آنکھیں
تشنہ جذبات کی کہانی ہے۔ بینائی سے محروم حنیفہ کو وہ اسپتال میں دیکھتا ہے تو اس کی پرکشش آنکھوں پر فدا ہو جاتا ہے۔ حنیفہ کے رویے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسپتال اس کے لیے بالکل نئی جگہ ہے اس لیے وہ اس کی مدد کے لیے آگے آتا ہے۔ اس کی پرکشش آنکھوں کی گہرائی میں غوطہ زن رہنے کے لیے جھوٹ بول کر کہ اس کا گھر بھی حنیفہ کے گھر کے راستے میں ہے، وہ اس کے ساتھ گھر تک جاتا ہے۔ پہنچنے کے بعد جب وہ تانگہ سے اترنے کے لیے بدرو کا سہارا لیتی ہے تب پتہ چلتا ہے کہ یہ بینائی سے محروم ہے اور پھر۔۔۔
سعادت حسن منٹو
اپنے دکھ مجھے دے دو
کہانی ایک ایسے جوڑے کی داستان کو بیان کرتی ہے جن کی نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ سہاگ رات میں شوہر کے دکھوں کو سن کر بیوی اس کے سبھی دکھ مانگ لیتی ہے مگر وہ اس سے کچھ نہیں مانگتا ہے۔ بیوی نے گھر کی ساری ذمہ داری اپنے اوپر لے لی ہے۔ عمر کے آخر پڑاؤ پر ایک روز شوہر کو جب اس بات کا احساس ہوتا ہے تو وہ اس سے پوچھتا ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ وہ کہتی ہے کہ میں نے تم سے تمھارے سارے دکھ مانگ لیے تھے مگر تم نے مجھ سے میری خوشی نہیں مانگی اس لیے میں تمھیں کچھ نہیں دے سکی۔
راجندر سنگھ بیدی
گورمکھ سنگھ کی وصیت
سردار گورمکھ سنگھ کو عبد الحی جج نے ایک جھوٹے مقدمے سے نجات دلائی تھی۔ اسی کی احسان مندی میں عید کے دن وہ سیوئیاں لے کر آتا تھا۔ ایک برس جب فسادات نے پورے شہر میں قیامت برپا کر رکھی تھی، جج عبد الحی فالج کی وجہ سے بستر مرگ پر تھے اور ان کی جوان بیٹیی اور چھوٹا بیٹا حیران پریشان تھے کہ اسی خوف و ہراس کے عالم میں سردار گورمکھ سنگھ کا بیٹا سیوئیاں لے کر آیا اور اس نے بتایا کہ اس کے پتا جی کا دیہانت ہو گیا ہے اور انہوں نے سیوئیاں پہنچانے کی وصیت کی تھی۔ گورمکھ سنگھ کا بیٹا جب واپس جانے لگا تو بلوائیوں نے راستے میں اس سے پوچھا کہ اپنا کام کر آئے، اس نے کہا کہ ہاں، اب جو تمہاری مرضی ہو وہ کرو۔
سعادت حسن منٹو
بابو گوپی ناتھ
طوائفوں اور ان کے ماحول کی عکاسی کرتی ہوئی اس کہانی میں منٹو نے ان کرداروں کے ظاہر و باطن کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے جن کی وجہ سے یہ ماحول پنپتا ہے۔ لیکن اس ظلمت میں بھی منٹو انسانیت اور ایثار کی ہلکی سی کرن ڈھونڈ لیتا ہے۔ بابو گوپی ناتھ ایک رئیس آدمی ہے جو زینت کو ’اپنے پیروں پر کھڑا کرنے‘ کے لیے مختلف جتن کرتا ہے اور آخر میں جب اس کی شادی ہو جاتی ہے تو وہ انتہائی خوش ہوتا ہے اور ایک سرپرست کا کردار ادا کرتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
اس کا پتی
