دیوالی کے دیے
اس کہانی میں انسان کی امیدیں اور آرزویں پوری نہ ہونے کا بیان ہے۔ چھت کی منڈیر پر دیے جل رہے ہیں۔ ایک چھوٹی بچی، ایک جوان، ایک کمہار، ایک مزدور اور ایک فوجی یکے بعد دیگرے آتے ہیں۔ سب اپنی اپنی فکروں میں غلطاں ہیں، دیے سب کو چپ چاپ دیکھتے ہیں اور پھر ایک ایک کرکے بجھ جاتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
ایک باپ بکاؤ ہے
کہانی اخبار میں شائع ایک اشتہار سے شروع ہوتی ہے جس میں ایک باپ کا حلیہ بتاتے ہوئے اس کے فروخت کرنے کی اطلاع ہوتی ہے۔ اشتہار شائع ہونے کے بعد کچھ لوگ اسے خریدنے پہنچتے ہیں مگر جیسے جیسے انھیں اس کی خامیوں کے بارے میں پتہ چلتا ہے وہ خریدنے سے انکار کرتے جاتے ہیں۔ پھر ایک دن اچانک ایک بڑا کاروباری اسے خرید لیتا ہے اور اسے اپنے گھر لے آتا ہے۔ جب اسے پتہ چلتا ہے کہ خریدا ہوا باپ ایک زمانے میں بہت بڑا گلوکار تھا اور ایک لڑکی کے ساتھ اس کی دوستی بھی تھی تو کہانی ایک دوسرا رخ اختیار کر لیتی ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
پیتل کا گھنٹہ
کسی زمانے میں قاضی امام حسین اودھ کے تعلقدار تھے۔ علاقے میں ان کا دبدبہ تھا۔ کہانی کے ہیرو کی شادی کے وقت قاضی صاحب نے اسے اپنے ہاں آنے کی دعوت دی تھی۔ ایک عرصہ بعد ایک سفر کے دوران ان کے گاؤں کے پاس اس کی بس خراب ہو گئی تو وہ قاضی صاحب کے یہاں چلا گیا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ قاضی صاحب کا تو حلیہ ہی بدل گیا ہے، کہاں وہ عیش و عشرت اور اب قاضی صاحب پیوند لگے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ لیکن اپنی آن بان کا بھرم رکھنے اور مہمان کی تواضع کے لیے اپنا مہر لگا پیتل کا گھنٹہ بیچ دینا پڑتا ہے۔
قاضی عبد الستار
کشمکش
اخلاقی قدروں کے زوال کا نوحہ ہے۔ بڈھا موہنا دو ہفتوں سے بیمار ہے، اکثر ایسا لگتا ہے کہ وہ مر جائے گا لیکن پھر جی اٹھتا ہے۔ اس کے تینوں بیٹے چاہتے ہیں کہ وہ جلد از جلد مر جائے۔ دو ہفتے بعد جب وہ مر جاتا ہے تو اس کا جلوس نکالا جاتا ہے اور اس کے جلوس سے میٹھے چنے اٹھا کر ایک عورت اپنے بیٹے کو دیتی ہے اور کہتی ہے کہ کھا لے تیری بھی عمر اتنی لمبی ہو جائے گی۔ عورت کو دیکھ کر ٹرام کا ڈرایئور، چیکر اور ایک بابو بھی دوڑ کر بوان سے چھوہارے وغیر لے کر کھاتے ہیں۔
راجندر سنگھ بیدی
اولڈ ایج ہوم
آرام و سکون کا طالب ایک ایسے بوڑھے شخص کی کہانی جو سوچتا تھا کہ سبکدوشی کے بعد اطمینان سے گھر میں رہیگا، مزے سے اپنی پسند کی کتابیں پڑھےگا لیکن ساتھ رہ رہے دیگر افراد خانہ کے علاوہ اپنے پوتے پوتیوں کے شور غل سے اسے اوب ہونے لگی اور وہ گھر چھوڑ کر اولڈ ایج ہوم رہنے چلا جاتا ہے۔ وہاں اپنے سے پہلے رہ رہے ایک شخص کا ایک خط اسے ملتا ہے جس میں وہ اپنے بچوں کو یاد کر کے روتا ہے۔ اس خط کو پڑھ کر اسے اپنے بچوں کی یاد آتی ہے اور وہ واپس گھر لوٹ جاتا ہے۔
مرزا ادیب
فاصلے
ایک ایسے بوڑھے شخص کی کہانی جو ریٹائرمنٹ کے بعد گھر میں تنہا رہتے ہوئے بور ہو گیا ہے اور سکون کی تلاش میں ہے۔ ایک دن وہ گھر سے باہر نکلا تو گلی میں کھیلتے بچوں کو دیکھ کر اور سامان بیچتے دوکاندار سے بات کرنا اسے اچھا لگا۔ اس طرح وہ وہاں روز آنے لگا اور اپنا وقت گزارنے لگا۔ ایک دن انگلینڈ سے واپس آیا بیٹا اسے اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ کافی وقت کے بعد جب وہ واپس آتا ہے اور پھر سے اپنی گلی میں نکلتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کے لیے لوگوں کے مزاج میں تبدیلی آگئی ہے، شاید وہ ان کے لیے ایک اجنبی بن چکا تھا۔