ٹیٹوال کا کتا
کہانی میں بنیادی طور سے مذہبی منافرت اور ہندوستانی و پاکستانی افراد کے مابین تعصب کی عکاسی ہے۔ کتا جو کہ ایک بے جان جانور ہے ہندوستانی فوج کے سپاہی محض تفریح طبع کے لیے اس کتے کا کوئی نام رکھتے ہیں اور وہ نام لکھ کر اس کے گلے میں لٹکا دیتے ہیں۔ جب وہ کتا پاکستان کی سرحد کی طرف آتا ہے تو پاکستانی فوج کے سپاہی اسے کوئی کوڈ ورڈ سمجھ کر چوکنا ہو جاتے ہیں۔ دونوں طرف کے سپاہی غلط فہمی کے باعث اس کتے پر گولی چلا دیتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
لال ٹین
اس افسانے میں مصنف نے اپنے کشمیر دورے کے کچھ یادگار لمحوں کا ذکر کیا ہے۔ حالانکہ مصنف کو یقین ہے کہ وہ ایک اچھا قصہ گو نہیں ہے اور نہ ہی اپنی یادوں کو ٹھیک سے بیان کر سکتا ہے۔ پھر بھی بٹوت (کشمیر) میں گزارے ہوئے اپنے ان لمحوں کو وہ بیان کئے بغیر نہیں رہ پاتا، جن میں اس کی وزیر نام کی لڑکی سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات کے سبب وہ اپنے دوستوں میں کافی بدنام بھی ہوا تھا۔ وزیر ایسی لڑکی تھی کہ جب مصنف اپنے دوست کے ساتھ رات کو ٹہلنے نکلتا تھا تو سڑک کے کنارے انہیں راستہ دکھانے کے لیے لالٹین لیکر کھڑی ہو جاتی تھی۔
سعادت حسن منٹو
اس کا پتی
یہ افسانہ استحصال، انسانی اقدار اور اخلاقیات کے زوال کی کہانی ہے۔ بھٹے کے مالک کا عیاش بیٹا ستیش گاؤں کی غریب لڑکی روپا کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر چھوڑ دیتا ہے۔ جب گاؤں والوں کو اس کے حاملہ ہونے کی بھنک لگتی ہے تو روپا کا ہونے والا سسر اس کی ماں کو لعن طعن کرتا ہے اور رشتہ ختم کر دیتا ہے۔ معاملے کو سلجھانے کے لیے نتھو کو بلایا جاتا ہے، جو سمجھدار اور معاملہ فہم سمجھا جاتا تھا۔ ساری باتیں سننے کے بعد وہ روپا کو ستیش کے پاس لے جاتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ روپا اور اپنے بچے کو سنبھال لے۔ لیکن ستیش سودا کرنے کی کوشش کرتا ہے جس پر روپا بھاگ جاتی ہے اور پاگل ہو جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
بدصورتی
اس افسانہ میں دو بہنوں، حامدہ اور ساجدہ کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔ ساجدہ بہت خوبصورت ہے، جبکہ حامدہ بہت بدصورت۔ ساجدہ کو ایک لڑکے سے محبت ہو جاتی ہے، تو حامدہ کو بہت دکھ ہوتا ہے۔ اس بات کو لے کر ان دونوں کے درمیان جھگڑا بھی ہوتا ہے۔ پھر دونوں بہنیں صلح کر لیتی ہے اور ساجدہ کی شادی حامد سے ہو جاتی ہے۔ ایک سال بعد ساجدہ اپنے شوہر کے ساتھ حامدہ سے ملنے آتی ہے۔ رات کو کچھ ایسا ہوتا ہے کہ صبح ہوتے ہی حامد ساجدہ کو طلاق دے دیتا ہے اور کچھ عرصہ بعد حامدہ سے شادی کر لیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
اُلو کا پٹھا
