کہانی کی کہانی
یہ افسانہ نبی یوسف اور زلیخا کے محبت کی داستان کی بازیافت ہے۔ حالانکہ اس افسانے میں اس داستان کو ایک مرد کی بجائے ایک عورت کے نظریے سے دکھایا گیا ہے۔ زلیخا کا یوسف سے ملنا اور پھر یوسف کے قید کیے جانے تک کے سارے واقعے کو زلیخا اپنے نظریے سے بیان کرتی ہوئی ثابت کرتی ہے کہ ان دونوں کے درمیان جو کچھ بھی ہوا وہ زلیخا نے خود غرضی سے نہیں بلکہ خدا کے حکم سے کیا۔
’’یوسف اور زلیخا کی کہانی مذہبی کتابوں میں رمز اور کنائے میں بیان ہوئی ہے لیکن بہت سے شاعروں اور ادیبوں نے اس قصہ کو کہانی کی صورت میں نظم و نثر میں لکھا ہے مگر وہ سب چیزیں مرد کے نقطۂ نظر کی ترجمان ہیں جس میں ہر چیز کا الزام کار عورت پر عائد کیا جاتا ہے۔ اس کہانی میں ان رمز و علامات کو نئے انداز سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
مصر کی سب خوبصورت اور معزز عورتوں نے کہا حاشا! یہ انسان نہیں کوئی بزرگ فرشتہ ہے اور انہوں نے یوسف کو دیکھ کر مارے حیرت کے اپنے انگوٹھے کاٹ لیے اور ان کے انگوٹھوں سے خون رسنے لگا۔ زلیخا نے کہا وہ ایک جیتا جاگتا آدمی ہے جو کھاتا پیتا اور سوتا ہے۔ وہ فرشتہ نہیں، فرشتوں سے بڑا ہے۔ میں چاہتی ہوں تم سب اسے سجدہ کرو اس طرح تمہارے انگوٹھوں سے خون بہنا بند ہو جائےگا اور تمہارے زخم بھر جائیں گے۔
زلیخا بشر تھی اور بشر تو شک، رشک اور حسد کا پتلا ہے۔ اس لیے زلیخا سوچ میں پڑگئی کہ زنان مصر کی حیرت کی وجہ یوسف کا حسن ہے یا اسے یہاں دیکھنے کی حیرت میں خوف شامل ہے۔ زلیخا نے سوچا کہ آخر اس نے بھی تو یوسف کو دیکھ کر اپنے ہوش و حواس برقرار رکھے ہیں۔ پھر یہ عورتیں ہوش و حواس کیوں کھو بیٹھیں۔ عزیز مصر اور سارے دربار نے بھی یوسف کا حسن دیکھا تھا پھر آخر شہر کی معزز بیگمات نے اپنے انگوٹھے کیوں کاٹ لیے۔ کیا وہ یوسف سے ڈرتی ہیں؟ کیا وہ ان کے رازوں کا امین ہے اور اس لمحہ زلیخا بدگمانی میں مبتلا ہو گئی۔ اس نے سوچا کہ یوسف ان عورتوں کو دیکھ کر گھبرا کیوں گیا تھا۔ وہ حیران اور پریشان سا جلدی سے وہاں سے نکل گیا تھا۔ اگر کھڑا ہو جاتا، ٹھہر جاتا تو شاید پھر وہ انگوٹھے نہ کاٹتیں۔ کیا یوسف ان عورتوں کو پہلے سے جانتا تھا۔ اس رمز کو جاننے کے لیے زلیخا مچل اٹھی۔ آخر انگوٹھے کاٹے جانے میں کیا مزہ ہے؟ پھر اس نے سوچا اب وہ یوسف کو لائےگی اور ان سب عورتوں کو سجدے کا حکم دےگی، دیکھیں وہ اسے سجدہ کرتی ہیں یا نہیں۔۔۔! زلیخا دوڑی دوڑی یوسف کے پیچھے پیچھے گئی اور بھاگتے ہوئے یوسف کا دامن پکڑ کر بولی، ٹھہرو۔۔۔ وہ ایک لمحہ کو رکا۔ زلیخا نے کہا، ’’ذرا میرے ساتھ اندر آؤ۔‘‘
یوسف حیران پریشان گھبرایا تھا۔ وہ زلیخا کامطلب نہیں سمجھ سکا۔ اس نے سوچا وہ ان سب عورتوں سے کیسے پیچھا چھڑائے۔ اس نے دعا کی کہ خدا مجھے ان عورتوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ زلیخا کی نیت کا حال خدا ہی جانتا تھا۔ وہ اتنی معصومیت سے اس کا دامن پکڑے اسے اندر بلا رہی تھی مگر یوسف زلیخا کو بھی مصر کی دوسری معزز عورتوں کی طرح سمجھا اور بھاگ کھڑا ہوا۔
تب زلیخا نے بھاگتے ہوئے یوسف کا دامن زور سے پکڑ لیا۔ یوسف تیزی سے دروازے کی طرف بھاگا۔ دامن کی دھجی پھٹ کر زلیخا کے ہاتھ میں رہ گئی۔ زلیخا اندر آئی تو اس نے دیکھا کہ مصر کی معزز بیگمات اپنے انگوٹھے پکڑے درد سے تڑپ رہی تھیں۔ زلیخا نے دامن کی وہ دھجی پھاڑ پھاڑ کر سب عورتوں کو بانٹ دی اور کہا کہ لو اپنے انگوٹھوں پر پٹی باندھ لو۔ عورتوں نے انگوٹھوں پر پٹیاں باندھ لیں تو خون بہنا بند ہو گیا اور ان کے انگوٹھے چمک اٹھے، وہ پٹی روشن ہوگئی۔ اس لیے کہ یوسف کے دامن کی دھجی تو بس روشنی کی ایک لکیر تھی۔ زلیخا نے مسکراکر ان عورتوں سے کہا، ’’اگر تم انگوٹھے کی جگہ ہاتھ کاٹ دیتیں تو تمہارا پورا ہاتھ روشن ہو جاتا۔‘‘ پھر زلیخا نے باری باری سب عورتوں کو گلے لگایا اور وہ اپنے روشن انگوٹھوں کو دیکھتی ہوئی خوشی خوشی رخصت ہوئیں۔
