزدور دن رات کام میں لگے ٹھک ٹھک کرتے رہتے ہیں۔ ان کی ٹھک ٹھک کی اس آواز سے ماڈرن خیال کی ماڈرن لڑکی زفی کے بدن میں سہرن سی ہونے لگتی ہے۔ اور یہی سہرن اسے کئی لوگوں کے پاس لے جاتی ہے اور ان سے دور بھی کرتی ہے۔
وقار محل کی چھتیں گر چکی ہیں لیکن دیواریں جوں کی توں کھڑی ہیں۔ جنہیں توڑنے کے لیے بیسیوں جوان مزدور کئی ایک سال سے کدال چلانے میں مصروف ہیں۔ وقار محل نیو کالونی کے مرکز میں واقع ہے۔ نیو کالونی کے کسی حصے سے دیکھئے، کھڑکی سے سر نکالیے، روشن دان سے جھانکئے، ٹیرس سے نظر دوڑائیے، ہر صورت میں وقار محل سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ مضبوط، ویران، بوجھل، رعب دار، ڈراؤنا، سر بلند، کھوکھلا، عظیم۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ساری نیو کالونی آسیب زدہ ہو اور وقار محل آسیب ہو۔
نوجوان دیکھتے ہیں تو دلوں میں غصہ ابھرتا ہے۔ نیو کالونی کے چہرے کا پھوڑا۔ رستی بستی کالونی میں آثار قدیمہ۔ چہرے نفرت سے بگڑ جاتے ہیں، ہٹاؤ اسے۔ لیکن وہ محل سے اپنی نگاہیں ہٹا نہیں سکتے۔ بچے دیکھتے ہیں تو حیرت سے پوچھتے ہیں، ’’ڈیڈی! یہ کیسی بلڈنگ ہے؟ بھدی، بے ڈھب، موٹی موٹی دیواریں، اونچی اونچی چھتیں، تنگ تنگ کھڑکیاں اور ڈیڈی کیا لوہے کی بنی ہوئی ہے۔ اتنے سارے مزدوروں سے بھی نہیں ٹوٹ رہی۔‘‘ بڑے بوڑھے محل کی طرف دیکھتے ہیں تو۔۔۔ لیکن بڑے بوڑھے تو اس طرف دیکھتے ہی نہیں۔ انہیں دیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ تو رہتے ہی محل میں ہیں چوری چھپے۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کسی پر بھید کھل نہ جائے۔
کالج کے لڑکے جو اس کھوکھلے محل کے زیر سایہ پل کر جوان ہوئے ہیں، وقار محل کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اب تو خالی دیواریں رہ گئی ہیں۔ کچھ دنوں کی بات اور ہے۔ لیکن ان کے دلوں سے آواز ابھرتی ہے اور وہ تالیاں پیٹنے لگتے ہیں۔ قہقہے لگانے لگتے ہیں تاکہ وہ آواز ان میں دب کر رہ جائے۔ بہرحال نیو کالونی کا ہر نوجوان وقار محل سے ایک پراسرار لگاؤ محسوس کرتا ہے۔ اگرچہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ لگاؤ نہیں لاگ ہے۔ لیکن اسے پتہ نہیں ہے کہ لاگ کا ایک روپ ہے۔ ڈھکا چھپا، شدت سے بھرا لگاؤ۔
وقار محل صدیوں سے وہاں کھڑا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کب تعمیر ہوا تھا۔ جب سے لوگوں نے ہوش سنبھالا تھا، اسے وہیں کھڑے دیکھا تھا۔ پہلے تو لوگ وقار محل پر فخر کیا کرتے تھے، پھر نئی پود نے مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ پھر کسی منچلے نے بات اڑا دی کہ محل کی دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ چھتیں بیٹھ رہی ہیں۔ وہ نیو کالونی کے لیے خطرہ ہے۔ اس پر کمیٹی والے آ گیے۔ انہوں نے چاروں طرف سے محل کی ناکہ بندی کر دی اور جگہ جگہ بورڈ لگا دیے۔ ’’خبردار۔۔۔ دور رہئے۔ عمارت گرنے کا خطرہ ہے۔‘‘ پھر بیسیوں مزدور کدال پکڑے آپہنچے اور محل کی چھتوں اور دیواروں کو توڑ توڑ کر گرانے لگے۔ پتہ نہیں بات کیا ہے کہ سالہا سال سے اتنے سارے مزدور لوگ کدال چلا رہے ہیں۔ اسے توڑنے میں لگے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی محل کا کچھ نہیں بگڑا۔ وہ جوں کا توں کھڑا ہے۔ پتہ نہیں کس مصالحے سے بنا ہوا ہے کہ اسے منہدم کرنا آسان نہیں۔
بہر حال! سارا دن مزدور کدال چلاتے رہتے ہیں۔ نیو کالونی میں آوازیں گونجتی رہتی ہیں۔ ٹھکا ٹھک، ٹھک، ٹھکا ٹھک ٹھک۔ یہ ٹھک ٹھک جفی کی رانوں میں گونجتی ہے۔ اس کی لرزش سے کوئی پوشیدہ سپرنگ کھلتا ہے۔ کوئی پراسرار گھڑی چلنے لگتی ہے۔ اس کی ٹک ٹک دل میں پہنچتی ہے۔ دل میں لگا ہوا ایمپلی فائر اسے سارے جسم میں اچھال دیتا ہے۔ ایک بھونچال آ جاتا ہے۔ چھاتیوں سے کچا دودھ رسنے لگتا ہے۔ ہونٹ لمس کی آرزو سے بوجھل ہو کر لٹک جاتے ہیں، نسیں تن جاتی ہیں اور سارا جسم یوں بجنے لگتا ہے جیسے سارنگی ہو۔ اس پر جفی دیوانہ وار کھڑکی کی طرف بھاگتی ہے اور وقار محل کی طرف یوں دیکھنے لگتی ہے جیسے اس سے پوچھ رہی ہو، اب میں کیا کروں؟