قاسم ایک دن صبح سو کر اٹھتا ہے تو اس کے اندر یہ شدید خواہش جاگتی ہے کہ وہ کسی کو الو کا پٹھا کہے۔ بہت سے طریقے اور مواقع سوچنے کے بعد بھی وہ کسی کو الو کا پٹھا نہیں کہہ پاتا اور پھر دفتر کے لئے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ راستے میں ایک لڑکی کی ساڑی سائکل کے پہیے میں پھنس جاتی ہے، جسے وہ نکالنے کی کوشش کرتا ہے لیکن لڑکی کو ناگوار گزرتا ہے اور وہ اسے ’’الو کا پٹھا‘‘ کہہ کر چلی چاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
ترقی پسند
طنز و مزاح کے پیرایہ میں لکھا گیا یہ افسانہ ترقی پسند افسانہ نگاروں پر بھی چوٹ کرتا ہے۔ جوگندر سنگھ ایک ترقی پسند افسانہ نگار ہے جس کے یہاں ہریندر سنگھ آکر پڑاؤ ڈال دیتا ہے اور مسلسل اپنے افسانے سنا کر بو رکرتا رہتا ہے۔ ایک دن اچانک جوگندر سنگھ کو احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کی حق تلفی کر رہا ہے۔ اسی خیال کے تحت وہ ہریندر سے باہر جانے کا بہانہ کرکے بیوی سے رات بارہ بجے آنے کا وعدہ کرتا ہے۔ لیکن جب رات میں جوگندر اپنے گھر کے دروازہ پر دستک دیتا ہے تو اس کی بیوی کے بجائے ہریندر دروزہ کھولتا ہے اور کہتا ہے جلدی آ گئے، آو، ابھی ایک افسانہ مکمل کیا ہے، اسے سنو۔
سعادت حسن منٹو
اصلی جن
ہم جنسیت کے تعلقات پر مبنی کہانی۔ فرخندہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ بچپن میں ہی اس کے باپ کا انتقال ہو گیا تھا تو وہ اکیلے اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگی تھی۔ جوانی کا سفر اس نے تنہا ہی گزار دیا۔ جب وہ اٹھارہ سال کی ہوئی تو اس کی ملاقات نسیمہ سے ہوئی۔ نسیمہ ایک پنجابی لڑکی تھی، جو حال ہی میں پڑوس میں رہنے آئی تھی۔ نسیمہ ایک لمبی چوڑی مردوں کی خصلت والی خاتون تھی، جو فرخندہ کو بھا گئی تھی۔ جب فرخندہ کی ماں نے اس کا نسیمہ سے ملنا بند کر دیا تو وہ نیم پاگل ہو گئی۔ لوگوں نے کہا کہ اس پر جن ہے، پر جب ایک دن چھت پر اس کی ملاقات نسیمہ کے چھوٹے بھائی سے ہوئی تو اس کے سبھی جن بھاگ گئے۔
سعادت حسن منٹو
چودھویں کا چاند
فطری مناظر کے پرستار ولسن کی کہانی ہے جو ایک بینک منیجر تھا۔ ولسن ایک مرتبہ جزیرے پر آیا تو چودھویں کے چاند نے اسے اس قدر مسحور و مبہوت کیا کہ اس نے ساری زندگی وہیں بسر کرنے کا ارادہ کر لیا اور بینک کی ملازمت چھوڑ کر گھر بیچ کر مستقل وہیں رہنے لگا۔ لیکن جب قرض خواہوں نے تنگ کرنا شروع کر دیا تو اس نے ایک دن اپنے جھونپڑے میں آگ لگا لی، جس کی وجہ سے اس کا ذہن ماؤف ہو گیا اور کچھ دن بعد چودہویں کا چاند دیکھ کر ہی وہ مر گیا۔
سعادت حسن منٹو
شاردا
’’یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو طوائف کو طوائف کی طرح ہی رکھنا چاہتا ہے۔ جب کوئی طوائف اس کی بیوی بننے کی کوشش کرتی تو وہ اسے چھوڑ دیتا ۔ پہلے تو وہ شاردا کی چھوٹی بہن سے ملا تھا، پر جب اس کی شاردا سے ملاقات ہوئی تو وہ اسے بھول گیا۔ شاردا ایک بچہ کی ماں ہے اور دیکھنے میں قابل قبول ہے۔ بستر میں اسے شاردا میں ایسی لذت محسوس ہوتی ہے کہ وہ اسے کبھی بھول نہیں پاتا۔ شاردا اپنے گھر لوٹ جاتی ہے، تو وہ اسے دوبارہ بلا لیتا ہے۔ اس بار گھر آکر شاردا جب بیوی کی طرح اس کی دیکھ بھال کرنے لگتی ہے تو وہ اس سے اکتا جاتا ہے اور اسے واپس بھیج دیتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