جب کاہن اعظم کو بتایا گیا کہ مصر کی معزز عورتوں کے انگوٹھوں سے رشنی کی شعائیں نکلتی ہیں تو کاہن اعظم نے کہا وہ سب عصمت مآب عورتیں ہیں اور ان کے ساتھ مقدس روشنی ہے۔ یہ سن کر مصر کے شریف اور بڑے آدمی اپنی اپنی عورتوں پر فخر کرنے لگے اور ان عورتوں کو دیوداسیوں سے بھی بڑا مرتبہ دیاگیا، ہر طرف ان کی عصمت اور بزرگی کی دھوم مچ گئی۔
عزیز مصر نے زلیخا سے کہا کہ مصر کی سب عصمت مآب اور پاک دامن عورتوں کے انگوٹھے روشن ہوگیے ہیں، تم اپنا انگوٹھا دکھاؤ۔ زلیخا نے مسکراکر ہاتھ بڑھایا تو اس کا انگوٹھا روشن نہیں تھا، وہ تو ایک معمولی ہاتھ تھا۔ تب عزیز مصر نے دکھ سے کہا، ’’میں تمہیں ایسا نہیں سمجھتا تھا۔ آج مصر کے سب مردوں کے سامنے میرا سر جھک گیا۔‘‘ کاہن اعظم نے جب سنا کہ زلیخا کا ہاتھ ایک معمولی عورت کا ہاتھ ہے اور اس کے انگوٹھے سے روشنی کی شعائیں نہیں نکلتیں تو اس نے کہا، ’’افسوس!عزیز مصر کی بیوی ایسی ہو۔‘‘
ادھر سب لوگوں نے یوسف کا پھٹا ہوا کرتا دیکھا تو زلیخا کے مجرم ہونے میں کسی کو شک نہ رہا۔ بزرگوں نے گواہی دی کہ کرتا پیچھے سے پھٹا ہے اس لیے زلیخا مجرم ہے۔ زلیخا کا دل دکھ سے بھر گیا، اس نے سوچا کہ یوسف کے دل میں کوئی چور تھا۔ آخر وہ بھاگا کیوں، کیوں کھڑا نہ رہا۔ اس کے ساتھ اندر کیوں نہ آیا، نہ وہ بھاگتا نہ کرتا پھٹتا۔ مگر وہ کسی سے کیا کہتی، وہ مجرم بنی خاموش کھڑی رہی۔ زلیخا کا جی چاہا کہ وہ ان سب بزرگوں کو یہ راز بتا دے کہ اگر وہ یوسف کا دامن نہ پھاڑتی تو ان سب عورتوں کے انگوٹھے روشن نہ ہوتے مگر وہ خاموش رہی، اسے اپنی چھوٹی سی نیکی کا ڈھنڈورا پیٹنا اچھا نہ لگا۔ یہ کم ظرفی تھی اور لوگ نیت نہیں دیکھتے، وہ ظاہر عمل دیکھتے ہیں اور اس کا نام انہوں نے انصاف رکھ لیا ہے لیکن زلیخا کو دکھ اس بات کا تھا کہ یوسف بھی اسے نہیں پہچانا اور وہ اسے غلط سمجھا۔ وہ تو سب کو اس کے سامنے سجدہ کرانا چاہتی تھی۔
زلیخا چپ رہی۔ وہ کسی سے کیا کہتی، کوئی اس کی بات سمجھنے والا نہ تھا۔ زلیخا پر تہمت لگ گئی حالانکہ اس کا انگوٹھا صحیح سالم تھا۔ شاید اس کا جرم یہی تھا کہ اس نے انگوٹھا نہیں کاٹا تھا اور یوسف کو دیکھ کر بھی اپنے ہوش و حواس برقرار رکھے تھے۔ عزیز مصر نے زلیخا کی روشن آنکھوں میں دیکھے بغیر نفرت سے منہ موڑ لیا اور بولا، ’’تم نے بری نظر سے غیر کی طرف دیکھا ہے۔‘‘ زلیخا نے کہا، ’’مجھے کوئی غیر نظر ہی نہیں آتا۔‘‘پھر اس نے عزیز مصر اور سب بزرگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور اپنا سر بلند رکھا۔
پھر وہ سب یوسف کو سامنے لائے اور اس کا پیچھے سے پھٹا ہوا کرتا دکھایا گیا۔ یوسف نے زلیخا کی طرف دیکھا زلیخا مسکرائی۔ یوسف اپنا سر اونچا اٹھائے چل رہا تھا۔ عزیز مصر نے زلیخا سے کہا، ’’اب تم کیا کہتی ہو؟‘‘ زلیخا مسکراکر بولی، ’’بےشک یہ سچا ہے۔‘‘ اور اپنا سر جھکالیا۔ زلیخا دل سے یوسف کی صداقت پرایمان لے آئی تھی اور وہ یوسف کے وہاں سے بھاگنے کا رمز سمجھ گئی تھی۔ عزیز مصر نے کہا، ’’تو مان گئی کہ تو نے بری نگاہ سے غیر کو دیکھا ہے۔‘‘ زلیخا نے پھر وہی بات دہرائی، ’’میں نے آج تک کسی غیر کو نہیں دیکھا مجھے غیر نظر ہی نہیں آتا۔ میری آنکھیں تو بس آپ کو دیکھتی ہیں۔‘‘ عزیز مصر نے کہا، ’’لیکن میں تو یہاں ہوں۔‘‘ زلیخا نے مسکراکر یوسف کی طرف دیکھا اور بولی، ’’میں یہاں ہوں۔‘‘