والدین نے جفی کا نام یاسمین رکھا تھا۔ بچپن میں سب اسے یاسمین کہتے تھے۔ پھر جب وہ ہائی سکول میں پہنچی تو اس نے محسوس کیا کہ یاسمین دقیانوسی نام ہے۔ اس سے پرانے نام کی بو آتی ہے۔ یہ نام ہے بھی تو سلو ٹمپو۔ ڈھیلا ڈھیلا جیسے چولیں ڈھیلی ہوں۔ لہٰذا اس نے یاسمین کی چولیں ٹھونک کر اسے جس من کر دیا۔ پھر جب وہ کالج میں پہنچی تو اسے پھر سے اپنے نام پر غصہ آنے لگا۔ لو میں کیا پھول ہوں کہ جس من کہلاؤں۔ میں کیا آرائش کی چیز ہوں۔ میں تو ایک ماڈرن گرل ہوں اور ماڈرن گرل پھول نہیں ہوتی، آرائش نہیں ہوتی، خوشبو نہیں ہوتی۔ یہ سب تو دقیانوسی چیزیں ہیں۔ ماڈرن گرل تو ایکٹو ہوتی ہے، سمارٹ ہوتی ہے۔ جیتی جاگتی، چلتی پھرتی۔ جس پر زندگی بیتتی نہیں بلکہ جو خود زندگی بیتتی ہے۔ لہٰذا اس نے اپنا نام جس من سے جفی کر لیا۔ جفی، فٹ، فٹافٹ فوراً۔ یہ نام کتنا فعال تھا۔ کتنا سمارٹ۔ اس میں زندگی کی تڑپ تھی، پھر اس نام کے زیر اثر جلد ہی اس میں یہ خواہش ابھری کہ کچھ ہو جائے۔ ابھی ہو جائے۔ ابھی ہو جائے فوراً تو ابتدا تھی۔ بالآخر جفی چاہنے لگی کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جو ہونے سے رہ جائے۔
لیکن اس روز جب کہ کچھ بلکہ بہت کچھ ہو گیا تھا، یہاں تک ہو گیا تھا جس کی اسے توقع نہ تھی، لیکن وہ خوشی محسوس نہیں کر رہی تھی۔ الٹا وہ تو ہاتھ مل رہی تھی کہ کیا ہو گیا۔ پتہ نہیں اس روز جفی کو کیا ہو گیا تھا۔ اس کی آنکھیں پرنم تھیں۔ وہ حسرت آلودنگاہوں سے وقار محل کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ دوڑ کر وقار محل میں جا پناہ لے۔ اس روز جیسے جفی پھر سے یاسمین بن گئی تھی۔
اگرچہ شعوری طور پر جفی کو وقار محل سے سخت چڑ تھی اور وہ اسے اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھتی تھی لیکن دل کی گہرائیوں میں وقار محل اس کے بنیادی جذبات پر مسلط تھا۔ ان جانے میں وہ اس کی زندگی پر یوں سایہ کیے ہوئے تھا جیسے بڑ کا بوڑھا درخت کسی گلاب کی جھاڑی پر سایہ کیے ہوئے ہو۔
جفی وقار محل کے زیر سایہ پیدا ہوئی تھی۔ وہیں کھیل کھیل کر جوان ہوئی تھی۔ اس کی کوٹھی ایور گرین وقار محل کے عقب میں تھی۔ اس کی تمام کھڑکیاں محل کی طرف کھلتی تھیں۔ دونوں ٹیر سیں ادھر کو نکلی ہوئی تھیں۔ بچپن میں جب وہ یاسمین تھی تو وقار محل اس کے لیے جاذب نظر اور قابل فخر چیز تھی۔ پھر جوں جوں وہ جوان ہوتی گئی، وقار محل اسے بوسیدہ عمارت نظر آنے لگی جو نیو کالونی کے راستے کی رکاوٹ تھی۔ اس کے دل میں یہ گمان بڑھتا گیا کہ وقار محل نوجوانوں کی آزادی کچلنے کے لیے تعمیر ہوا تھا۔ وہ اس بات سے بے خبر تھی کہ گرتے ہوئے وقار محل کا سایہ اس کے دل کی گہرائیوں پر چھایا ہوا ہے اور اس کی زندگی کے ہر اہم واقعے میں وقار محل کا حصہ تھا۔ مثلاً جب اس میں جوانی کی اولیں بیداری جاگی تھی تو گرتے ہوئے وقار محل کی ٹھک ٹھک نے ہی تو اسے جھنجھوڑ کر جگایا تھا۔ اسے وہ دن اچھی طرح یاد تھا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ ابھی جس من تھی، جفی نہیں بنی تھی۔ اگرچہ اس کی باجی عفت مدت سے عفت سے اف اور پھر اف سے افعی بن چکی تھی، چونکہ اف بٹ کا امکان خارج ہو چکا تھا۔ ان دنوں باجی سارا سارا دن اپنے بیڈ پر اوندھے منہ پڑی رہتی تھی۔ پتہ نہیں اسے کیا ہو گیا تھا۔ افعی باجی تو بیڈ پر ڈھیر ہونے والی نہ تھی۔ اس کی تو بوٹی بوٹی تھرکتی تھی۔ ابھی یہاں کھڑی ہے، ابھی باغیچے میں جا پہنچی۔ لو وہ ٹیرس پر ٹہل رہی ہے۔ ہائیں وہ تو چلی بھی گئی۔ کسی گٹ ٹو گیدر میں، کسی فنکشن میں، کسی پارٹی میں، ایک جگہ ٹک کر بیٹھنا افعی باجی کا شیوہ نہ تھا۔ پھر پتہ نہیں، ان دنوں اسے کیا ہو گیا تھا کہ پلنگ پر گٹھری بن کر پڑی رہتی تھی۔ جس من سمجھتی تھی کہ افعی باجی میں واسکو ڈی گاما کی روح ہے۔ اسے خبر نہ تھی کہ واسکو ڈی گاما نے امریکہ دریافت کر لیا ہے اور اب تھک ہار کر پڑ گئی ہے۔
