ایک باپ بکاؤ ہے
کہانی کی کہانی
کہانی اخبار میں شائع ایک اشتہار سے شروع ہوتی ہے جس میں ایک باپ کا حلیہ بتاتے ہوئے اس کے فروخت کرنے کی اطلاع ہوتی ہے۔ اشتہار شائع ہونے کے بعد کچھ لوگ اسے خریدنے پہنچتے ہیں مگر جیسے جیسے انھیں اس کی خامیوں کے بارے میں پتہ چلتا ہے وہ خریدنے سے انکار کرتے جاتے ہیں۔ پھر ایک دن اچانک ایک بڑا کاروباری اسے خرید لیتا ہے اور اسے اپنے گھر لے آتا ہے۔ جب اسے پتہ چلتا ہے کہ خریدا ہوا باپ ایک زمانے میں بہت بڑا گلوکار تھا اور ایک لڑکی کے ساتھ اس کی دوستی بھی تھی تو کہانی ایک دوسرا رخ اختیار کر لیتی ہے۔
کبھی نہ سنی یہ بات جو 24 فروری کے ’’ٹائمز‘‘ میں چھپی۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ اخبار والوں نے چھاپ کیسے دی۔ خرید و فروخت کے کالم میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا ہی اشتہار تھا۔ جس نے وہ اشتہار دیا تھا، ارادہ یا اس کے بغیر اسے معمّے کی ایک شکل دے دی تھی۔ پتے کے سوا اس میں کوئی ایسی بات نہ تھی، جس سے خریدنے والے کو کوئی دل چسپی ہو۔ ’’بکاؤ ہے ایک باپ۔ عمر اکہتّر سال، بدن اکہرا، رنگ گندمی، دمے کا مریض۔ حوالہ باکس نمبر ایل 476، معرفت ’ٹائمز‘۔‘‘
’’اکہتّر برس کی عمر میں باپ کہاں رہا۔۔۔ دادا نانا ہو گیا وہ تو؟‘‘
’’عمر بھر آدمی ہاں ہاں کرتا رہتا ہے، آخر میں نانا ہو جاتا ہے۔‘‘
’’باپ خرید لائے تو ماں کیا کہے گی، جو بیوہ ہے۔ عجیب بات ہے نا، ایسے ماں باپ جو میاں بیوی نہ ہوں۔‘‘
’’ایک آدمی نے الٹے پاؤں دنیا کا سفر شروع کر دیا ہے۔ آج کی دنیا میں سب سچ ہے بھائی سب سچ ہے۔‘‘
’’دمہ پھیلائے گا۔‘‘
’’نہیں بے۔۔۔ دمہ متعدی بیماری نہیں۔‘‘
’’ہے۔‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’ہے۔‘‘
ان دو آدمیوں میں چاقو چل گئے۔۔۔ جو بھی اس اشتہار کو پڑھتے تھے، بڈھے کی سنک پہ ہنس دیتے تھے۔ پڑھنے کے بعد اسے ایک طرف رکھ دیتے اور پھر اٹھا کر اسے پڑھنے لگتے، جیسے ہی انھیں اپنا آپ احمق معلوم ہونے لگتا، وہ اس اشتہار کو اڑوسیوں پڑوسیوں کی ناک تلے ٹھونس دیتے۔
’’ایک بات ہے۔ گھر میں چوری نہیں ہو گی۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’ہاں، کوئی رات بھر کھانستا رہے۔‘‘
’’یہ سب سازش ہے، خواب آور گولیاں بیچنے والوں کی پھر۔۔۔ ایک باپ بکاؤ ہے۔‘‘
یوں لوگ ہنستے ہنستے رونے کے قریب پہنچ گئے۔
گھروں میں، راستوں پر، دفتروں میں بات ڈاک ہونے لگی، جس سے وہ اشتہار اور بھی مشتہر ہو گیا۔
جنوری فروری کے مہینے بالعموم پت جھڑ کے ہوتے ہیں۔ ایک ایک داروغہ کے نیچے بیس بیس جھاڑو دینے والے، سڑکوں پر گرے سوکھے سڑے، بوڑھے پتّے اٹھاتے اٹھاتے تھک جاتے ہیں، جنھیں ان کو گھر لے جانے کی بھی اجازت نہیں کہ انھیں جلائیں اور سردی سے خود اور اپنے بال بچّوں کو بچائیں۔ اس پت جھڑ اور سردی کے موسم میں وہ اشتہار گرمی پیدا کرنے لگا، جو آہستہ آہستہ سینک میں بدل گئی۔
’’کوئی بات تو ہو گی؟‘‘
’’ہو سکتا ہے، پیسے جائیداد والا۔‘‘