یوسف اس کی بات سمجھ گیا اور اس کا سر جھک گیا۔ اس نے کہا، ’’مجھے جیل خانے جانا منظور ہے۔‘‘ زلیخا نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھا لیا اور مسکرانے لگی۔ زلیخا اپنے محل میں آکر سوچنے لگی کہ قافلے والے جب یوسف کو مصر لے کر آئے تو راستے میں انہوں نے جگہ جگہ پڑاؤ ڈالا ہوگا، کاش وہ گھوم پھر کر دیکھ سکتی کہ اور کہاں کہاں کن کن عورتوں نے مارے حیرت کے انگوٹھے کاٹے تھے۔ زلیخا کا جی چاہا کہ وہ ایک انعام مقرر کرے تاکہ سب عورتیں اسے اپنے کٹے ہوئے انگوٹھے دکھانے آئیں اور انعام لے لیں۔ پھر اس نے سوچا کہ انعام کے لالچ میں تو ہر ایک اپنا انگوٹھا کاٹ کر آجائیں گی اور یہ کام زلیخا کے مرتبہ اور شان کے خلاف تھا کہ وہ سارے جہاں کی عورتوں کے انگوٹھے دیکھتی پھرے اور پھر اس نے سوچا آخر یہ جان کر کیا کرےگی۔ اس کی بلا سے۔ ارے جہاں کی عورتیں اپنے انگوٹھے کاٹ ڈالیں۔ جیت اس وقت یوسف کی ہوتی اگر زلیخا بھی اپنا انگوٹھا کاٹ لیتی۔ مگر اس کا انگوٹھا سلامت ہے۔ اس لیے جیت اس کی ہوئی۔۔۔ اور انصاف کے دن تو یوسف بھی اسے پہچان ہی لےگا۔۔۔! اور وہ انصاف کے دن کا انتظار کرنے لگی۔
جیل خانے کا محافظ تنگ اور تاریک تہہ خانے کے حجرہ میں بند کرنے یوسف کو لے کر چلا۔ مگر جوں جوں تہہ خانے میں اترتا جاتا تھا اس کی آنکھیں چندھیائی جاتی تھیں۔ اس نے سوچا سورج آسمان پر نکلتا ہے یا وہ زمین کی گہرائیوں میں کہیں دفن ہے۔ اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ سورج اس کے ساتھ چل رہا ہے اس لیے کہ اس کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے تھے۔ اسے جیل خانے کا داروغہ بنے ہوئے سالہا سال ہو گیے تھے۔ روشنی سے لاکر تاریکی میں بند کرنا اس کا کام تھا مگر آج پہلی مرتبہ اسے نیا کام دیا گیا تھا۔ روشنی کو قید کرنے کا کام۔
داروغہ نے تہہ خانے کے آخری تنگ اور تاریک حجرے کا دروازہ کھول کر یوسف کو اس میں بند کر دیا اور جب کوٹھری میں بڑا سا آہنی تالہ ڈال کر وہ مڑا تو گھبراکر پھر دروازے کی طرف بڑھا۔ دروازے کی درز سے روشنی کی شعاعیں نکل رہی تھیں اور وہ شعاعیں لوہے کی تالے کے آر پار نظر آ رہی تھیں۔ داروغہ حواس باختہ ہوکر وہاں سے چلا۔ واپسی میں وہ قدم قدم پر ٹھوکر پہ ٹھوکر کھاتا تھا اور گرتا تھا۔ اسے تعجب تھا کہ جس اندھیرے حجرے میں وہ پل بھر میں داخل ہوا تھا اس حجرے سے واپسی میں وقت اتنا لمبا کیوں ہو گیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ساری عمر اندھیرے غاروں میں دھکے کھاتا رہےگا اور راستہ نہیں ملےگا، دروازہ نہیں آئےگا۔ اس کا جی چاہا کہ وہ واپس جائے اور یوسف کے قدموں پر گر کر اس سے معافی مانگ لے مگر پھر عزیز مصر کے خوف سے وہ اندھیرے میں راستہ ٹٹول ٹٹول کر چلتا رہا۔
جب وہ قید خانے سے باہر نکلا تو رات کا وقت تھا۔ اس نے سوچا خدا جانے ایک رات گزری ہے یا اس سفر میں کئی راتیں گزر چکی ہیں۔ اس لیے کہ اس کی داڑھی کے کالے بال سفید ہو گیے تھے۔ اندھیری رات میں مصر کے بالاخانوں میں دیے روشن نظر آئے تو اس نے لوگوں سے پوچھا کہ کیا آج کوئی تہوار ہے۔ مصر کی سب عورتوں نے چراغاں کیوں کیا ہے۔ لوگوں نے اسے بتایا کہ آج رات مصر میں اتنی تاریکی ہو گئی تھی جیسے کنعان کا چاند چھپ گیا۔ عزیز مصر نے اندھیرے سے گھبراکر چراغاں کا حکم دیا۔ پھر بھی تاریکی دور نہ ہوئی تو مصر کی وہ سب پاک دامن عورتیں اپنے اپنے بالاخانوں پر ہاتھ اٹھاکر کھڑی ہو گئیں جن کے انگوٹھے روشن تھے اور یہ جو چراغوں کی لوئیں نظر آ رہی ہیں یہ مصر کی بزرگ اور نیک عورتوں کے انگوٹھے چمک رہے ہیں۔