ان دنوں ممی بار بار افعی کے بیڈ روم کے دروازے سے چھپ چھپ کر جھانکتی اور حیرت سے باجی کی طرف دیکھتی رہتی۔ وہ باجی سے پوچھ نہیں سکتی تھی۔ پوچھنا الگ رہا، ممی تو باجی سے بات نہیں کر سکتی تھی۔ کیسے کرتی بات، بات کرتی تو باجی تنک کر کہتی، ’’ممی ڈارلنگ، آپ نہیں سمجھتیں، آپ نہ بولیں۔‘‘ واقعی ممی نہیں سمجھتی تھی۔ کیسے وہ تو بے چاری سیدھی سادی امی تھی۔ جسے حالات نے زبردستی ممی بنا دیا تھا۔
جب فاطمہ بیگم کی شادی محمد عثمان سے ہوئی تھی تو وہ اسسٹنٹ تھے، پھر حالات نے سرعت سے پلٹا کھایا اور وہ مینجر ہو گیے اور اب جنرل مینجر تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ محمد عثمان سے ایم اوثمان ہو گیے تھے۔ لیکن فاطمہ بیگم ہی رہی تھی۔ وہ فاطمہ زیادہ تھی اور بیگم کم کم۔ تعلیم سرسری تھی۔ سوشل سٹیٹس کی بھاری بھرکم گٹھری سر پر آ پڑی۔ پھر بھی جوں توں کر کے اس نے رہن سہن میں تبدیلی کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیا تھا۔ لیکن وہ اپنی شخصیت کو بیگم کا رنگ نہ دے سکی تھی۔
اس پر ایم اوثمان اگر بیگم سے مایوس ہو گیے تھے تو اس میں ان کا کوئی قصور نہ تھا۔ پھر جو انہوں نے گھر سے ناطہ توڑ لیا اور کلب میں وقت بسر کرنے لگے تو یہ ایک قدرتی امر تھا۔ اس کے علاوہ کلب میں بہت سی بیگمات آتی تھیں جن پر چوکھا رنگ چڑھا ہوا تھا۔ اس کے بعد فاطمہ بیگم گھر میں یوں کونے سے لگ گئی جیسے نیو کالونی کا رابنس کروسو ہو۔ پھر لڑکیاں جوان ہوئیں تو انہوں نے اسے بالکل ہی بے زبان کر دیا۔
لڑکیوں نے زبردستی اسے ممی بنا لیا۔ ممی کے لفظ سے فاطمہ کو بڑی چڑ تھی۔ کتنا ننگا لفظ تھا۔ اس لفظ سے ننگے پنڈے کی بھڑاس آتی تھی لیکن وہ احتجاج نہیں کر سکتی تھی۔ جب اپنی جائیاں بار بار کہیں، ’’ممی ڈارلنگ، آپ کو پتہ نہیں، آپ نہ بولیں۔ پلیز‘‘ تو ماں کی زبان پر مہر نہ لگے تو کیا ہو۔ پہلے تو فاطمہ کو شک پڑنے لگا کہ شاید واقعی اسے پتہ نہیں۔ پھر اسے یقین آ گیا کہ اسے پتہ نہیں۔ وہ جانتی، کبھی کبھار اس کے دل میں خواہش پیدا ہوتی کہ جانے سمجھے، بولے یا نہ بولے پر کم از کم جان تو لے۔
ان دنوں اسی خواہش کے زیر اثر فاطمہ افعی کے کمرے کے دروازے سے کان لگا کر کھڑی رہتی تھی۔ اسے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے افعی اوندھے منہ بستر پر پڑی رہے۔ یوں پڑی رہے جیسے مصالحے کے بنے ہوئے منے کے اعضاء کو جوڑنے والا دھاگا ٹوٹ گیا ہو۔ پھر پتہ نہیں کیا ہوا۔ شاید فاطمہ کو بات سمجھ میں آ گئی۔ وہ دیوانہ وار بھاگی۔ غیر از معمولی وہ سیدھی افعی کے ڈیڈی کے پاس پہنچی۔ پھر غیر از معمولی میاں بیوی آپس میں سرگوشیاں کرتے رہے۔ ان سرگوشیوں کے دوران میں میاں اہم اہم کرتے سنے گیے۔ اتنا اہم اہم کرنا تو انہوں نے مدت سے چھوڑ رکھا تھا۔ ان کے اہم اہم کرنے سے معلوم ہوتا تھا جیسے گھر میں پھر سے محمد عثمان آ گیا ہو۔
کچھ دیر بعد کمرے کا دروازہ کھلا۔ محمد عثمان باہر نکلے۔ ان کے سر پر ٹوپی تھی اور ہاتھ میں چھڑی۔ پیچھے پیچھے فاطمہ تھی۔ وہ بڑے وقار سے قدم اٹھاتے ہوئے سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ افعی کے بیڈروم میں داخل ہو کر انہوں نے اندر سے کنڈی چڑھا دی۔ جس من یہ سب تفصیلات کانی آنکھ سے دیکھ رہی تھی۔ اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ڈیڈی اور اہم اہم کر کے بات کریں۔ پھر انہوں نے ٹوپی کیوں پہن رکھی تھی اور ان کے ہاتھ میں چھڑی کیوں تھی۔ پھر باجی کے کمرے سے محمد عثمان کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ان کی آواز میں بڑا تحکم تھا یا شاید منت تھی۔ پھر باجی کی غصے بھری آواز سارے گھر میں گونجی، ’’بچہ میرا ہے۔ میں اسے اپناؤں گی۔ دیکھوں گی مجھے کون روکتا ہے۔‘‘