’’بکواس۔۔۔ ایسے میں بکاؤ لکھتا؟‘‘
’’مشکل سے اپنے باپ سے خلاصی پائی ہے۔ باپ کیا تھا، چنگیز ہلاکو تھا سالا۔‘‘
’’تم نے پڑھا، مسز گوسوامی؟‘‘
’’دھت۔۔۔ ہم بچّے پالیں گی، سُدھا، کہ باپ؟ ایک اپنے ہی وہ کم نہیں گو۔۔۔ سوامی ہے! ہی۔ ہی ہی۔‘‘
’’باپ بھی حرامی ہوتے ہیں۔‘‘
باکس ایل 476 میں چٹھیوں کا طومار آیا پڑا تھا۔ اس میں ایک ایسی چٹھی بھی چلی آئی تھی، جس میں کیرل کی کسی لڑکی مِس اونی کرشنن نے لکھا تھا کہ، وہ ابودھابی میں ایک نرس کا کام کرتی رہی ہے اور اس کے ایک بچّہ ہے۔ وہ کسی ایسے مرد کے ساتھ شادی کی متمنی ہے جس کی آمدنی معقول ہو اور جو اس کی اور بچّے کی مناسب دیکھ بھال کرسکے، چاہے وہ کتنی عمر کا ہو۔ اس کا کوئی شوہر ہو گا، جس نے اسے چھوڑ دیا۔ یا ویسے ابودھابی کے کسی شیخ نے اسے الٹا پلٹا دیا۔ چنانچہ غیر متعلق ہونے کی وجہ سے وہ عرضی ایک طرف رکھ دی گئی، کیوں کہ اس کا بکاؤ باپ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ بہر حال ان چٹھیوں سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ہیڈلے چیز، رابن سن، ارونگ اور اگا تھاکرسٹی کے سب پڑھنے والے ادھر پلٹ پڑے ہیں۔ کلاسی فائیڈ اشتہار چھاپنے والوں نے جنرل منیجر کو تجویز پیش کی کہ اشتہاروں کے نرخ بڑھا دیے جائیں۔ مگر نوجوان بڈھے یا بڈھے نوجوان منیجر نے تجویز کو پھاڑ کر ردّی کی ٹوکری میں پھینکتے ہوئے کہا۔۔۔ Shucks۔۔۔ ایک پاپولر اشتہار کی وجہ سے نرخ کیسے بڑھا دیں؟ اس کے انداز سے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کسی غلطی کا ازالہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
پولیس پہنچی۔ اس نے دیکھا ہندو کالونی، دادر میں گاندھرو داس، جس نے اشتہار دیا تھا، موجود ہے اور صاف کہتا ہے کہ میں بکنا چاہتا ہوں۔ اگر اس میں کوئی قانونی رنجش ہے تو بتائیے۔ وہ پان پہ پان چباتا اور ادھر ادھر دیواروں پر تھوکتا جا رہا تھا۔ مزید تفتیش سے پتا چلا کہ گاندھروداس ایک گائیک تھا، کسی زمانے میں جس کی گائیکی کی بڑی دھوم تھی۔ برسوں پہلے اس کی بیوی کی موت ہو گئی، جس کے ساتھ اس کی ایک منٹ نہ پٹتی تھی۔ دونوں میاں بیوی ایک اوندھی محبت میں بندھے ایک دوسرے کو چھوڑتے بھی نہ تھے۔ شام کو گاندھروداس کا ٹھیک آٹھ بجے گھر پہنچنا ضروری تھا۔ ایک دوسرے کے ساتھ کوئی لین دین نہ رہ جانے کے باوجود یہ احساس ضروری تھا کہ، وہ ہے۔ گاندھروداس کی تان اڑتی ہی صرف اس لیے تھی کہ دمینتی، اس کے سنگیت سے بھرپور نفرت کرنے والی بیوی گھر میں موجود ہے اور اندر کہیں گاجر کا حلوا بنا رہی ہے اور دمینتی کے لیے یہ احساس تسلی بخش تھا، کہ اس کا مرد جو برسوں سے اسے نہیں بلاتا، ساتھ کے بستر پر پڑا شراب میں بدمست خراّٹے لے رہا ہے۔ کیوں کہ خراّٹا ہی ایک موسیقی تھی، جسے گاندھرو کی بیوی سمجھ پائی تھی۔