یہ افسانہ استحصال، انسانی اقدار اور اخلاقیات کے زوال کی کہانی ہے۔ بھٹے کے مالک کا عیاش بیٹا ستیش گاؤں کی غریب لڑکی روپا کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر چھوڑ دیتا ہے۔ جب گاؤں والوں کو اس کے حاملہ ہونے کی بھنک لگتی ہے تو روپا کا ہونے والا سسر اس کی ماں کو لعن طعن کرتا ہے اور رشتہ ختم کر دیتا ہے۔ معاملے کو سلجھانے کے لیے نتھو کو بلایا جاتا ہے، جو سمجھدار اور معاملہ فہم سمجھا جاتا تھا۔ ساری باتیں سننے کے بعد وہ روپا کو ستیش کے پاس لے جاتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ روپا اور اپنے بچے کو سنبھال لے۔ لیکن ستیش سودا کرنے کی کوشش کرتا ہے جس پر روپا بھاگ جاتی ہے اور پاگل ہو جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
اُلو کا پٹھا
قاسم ایک دن صبح سو کر اٹھتا ہے تو اس کے اندر یہ شدید خواہش جاگتی ہے کہ وہ کسی کو الو کا پٹھا کہے۔ بہت سے طریقے اور مواقع سوچنے کے بعد بھی وہ کسی کو الو کا پٹھا نہیں کہہ پاتا اور پھر دفتر کے لئے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ راستے میں ایک لڑکی کی ساڑی سائکل کے پہیے میں پھنس جاتی ہے، جسے وہ نکالنے کی کوشش کرتا ہے لیکن لڑکی کو ناگوار گزرتا ہے اور وہ اسے ’’الو کا پٹھا‘‘ کہہ کر چلی چاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
قرض کی پیتے تھے۔۔۔
مرزا غالب کی مے خواری اور قرض کی عدم ادائیگی کی باعث معاملہ عدالت میں پہنچ جاتا ہے۔ وہاں مفتی صدر الدین آزردہ کرسی عدالت پر براجمان ہوتے ہیں۔ مرزا غالب کی غلطی ثابت ہو جانے کے بعد مفتی صدر الدین جرمانہ کی سزا بھی دیتے ہیں اور اپنی جیب خاص سے جرمانہ ادا بھی کر دیتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
باسط
مختلف وجہوں سے باسط اس لڑکی سے شادی پر رضامند نہیں تھا جس لڑکی سے اس کی ماں اس کی شادی کرانا چاہتی تھیں۔ بالآخر اس نے ہتھیار ڈال دیے۔ شادی کے بعد باسط کی بیوی سعیدہ ہر وقت خوفزدہ اور چپ چپ سی رہتی تھی جسے ابتدا میں باسط نے نیے ماحول اور سسرال کی جھجھک پر محمول کیا۔ لیکن ایک دن غسل خانہ میں جب سعیدہ کا حمل ضائع ہوا تب باسط کو صحیح صورت حال کا اندازہ ہوا۔ باسط نے سعیدہ کو معاف کر دیا لیکن باسط کی ماں نامکمل بچہ دیکھ کر برداشت نہ کر سکی اور دنیا سے چل بسی۔
سعادت حسن منٹو
کوارنٹین
اس کہانی میں ایک ایسی وبا کے بارے میں بتایا گیا ہے جسکی زد میں پورا علاقہ ہے اور لوگوں کی موت بدستور جاری ہے، ایسے میں علاقےکے ڈاکٹر اور انکے معاون کی خدمات قابل ستائش ہے۔ بیماروں کا علاج کرتے ہوئے انھیں احساس ہوتا ہے کہ لوگ بیماری سے کم کوارنٹین سے زیادہ مر رہے ہیں۔ بیماری سے بچنے کے لیے ڈاکٹر خود کو مریض سے الگ کر رہے ہیں جبکہ انکا معاون بھاگو بھنگی بغیر کسی خوف کے شب و روز بیماروں کی تیمارداری میں لگا ہوا ہے۔ علاقے سے جب وبا ختم ہو جاتی ہے تو عمائدین شہر کی جانب سے ڈاکٹر کے اعزاز میں جلسہ منعقد کیا جاتا ہے اور ڈاکٹر کےخدمات کی تعریف کی جاتی ہے لیکن بھاگو بھنگی کا ذکر تک نہیں ہوتا۔
راجندر سنگھ بیدی
پانچ دن
بنگال کے قحط کی ماری ہوئی سکینہ کی زبانی ایک بیمار پروفیسر کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ جس نے اپنے کریکٹر کو بلند کرنے کے نام پر اپنی فطری خواہشوں کو دبائے رکھا۔ سکینہ بھوک سے بیتاب ہو کر ایک دن جب اس کے گھر میں داخل ہو جاتی ہے تو پروفیسر کہتا ہے کہ تم اسی گھر میں رہ جاؤ کیونکہ میں دس برس تک اسکول میں لڑکیاں پڑھاتا رہا اس لیے انہیں بچیوں کی طرح تم بھی ایک بچی ہو۔ لیکن مرنے سے پانچ دن پہلے وہ اعتراف کرتا ہے کہ اس نے ہمیشہ سکینہ سمیت ان تمام لڑکیوں کو جنہیں اس نے پڑھایا ہے، ہمیشہ دزدیدہ نگاہوں سے دیکھا ہے۔