زلیخا نے اس رات عجیب خواب دیکھا۔ مگر اس نے اپنے خواب کا کسی سے ذکر نہیں کیا اور سوچا آج کی رات مقدر کو نیند آ رہی ہے مگر وہ ضرور جاگے گا۔ تاریکی میں سارا مصر سو رہا تھا۔ روشن انگوٹھوں والی عورتیں بھی اپنی خوابگاہوں میں واپس چلی گئی تھیں اور گہری نیند میں تھیں۔ تقدیر کا فرشتہ بھی سو گیا تھا۔ وہ بہت تھکا ہوا تھا۔ قلم اور کاغذ سوتے میں بھی اس کے پاس تھے۔ وہ نیند کی غفلت میں کچھ لکھ رہا تھا۔ زلیخا نے چپکے سے تقدیر کے فرشتہ کے ہاتھ سے قلم لے لیا اور کہا، ’’اپنی کہانی میں خود لکھوں گی۔‘‘ سارا مصر سو رہا تھا۔ زلیخا جاگ رہی تھی۔
زلیخا نے وہ خواب بھی سوتے ہوئے نہیں، جاگتے ہوئے دیکھا تھا اور وہ عجیب الجھن میں تھی کہ یہ عالم بیداری ہے یا عالم خواب اور آپ سے آپ اس کا سر ان دیکھے خدا کے سامنے جھک گیا۔ اس نے جھک کر سجدے میں ان دیکھے خدا سے اقرار کیا، نہ میں ہوں نہ یوسف ہے بس تو ہے اور یوسف تو تیرے اجالے کی کرن لایا تھا جو کچھ میں نے عزیز مصر کے سامنے کہا تھا وہ تیرا ہی حکم تھا، تو روز قیامت گواہ رہنا۔ پھر زلیخا نے سجدے سے سر اٹھا لیا اور سوچا اب میرا کسی سے کوئی واسطہ نہیں ہے نہ یوسف سے اور عزیز مصر سے۔۔۔؟ اور پھر زلیخا کے دل پر سے بوجھ ہٹ گیا۔ اس کی روح سرور کے کیف میں ڈوب گئی۔ اسے گہری نیند آ گئی۔
جب زلیخا کی آنکھ کھلی تو اس کے سیاہ بال سفید ہو چکے تھے اور اس کے چہرے پر جھریاں پڑ گئی تھیں۔ اس کے گلابی ہونٹوں کی پنکھڑیاں مرجھا گئی تھیں، اس کا خوبصورت جسم کمان کی طرح خم ہو چلا تھا۔ مصر کی وہ سب عورتیں جو زلیخا کی ہم سن تھیں اپنے روشن انگوٹھوں کو دیکھ دیکھ کر خوشی سے مگن تھیں کہ غم اور بڑھاپا ان کے قریب سے بھی نہ گزرا تھا۔ ان کے بال کالے تھے اور ہونٹوں کی کلیاں تروتازہ اس لیے کہ انہیں سچی مسرت اور عزت حاصل تھی۔ وہ مصر کی سب سے معزز عورتیں تھیں۔ مگر ان سب کے مرد عزیز مصر کی طرح بوڑھے ہو گیے تھے۔
ایک دن ان عورتوں نے زلیخا پر ترس کھاکر کہا، ’’اگر تم نے اپنا انگوٹھا کاٹ لیا ہوتا تو تم بھی آج جوان ہوتیں اور نہ یوسف قید ہوتا۔ ہم سب کی لونڈیاں اور غلام آزاد ہیں۔ مگر تم نے ایک انہونی بات کی ہے اور اس کی سزا بھگت رہی ہو۔‘‘ زلیخا بولی، ’’اگر میں اپنا انگوٹھا کاٹ لیتی تو دامن کون پھاڑتا اور پھر شائد تمہارے زخم کبھی مندمل نہ ہوتے۔‘‘ یہ سن کر انہوں نے سرجھکا لیا اور خاموش ہو گئیں۔
زلیخا ان کی باتوں پر مسکرانے لگی۔ وہ ان عورتوں کو کیا بتاتی کہ انہوں نے تو صرف انگوٹھے کاٹے تھے مگر جب زلیخا نے عزیز مصر سے یہ کہا تھا کہ میں نے آج تک کسی غیر کو نہیں دیکھا تو اس لمحہ اس نے اپنا سر کاٹ کر ہتھیلی پر رکھ لیا تھا اور جب اس نے یوسف سے کہا تھا کہ ’’میں یہاں ہوں۔‘‘ تو اس کے جسم پر غرور کا سر نہیں تھا، اس کی انا ختم ہو چکی تھی، وہ کہیں بھی نہیں تھی۔ وہ ایک لمحہ میں وہ سارا سفر طے کر چکی تھی، وہ سفر جس کو طے کرنے کے لیے مجنوں نے ساری زندگی دشت کی خاک چھانی تھی، فرہاد نے نہر کھو دی تھی اور یوسف نے جیل خانے کی صعوبت گوارا کی۔ وہ سارا سفر زلیخا نے پلک جھپکاتے میں طے کر لیا تھا۔ عرفان کے اس لمحہ میں جب اس نے اپنا سر کاٹ کر ہتھیلی پر رکھا تھا، اس کا سارا وجود روشنی بن گیا تھا۔ مگر یہ سب باتیں وہ کسی کو نہیں سمجھا سکتی تھی، وہ خاموش رہی۔ زلیخا نے اپنی سہیلیوں کو جب اپنے بڑھاپے پر ترس کھاتے دیکھا تو کہا، ’’یہ بھی کتنی اچھی بات ہے کہ میں تمہیں اس بوڑھے جسم کی بدولت نظر آ رہی ہوں، میں تو خود کو نظر بھی نہیں آتی۔ بس وہی ہے۔‘‘