بیوی کے چلے جانے کے بعد، گاندھرو داس کو بیوی کی تو سب زیادتیاں بھول گئیں، لیکن اپنے اس پر کیے ہوئے اتیّاچار یاد رہ گئے۔ وہ بیچ رات کے ایکا ایکی اٹھ جاتا اور گریبان پھاڑ کر ادھر ادھر بھاگنے لگتا۔ بیوی کے بارے میں آخری خواب میں اس نے دیکھا کہ دوسری عورت، کو دیکھتے ہی اس کی بیوی نے واویلا مچا دیا ہے اور روتی چلاتی ہوئی گھر سے بھاگ نکلی ہے۔ گاندھروداس پیچھے دوڑا۔ لکڑی کی سیڑھی کے نیچے کچّی زمین میں دمینتی نے اپنے آپ کو دفن کر لیا۔ مگر مٹی ہل رہی تھی اور اس میں دراڑیں سی چلی آئی تھیں، جس کا مطلب تھا کہ ابھی اس میں سانس باقی ہے۔ حواس باختگی میں گاندھروداس نے اپنی عورت کو مٹی کے نیچے سے نکالا تو دیکھا، اس کے، بیوی کے دونوں بازو غائب تھے۔ ناف سے نیچے بدن نہیں تھا۔ اس پر بھی وہ اپنے ٹھنٹ، اپنے پتی کی گردن میں ڈالے اس سے چمٹ گئی اور گاندھرو اسی پُتلے سے پیار کرتا ہوا اسے سیڑھیوں سے اوپر لے آیا۔
گاندھروداس کا گانا بند ہو گیا۔
گاندھروداس کے تین بچے تھے۔ تھے کیا، ہیں۔ سب سے بڑا ایک نامی پلے بیک سنگر ہے، جس کے لانگ پلیئنگ ریکارڈ بازار میں آتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتے ہیں۔ ایرانی ریستورانوں میں رکھے ہوئے جیُوک باکسوں سے جتنی فرمائشیں اس کے گانوں کی ہوتی ہیں، اور کسی کی نہیں۔ اس کے برعکس گاندھروداس کے کلاسیکی میوزک کو کوئی گھاس بھی نہ ڈالتا تھا۔ دوسرا لڑکا اوف سیٹ پرنٹر ہے اور جست کی پلیٹیں بھی بناتا ہے۔ پریس سے وہ ڈیڑھ ہزار روپیہ مہینہ پاتا ہے اور اپنی اطالوی بیوی کے ساتھ رنگ رلیاں مناتا ہے۔ کوئی جِیے یا مرے، اسے اس بات کا خیال ہی نہیں۔ جس زمانے میں گاندھروداس کا موسیقی کے ساز بیچنے کا کام ٹھپ ہوا، تو بیٹا بھی ساتھ تھا۔ گاندھرو نے کہا، ’’چلو، ایچ۔ ایم۔ وی کے ریکارڈوں کی ایجنسی لیتے ہیں۔‘‘ چھوٹے نے جواب دیا۔۔۔ ’’ہاں، مگر آپ کے ساتھ میرا کیا مستقبل ہے؟‘‘ گاندھرو داس کو دھچکا سا لگا۔ وہ بیٹے کا مستقبل کیا بتا سکتا تھا؟ کوئی کسی کا مستقبل کیا بتا سکتا ہے؟ گاندھرو کا مطلب تھا کہ میں کھاتا ہوں تو تم بھی کھاؤ۔ میں بھوکا مرتا ہوں تو تم بھی مرو۔ تم جوان ہو، تم میں حالات سے لڑنے کی طاقت زیادہ ہے۔ اس کے جواب کے بعد گاندھروداس ہمیشہ کے لیے چپ ہو گیا۔ رہی بیٹی تو وہ ایک اچھے مارواڑی گھر میں بیاہی گئی۔ جب وہ تینوں بہن بھائی ملتے تو اپنے باپ کو رنڈوا نہیں، مرد بِدھوا کہتے اور اپنی اس اختراع پہ خود ہی ہنسنے لگتے۔
ایسا کیوں؟
چاترک، ایک شاعر اور اکاؤنٹنٹ، جو اس اشتہار کے سلسلے میں گاندھروداس کے ہاں گیا تھا، کہہ رہا تھا۔۔۔ ’’اس بڈھے میں ضرور کوئی خرابی ہے۔ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تین اولاد میں سے ایک بھی اس کی دیکھ ریکھ نہ کرے۔ کیا وہ ایک دوسرے کے اتنے نزدیک تھے کہ دور ہو گئے؟‘‘