سعادت حسن منٹو
مائی نانکی
تقسیم ہند کے نتیجے میں پاکستان جانے والے مہاجروں کے مسائل کو بیان کیا گیا ہے۔ مائی نانکی ایک مشہور دایہ تھی جو پچیس لوگوں کا خرچ پورا کرتی تھی۔ ہزاروں کی مالیت کا زیور اور بھینس وغیرہ چھوڑ کر پاکستان آئی لیکن یہاں اس کا کوئی پرسان حال نہیں رہا۔ تنگ آکر وہ یہ بددعا کرنے لگی کہ اللہ ایک بار پھر سب کو مہاجر کر دے تاکہ ان کو معلوم تو ہو کہ مہاجر کس کو کہتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
ایک باپ بکاؤ ہے
کہانی اخبار میں شائع ایک اشتہار سے شروع ہوتی ہے جس میں ایک باپ کا حلیہ بتاتے ہوئے اس کے فروخت کرنے کی اطلاع ہوتی ہے۔ اشتہار شائع ہونے کے بعد کچھ لوگ اسے خریدنے پہنچتے ہیں مگر جیسے جیسے انھیں اس کی خامیوں کے بارے میں پتہ چلتا ہے وہ خریدنے سے انکار کرتے جاتے ہیں۔ پھر ایک دن اچانک ایک بڑا کاروباری اسے خرید لیتا ہے اور اسے اپنے گھر لے آتا ہے۔ جب اسے پتہ چلتا ہے کہ خریدا ہوا باپ ایک زمانے میں بہت بڑا گلوکار تھا اور ایک لڑکی کے ساتھ اس کی دوستی بھی تھی تو کہانی ایک دوسرا رخ اختیار کر لیتی ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
مسٹر حمیدہ
یہ کہانی ایک ایسی عورت کی ہے جس کے چہرے پر مردوں کی طرح داڑھی کے بال ہیں۔ راشد نے اسے پہلی بار بس سٹینڈ پر دیکھا تھا اور وہ اسے دیکھ کر اتنا حیران ہوا تھا کہ اس کے ہوش و حواس ہی گم ہو گئے تھے۔ دوسری بار اس نے اسے کالج میں دیکھا تھا۔ کالج میں لڑکے اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور داڑھی کی وجہ سے انہوں نے اس کا نام مسٹر حمیدہ رکھ دیا تھا۔ راشد کو لڑکوں کی یہ حرکتیں بہت ناپسند تھیں۔ اس نے حمیدہ سے دوستی کرنی چاہی، لیکن حمیدہ نے انکار کر دیا۔ ایک بار حمیدہ بیمار پڑی تو اس نے اپنی شیو کرانے کے لیے راشد کو بلا بھیجا اور اس طرح وہ دونوں دوست ہو کر ایک رشتہ میں بندھ گئے۔
سعادت حسن منٹو
ماہی گیر
اس میں ایک غریب مچھوارے میاں بیوی کے جذبۂ ہمدردی کو بیان کیا گیا ہے۔ مچھوارے کے پانچ بچے ہیں اور وہ رات بھر سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر بڑی مشکل سے گھر کا خرچ چلاتا ہے۔ ایک رات اس کی پڑوسن بیوہ کا انتقال ہو جاتا ہے۔ ماہی گیر کی بیوی اس کے دونوں بچوں کو اٹھا لاتی ہے۔ صبح ماہی گیر کو اس حادثہ کی اطلاع دیتی ہے اور بتاتی ہے کہ دو بچے اس کی لاش کے برابر لیٹے ہوئے ہیں تو ماہی گیر کہتا ہے پہلے پانچ بچے تھے اب سات ہو گئے۔ جاؤ انہیں لے آو۔ ماہی گیر کی بیوی چادر اٹھا کر دکھاتی ہے کہ وہ دونوں بچے یہاں ہیں۔
سعادت حسن منٹو
پیتل کا گھنٹہ