اس کی ایک سہیلی ہنس کر بولی، ’’کون؟’’ یوسف؟ ‘‘زلیخا نے کہا’’، تم یہ باتیں نہیں سمجھ سکتی ہو اس لیے اسے یوسف کہہ لو تو کوئی ہرج نہیں ہے۔ ‘‘پھر زلیخا انہیں اپنے ساتھ لائی اور کہا’’، دیکھو یہ الماریاں۔۔۔ ان میں وہ سب لباس ٹنگے ہوئے ہیں جو ازل سے ابد تک کے ہیں۔ میں جو لباس چاہوں پہن سکتی ہوں۔ انوکھے دیسوں کے خوبصورت لباس! تم جسے میرا جسم سمجھ کر میرے بڑھاپے پر ترس کھا رہی ہو وہ تو میرا لباس ہے۔ پھر اس نے انہیں وہ سب لباس پہن کر دکھائے۔ کبھی وہ سیتا بن گئی کبھی دروپدی، کبھی لیلی کبھی شیریں، پھر وہ ہنس کر بولی زندگی کے اس رواں دواں سمندر میں سے آخر میں تمہیں کہاں تک نکال نکال کر دکھاؤں، یہ ہیر ہے یہ سوہنی ہے، یہ قلوپطرہ ہے یہ انارکلی ہے اور یہ نور جہاں ہے۔۔۔ اور یہ سب سے خوبصورت لباس یہ جوگیا رنگ کی ساری اور منکوں کی مالا۔۔۔ یہ وہ جوگن ہے جس کا نام میرا تھا اور جس کے بول قیامت تک زندہ رہیں گے۔ پھر اس نے سب الماریاں بند کردیں۔ مصر کی سب عورتیں حیران پریشان تھیں جیسے کسی سحر میں ہوں۔ وہ کبھی آنکھیں ملتی تھیں اور کبھی کھولتی تھیں۔ آخری الماری باقی رہ گئی تھی۔ زلیخا نے کہا میں اسے نہیں کھول سکتی اس میں عالم مثال کے لباس ہیں۔ وہ سب لباس جنہیں محبت نے جنم دیا ہے یہ وہ سب خیال ہیں جو کل حقیقت بنیں گے۔
عورتوں نے کہا، ’’یہ لباس کیسے ہیں؟‘‘ زلیخا نے کہا، ’’عالم مثال میں نہ جسم ہے نہ خیال بس وہ لباس تو صرف ایک حکم ہے۔‘‘ ایک عورت نے پوچھا، ’’حکم کیا ہے؟‘‘ زلیخا بولی، ’’وہ روح ہے۔‘‘ زلیخا نے کہا، ’’تم سب موت سے ڈرتی ہو، بڑھاپے سے خوف کھاتی ہو اور سدا جوان رہنے کی آرزو کرتی ہو۔ اب یہ لباس دیکھ کر تمہارا خوف دور ہوا یا نہیں؟‘‘ عورتوں نے کہا، ’’ہاں اب ہمارے دلوں سے موت کا خوف جاتا رہا ہے۔‘‘
زلیخا بولی، ’’موت کا دکھ اور خوف تو بانجھ زمین کا دکھ اور خوف ہے۔ وہ زمین جس پر پھل اور پھول آتے ہیں اسے موت کہاں۔‘‘ پھر وہ مسکرانے لگی۔ ایک عورت بولی، ’’ہمیں موت کے بارے میں بتاؤ۔ موت کیا ہے؟‘‘ زلیخا نے کہا، ’’جسم سے جسم کا ملاپ موت ہے۔ فنا ہے اور تم جسے فراق کہتی ہو وہ زندگی ہے۔ روح کا روح سے ملاپ ہوتا ہے۔‘‘
ایک عورت نے کہا، ’’کیا روح کا ملاپ زندگی میں ممکن ہے۔‘‘ زلیخا بولی، ’’ہاں ممکن ہے مگر اس وقت جب تم جیتے جی جسم سے باہر نکل سکو اور یہ وہ راز ہے جو صرف خضر کو معلوم ہے اور وہ کسی کو نہیں بتاتا۔ آؤ میں تمہیں آب بقا کا راز بتاؤں تاکہ تم حیات جاوید پالو۔‘‘ ایک عورت نے کہا، ’’حیات جاوید کیا ہے؟‘‘ زلیخا ہنس پڑی، ’’وہ ایک لمحہ ہے دید کا ایک لمحہ! دیکھ لینا اور پہچان لینا۔ اگر حیات کے لامتناہی سمندر میں وہ ایک لمحہ تمہیں حاصل ہو گیا تو تم جام جہاں نما کی مالک ہو۔‘‘
ایک عورت نے پوچھا، ’’جام جہاں نما کیا ہے؟‘‘ زلیخا بولی، ’’وہ تمہارا دل ہے، اس آئینہ کو جتنی جلادے سکوگی اتنی ہی دور دیکھ سکوگی۔ ماضی، حال، مستقبل ایک لکیر کے سب روشن نقطے نظر آئیں گے پھر تم وقت کی قید میں نہیں ہوگی۔ وقت تمہاری قید میں ہوگا۔‘‘ ایک عورت نے کہا، ’’دیکھو تم سب مٹی کے کوزوں کی پروا کرنا چھوڑدو، ہستی کے بازار میں ان کوزوں کی کمی نہیں، جو چیز پیالے میں ہے وہ قیمتی ہے، وہ شراب ہی آب حیات ہے، وہ روشنی ہے۔۔۔ وہ تمہاری روح ہے اور سچ روح کی غذا ہے!‘‘