جس من سوچنے لگی، ’’یا اللہ باجی کس بچے کی بات کر رہی ہے۔ کمرے میں تو صرف باجی، ممی اور ڈیڈی تھے۔ بچہ کہاں تھا۔‘‘ پھر اوپر کوئی کسی کو زد و کوب کر رہا تھا۔ چھڑی چلنے کی آواز آ رہی تھی۔ ساتھ ہی باجی چیخ رہی تھی۔ رو رہی تھی۔ کراہ رہی تھی۔ ہئے بچاری باجی۔ جس من کے دل میں ڈیڈی کے خلاف غصہ کھولنے لگا۔ پھر پٹاخ سے دروازہ کھلا اور ڈیڈی اور امی سیڑھیاں اتر رہے تھے۔ لیکن وہ اس قدر گھبرائے ہوئے کیوں تھے۔۔۔ افوہ۔۔۔ ڈیڈی کا چہرہ لہولہان ہو رہا تھا۔ ارے ڈیڈی نے ا سٹک سے پیٹا تو باجی کو تھا پھر ڈیڈی کا اپنا چہرہ کیوں سوجا ہوا تھا۔ جگہ جگہ سے خون رس رہا تھا اور وہ اس قدر کھوئے ہوئے کیوں تھے کہ کمرے میں داخل ہونے کی بجائے سیدھے کوٹھی سے باہر نکل گیے تھے۔ جس من ان کے پیچھے پیچھے گئی تھی۔
دھڑا دڑا ڑام۔۔۔
ایک زبردست دھماکہ ہوا۔
چاروں طرف سے شور اٹھا۔
’’وقار محل کی چھت گر گئی۔ وقار محل کی چھت گر گئی۔‘‘
گرد و غبار کا ایک بادل اٹھا اور اس نے نیو کالونی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
اسی شام کو باجی ہمیشہ کے لیے گھر چھوڑ کر چلی گئی۔
ہاں جس من کو وہ دن اچھی طرح یاد تھا۔ اس حادثہ کے بعد وہ روز کھڑکی میں کھڑی ہو کر سوچتی رہی کہ باجی گھر چھوڑ کر کیوں چلی گئی تھی اور اس روز وہ کس بچے کی بات کر رہی تھی اور ڈیڈی کا منہ لہولہان کیوں تھا، وقار محل کی چھت کیوں گری تھی۔ وہ وقار محل کی طرف دیکھتی رہتی اور سوچتی رہتی۔ دیکھتی اور سوچتی رہتی۔ غالباً وہ محسوس کرتی تھی کہ وقار محل اس راز سے واقف تھا۔ پھر ایک روز جب وہ کھڑکی میں کھڑی تھی تو کسی نے چلا کر کہا، ’’ہائی‘‘ وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گئی۔ اگلے دن پھر ’’ہائی‘‘ کی آواز آئی۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالا۔ پھر چاروں طرف دیکھا لیکن کوئی نظر نہ آیا۔ تیسرے دن وہ ہائی اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ دو چھوٹی چھوٹی مونچھیں نیچے کو لٹک رہی تھیں جس میں سے چٹے سفید دانت چمک رہے تھے۔ اوپر دو چندھیائی سی آنکھوں میں سے گلیڈ آئی چاند ماری کر رہی تھی اور اس کے اوپر بال ہی بال، بال ہی بال۔
پہلی مرتبہ ہائی کو دیکھ کر وہ سخت گھبرا گئی۔ اس کا جی چاہا کہ شرما کر منہ موڑ لے۔ جس طرح وہ ماہ رو شرما کر منہ موڑ لیا کرتی تھی۔ ماہ رو گوری چٹی پٹھانی تھی جو اپنے باپ کے ساتھ وقار محل سے ملحقہ آؤٹ ہاؤس میں رہتی تھی۔ اس کا باپ وقار محل کا چوکیدار تھا اور اب محل کے ملبے کی روٹی ہانڈی کیا کرتا تھا۔ ماں مر چکی تھی۔ صرف ایک چھوٹا بھائی تھا۔ سارا دن۔۔۔ ماہ رو اتنی گوری تھی، اتنی گوری تھی کہ ہر راہرو اسے دیکھ کر رک جاتا۔ جب وہ محسوس کرتی کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے تو اس کا سارا چہرہ اس قدر گلابی ہو جاتا، جیسے کسی نے رنگ کی پچکاری چلا دی ہو۔ پتہ نہیں، حیا اس قدر گلابی کیوں ہوتی ہے۔ جس من نے کئی مرتبہ ماہ رو کو شرماتے دیکھا تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ بھی حیا کے غازے کو اپنا لے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ وہ ایک ماڈرن لڑکی تھی۔ ماہ رو کی طرح گنوار نہ تھی اور ماڈرن گرل کو یہ زیب نہیں دیتا کہ شرما کر منہ موڑ لے۔ الٹا اسے تو ہائی کے جواب میں ہائی کہنا چاہئے۔