قادرا قصائی
اپنے زمانہ کی ایک خوبصورت اور مشہور طوائف کی کہانی۔ اس کے کوٹھے پر بہت سے لوگ آیا کرتے تھے اور سبھی اس سے اپنی محبت کا اظہار کیا کرتے تھے۔ ان میں ایک غریب شخص بھی اس سے محبت کا دعویٰ کرتا تھا۔ لیکن اس نے اس کی محبت کو ٹھکرا دیا۔ طوائف کے یہاں ایک بیٹی ہوئی۔ وہ بھی اپنی ماں کی طرح بہت خوبصورت تھی۔ جن دنوں اس کی بیٹی کی نتھ اترنے والی تھی انہیں دنوں ملک تقسیم ہو گیا۔ اس تقسیم کے فساد میں طوائف ماری گئی اور اس کی بیٹی پاکستان چلی گئی۔ یہاں بھی اس نے اپنا کوٹھا آبادکر لیا۔ جلد ہی اس کے کئی چاہنے والے نکل آئے۔ وہ جس شخص کو اپنا دل دے بیٹھی تھی وہ ایک قادرا قصائی تھا، جسے اس کی محبت کی ضرورت نہیں تھی۔
سعادت حسن منٹو
ہارتا چلا گیا
ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جسے جیتنے سے زیادہ ہارنے میں مزہ آتا ہے۔ بینک کی نوکری چھوڑکر فلمی دنیا میں اس نے بے حساب دولت کمائی تھی۔ یہاں اس نے اتنی دولت کمائی کی وہ جس قدر خرچ کرتا اس سے زیادہ کما لیتا۔ ایک روز وہ جوا کھیلنے جا رہا تھا کہ اسے عمارت کے نیچے گاہکوں کو انتظار کرتی ایک ویشیا ملی۔ اس نے اسے دس روپیے روز دینے کا وعدہ کیا، تاکہ وہ اپنا جسم بیچنے کادھندا بند کر سکے۔ کچھ دنوں بعد اس شخص نے دیکھا کہ وہ ویشیا پھر کھڑکی پر بیٹھی گاہک کا انتظار کر رہی ہے۔ پوچھنے پر اس نے ایسا جواب دیا کہ وہ شخص لا جواب ہو کر خاموش ہو گیا۔
سعادت حسن منٹو
ساڑھے تین آنے
اس افسانہ میں صاحب اقتدار اور حکمراں طبقے پر شدید طنز کیا گیا ہے۔ رضوی جیل سے باہر آنے کے بعد ایک کیفے میں بیٹھ کر فلسفیانہ انداز میں معاشرتی جبر پر گفتگو کرتا ہے کہ کس طرح یہ معاشرہ ایک ایک ایماندار انسان کو چور اور قاتل بنا دیتا ہے۔ اس سلسلہ میں وہ پھگو بھنگی کا ذکر کرتا ہے جس نے بڑی ایمانداری سے اس کے دس روپے اس تک پہنچائے تھے۔ یہ وہی پھگو بھنگی ہے جس کو وقت پر تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے ساڑھے تین آنے چوری کرنے پڑتے ہیں اور اسے ایک سال کی سزا ملتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
سرمہ
فہمیدہ کو سرمہ لگانے کا بے حد شوق تھا۔ شادی کے بعد شوہر کے ٹوکنے پر اس نے سرمہ لگانا چھوڑ دیا۔ پھر اس نے نومولود بچے کے سرمہ لگانا شروع کیا لیکن وہ ڈبل نمونیا سے مر گیا۔ ایک دن جب فہمیدہ کے شوہر نے اسے جگانے کی کوشش کی تو وہ مردہ پڑی تھی اور اس کے پہلو میں ایک گڑیا تھی جس کی آنکھیں سرمے سے لبریز تھیں۔
سعادت حسن منٹو
نفسیات شناس