ان عورتوں نے کہا اب ہم تمہاری باتیں سمجھ گیے۔ ہم آج اپنے روشن انگوٹھوں کا حال اپنے شوہروں کو بتادیں گے۔ یوسف سچا ہے اور عزیز مصر کے سامنے تمہاری بےگناہی بھی ثابت ہو جائےگی۔ زلیخا نے محبت سے انہیں گلے لگایا اور بولی، ’’تمہارا راز میرا راز ہے، اگر تم نے یوسف کو چاہا اور پسند کیا تو میں خوش ہوں۔ اس لیے کہ یوسف مجھ سے الگ نہیں، نہ میں یوسف سے جدا ہوں۔ تم نے اسے چاہا تو مجھے چاہا۔۔۔! اور میری بےگناہی اور سب پر تو ثابت ہے، عزیز مصر کے ساتھ میں نے زندگی گزاری ہے، وہ مجھے جانتا ہے، تم سب جانتی ہو۔۔۔ مصر کے سب لوگ جانتے ہیں مگر میری بےگناہی یوسف پر انصاف کے روز ثابت ہوگی جب اسے میری نیت کا حال معلوم ہوگا۔‘‘
اس رات ان سب معزز اور پاک دامن عورتوں نے اپنے اپنے خاوندوں کو اپنے انگوٹھے زخمی ہونے کا حال سنایا اور کہا یوسف بھی سچا ہے اور زلیخا بھی سچی ہے اور پاک دامن ہے۔ ان سب کے انگوٹھوں کی روشنی یکایک غائب ہو گئی تو ان مردوں نے کہا، ’’کاش تم نے اپنی زبانوں پر تالا ہی رکھا ہوتا تو اچھا تھا۔‘‘ عورتوں نے مردوں سے کہا کہ ’’وہ روشنی اپنے مقام پر واپس آ گئی ہے اور اب وہ ہمارے دلوں میں ہے۔‘‘
جب انہوں نے زلیخا کی باتیں اپنے مردوں کو سنائیں تو وہ بولے مگر مصر کے کاہنوں نے زلیخا کی باتیں سن لیں تو وہ اسے بھی جیل خانے میں ڈالوا دیں گے یا اس سے بدتر کوئی سزا دیں گے۔ عورت ناقص العقل ہوتی ہے۔ اس کی بات مان کر تم نے انگوٹھوں کی مقدس روشنی کھودی۔ وہ جو بڑھ بڑھ کر باتیں بنارہی ہے اس سے پوچھو کہ آج تک کوئی عورت پیغمبر یا اوتار ہوئی ہے؟ عورتیں یہ سن کر چپ ہو گئیں۔
جب وہ عورتیں زلیخا کے پاس آئیں تو انہوں نے اپنے مردوں کی باتیں سنائیں۔ زلیخا ان کی باتیں مسکرامسکرا کر سنتی رہی پھر بولی، ’’عورت نے پیغمبر اور اوتار ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اس لیے کہ دعویٰ کرنا عورت کو زیب نہیں دیتا۔ سورج دنیا سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس روشنی ہے وہ تو سب کو روشنی دیتا ہے عورت پیغمبر اور اوتار پیدا کرتی ہے۔‘‘
پھر ان عورتوں نے کہا، ’’وہ سب کہتے ہیں عورت کی عقل ناقص ہے۔‘‘ زلیخا بولی، ’’یہ سچ کہتے ہیں، عورت عقل میں ناقص ہے اور عشق میں کامل ہے۔ مرد عقل میں کامل بنتا ہے مگر وہ عشق میں ناقص ہے اور جو عشق میں کامل ہو اسے نظر آتا ہے،، حقیقت کا عرفان دید ہے نہ کہ شنید! مردوں کا علم ظاہر کا ہے اور عورتوں کا علم باطن کا ہے۔ ظاہر کو باطن کا علم نہیں اس لیے وہ عورت کو ناقص العقل کہتے ہیں مگر باطن کو ظاہر کا حال معلوم ہے اس لیے عورت کوئی دعویٰ نہیں کرتی، نہ کسی بات کا برا مانتی ہے۔ وہ ہنس کر چپ ہو جاتی ہے۔‘‘
ان مردوں نے جب یہ سنا کہ زلیخا ان کی باتوں پر ہنس کر چپ ہو جاتی ہے تو وہ کھسیانے ہو گیے اور الٹا اپنی تقدیر کو کوسنے لگے کہ انہوں نے روشن انگوٹھوں والی عورتوں سے شادی کرنے کی بجائے معمولی عورتوں سے شادی کیوں نہ کی جو ان کی ہر بات بلا چوں و چرا مانتیں اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر ان کے پیچھے چلا کرتیں۔
عزیز مصر نے اس رات ایک خواب دیکھا اور دوسرے دن اپنے مصاحبوں کے آگے بیان کیا اور پھر وہ غلام جو اسے شراب پلانے پر مامور تھا دو زانو ہوکر بولا کہ اسے خوابوں کی تعبیر بتانے والے کا پتہ معلوم ہے اور اس نے یوسف کا حال بیان کیا۔ عزیز مصرنے یوسف کی رہائی کا حکم دیا اور سالہا سال بعد وہ خوابوں کا حال جاننے والا اور ان کی تعبیر بتانے والا جیل خانے سے باہر آیا۔ وہ جیل خانے جاکر وقت کی دھوپ چھاؤں سے محفوظ تھا۔ وہاں وقت ٹھہر گیا تھا۔ حسن، صحت، جوانی سب چیزیں وقت کے ساتھ ٹھہر گئی تھیں اور یوسف وہی یوسف تھا۔ مگر زلیخا وہ زلیخانہیں تھی اور جس طرح پھل پک کر درخت سے لٹک جاتا ہے اس طرح وہ جیتی جی جسم کی قید میں سے نکل آئی تھی۔ فنا کی منزل سے گزر کر بقا کی اس منزل میں تھی جہاں سب لباس اس کی الماریوں میں بند تھے مگراسے اپنا بوڑھا جھریوں والا لباس پسند تھا۔ اگر وہ لباس بدل لیتی تو عزیز مصر اور دوسرے لوگ اسے نہ پہچانتے اور یوسف کے جیل خانے سے آنے تک وہ اس لباس میں رہنا چاہتی تھی تاکہ یوسف کا امتحان لے سکے اور دیکھ سکے کہ یوسف اسے پہچانتا ہے یا نہیں۔