کسی زمانے میں قاضی امام حسین اودھ کے تعلقدار تھے۔ علاقے میں ان کا دبدبہ تھا۔ کہانی کے ہیرو کی شادی کے وقت قاضی صاحب نے اسے اپنے ہاں آنے کی دعوت دی تھی۔ ایک عرصہ بعد ایک سفر کے دوران ان کے گاؤں کے پاس اس کی بس خراب ہو گئی تو وہ قاضی صاحب کے یہاں چلا گیا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ قاضی صاحب کا تو حلیہ ہی بدل گیا ہے، کہاں وہ عیش و عشرت اور اب قاضی صاحب پیوند لگے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ لیکن اپنی آن بان کا بھرم رکھنے اور مہمان کی تواضع کے لیے اپنا مہر لگا پیتل کا گھنٹہ بیچ دینا پڑتا ہے۔
قاضی عبد الستار
روغنی پتلے
’’قوم پرستی جیسے مدعے پر بات کرتی کہانی، جو شاپنگ آرکیڈ میں رکھے رنگین بتوں کے گرد گھومتی ہے۔ جن کے آس پاس سارا دن طرح طرح کے فیشن پرست لوگ اور نوجوان لڑکے لڑکیاں گھومتے رہتے ہیں۔ مگر رات ہوتے ہی وہ بت آپس میں گفتگو کرتے ہوئے موجودہ حالات پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں۔ صبح میں آرکیڈ کا مالک آتا ہے اور وہ کاریگروں کو پورے شاپنگ سینٹر اور تمام بتوں کو پاکستانی رنگ میں رنگنے کا حکم سناتا ہے۔‘‘
ممتاز مفتی
جان محمد
انسان کی نفسیاتی پیچیدگیوں اور تہہ در تہہ پوشیدہ شخصیت کو بیان کرتی ہوئی کہانی ہے۔ جان محمد منٹو کے ایام علالت میں ایک مخلص تیماردار کے روپ میں سامنے آیا اور پھر بے تکلفی سے منٹو کے گھر آنے لگا۔ لیکن دراصل وہ منٹو کے پڑوس کی لڑکی شمیم کے چکر میں آتا تھا۔ ایک دن شمیم اور جان محمد گھر سے فرار ہو جاتے ہیں، تب اس کی حقیقت پتا چلتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
غلامی
یہ ایک ریٹائرڈ آدمی کی زندگی کی کہانی ہے۔ پولہو رام اسٹنٹ پوسٹ ماسٹر کے عہدے سے ریٹائر ہو کر گھر آتا ہے تو اول اول تو اس کی خوب آو بھگت ہوتی ہے، لیکن رفتہ رفتہ اس کے بھجن، گھر کے کاموں میں دخل اندازی کی وجہ سے لڑکے، بہو اور بیوی تک بیزار ہو جاتے ہیں۔ ایک دن جب وہ پنشن لینے جاتا ہے تو اسے نوٹس بورڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ڈاک خانہ کو ایکسٹرا ڈیپارٹمنٹل ڈاک خانے کی ضرورت ہے جس کی تنخواہ پچیس روپے ہے۔ پولہو رام یہ ملازمت کر لیتا ہے لیکن کام کے دوران جب اس پر دمہ کا دورہ پڑتا تو لوگ رحم کھاتے ہوئے کہتے, ڈاک خانہ کیوں نہیں اس غریب بوڑھے کوپنشن دے دیتا؟
راجندر سنگھ بیدی
آدھے چہرے
کہانی ایک ایسے نوجوان کے گرد گھومتی ہے جو مس آئیڈینٹٹی کا شکار ہے۔ ایک دن وہ ایک ڈاکٹر کے پاس آتا ہے اور اسے اپنی حالت بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ جب وہ محلے میں ہوتا ہے تو حمید ہوتا ہے۔ مگر جب وہ کالج میں جاتا ہے تو اختر ہو جاتا ہے۔ اپنی یہ کیفیت اسے کبھی پتہ نہ چلتی اگر بیتے دنوں ایک حادثہ نہ ہوتا۔ تبھی سے اس کی سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ وہ کون ہے؟ وہ ڈاکٹر سے سوال کرتا ہے کہ وہ اسے بتائے کہ وہ حقیقت میں کیا ہے؟
ممتاز مفتی
کیمیا گر