ہندسوں میں الجھے رہنے کی وجہ سے کہیں چاترک کے الہام اور الفاظ کے درمیان فساد پیدا ہو گیا تھا۔ وہ نہ جانتا تھا کہ ہندستان تو کیا، دنیا بھر میں کنبے کا تصوّر ٹوٹتا جا رہا ہے۔ بڑوں کا ادب ایک فیوڈل بات ہو کر رہ گئی ہے۔ اس لیے سب بڈھے کسی ہائیڈ پارک میں بیٹھے، امتداد زمانہ کی سردی سے ٹھٹھرے ہوئے، ہر آنے جانے والے کو شکار کرتے ہیں، کہ شاید ان سے کوئی بات کرے۔ وہ یہودی ہیں، جنھیں کوئی ہٹلر ایک ایک کر کے گیس چیمبر میں دھکیلتا جا رہا ہے، مگر دھکیلنے سے پہلے زنبور کے ساتھ اس کے دانت نکال لیتا ہے، جن پر سونا مڑھا ہے۔ اگر کوئی بچ گیا ہے تو کوئی بھانجا بھتیجا اتفاقیہ طور پر اس بڈھے کو دیکھنے کے لیے اس کے مخروطی ایٹک میں پہنچ جاتا ہے، تو دیکھتا ہے کہ وہ تو مرا پڑا ہے اور اس کی فلزاتی آنکھیں اب بھی دروازے پر لگی ہیں۔ نیچے کی منزل والے بہ دستور اپنا اخبار بیچنے کا کاروبار کر رہے ہیں، کیوں کہ دنیا میں روز کوئی نہ کوئی واقعہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ ڈاکٹر آ کر تصدیق کرتا ہے کہ بڈھے کو مرے ہوئے پندرہ دن ہو گئے۔ صرف سردی کی وجہ سے لاش گلی سڑی نہیں۔ پھر وہ بھانجا یا بھتیجا کمیٹی کو خبر کر کے منظر سے ٹل جاتا ہے، مبادا آخری رسوم کے اخراجات اسے دینے پڑیں۔
چاترک نے کہا، ’’ہو سکتا ہے، بڈھے نے کوئی اندوختہ رکھنے کے بجائے اپنا سب کچھ بچّوں ہی پر لٹا دیا ہو۔‘‘ اندوختہ ہی ایک بولی ہے، جسے دنیا کے لوگ سمجھتے ہیں اور ان سے زیادہ اپنے سگے سمبندھی، اپنے ہی بچّے بالے۔ کوئی سنگیت میں تارے توڑ لائے، نقاشی میں کمال دکھا جائے، اس سے انھیں کوئی مطلب نہیں۔ پھر اولاد ہمیشہ یہی چاہتی ہے کہ اس کا باپ وہی کرے جس سے وہ، اولاد خوش ہو۔ باپ کی خوشی کس بات میں ہے، اس کی کوئی بات ہی نہیں اور ہمیشہ ناخوش رہنے کے لیے اپنے، کوئی سا بھی بے گانہ بہانہ تراش لیتے ہیں۔
مگر گاندھروداس تو بڑا ہنس مکھ آدمی ہے۔ ہر وقت لطیفے سناتا، خود ہنستا اور دوسروں کو ہنساتا رہتا ہے۔ اس کے لطیفے اکثر فحش ہوتے ہیں۔ شاید وہ کوئی نقاب، مکھوٹے ہیں، جن کے پیچھے وہ اپنی جنسی ناکامیوں اور نا آسودگیوں کو چھپاتا رہتا ہے۔ یا پھر، سیدھی سی بات۔ بڑھاپے میں انسان ویسے ہی ٹھرکی ہو جاتا ہے اور اپنی حقیقی یا مفروضہ فتوحات کی بازگشت۔۔۔
اشتہار کے سلسلے میں آنے والے کچھ لوگ اس لیے بھی بدک گئے کہ گاندھروداس پر پچپن ہزار کا قرض بھی تھا، جو بات اس نے اشتہار میں نہیں لکھی تھی اور غالباً اس کی عیاری کا ثبوت تھی۔ اس پر طرفہ ایک جوان لڑکی سے آشنائی بھی تھی جو عمر میں اس کی اپنی بیٹی رُما سے چھوٹی تھی۔ وہ لڑکی، دیویانی، گانا سیکھنا چاہتی تھی جو گورو جی نے دن رات ایک کر کے اسے سکھا دیا اور سنگیت کی دنیا کے شِکھر پر پہنچا دیا۔ لیکن ان کی عمروں کے بُعد کے باوجود ان کے تعلقات میں جو ہیجانی کیفیت تھی، اسے دوسرے تو ایک طرف، خود وہ بھی نہ سمجھ سکتے تھے۔ اب بھلا ایسے چاروں عیب شرعی باپ کو کون خریدے؟
اور پھر۔۔۔ جو ہر وقت کھانستا رہے، کسی وقت بھی دَم الٹ جائے اس کا۔
باہر جائے تو نوٹانک مار کے آئے۔ بلکہ لوٹتے وقت پوّا بھی دھوتی میں چھپا کر لے آئے۔
آخر۔۔۔ دمے کے مریض کی عمر بہت لمبی ہوتی ہے۔