جب یوسف زلیخا کے سامنے آیا تو وہ اسے نہیں پہچانا۔ وہ بیگانوں کی طرح ایک دوسرے کے سامنے سے خاموش گزر گیے۔ پھر قحط سالی کا دور آیا تو عزیز مصر کے خواب کی تعبیر لوگوں نے حرف بہ حرف پوری ہوتی دیکھ لی۔ عزیز مصر نے یوسف کو اپنے تخت کا وارث بنایا کیونکہ وہی انہیں قحط، بیماری اور اندھیرے سے نجات دلانے والا تھا اور اسے یوسف پر بھروسہ تھا اور مصر کے لوگ اسے اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے۔
اور جب یعقوب کی آنکھیں روشن ہوئیں اور اس نے یوسف کو اس کے خواب کا مطلب سمجھایا تو سب کے سر اس کے سامنے جھک گیے۔ سب کے خواب سچ بن کر ظاہر ہوئے مگر زلیخا نے اپنے خواب کا کسی سے ذکر نہیں کیا تھا۔ وہ اپنے خواب کی تعبیر جاننا چاہتی تھی اور خوابوں کی تعبیر بتانے والا یوسف تھا جو اسے پہچانتا نہ تھا۔ اس لیے اپنے خوابوں کی تعبیر پوچھنے جانا زلیخا کو کچھ اچھا نہ لگا۔ پھر اس نے سوچا کہ اس کے خواب کی تعبیر بھی اسی طرح ایک دن سامنے آئےگی جس طرح سب کے خوابوں کی تعبیر سامنے آئی ہے اور اس دن اسے یوسف پہچان لےگا۔
کچھ عرصہ بعد یوسف نے اپنے محل میں دعوت کی جس میں سب معزز لوگ مدعو تھے۔ اس دعوت میں وہ عورتیں بھی تھیں جن کے انگوٹھوں کا ایک زمانے میں بڑا چرچا تھا، ان کے خاوند بھی ساتھ تھے اور اس دعوت میں یوسف نے عزیز مصر کی بیوہ کو بھی بلایا تھا۔ جب زلیخا ان سب عورتوں کے درمیان بیٹھی تو یوسف کی اس پر نظر پڑی اور وہ سوچ میں پڑ گیا۔
زلیخا نے فیصلہ کرلیا کہ وہ یوسف کو آج یاد دلائے گی کہ وہ کون ہے اور ایک لمحہ کے لیے زلیخا نے وہ لباس پہن لیا جسے اتار کر اس نے مصر کی ملکہ کا لباس پہنا تھا۔ وہ لباس کنعان کی اس دوشیزہ کا تھا جو یوسف کے ساتھ لڑکپن میں بھیڑیں اور بکریاں چرایا کرتی تھیں اور جب ایک دفعہ اس نے یوسف کے بھائیوں کو کنوئیں میں دھکادے کر اسے گراتے دیکھا تو اسے نکالنے دوڑ پڑی تھی۔ اس کے بھائی جاچکے تھے۔ وہ بےقراری کے عالم میں کنوئیں میں کود گئی اور جب وہاں اس نے یوسف کو زندہ سلامت چودہویں کے چاند کی طرح چمکتے دیکھا تو اسے اتنی خوشی ہوئی، اس خوشی کی تاب نہ لاکر اس نے اپنی جان دے دی۔ یا پھر یہ ہوا کہ یوسف کے پاس جاکر اس نے دوسرا جسم بیکار سمجھ کر پھینک دیا ہو۔
یوسف نے اس لمحہ زلیخا کو پہچان لیا! قید خانے کا پورا عرصہ گزار کر یوسف وہ راز سمجھا جو زلیخا عزیز مصر اور سب بزرگوں کی موجودگی میں سمجھانا چاہتی تھی۔ جب زلیخا نے کہا تھا کہ میں یہاں ہوں تو یوسف نے سوچا تھا کہ زلیخا نے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے مگر آج جب اس نے زلیخا کو کنعان کی دوشیزہ کے پرانے لباس میں دیکھا جو کنوئیں میں رہ گیا تھا تو وہ اس لمحہ اس جملے کا مطلب سمجھ گیا کہ میں یہاں ہوں۔
جب حقیقت بےنقاب ہوئی تو کنوئیں سے نکال کر مصر کے بازار میں لایا جانا، سب عورتوں کے انگوٹھے کاٹنا اور زلیخا کا دامن پکڑنا، سب باتیں اس کی سمجھ میں آ گئیں۔ زلیخا کا وہ لباس بہت خوبصورت تھا وار مصر کی سب معزز عورتوں کے ملبوسات بہت خوبصورت تھے اور اس لیے یوسف نے ان کے شر سے بچنے کی دعاکی تھی۔ یوسف نے سوچا کہ کاش زلیخا اس وقت رمز اور اشارے میں بات نہ کرتی اور وہ بتا دیتی کہ وہ کون ہے تو پھر مصر کے تخت پر بیٹھنے کے بعد وہ سالہا سال غم نہ کرتا کہ وہ مصر کا بادشاہ ہونے کے بجائے کنعان کا ایک فقیر ہوتا۔ اس نے سوچا کنوئیں سے عزیز مصر کے محل تک اسے جو چیز لائی تھی وہ کنعان کی مٹی کی خوشبو تھی جس میں اس کی روح مقید تھی اور وہ سارے عرصہ اپنی روح کو تلاش کرتا رہا۔ اب اگر مصر کی عورتوں نے اپنے انگوٹھے کاٹ لیے تو اس میں اس کا کیا قصور تھا۔