یہ ترکی سے ہندوستان میں آ بسے ایک حکیم کی کہانی ہے، جو اپنے پورے خلوص اور اچھے اخلاق کے باوجود بھی یہاں کہ مٹی میں گھل مل نہیں پاتا۔ گاؤں کی ہندو آبادی اس کا پورا احترام کرتی ہے، مگر وہ انہیں کبھی اپنا محسوس نہیں کر پاتا ہے۔ پھر گاؤں میں ہیضہ پھیل جاتا ہے اور وہ اپنے بیوی بچوں کو لیکر گاؤں چھوڑ دیتا ہے۔ رات میں اسے سپنے میں کیمیا گر دکھائی دیتا ہے، جس کے ساتھ کی گفتگو اس کے پورے نظریے کو بدل دیتی ہے اور وہ واپس گاؤں لوٹ کر لوگوں کے علاج میں لگ جاتا ہے۔
محمد مجیب
بکی
کلکتہ کے ایک سینما کی کھڑکی پر ٹکٹ فروخت کرتی ایک ایسی لڑکی کی کہانی جو زائد چونی لے کر نوجوانوں اور کنواروں کو لڑکیوں کی بغل والی سیٹ دیتی ہے۔ اس روز اس نے آخری ٹکٹ ایک کالے اور گنوار سے دکھتے لڑکے کو دیا تھا۔ شو کے بعد جب اس نے اس سے بات کی تو پتہ چلا کہ وہ کسی دیہات سے کلکتہ دیکھنے آیا ہے۔ بات چیت میں اسے احساس ہوتا ہے وہ واقعی کچھ بھی نہیں جانتا ہے۔ وہ اسے بتاتی ہے کہ کلکتہ ایک عورت کی طرح ہے اور وہ اسے سمجھانے کے لیے اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
ڈالن والا
یہ کہانی بچپن کی یادوں کے سہارے اپنے گھر اور گھر کے وسیلے سے ایک پورے علاقے اور اس علاقے کے ذریعے سماج کے مختلف اشخاص کی زندگی کی چلتی پھرتی تصویریں پیش کرتی ہے۔ سماج کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے، علاحدہ عقائد اور ایمان رکھنے والے لوگ ہیں جو اپنے مسائل اور مراتب سے بندھے ہوئے ہیں۔
قرۃالعین حیدر
خاندانی کرسی
ایک ایسے شخص کی کہانی جو انیس برس بعد اپنے گھر لوٹتا ہے۔ اتنے عرصے میں اس کا گاؤں ایک قصبہ میں بدل گیا ہے اور جو لوگ اس کے کھیتوں میں کام کرتے تھے اب انکی بھی زندگی بدل گئی ہے اور وہ خوشحال ہیں۔ حویلی میں گھومتا ہوا وہ اپنے پرانے کمرے میں گیا تو وہاں اسے ایک کرسی ملی جو کسی زمانے میں خاندان کی شان ہوا کرتی تھی،اب کباڑ کے ڈھیر میں پڑی تھی۔ کرسی کی یہ حالت اور خاندان کی پرانی یادیں اسے اس حال میں لے آتی ہیں کہ وہ کرسی سے لپٹا ہوا اپنی آخری سانسیں لیتا ہے۔
مرزا ادیب
ہم دوش
دنیا کی رنگینی اور بے رونقی کے تذکرہ کے ساتھ انسان کی خواہشات کو بیان کیا گیا ہے۔ شفاخانے کے مریض شفا خانے کے باہر کی دنیا کے لوگوں کو دیکھتے ہیں تو ان کے دل میں شدید قسم کی خواہش انگڑائی لیتی ہے کہ وہ کبھی ان کے ہمدوش ہو سکیں گے یا نہیں۔ کہانی کاراوئی ایک ٹانگ کٹ جانے کے باوجود شفایاب ہو کر شفا خانے سے باہر آ جاتا ہے اور دیگر لوگوں کے ہمدوش ہو جاتا ہے لیکن اس کا ایک ساتھی مغلی، جسے ہمدوش ہونے کی شدید تمنا تھی اور جو دھیرے دھیرے ٹھیک بھی ہو رہا تھا، موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
سب سے چھوٹا غم
یہ ایک ایسی دکھیاری عورت کی کہانی ہے جو اپنے حالات سے پریشان ہو کر حضرت شیخ سلیم چشتی کی درگاہ پر جاتی ہے۔ وہ یہاں اس دھاگے کو ڈھونڈھتی ہے جو اس نے برسوں پہلے اس شخص کے ساتھ باندھا تھا جس سے وہ محبت کرتی تھی اور جو اب اس کا تھا۔ درگاہ پر اور بھی بہت سے پریشان حال مرد عورتیں حاضری دے رہے تھے۔ وہ عورت ان حاضرین کی پریشانیوں کو دیکھ کر دل ہی دل میں سوچتی ہے کہ ان کے دکھوں کے آگے اس کا غم کتنا چھوٹا ہے۔
عابد سہیل
من کی من میں