گاندھروداس سنگیت سکھاتے ہوئے یہ بھی کہہ اٹھتا۔ میں پھر گاؤں گا۔ وہ تکرار کے ساتھ یہ بات شاید اس لیے بھی کہتا کہ اسے خود بھی اس میں یقین نہ تھا۔ وہ سُر لگاتا بھی تو اسے اپنے سامنے اپنی مرحوم بیوی کی روح دکھائی دیتی۔ جیسے کہہ رہی ہو۔ ابھی تک گار ہے ہو؟
اس انوکھے مطالبے اور امتزاج کی وجہ سے لوگ گاندھروداس کی طرف یوں دیکھتے تھے جیسے وہ کوئی بہت چمکتی، دمکتی ہوئی شے ہو اور جس کا نقش وہاں سے ٹل جانے کے بعد بھی کافی عرصے تک آنکھ کے اندر پردے پر برقرار رہے، اور اس وقت تک پیچھا نہ چھوڑے جب تک کوئی دوسرا عنصری نظارہ پہلے کو دھندلا نہ دے۔
کسی خورشید عالم نے کہا، ’’میں خرید نے کو تیار ہوں بہ شرطیکہ آپ مسلمان ہو جائیں۔‘‘
’’مسلمان تو میں ہوں ہی۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’میرا ایمان خدا پہ مسلم ہے۔ پھر میں نے جو پایا ہے، استاد علاء الدین کے گھرانے سے پایا ہے۔‘‘
’’آں ہاں۔۔۔ وہ مسلمان۔۔۔ کلمے والا۔‘‘
’’کلمہ تو سانس ہے، انسان کی، جو اس کے اندر باہر جاری اور ساری ہے۔ میرا دین سنگیت ہے۔ کیا استاد عبد الکریم خاں کا بابا ہری داس ہونا ضروری تھا؟‘‘
پھر میاں خورشید عالم کا پتا نہیں چلا۔
دو تین عورتیں بھی آئیں۔ لیکن گاندھروداس، جس نے زندگی کو ٹانک بنا کے پی لیا تھا، بولا۔۔۔ ’’جو تم کہتی ہو، عین اس سے الٹ چاہتی ہو۔ کوئی نیا تجربہ جس سے بدن سو جائے اور روح جاگ اٹھے، اسے کرنے کی تم میں ہمت ہی نہیں۔ دین، دھرم، معاشرہ نہ جانے کن کن چیزوں کی آڑ لیتی ہو، لیکن بدن روح کو شکنجے میں کس کے یوں سامنے پھینک دیتا ہے۔ تم پلنگ کے نیچے کے مرد سے ڈرتی ہو اور اسے ہی چاہتی ہو۔ تم ایسی کنواریاں ہو جو اپنے دماغ میں عفت ہی کی رٹ سے اپنی عصمت لٹواتی ہو اور وہ بھی بے مہار۔‘‘ اور پھر گاندھروداس نے ایک شیطانی مسکراہٹ سے کہا۔۔۔ ’’دراصل تمھارے ہجّے ہی غلط ہیں۔‘‘
ان عورتوں کو یقین ہو گیا کہ وہ ازلی مائیں دراصل باپ نہیں، کسی خدا کے بیٹے کی تلاش میں ہیں۔ ورنہ تین تین چار چار تو ان کے اپنے بیٹے ہیں، مجاز کی اس دنیا میں۔
میں اس دن کی بات کرتا ہوں، جس دن بان گنگا کے مندر سے بھگوان کی مورتی چوری ہوئی۔ اس دن پت جھڑ بہار پر تھی۔ مندر کا پورا احاطہ سوکھے سڑے، بوڑھے پتّوں سے بھر گیا۔ کہیں شام کو بارش کا ایک چھینٹا پڑا اور چوری سے پہلے مندر کی جیوتیوں پہ پروانوں نے اتنی ہی فراوانی سے قربانی دی، جس فراوانی سے قدرت انھیں پیدا کرتی اور پھر ان کی کھاد بناتی ہے۔ یہ وہی دن تھا، جس دن پجاری نے پہلے بھگوان کرشن کی رادھا (جو عمر میں اپنے عاشق سے بڑی تھی) کی طرف دیکھا اور پھر مسکراکر مہترانی چھبّو کی طرف (جو عمر میں پجاری کی بیٹی سے چھوٹی تھی)اور وہ پتّے اور پھول اور بیج گھر لے گئی۔