جب زلیخا نے دیکھا کہ اسے یوسف نے پہچان لیا تو غم کا بوجھ اس کی روح سے ہٹ گیا اور اس کا دل خوشی سے بھر گیا۔ اس کا رواں رواں کھل اٹھا۔ مصر کے لوگوں نے جب اس لمحہ زلیخا کو پھول کی طرح ہنستے دیکھا تو وہ بولے کہ یوسف کو دیکھ کر زلیخا خوشی سے جواں ہو گئی ہے۔ یہ بات سن کر یوسف بھی مسکرانے لگا اور زلیخا بھی مسکرانے لگی۔ اس لیے اپنی حقیقت وہ خود جانتی تھی یا پھر یوسف جانتا تھا۔
یوسف بےقرار ہوکر مسند سے اترا اور چاہا کہ ہاتھ پکڑ کے اسے مسند پر اپنے برابر جگہ دے۔ مگر زلیخا محبت اور وقت کے رمز سے آشنا تھی، وہ یوسف کو وہ لباس کیسے دے دیتی جو عزیز مصر کی ملکیت تھی۔ یوسف نے ہاتھ بڑھا کر لمحہ کو اپنی گرفت میں لینا چاہا، سورج اور چاند ٹھہر گیے، لمحہ اس کی گرفت میں آ گیا۔ اس نے زلیخا کا ہاتھ پکڑ لیا اور پھر پکڑ کر فوراً ہی چھوڑ دیا۔ یوسف اگر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اسی طرح کھڑا رہتا تو وقت کا وہ لمحہ ہمیشہ کے لیے ٹھہر جاتا اور سورج چاند تو سفر کرنے کے لیے ہیں۔ یوسف کو وہ ایک لمحہ مصر کی بادشاہت سے زیادہ قیمتی معلوم ہوا جب اس نے وقت کو گرفت میں لے لیا تھا۔
اور جب یوسف نے زلیخا کا ہاتھ پکڑا تو زلیخا اپنے خواب کی تعبیر جان گئی، زلیخا نے دیکھا کہ وہ تو صرف روشنی تھا جسم نہیں تھا اور یوسف نے زلیخا کا ہاتھ پکڑ کر محسوس کر لیا تھا کہ اس کے ہاتھ میں کوئی ہاتھ نہیں ہے اور اسی لیے اس نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہی چھوڑ دیا تھا۔ لمحہ کو اپنی گرفت سے آزاد کر دیا تھا۔ چاند اور سورج کو سفر کرنے دیا تھا۔
سب لوگ حیران اور پریشان کبھی یوسف کو دیکھ رہے تھے اور کبھی زلیخا کو اور ان کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا اور پھر ان سب کی حیرت دور کرنے کو یوسف نے اپنے چھوٹے بھائی سے کہا کہ وہ پھٹا پرانا کرتا لے آئے جسے آنکھوں پر رکھتے ہی اس کے باپ کی آنکھیں روشن ہو گئی تھیں۔ یوسف کا چھوٹا بھائی وہ کرتا لے آیا تو سب نے دیکھا، یہ وہی کرتا ہے جس کا دامن پیچھے سے پھٹا ہوا تھا۔ سب کے سامنے یوسف نے وہ پرانا پھٹا ہوا کرتا پہنا تو سب کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ وہاں یوسف کے بجائے انہیں نور کا ایک ہالہ نظر آیا۔ تب یہ رمزان کی سمجھ میں آ گیا، سالہا سال پہلے یوسف نے اپنے باپ کو جو پھٹا پرانا کرتا بھیجا تھا تو اسے روشنی بھیجی تھی۔ زلیخا نے اپنا سرجھکا لیا اور یوسف سے بولی تو سچا ہے، میں ہی نادان تھی کاش میں نے یہ کرتا نہ پھاڑا ہوتا۔
یوسف نے مسکراکر کہا اگر تو وہ کرتا نہ پھاڑتی تو روشنی کرتے ہی میں رہتی۔ تونے وہ کرتا پھاڑا تو روشنی ہر طرف پھیل گئی۔ جب تک میں اپنے جسم کی قید میں تھا روشنی بھی قید تھی۔ پھراس نے سب کو مخاطب کرکے کہا، ’’ہم جب تک اپنی قید سے باہر نہ نکلیں خود بھی تاریکی میں رہتے ہیں اور جب اپنی قید سے باہر آ جاتے ہیں تو سب کو روشنی میں لے آتے ہیں۔‘‘
اور اس لمحہ مصر کے لوگوں نے روشنی سے چکاچوند میں چندھیائی ہوئی آنکھیں مل مل کر دیکھا تو وہاں نہ یوسف تھا اور نہ زلیخا تھی، بس ہر طرف روشنی ہی روشنی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.