جب پہلی مرتبہ ہائی جس من کے سامنے آئی تو اس نے بڑی جرات سے کام لیا اور شرما کر منہ موڑا۔ لیکن اس میں اتنی جرات پیدا نہ ہو سکی کہ جواب میں ہائی کہتی۔ دراصل جس من بڑی مخلص، سچی اور شرمیلی لڑکی تھی۔ جس طرح ساری ماڈرن گرلز ہوتی ہیں، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ اس کے دل میں کئی ایک خوش فہمیاں رچی بسی ہوئی تھیں۔ جس طرح ماڈرن گرلز کے دلوں میں خوش فہمی رچی بسی ہوتی ہے۔ مثلاً اسے کچھ پتہ نہ تھا لیکن وہ سمجھتی تھی کہ اسے سب پتہ ہے۔ چونکہ ماڈرن گرل کو سب پتہ ہونا چاہئے۔ چاہنے اور ہے میں جو فرق ہے اسے اس کا احساس نہ تھا۔ شعور نہ تھا۔ اس کا دل بہت سے بندھنوں میں جکڑا ہوا تھا۔ مگر وہ سمجھتی تھی کہ وہ آزاد ہے۔ چونکہ ماڈرن گرل پر لازم ہے کہ وہ آزاد ہو۔ بعضوں سے آزاد۔ لگاؤ سے آزاد، رسمی قید و بند سے آزاد۔
اگرچہ ذہنی طور پر اسے رجعت پسندوں کے خلاف زبردست چڑ تھی جیسے کہ ماڈرن گرل کو ہونی چاہئے لیکن دلی طور پر اسے اپنے ماں باپ سے لگاؤ تھا۔ اگرچہ اسے اس کا شعور نہ تھا۔ شعور کیسے ہوتا۔ جب بھی ایسی صورت حال پیدا ہوتی کہ شعور ہونے کا خطرہ لاحق ہو تو وہ اپنی توجہ کسی دوسری بات میں مبذول کر دیتی۔ چونکہ سب سے اہم بات یہ تھی کہ اسے یہ شبہ نہ پڑ جائے کہ اس کے برتاؤ کی کوئی تفصیل ایسی بھی ہے جو ماڈرن گرل کے شایان شان نہیں۔
ان دنوں اسے یہی فکر دامن گیر تھا کہ وہ کوئی ایسی بات نہ کرے جو ماڈرن گرل کی شان کے منافی ہو۔ اس ہائی نے اسے خاصا درہم برہم کر دیا تھا۔ لیکن وہ یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھی کہ وہ درہم برہم ہے۔ اتنی چھوٹی سی بات ماڈرن گرل کو بھلا کیسے درہم برہم کر سکتی ہے۔ لہٰذا وہ درہم برہم نہیں تھی، بالکل نہیں تھی۔ پہلی مرتبہ تو اس ہائی نے وقار محل سے سر نکالا تھا۔ پھر وہ جگہ جگہ سے سر نکالنے لگی۔ جب وہ کالج بس میں سوار ہوتی تو وہ بس سٹینڈ سے سر نکالتی۔ جب جس من کالج کی گراؤنڈ میں ٹہل لگاتی تو وہ پردہ دیوار سے جھانکتی۔ جب وہ مارکیٹ جاتی تو وہ اس کا پیچھا کرتی۔ ہاں صورت حال بہت ہی خراب ہوئی جا رہی تھی۔ پھر اس کے اپنے جسم نے بغاوت کر دی۔
ان دنوں وقار محل میں مزدوروں نے دیواریں توڑنے کا کام شروع کر رکھا تھا۔ ان کی ٹھک ٹھک ساری نیو کالونی میں گونجتی رہتی تھی۔ ایک دن جب جس من کی طبیعت ناساز تھی اور وہ بیڈ پر لیٹی ہوئی اس ہائی کے متعلق سوچ رہی تھی تو دفعتاً وہ حادثہ عمل میں آ گیا۔ ساری شرارت مزدوروں کی اس ٹھک ٹھک کی تھی۔ روز تو وہ ٹھک ٹھک جس من کے کمرے کی دیواروں سے ٹکرا کر گونجتی تھی، اس روز نہ جانے کیا ہوا۔ وہ ٹھک ٹھک سیدھی جس من کی رانوں سے آ ٹکرائی اور اس کے جسم میں گونجنے لگی۔
جس من کے جسم میں ایک عجیب سی لرزش جاگی۔ کسی پوشیدہ سپرنگ میں حرکت ہوئی۔ ایک تناؤ سا اٹھا اس نے دل پر دباؤ ڈالا۔ دل کے ایمپلی فائر نے اسے اچھالا۔ سارے جسم میں ایک بھونچال سا آ گیا۔ نسیں تن گئیں۔ چھاتیوں سے کچا دودھ رسنے لگا۔ ہونٹ لمس کی آرزو سے بے حال ہو کر لٹک گیے۔ سارا جسم سارنگی کی طرح بجنے لگا۔
اس لمحے میں اسے سب پتہ چل گیا۔ سب کچھ کہ باجی گھر چھوڑ کر کیوں چلی گئی تھی کہ وہ کس بچے کی بات کر رہی تھی کہ بچہ کہاں تھا۔ سب کچھ، اس روز وہ جس من سے جفی بن گئی تھی۔ اس کے دل میں شدت سے آرزو پیدا ہوئی۔ ابھی اسی وقت، فٹا فٹ، جلدی کچھ ہو جائے اور وہ واقعی کچھ ہو گیا۔ اس رات جفی کے بیڈروم کا وہ دروازہ آہستہ سے کھلا جو کوٹھی کے احاطے میں کھلتا تھا اور زیر لبی آواز آئی، ’’ہائی۔‘‘
جفی تڑپ کر مڑی۔ دو لٹکتی ہوئی مونچھوں میں چٹے سفید دانت چمک رہے تھے۔ اگلے روز گینی لٹکتی ہوئی مونچھوں میں چٹے سفید دانت نکالے، چندھیائی ہوئی مگر چڑھ جانے والی سرخ چیونٹیوں جیسی آنکھیں لئے سر پر کالے بالوں کا ٹوکرا اٹھائے صدر دروازے کے راستے سے ایور گرین میں آ داخل ہوا۔
جب گینی پیدا ہوا تو وہ لڑکا تھا۔ اس کی پیدائش پر ماں باپ نے بڑی خوشیاں منائی تھیں۔ انہوں نے اس کا نام غنی رکھا تھا۔ لیکن جب وہ نوجوانی اور دور جدید میں داخل ہوا تو بہت سی تبدیلیاں عمل میں آ گئیں۔ بال بڑھ کر ٹوکرا بن گیے۔ مونچھیں لٹک گئیں۔ منہ پر پاؤڈر سرخی کی تہہ چڑھ گئی۔ رنگ دار قمیض، چمکیلی صدریاں، منکوں کی مالائیں اور جانے کیا کیا۔ یوں وہ غنی سے گینی بن گیا تھا۔