عورت کے جذبہ حسد و رقابت پر مبنی کہانی ہے۔ مادھو انتہائی شریف انسان تھا جو دوسروں کی مدد کے لئے ہمیشہ تیار ریتا تھا۔ وہ ایک بیوہ امبو کو بہن مان کر اس کی مدد کرتا تھا، جسے اس کی بیوی کلکارنی ناپسند کرتی تھی اور اسے سوت سمجھتی تھی۔ عین مکر سنکرات کے دن مادھو کلکارنی سے بیس روپے لے کر جاتا ہے کہ اس سے پازیب بنوا لائے گا لیکن ان روپوں سے وہ امبو کا قرض لالہ کو ادا کر دیتا ہے۔ اس جرم کی پاداش میں کلکارنی رات میں مادھو پر گھر کے دروازے بند کر لیتی ہے اور مادھو نمونیہ سے مر جاتا ہے۔ مرتے وقت وہ کلکارنی کو وصیت کرتا ہے کہ وہ امبو کا خیال رکھے لیکن اگلے برس سنکرات کے دن جب امبو اس کے یہاں آتی ہے تو وہ سوت اور منحوس سمجھ کر اسے گھر سے بھگا دیتی ہے اور پھر امبو غائب ہی ہو جاتی ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
ظالم محبت
یہ ایک عورت اور دو مردوں کی کہانی ہے۔ پہلا مرد عورت سے بے پناہ محبت کرتا ہے اور دوسرے مرد کو یہ خبر تک نہیں کہ وہ عورت اسے چاہتی ہے۔ ایک دن وہ دوسرے مرد کے پاس جاتی ہے اور اسکے سامنے اپنے دل کی بات کو ایک افسانے کے پلاٹ کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس الجھن کا حل اس مرد سے پوچھتی ہے۔
حجاب امتیاز علی
شعلے
یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے، جو ایک گھر میں گورنیس کی نوکری کرتے ہوئے اپنے باس سے محبت کرنے لگتی ہے۔ جبکہ اس کی منگنی ہو چکی ہے۔ اس کا باس بھی جانتا ہے۔ مگر وہ اپنے جذبات کو چھپا نہیں پاتی۔ باس جانتا ہے کہ وہ اس سے محبت کرتی ہے، لیکن وہ انکار کر دیتا ہے۔ مگر جس روز اس کی ڈولی اٹھتی ہے تب وہ سجدے میں گر کر سسک سسک کر کہتا ہے کہ مجھے تم سے محبت ہے۔
واجدہ تبسم
محبت کا دم واپسیں
’’یہ مریم نام کی ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے، جس نے اپنی زندگی میں صرف اپنے شوہر سے ہی محبت کی ہے۔ جب اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کے شوہر کے تعلقات کسی اور عورت سے بھی ہیں تو وہ غصے سے آگ بگولا ہو جاتی ہے۔ وہ شوہر سے اس عورت کے بارے میں پوچھتی ہے تو اس کے جواب میں وہ مریم کو خود اس عورت سے ملانے کے لیے لے جاتا ہے۔‘‘
مجنوں گورکھپوری
بھکارن
’’ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے، جو بچپن میں بھیک مانگ کر گزارہ کیا کرتی تھی۔ بھیک مانگتے ہوئے ایک بار اسے ایک لڑکا ملا اور وہ لڑکا اسے اپنے گھر لے گیا۔ وہاں اس لڑکے کے باپ نے کہا کہ اگر یہ لڑکی کسی شریف خاندان کی ہوتی تو بھیک مانگ کر گزارہ کیوں کرتی۔ ان کی یہ بات اس لڑکی کے دل کو اتنی لگی کہ وہ پڑھ لکھ کر شہر کی مشہور لیڈی ڈاکٹر بن گئی۔‘‘
اعظم کریوی
دلہن کی ڈائری
’’ایک ایسی نئی نویلی دلہن کی کہانی ہے، جو سسرال جانے کے بعد شروع شروع میں تو ہر کسی کی بہت تعریف کرتی ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے اسے ہر کسی میں کمیاں دکھائی دینے لگتی ہیں۔ حد تو تب ہو جاتی ہے جب وہ اپنے شوہر اور جیٹھانی پر شک کرنے لگتی ہے۔ لیکن جب اسے حقیقت کا پتہ چلتا ہے تو اپنا سر پیٹ لیتی ہے۔‘‘