’’یہ کہانی ایک ایسے شخص کی ہے جو اپنے گھریلو خادم کا نفسیاتی مطالعہ کرتا ہے۔ اس کے یہاں پہلے دو سگے بھائی نوکر ہوا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک بہت چست تھا تو دوسرا بہت سست۔ اس نے سست نوکر کو ہٹاکر اس کی جگہ ایک نیا نوکر رکھ لیا۔ وہ بہت ہوشیار اور پہلے والے سے بھی زیادہ چست اور تیز تھا۔ اس کی چستی اتنی زیادہ تھی کہ کبھی کبھی وہ اس کے کام کرنے کی تیزی کو دیکھ کر جھنجھلا جاتا تھا۔ اس کا ایک دوست اس نوکر کی بہت تعریف کیا کرتا تھا۔ اس سے متاثر ہو کر ایک روز اس نے نوکر کی حرکتوں کا نفسیاتی مطالعہ کرنے کا ارداہ کیا اور ۔۔۔ پھر‘‘
سعادت حسن منٹو
نیا سال
یہ زندگی سے جدوجہد کرتے ایک اخبار کے ایڈٹر کی کہانی ہے۔ حالانکہ اسے اس اخبار سے دولت مل رہی تھی اور نہ ہی شہرت۔ پھر بھی وہ اپنے کام سے خوش تھا۔ اس کے مخالف اس کے خلاف کیا کہتے ہیں؟ لوگ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ یا پھر دنیا اس کی راہ میں کتنی مشکلیں پیدا کر رہی ہے، اس سے اسے کوئی مطلب نہیں تھا۔ اسے تو بس مطلب ہے اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کرنے سے۔ یہی کام وہ گزشتہ چار سال سے کرتا آ رہا تھا اور اب جب نئے سال کا آغاز ہونے والا ہے تو وہ اس سے بھی مقابلے کے لیے تیار ہے۔
سعادت حسن منٹو
مس فریا
یہ ایک ایسے فرد کی کہانی ہے جو شادی کے ایک مہینے بعد ہی اپنی بیوی کے حاملہ ہو جانے سے پریشان ہو جاتا ہے۔ اس سے نجات پانے کے لیے وہ کئی ترکیبیں سوچتا ہے، لیکن کوئی سازگار نہیں ہوتی۔ آخر میں اسے وہ لیڈی ڈاکٹر مس فریا یاد آتی ہے، جو اس کی بہن کے بچہ ہونے پر ان کے گھر آئی تھی۔ جب وہ اسے اس کے دواخانے پر چھوڑنے گیا تھا تو اس نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔ پھر معافی مانگتے ہوئے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔ اب جب اسے پھر اس واقعہ کی یاد آئی تو وہ ہنس پڑا اور اس نے حالات کو قبول کر لیا۔
سعادت حسن منٹو
کتے کی دعا
یہ افسانہ ایک کتے کی اپنے مالک کے لیے وفاداری کی ایک انوکھی داستان بیان کرتا ہے۔ اس شخص نے اپنی اور اپنے کتےگولڈی کی کہانی سناتے ہوئے بیتی زندگی کے کئی واقعات کا ذکر کیا۔ ان واقعات میں ان دونوں کے آپسی تعلقات اور ایک دوسرے کے لیے لگاؤ کے بارے میں کئی نصیحت آمیز قصے تھے۔ مگر حقیقی کہانی تو یہ تھی کہ جب ایک بارکتے کا مالک بیمار پڑا تو کتے نے اس کے لیے ایسی دعا مانگی کہ مالک تو ٹھیک ہو گیا، لیکن کتا اپنی جان سے جاتا رہا۔
سعادت حسن منٹو
میرا ہم سفر
’’علیگڑھ سے امرتسر لوٹتے ہوئے ایک ایسے طالب علم کی کہانی ہے جو ٹرین میں سوار ہوا تو اسے الوداع کہنے آئے اس کے ایک ساتھی نے اس سے کوئی ایسی بات کہی کہ اس نے اسے پاگل کہہ کر جھٹک دیا۔ ٹرین میں اس کے ساتھ سفر کر رہے نوجوان نے سوچا کہ وہ اسے پاگل کہہ رہا ہے۔ بات کرنے پر پتہ چلا کہ وہ نوجوان اپنے گھر سے صرف اس لیے نکل آیا ہے کیونکہ اس کا یہودی باپ اسے پاگل کہتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کی بیوی بھی اسے چھوڑکر اپنے مائکے چلی جاتی ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
میرا اور اس کا انتقام