مورتی تو خیر کسی نے سونے چاندی، ہیرے اور پنّوں کی وجہ سے چرائی، لیکن گاندھروداس کو لارسن اینڈ لارسن کے مالک دُروے نے ’بے وجہ‘ خرید لیا۔ گاندھروداس اور دُروے میں کوئی بات نہیں ہوئی۔ بوڑھے نے صرف آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے کہہ دیا۔۔۔ ’’جیسے تیسے بھی ہو، مجھے لے لو بیٹے۔ بنا بیٹے کے کوئی باپ نہیں ہو سکتا۔‘‘ اس کے بعد دُروے کو آنکھیں ملانے، سوال کرنے کی ہمت ہی نہ پڑی۔ سوال شرطوں کا تھا، مگر شرطوں کے ساتھ کبھی زندگی جی جائے ہے؟ دُروے نے گاندھروداس کا قرض چکایا، سہارا دے کر اسے اٹھایا اور مالابار ہِل کے دامن میں اپنے عالی شان بنگلے گِری کُنج میں لے گیا، جہاں وہ اس کی تیمار داری اور خدمت کرنے لگا۔
دروے سے اس کے ملازموں نے پوچھا، ’’سر، آپ یہ کیا مصیبت لے آئے ہیں، یہ بڈھا، مطلب، بابو جی آپ کو کیا دیتے ہیں؟‘‘ ’’کچھ نہیں۔ بیٹھے رہتے ہیں آلتی پالتی مارے۔ کھانستے رہتے ہیں اور یا پھر زردے قوام والے پان چبائے جاتے ہیں۔ جہاں جی چاہے، تھوک دیتے ہیں، جس کی عادت مجھے اور میری صفائی پسند بیوی کو ابھی نہیں پڑی، مگر پڑ جائے گی دھیرے دھیرے۔ مگر تم نے ان کی آنکھیں دیکھی ہیں؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’جاؤ، دیکھو، ان کی روتی ہنستی آنکھوں میں کیا ہے۔ ان میں سے کیسے کیسے سندیس نکل کر کہاں کہاں پہنچ رہے ہیں؟‘‘
’’کہاں کہاں پہنچ رہے ہیں۔۔۔؟‘‘ جمناداس، دُروے کے ملازم نے غیر ارادی طور پر فضا میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ ’’آپ تو سائنس داں ہیں۔‘‘
’’میں سائنس ہی کی بات کر رہا ہوں، جمنا! اگر انسان کے زندہ رہنے کے لیے پھل پھُول اور پیڑ پودے ضروری ہیں، جنگل کے جانور ضروری ہیں، بچّے ضروری ہیں تو بوڑھے بھی ضروری ہیں۔ ورنہ ہمارا ایکولاجیکل بیلنس تباہ ہو کر رہ جاے۔ اگر جسمانی طور پر نہیں تو روحانی طور پر بے وزن ہو کر انسانی نسل ہمیشہ کے لیے معدوم ہو جائے۔‘‘
جمنا داس اور ا تھاولے بھاؤ کچھ سمجھ نہ سکے۔
دُروے نے بنگلے میں لگے اشوک پیڑ کا ایک پتّا توڑا اور جمنا داس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا، ’’اپنی پوری سائنس سے کہو کہ یہ تازگی، یہ شگفتگی، یہ شادابی اور یہ رنگ پیدا کر کے دکھائے۔‘‘
ا تھاولے بولا۔۔۔ ’’وہ تو اشوک کا بیج بوئیں۔‘‘
’’آں ہاں۔۔۔‘‘ دُروے نے سر ہلاتے ہوئے کہا، ’’میں بیج کی نہیں، پتّے کی بات کر رہا ہوں۔ بیج کی بات کریں گے تو ہم خدا جانے کہاں سے کہاں پہنچ جائیں گے۔‘‘
پھر جمناداس کے قریب ہوتے ہوئے دُروے بولے، ’’میں تمھیں کیا بتاؤں، جمنا! جب میں بابوجی کے چرن چھو کر جاتا ہوں تو ان کی نگاہوں کا مَرم مجھے کتنی شانتی، کتنی ٹھنڈک دیتا ہے۔ میں جو ہر وقت ایک بے نام ڈر سے کانپتا رہتا تھا، اب نہیں کانپتا۔ مجھے ہر وقت اس بات کی تسلّی رہتی ہے۔۔۔ وہ تو ہیں۔ مجھے یقین ہے، بابوجی کی آتما کو بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہو گا۔‘‘
’’میں نہیں مانتا، سر، ۔۔۔ یہ خالی خولی جذباتیت ہے۔‘‘
ہو سکتا تھا، دُروے بھڑک اٹھتا۔۔۔ ہو سکتا تھا وہ جمنا داس، اپنے ملازم کو اپنی فرم سے ڈسمس کر دیتا۔ لیکن باپ کی آنکھوں کے مَرم نے اسے یہ نہ کرنے دیا۔ الٹا اس کی آواز میں کہیں سے کوئی کومل سُر چلا آیا اور اس نے بڑے پیار سے کہا، ’’تم کچھ بھی کہہ لو، جمنا۔۔۔ پرایک بات تو تم جانتے ہو۔ میں جہاں جاتا ہوں، لوگ مجھے سلامیں کرتے ہیں۔ میرے سامنے سر جھُکاتے، بچھ بچھ جاتے ہیں۔‘‘