ایور گرین میں گینی کی آمد سے کوئی ہلچل پیدا نہ ہوئی۔ پہلے ہی اس سلسلے میں افعی نے بڑی کار کردگی دکھائی تھی۔ اس کے بوائے فرینڈز ایور گرین میں اکثر آیا کرتے تھے اور وہ بڑے شوق سے ان کا ڈیڈی سے تعارف کراتی تھی۔ ممی سے نہیں چونکہ ممی ڈارلنگ تو سمجھتی نہیں تھی اور اسے سمجھانا بہت مشکل تھا۔
فاطمہ نے گینی کو دیکھا تو سینہ تھام کر رہ گئی۔ افعی کے متعلقہ پرانے زخم پھر سے ہرے بھرے ہو گیے۔ اس کے دل میں از سر نو خدشات نے سر اٹھایا۔ لیکن وہ بولی نہیں۔ کیسے بولتی۔ رہے ڈیڈی۔ ڈیڈی کی سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ فیصلہ نہیں کر پائے تھے کہ انہیں ایم اوثمان بن کر جینا ہے یا محمد عثمان بن کر۔ ان کی تعلیم، سٹیٹس اور پوزیشن اس بات کے متقاضی تھے کہ وہ ایم اوثمان بن کر زندگی گزاریں۔ اسی وجہ سے خاصی محنت کر کے وہ ایم اوثمان بنے تھے لیکن کئی بار بیٹھے بٹھائے محمد عثمان ان کے دل میں یوں گھر آتا جیسے ہاتھی چینی کی دکان میں آگھسا ہو۔
محمد عثمان بڑا ضدی تھا۔ غصیل تھا، منہ پھٹ تھا، کٹرتھا، ایم اوثمان اسے سمجھاتے۔ دلیلیں دیتے۔ بھئی زمانہ دیکھو، زمانے کا رنگ دیکھو۔ آج کے تقاضوں پر غور کرو۔ اب یہ پرانی باتیں نہیں چلیں گی لیکن محمد عثمان اپنی بات پر اڑا رہتا۔ اس لحاظ سے ایم اوثمان بھی گویا ماڈرن گرل تھے۔ ان کی شخصیت کی اوپر کی سطح پر اوثمان کی جھال تھی لیکن دل کی گہرائیوں میں محمد عثمان براجمان تھا۔
جب گینی کا تعارف ایم اوثمان سے کرایا گیا تو محمد عثمان نے ان کے کان میں کہا، ’’دھیان کرنا، کہیں پھر سے تمہیں سر پر ٹوپی رکھ، ہاتھ میں چھڑی پکڑ بیٹی کے کمرے میں جانا نہ پڑے۔‘‘ ایم اوثمان کو اس بات پر غصہ آیا۔ ’’ہٹ جاؤ۔‘‘ اس نے چلا کر کہا، ’’میرا دل پراگندہ نہ کرو۔‘‘ پھر وہ گینی سے مخاطب ہو کر کہنے لگے، ’’آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ آیا کرو۔ مسٹر گینی جب بھی فرصت ملے، آ جایا کرو۔‘‘
گینی ایور گرین میں کبھی دروازے سے داخل نہ ہوتا۔ اس کے لیے تو صرف عقبی دروازہ ہی موزوں تھا۔ لیکن جفی کو یہ گوارا نہیں تھا۔ وہ ایک ماڈرن گرل تھی اور ماڈرن گرل ’’سلائی‘‘ تعلق رکھنے سے نفرت کرتی ہے۔ اس سے اس کی آزاد طبیعت پر حرف آتا ہے۔ اس کی انا مجروح ہوتی ہے۔ ڈھکے چھپے تعلق تو وہ پیدا کرتی ہیں جن پر بندشیں عائد کی جاتی ہیں۔ جو پابندیوں میں جیتی ہیں۔ جفی کو اپنا جیون ساتھی بھی تو تلاش کرنا تھا۔ جفی کو اس بات کا علم نہ تھا کہ گینی نے جیون ساتھی بننے یا تلاش کرنے کے متعلق نہیں سوچا۔
گینی تو گڈ ٹائم اور اڈونچر کا متلاشی تھا۔ جب وہ جفی کے مجبور کرنے پر ایور گرین کے صدر دروازے سے داخل ہوا تو ایڈونچر کا عنصر ہی ختم ہو گیا۔ ایڈونچر تو ہمیشہ عقبی دروازے سے متعلق ہوتا ہے۔ باقی رہا گڈ ٹائم تو آپ جانتے ہیں۔ گڈ ٹائم میں تنوع کا ہونا ضروری ہے۔ ایک ہی سر دبائے رکھنے سے نغمہ نہیں بنتا۔ اس لیے جوں جوں دن گزرتے گیے۔ ٹائم میں گڈ کا عنصر بتدریج کم ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ صرف ٹائم ہی ٹائم رہ گیا اور اس خالی خولی ٹائم سے اکتا کر گینی ہمیشہ کے لئے روپوش ہو گیا۔
گینی کی رو پوشی پر جفی ساری کی ساری الٹ پلٹ ہو کر رہ گئی۔ چونکہ وہ گڈ ٹائم کی قائل نہ تھی۔ اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے، کیا نہ کرے۔ اسے پتہ نہ تھا کہ ان حالات میں ماڈرن گرل کو کیا کرنا چاہئے۔ لہٰذا وہ ہکی بکی اپنے کمرے میں پڑی رہتی۔ پھر وقار محل کی ٹھکاٹھک نے اسے گھیر لیا۔ وہ ٹھک ٹھک اس کے جسم میں دھنس گئی۔ اندر جا کر تالیاں بجانے لگی۔ اسے اکسانے لگی۔ اٹھو، کرو، اٹھو کچھ کرو۔ اٹھو کرو۔ ٹھک ٹھک، اٹھو کرو، ٹھک ٹھک۔