یہ ایک شوخ، چنچل اور چلبلی لڑکی کی کہانی ہے، جو پورے محلے میں ہر کسی سے مذاق کرتی رہتی ہے۔ ایک دن جب وہ اپنی سہیلی بملا سے ملنے گئی تو وہاں بملا کے بھائی نے اس سے انتقام لینے کے لیے جھوٹ بول کر گھر میں بند کر لیا اور اس کے نم ہونٹوں کو چوم لیا۔ وہاں وہ شام تک بند رہی۔ کچھ دنوں بعد جب بملا کو موقع ملا تو وہ بھی اپنا انتقام لینے سے پیچھے نہیں رہی۔
سعادت حسن منٹو
چپ
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جسے اپنے سے دوگنی عمر کی عورت سے محبت ہو جاتی ہے۔ وہ اس کے عشق میں اس قدر دیوانہ ہو جاتا ہے کہ اس کے بنا ایک پل بھی رہ نہیں پاتا۔ رات ڈھلے جب وہ اس کے پاس جاتا ہے تو وہ اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے چپ کر دیتی ہے۔ پھر جب اس کی شوہر سے طلاق ہو جاتی ہے تو وہ اپنی ماں کے خلاف جاکر اس سے شادی کر لیتا ہے۔ مگر شادی کے بعد وہ اس میں پہلی والی لزت محسوس نہیں کر پاتا۔ بعد میں وہ اسے چھوڑ کر چلی جاتی ہے اور دوسرے مرد سے شادی کر لیتی ہے۔
ممتاز مفتی
حج اکبر
’’کہانی صغیر نام کے ایک ایسے شخص کی ہے، جسے ایک شادی میں امتیاز نام کی لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے۔ اس کی محبت میں وہ کچھ اس قدر گرفتار ہوتا ہے کہ وہ اس سے شادی کر لیتا ہے۔ مگر شادی کے بعد بھی ان کے درمیان مرد عورت کے رشتے قایم نہیں ہو پاتے، کیونکہ صغیر اپنی چاہت کے سبب امتیاز کو ایک بہت پاک شے سمجھنے لگتا ہے۔ ایک روز صغیر کے گھر اس کا بڑا بھائی اکبر ملنے آتا ہے۔ اس کے واپس جانے سے پہلے ہی صغیر امتیاز کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے نکل جاتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
موچنا
یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کے چہرے اور جسم پر مردوں کی طرح بال اگ آتے تھے، جنھیں اکھاڑنے کے لیے وہ اپنے ساتھ ایک موچنا رکھا کرتی تھی۔ حالانکہ دیکھنے میں وہ کوئی زیادہ خوبصورت نہیں تھی پھر بھی اس میں کوئی تو ایسی بات تھی کہ جو مرد اسے دیکھتا اس پر عاشق ہو جاتا۔ اس طرح اس نے بہت سے مرد بدلے۔ جس مرد کے بھی پاس بھی وہ گئی اپنا موچنا ساتھ لیتی گئی۔ اگر کبھی وہ پرانے مرد کے پاس چھوٹ گیا تو اس نے خط لکھ کر اسے منگوا لیا۔ جب وہ ایک شاعر کو چھوڑ کر گئی تو اس نے اس کا موچنا دینے سے انکار کر دیا تاکہ رشتہ کی ایک وجہ تو بنی رہے۔
سعادت حسن منٹو
نفسیاتی مطالعہ
ایک ایسی ادیبہ کی داستان اس کہانی میں بیان کی گئی ہے جو مردوں کی نفسیات پر لکھنے کے لیے مشہور ہے۔ کچھ ادیب دوست بیٹھے ہو ئے اسی مصنفہ بلقیس کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔ ادیب جس گھر میں بیٹھے ہیں اس گھر کی خاتون بلقیس کی دوست ہے۔ دوران گفتگو ہی فون آتا ہے اور وہ خاتون بلقیس سے ملنے چلی جاتی ہے۔ بلقیس اسے بتاتی ہے کہ وہ گھر میں سفیدی کر رہے ایک مزدور کی نفسیات کا مطالعہ کر رہی تھی کہ اسی درمیان اس مزدور نے اسے اپنی ہوس کا شکار بنا لیا۔