دُروے اس کے بعد ایکا ایکی چپ ہو گیا۔ اس کا گلا اور اس کی آنکھیں دھُندلا گئیں۔
’’سر، میں بھی تو یہی کہتا ہوں۔ دنیا آپ کے سامنے سر جھکاتی ہے۔‘‘
اسی لیے۔ دُروے نے اپنی آواز پاتے ہوئے کہا، ’’کہیں میں بھی اپنا سر جھکانا چاہتا ہوں۔ ا تھاولے، جمنا داس، اب تم جاؤ، پلیز! میری پوجا میں وِگھن نہ ڈالو۔ ہم نے پتھر سے بھی خدا پایا ہے۔‘‘
گِری کنج میں لگے ہوئے آم کے پیڑوں پر بور آیا۔ ادھر پہلی کوئل کو کی، ادھر گاندھروداس نے برسوں کے بعد تان اڑائی۔ کوئیلیا بولے امبوا کی ڈار۔
وہ گانے لگے۔ کسی نے کہا۔۔۔ ’’آپ کا بیٹا آپ سے اچھا گاتا ہے۔‘‘
’’ائیسا؟‘‘ گاندھروداس نے بمبیّا بولی میں کہا، ’’آخر میرا بیٹا ہے۔ باپ نے میٹرک کیا ہے تو بیٹا ایم .اے نہ کرے؟‘‘
ایسی باتیں کرتے ہوئے ناسمجھ، بے باپ کے لوگ گاندھروداس کے چہرے کی طرف دیکھتے کہ ان کی جھرّیوں میں کہیں تو جلن دکھائی دے۔ جب کوئی ایسی چیز نظر نہ آئی تو کسی نے لقمہ دیا، ’’آپ کا بیٹا کہتا ہے، میرا باپ مجھ سے جلتا ہے۔‘‘
’’سچ؟۔۔۔ میرا بیٹا کہتا ہے۔‘‘
’’ہاں، میں جھوٹ تھوڑے بول رہا ہوں۔‘‘
گاندھروداس تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے۔ جیسے وہ کہیں اندر عالمِ ارواح میں چلے گئے ہوں اور ماں سے بیٹے کی شکایت کی ہو۔ بُڑھیا سے کوئی جواب پاکر وہ دھیرے سے بولے، ’’اور تو کوئی بات نہیں، میرا بیٹا۔ وہ بھی باپ ہے۔‘‘ وہ پھر ان دنوں کی طرف لوٹ گئے جب بیٹے نے کہا تھا، ’’بابوجی، میں بھی شاستریہ سنگیت میں آپ جیسا کمال پیدا کرنا چاہتا ہوں، مگر ڈھیر سارا روپیہ کما کر۔‘‘ اور بابوجی نے بڑی شفقت سے بیٹے کے کندھے کو تھپ تھپاتے ہوئے کہا تھا، ’’ایسے نہیں ہوتا، راجو۔ یا آدمی کمال حاصل کرتا ہے یا پیسے ہی بناتا چلا جاتا ہے۔‘‘ جب دو بڑے بڑے آنسو لڑھک کرگاندھروداس کی داڑھی میں اٹک گئے، جہاں دُروے بیٹھا تھا، ادھر سے روشنی میں وہ پرزم ہو گئے، سفید روشنی، جن میں سے نکل کر سات رنگوں میں بکھر گئی۔
دُروے کو نہ جانے کیا ہوا۔ وہ اٹھ کر زور سے چلاّیا۔۔۔ گیٹ آؤٹ۔ اور لوگ چوہوں کی طرح ایک دوسرے پر گرتے پڑتے ہوئے بھاگے۔
گاندھروداس نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور صرف اتنا کہا، ’’نہیں۔ بیٹے، نہیں۔‘‘
ان کے ہاتھ سے کوئی برقی رویں نکل رہی تھیں۔
دُروے جب لارسن اینڈ لارسن میں گیا تو فلپ، اس کا ورکس منیجر کمپیوٹر کوڈیٹا فیڈ کر رہا تھا۔ کمپیوٹر سے کارڈ باہر آیا تو اس کا رنگ پیلا پڑ گیا۔ وہ بار بار آنکھیں جھپک رہا تھا اور کارڈ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ لارسن اینڈ لارسن کو اکتالیس 41 لاکھ کا گھاٹا پڑنے والا ہے۔ اس گھبراہٹ میں اس نے کارڈ دُروے کے سامنے کر دیا، جسے دیکھ کر اس کے چہرے پر شکن تک نہ آئی۔ دُروے نے صرف اتنا کہا، ’’کوئی انفارمیشن غلط فیڈ ہو گئی ہے۔‘‘