ماڈرن گرل ہونے کے باوجود جفی کو جسم کے تقاضوں کے متعلق کچھ پتہ نہ تھا۔ جب وہ گینی سے ملا کرتی تھی تو اسے یہ احساس نہ تھا کہ جسم کا تقاضا پورا کر ہی رہی ہے۔ اس نے تو ان جانے میں گینی کو جیون ساتھی بنا لیا تھا۔ اسے گینی سے محبت ہو چکی تھی۔ جب گینی چلا گیا تو بات ہی ختم ہو گئی۔ پھر محل کی کھٹ کھٹ اس کی رانوں میں کیوں گونجتی تھی۔ گھڑی کیوں چلتی تھی۔ جبھی تو وہ پریشان تھی۔ کئی ایک دن وہ پریشان رہی۔ پھر ان کے گھر میں حسنی آ گیا اور مزید پیچیدگیاں پیدا ہو گئیں۔
حسنی ان کا نیا بوائے سرونٹ تھا۔ چھٹپنے ہی سے وہ کوٹھیوں میں کام کرتا رہا تھا۔ وہیں جوان ہوا تھا۔ ماڈرن بیگمات کے اندر دیکھ دیکھ کر وہ وقت سے پہلے جوان ہو گیا تھا۔ حسنی خاصا اپ ٹو ڈیٹ تھا۔ کلین شیو، سمارٹ لک، لمبے بال۔ جفی نے حسنی کی آمد کا کوئی نوٹس نہ لیا۔ نوکر تو گھر میں آتے جاتے ہی رہتے تھے۔ کبھی خانساماں چلا گیا۔ کبھی بوائے سرونٹ آ گیا۔ گینی کی روپوشی کے بعد ان دنوں جفی کی طبیعت ناساز رہتی تھی۔ اس روز اس نے چائے اپنے کمرے میں منگوا لی۔
حسنی پیالی بنا کر کمرے میں لے گیا۔ جب وہ جفی کو پیالی دینے کے لیے جھکا تو اتفاقاً جفی نے غور سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ پتہ نہیں کیا ہوا۔ حسنی کے کلین چہرے پر دو مونچھیں ابھر آئیں۔ وہ لٹکنے لگیں۔ گھبراہٹ میں جفی کے منہ سے نہ جانے کیا نکلا۔ حسنی اسے سمجھ نہ سکا۔ ’’جی؟‘‘ جفی کو ایسے محسوس ہوا جیسے کسی نے ’’ہائی‘‘ کہا ہو۔ اس کا سر سرہانے پر گر پڑا۔ حسنی کے ہاتھ سے پیالی چھوٹ گئی۔ لیکن چائے تو بستر پر گری تھی۔ جفی کیوں شرابور ہو گئی تھی۔ پھر یہ مشکل روز کی مشکل بن گئی۔
جب بھی حسنی جفی کے کمرے کا دروازہ کھول کر آہستہ سے کہتا، ’’جی‘‘ تو اسے محسوس ہوتا جیسے کسی نے ’’ہائی‘‘ کہا ہو۔ وہ چونک کر مڑ کر دیکھتی۔ اس وقت حسنی کے کلین شیو چہرے پر مونچھیں لٹک جاتیں اور چٹے سفید دانت چمکتے۔ صورت حال یہاں تک آ پہنچی کہ جفی حسنی سے ڈرنے لگی۔
اول تو جفی اپنے آپ سے بھی تسلیم نہیں کرتی تھی کہ وہ حسنی سے ڈرتی ہے۔ اسے علم نہ تھا کہ وہ خود سے ڈر رہی ہے۔ حسنی کو اچھی طرح علم تھا کہ وہ ڈرتی ہے۔ حسنی کوٹھیوں میں کام کرتے کرتے جوان ہوا تھا۔ وہ ماڈرن گرل سے اچھی طرح واقف تھا۔ وہ انہیں سمجھتا نہیں تھا لیکن جانتا تھا اور سمجھے بغیر جاننا، جانے بغیر سمجھنے سے کہیں بہتر ہوتا ہے۔ بہرحال حسنی کو پتہ تھا کہ جب مس صاحبہ ڈرنے لگے تو وہ صرف سٹیٹس کا ڈر ہوتا ہے اور سٹیٹس کا ڈر ایسی بیل ہوتی ہے جس کی جڑ نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ انتظار کرتا رہا۔ حسنی بار بار بہانے بہانے جفی کے کمرے کا دروازہ آہستہ سے کھولتا اور پھر مدھم مگر پرلے آواز میں کہتا، ’’جی۔۔۔ آپ نے بلایا مس صاحبہ۔‘‘
ایک روز جب جفی آئینے کے سامنے کھڑی تھی تو حسنی نے وہی حرکت دہرائی۔ جفی گھبرا کر پیچھے ہٹی۔ اس کے قدم لڑکھڑائے۔ وہ گری۔ دو مضبوط بانہوں نے اسے سنبھال لیا۔ جفی نے اوپر کی طرف دیکھا۔ دو لٹکی ہوئی مونچھوں میں چٹے سفید دانت چمک رہے تھے۔ جفی نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس ڈر کے مارے کہ کہیں مونچھیں اڑ نہ جائیں۔ نیچے سے کلین شیو چہرہ نہ نکل آئے۔ پھر۔۔۔ پھر اسے یاد نہیں۔
ٹھک ٹھک ٹھک ٹھک۔۔۔ وقار محل کی دیواریں ٹوٹ رہی تھیں۔ سنہرا گرد و غبار اڑ رہا تھا۔
اگرچہ جفی نے اپنی عزت کا تحفظ کرنے کے لیے کلین شیو چہرے پر مونچھیں لگا لی تھیں اور یوں اپنے ذہن کو مطمئن کر لیا تھا لیکن جسم کو کیسے سمجھاتی۔ جسم تو ایک بے سمجھ کر دینے والا دہقان ہے۔ وہ ذہن کی سیاست دانیوں کو نہیں سمجھتا۔ جھوٹے رکھ رکھاؤ کی ہیرا پھیریوں کو نہیں جانتا۔ عذاب اور ثواب کے فلسفے کو نہیں جانتا۔ وہ قدیم اور جدید کے امتیازات کو تسلیم نہیں کرتا۔ جسم غلیظ سہی لیکن مکار نہیں۔ وہ صاف بات کرتا ہے۔ دو ٹوک بات۔ سیدھی بات۔ جسم نے جفی کے کان میں بات کہہ دی کہ تھرل صرف گینی سے وابستہ نہیں۔ مونچھیں لگانے کے تکلف کے بغیر بھی تھرل حاصل ہو سکتی ہے۔ جسم کی یہ زیر لبی جفی کو بہت ناگوار گزری۔