سعادت حسن منٹو
گھر تک
اپنے گاؤں کو جاتے ہوئے ایک ایسے شخص کی کہانی جو راستہ بھٹک گیا ہے۔ اس کے ساتھ ایک معاون بھی ہے جسے وہ راستے میں کہانی سناتا ہے۔ راستہ تلاش کرتے شام ہو جاتی ہے تو انھیں دور سے مشعل جلنے اور عورتوں کے رونے کی آواز آتی ہے۔ قریب جانے پر پتہ چلتا ہے کہ رونے والی اس کی ماں اور بہن ہیں۔ وہ دونوں اس کے چھوٹے بھائی کے قبر کے پاس رو رہی ہیں، جس کے لیے وہ شہر سے کھلونے اور کپڑے لے کر آیا تھا۔
ممتاز شیریں
دو مونہی
’’کہانی دوہرے کردار سے جوجھتی ایک ایسی عورت کے گرد گھومتی ہے، جو ظاہری طور پر تو کچھ اور دکھائی دیتی ہے مگر اس کے اندر کچھ اور ہی چل رہا ہوتا ہے۔ اپنی اس شخصیت سے پریشان وہ بہت سے ڈاکٹروں سے علاج کراتی ہے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ پھر اس کی ایک سہیلی اسے تیاگ کلینک کے بارے میں بتاتی ہے اور وہ اپنے شوہر سے ہل اسٹیشن پر گھومنے کا کہہ کر اکیلے ہی تیاگ کلینک میں علاج کرانے کے لیے نکل پڑتی ہے۔‘‘
ممتاز مفتی
نفرت
یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کی ایک معمولی سے واقعہ نے پوری زندگی ہی بدل دی۔ اسے زرد رنگ جتنا پسند تھا اتنا ہی برقعہ ناپسند۔ اس دن جب وہ اپنی نند کے ساتھ ایک سفر پر جا رہی تھی تو اس نے زرد رنگ کی ہی ساڑی پہن رکھی تھی اور برقعے کو اتار کر ایک طرف رکھ دیا تھا۔ مگر لاہور اسٹیشن پر بیٹھی ہوئی جب وہ دونوں گاڑی کا انتظار کر رہی تھی وہاں انہوں نے ایک میلے کچیلے آدمی کی پسند ناپسند سنی تو انہوں نے خود کو پوری طرح ہی بدل لیا۔
ممتاز مفتی
شادی
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس کی تربیت مغربی تہذیب میں ہوئی ہے۔ اس نے مغربی ادب کا مطالعہ کیا ہے اور وہاں کے سماج میں پوری طرح رچ بس گیا ہے۔ اپنے ملک لوٹنے پر والدین اس کی شادی کے لیے کہتے ہیں مگر وہ بغیر ملے، دیکھے کسی ایسی لڑکی سے شادی کے لیے راضی نہیں ہوتا جسے وہ جانتا تک نہیں۔ گھر والوں کے اصرار پر وہ شادی کے لیے راضی ہو جاتا ہے۔ شادی ہونے کے بعد وہ ایک اجنبی لڑکی جو اب اس کی بیوی ہے کے پاس جانے سے کتراتا ہے۔ ایک رات تنہا لیٹے ہوئے اسے کسی ناول کے کچھ حصے یاد آتے ہیں اور وہ اپنی بیوی کی چاہت میں تڑپ اٹھتا ہے اور اس کے پاس چلا جاتا ہے۔
احمد علی
وقار محل کا سایہ
وقار محل کے معرفت ایک گھر اور اس میں رہنے والے لوگوں کے ٹوٹتے بنتے رشتوں کی داستان کو بیان کیا گیا ہے۔ وقار محل کالونی کے وسط میں واقع ہے۔ ہر کالونی والا اس سے نفرت بھی کرتا ہے اور ایک طرح سے اس پر فخر بھی۔ مگر وقار محل کو پچھلے کئی سالوں سے گرایا جا رہا ہے اور وہ اب بھی ویسے کا ویسا کھڑا ہے۔ مزدور دن رات کام میں لگے ٹھک ٹھک کرتے رہتے ہیں۔ ان کی ٹھک ٹھک کی اس آواز سے ماڈرن خیال کی ماڈرن لڑکی زفی کے بدن میں سہرن سی ہونے لگتی ہے۔ اور یہی سہرن اسے کئی لوگوں کے پاس لے جاتی ہے اور ان سے دور بھی کرتی ہے۔