’’نہیں سر۔ میں نے بیسیوں بار چیک، کراس چیک کر کے اسے فیڈ کیا ہے۔‘‘
’’تو پھر۔ مشین ہے۔ کوئی نقص پیدا ہو گیا ہو گا۔ آئی۔ بی۔ ایم۔ والوں کو بلاؤ۔‘‘
’’مووک۔ چیف انجینیر تو ساؤتھ گیا ہے۔‘‘
’’ساؤتھ کہاں؟‘‘
’’تروپتی کے مندر۔ سنا ہے اس نے اپنے لمبے، ہِپّی بال کٹوا کر مورتی کی نذر کر دیے ہیں۔‘‘
دُروے ہلکا سا مسکرایا اور بولا، ’’تم نے یہ انفارمیشن فیڈ کی ہے کہ ہمارے بیچ ایک باپ چلا آیا ہے؟‘‘
فلپ نے سمجھا، دُروے اس کا مذاق اڑا رہے ہیں، یا ویسے ہی ان کا دماغ پھر گیا ہے۔ مگر دُروے کہتا رہا۔۔۔ ’’اب ہمارے سر پہ کسی کا ہاتھ ہے، تبریک ہے اور اس کے نتیجے کا حوصلہ اور ہمت۔ مت بھولو، یہ مشین کسی انسان نے بنائی ہے، جس کا کوئی باپ تھا، پھر اس کا باپ۔ اور آخر سب کا باپ۔ جہلِ مرکّب یا مفرد۔‘‘
فلپ نے اپنی اندرونی خفگی کا منھ موڑ دیا۔ ’’ کیا دیویانی اب بھی بابوجی کے پاس آتی ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’مسز دُروے کچھ نہیں کہتیں؟‘‘
’’پہلے کہتی تھیں۔ اب وہ ان کی پوجا کرتی ہیں۔ بابو جی دراصل عورت کی جات ہی سے پیار کرتے ہیں، فلپ! معلوم ہوتا ہے انھوں نے کہیں پرکرتی کے چِتون دیکھ لیے ہیں، جن کے جواب میں وہ مسکراتے تو ہیں، لیکن کبھی کبھی بیچ میں آنکھ بھی مار دیتے ہیں۔‘‘
فلپ کا غصّہ اور بڑھ گیا۔
دُروے کہتا گیا، ’’بابو جی کو شبد۔ بیٹی، بہو، بھابی، چاچی، للّی، میّا بہت اچھے لگتے ہیں۔ وہ بہو کی کمر میں ہاتھ ڈال کر پیار سے اس کے گال بھی چوم لیتے ہیں اور یوں قید میں آزادی پا لیتے ہیں اور آزادی میں قید۔‘‘
’’دیویانی؟‘‘
دُروے نے حقارت سے کہا، ’’تم سیکس کو اتنی ہی اہمیت دو فلپ، جتنی کی وہ مستحق ہے۔ تیتر بٹیر بنے بغیر اسے حواس پہ مت چھانے دو۔ سنگیت شاید ایک آڑ تھی دیویانی کے لیے۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں سر؟‘‘
بابوجی نے مجھے بتایا کہ وہ لڑکی بچپن ہی میں آوارہ ہو گئی۔ اس نے اپنے ماں باپ کو کچھ اس عالم میں دیکھ لیا، جب کہ وہ نو خیزی سے جوانی میں قدم رکھ رہی تھی۔ پر وہ ہمیشہ کے لیے آپ ہی اپنی ماں ہو گئی۔ باپ کے مرنے کے بعد وہ گھبرا کر ایک مرد سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے کے پاس جانے لگی۔ اس کا بدن ٹوٹ ٹوٹ جاتا تھا، مگر روح تھی کہ تھکتی ہی نہ تھی۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’دیویانی کو دراصل باپ ہی کی تلاش تھی۔‘‘
فلپ جو ایک کیتھولک تھا، ایک دم بھڑک اٹھا۔ اس کے ابرو بالشت بھر اوپر اٹھ گئے۔ اور پھیلی ہوئی آنکھوں سے نارِ جہنم لپکنے لگی۔ اس نے چلاّ کر کہا، ’’یہ فراڈ ہے، مسٹر دُروے پیور، اَن اڈلٹرٹیڈ فراڈ۔‘‘
جبھی دُروے نے اپنے خریدے ہوئے باپ کی نم آنکھوں کو ورثے میں لیے، کمپیوٹر کے پس منظر میں کھڑے فلپ کی طرف دیکھا اور کہا، ’’آج ہی بابوجی نے کہا تھا، فلپ!تم انسان کو سمجھنے کی کوشش نہ کرو، صرف محسوس کرو اسے۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.