اگلی صبح جب دھندلکا دور ہوا اور اسٹیٹس کی دنیا پھر سے آباد ہوئی تو جفی کی انا کو بڑا صدمہ ہوا۔ یہ میں نے کیا کر دیا۔ یہ کیسے ہو گیا۔ ایک معمولی نوکر۔ سارا دن وہ اپنی نظر میں گرتی رہی۔ گرتی ہی چلی گئی۔ سارا دن وہ کوشش کرتی رہی کہ اپنے آپ کو سنبھالے۔ لیکن اس روز گویا یاسمین اس کے دل میں آ گھسی تھی۔ جفی اور یاسمین بر سر تکرار تھیں۔ جفی بار بار کہتی، ’’چلو ہو گیا ہے تو پھر کیا ہوا۔ اتنی چھوٹی سی بات پلے نہ باندھو۔‘‘ یاسمین کہتی، ’’اونہوں۔ بات پلے باندھی نہیں جاتی، وہ تو بن پوچھے، بن سوچے سمجھے آپ ہی آپ پلے بندھ جاتی ہے۔‘‘ جفی کہتی، ’’دل میلا نہ کرو۔ تم تو ایک ماڈرن گرل ہو۔ جنس تو ایک ذاتی معاملہ ہے۔ اسے روگ نہ بناؤ۔‘‘ یاسمین کہتی، ’’تم ماڈرن گرل نہیں ہو۔ کوئی بھی ماڈرن گرل نہیں ہے۔ سبھی ماڈرن گرل بننا چاہتی ہیں۔ چاہنے اور ہونے میں بڑا فرق ہے۔‘‘
اس روز سارا دن جفی اور یاسمین میں کشمکش ہوتی رہی۔ سارا دن اس کے دل کی ہنڈیا میں جفی اور یاسمین کی کھچڑی پکتی رہی۔ جفی اور یاسمین کے جھگڑے کو سن سن کر اس کے کان پک گیے۔ وہ محسوس کرتی تھی۔ جیسے وہ ان دونوں سے الگ تھلگ ہو۔ دفعتاً اس کے ذہن میں خیال ابھرا۔ پھر میں کون ہوں؟ کیا میں یاسمین ہوں؟ نہیں میں یاسمین نہیں۔ کیا میں جفی ہوں؟ نہیں میں جفی بھی نہیں۔ تو پھر میں کون ہوں؟ صرف میں ہی نہیں ڈیڈی بھی تو ہیں۔ کیا ڈیڈی محمد عثمان نہیں، کیا وہ ایم اوثمان ہیں؟ نہیں تو پھر ڈیڈی کون ہیں؟
اس گھر میں صرف ایک فرد ممی تھیں جو فاطمہ بیگم تھیں۔ خالی فاطمہ بیگم جنہیں سب ممی کہتے تھے۔ نہ جانے کب سے کہہ رہے تھے۔ جنہیں برسوں سے ممی بنانے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ لیکن وہ امی تھیں اور امی ہی رہی تھیں۔ گھر میں صرف وہی تھیں جنہیں علم تھا کہ وہ کون ہیں۔
میں کون ہوں؟ یہ ایک ٹیڑھا سوال تھا۔ پندرہ برس تک وہ سمجھتی رہی تھی کہ وہ یاسمین ہے۔ دو سال تک وہ سمجھتی رہی تھی کہ جس من ہے اور گزشتہ چار سال سے وہ سمجھ رہی تھی کہ وہ جفی ہے لیکن آج وہ اپنے آپ سے پوچھ رہی تھی کہ میں کون ہوں۔ آج اس کے دل میں جفی اور یاسمین کی کھچڑی پک رہی تھی۔ کیا میں جفی اور یاسمین کی کھچڑی ہوں۔ نہیں نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ میں کھچڑی نہیں ہوں۔ میں کبھی کھچڑی نہیں بنوں گی۔ میری ایک شخصیت ہے۔ میرا ایک سلف ہے۔ میں یاسمین بن سکتی ہوں۔ جفی بن سکتی ہوں لیکن کھچڑی نہیں۔ کبھی نہیں، کبھی نہیں۔
اس کے سامنے افعی آ کھڑی ہوئی۔ میں افعی ہوں۔ وہ سینہ ابھار کر بولی۔ خالص افعی۔ نہیں یہ جھوٹ بولتی ہے۔ یاسمین نے کہا، اگر یہ افعی ہوتی تو کبھی گھر چھوڑ کر نہ جاتی۔ اس چخ چخ سے گھبرا کر جفی اٹھ بیٹھی اور کھڑکی میں جا کھڑی ہوئی۔ سامنے وقار محل کھڑا مسکرا رہا تھا۔ اس کی مسکراہٹ حسرت آلودہ تھی۔ جفی نے محسوس کیا جیسے محل سب کچھ جانتا ہو۔ ٹھک ٹھک کھچ۔ ڑی ٹھک ٹھک۔ کھچ ڑی محل کی دیواریں چلا رہی تھیں۔
’’نہیں نہیں۔‘‘ یاسمین بولی، ’’بھولنا کافی نہیں۔ تمہیں اس داغ کو اپنے دامن سے دھونا ہو گا۔‘‘
ٹھک ٹھک ٹھک ٹھک۔۔۔ ٹوٹتے ہوئے محل کی آوازیں جفی کے کمرے میں گونج رہی تھیں۔ ٹک ٹک ٹک ٹک۔۔۔ ایک لرزش اس کے اندر رینگ رہی تھی۔
’’نہیں نہیں۔‘‘ جفی گھبرا کر بولی۔ ’’تم ایک ماڈرن گرل ہو۔ نہیں نہیں۔‘‘ یاسمین چلائی، ’’تم وقار محل کے سائے میں پل کر جوان ہوئی ہو۔‘‘
ٹھک ٹھک ٹھک ٹھک۔۔۔ ٹوٹتا ہوا محل کراہ رہا تھا۔ دفعتاً اس کا منہ سرخ ہو گیا۔
’’حسنی!‘‘ اس نے یوں آواز دی جیسے ڈوبتی ہوئی کشتی میں سے کوئی مدد کے لئے چلا رہا ہو۔
’’حسنی!‘‘
جفی اور یاسمین دونوں ششدر رہ گئیں، ’’یہ آواز کس نے دی؟ کس نے؟‘‘
’’حسنی!‘‘ وہ پھر چلائی۔
وہ آواز منہ سے نہیں بلکہ جسم سے نکل رہی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.