موج دین
یہ کہانی مذہبی مساوات کے باوجود معاشرے میں رائج ثقافتی تقسیم کو بہت ہی واضح طور سے بیان کرتی ہے۔ موج دین ایک بنگالی نوجوان ہے، جو مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور آیا ہوا ہے۔ وہاں سے اسے چندہ جمع کرنے کے لیے کشمیر بھیجا جاتا ہے۔ وہاں جا کر جب اسے پتہ چلتا ہے کہ کشمیر میں جنگ ہونے والی ہے تو وہ بھی اس میں شامل ہونے کے لیے واپس لوٹ جانے سے انکار کر دیتا ہے۔ وہ مدرسے کے سربراہ کو بنگالی زبان میں ایک خط لکھتا ہے، جسے خفیہ محکمہ کے لوگ کوڈ زبان سمجھ کر اسے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کر لیتے ہیں۔ گرفتاری کے دوران اسے اس قدر ٹارچر کیا جاتا ہے کہ وہ جیل میں ہی پھانسی لگاکر مر جاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
ساڑھے تین آنے
اس افسانہ میں صاحب اقتدار اور حکمراں طبقے پر شدید طنز کیا گیا ہے۔ رضوی جیل سے باہر آنے کے بعد ایک کیفے میں بیٹھ کر فلسفیانہ انداز میں معاشرتی جبر پر گفتگو کرتا ہے کہ کس طرح یہ معاشرہ ایک ایک ایماندار انسان کو چور اور قاتل بنا دیتا ہے۔ اس سلسلہ میں وہ پھگو بھنگی کا ذکر کرتا ہے جس نے بڑی ایمانداری سے اس کے دس روپے اس تک پہنچائے تھے۔ یہ وہی پھگو بھنگی ہے جس کو وقت پر تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے ساڑھے تین آنے چوری کرنے پڑتے ہیں اور اسے ایک سال کی سزا ملتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
نفسیات شناس
’’یہ کہانی ایک ایسے شخص کی ہے جو اپنے گھریلو خادم کا نفسیاتی مطالعہ کرتا ہے۔ اس کے یہاں پہلے دو سگے بھائی نوکر ہوا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک بہت چست تھا تو دوسرا بہت سست۔ اس نے سست نوکر کو ہٹاکر اس کی جگہ ایک نیا نوکر رکھ لیا۔ وہ بہت ہوشیار اور پہلے والے سے بھی زیادہ چست اور تیز تھا۔ اس کی چستی اتنی زیادہ تھی کہ کبھی کبھی وہ اس کے کام کرنے کی تیزی کو دیکھ کر جھنجھلا جاتا تھا۔ اس کا ایک دوست اس نوکر کی بہت تعریف کیا کرتا تھا۔ اس سے متاثر ہو کر ایک روز اس نے نوکر کی حرکتوں کا نفسیاتی مطالعہ کرنے کا ارداہ کیا اور ۔۔۔ پھر‘‘
سعادت حسن منٹو
شاداں
امیر گھروں میں کام کرنے والی غریب، مظلوم اور کمسن لڑکیوں کی اس گھر کے مردوں کے ذریعہ ہونے والی جنسی استحصال کی کہانی ہے۔ خان بہادر محمد اسلم خان بہت مطمئن اور خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے تین بچے تھے، جو اسکول کے بعد سارا دن گھر میں شور غل مچاتے رہتے تھے۔ انہیں دنوں ایک عیسائی لڑکی شاداں ان کے گھر میں کام کرنے آنے لگی۔ وہ بھی بچی تھی، لیکن اچانک ہی اس میں جوانی کے رنگ ڈھنگ دکھنے لگے۔ ایک روز خان صاحب کو شاداں کے زنا کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ شاداں تو اسی روز مر گئی تھی اور خان صاحب بھی ثبوت نہ ہونے کی بنا پر بری ہو گئے تھے۔
سعادت حسن منٹو
ملاوٹ
یہ ایک ایسے ایماندار اور خوش اخلاق شخص کی کہانی ہے جس نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کو دھوکا نہیں دیا۔ وہ اپنی زندگی سے خوش تھا۔ اس نے اپنی شادی کرنے کا فیصلہ کیا لیکن شادی میں اس کے ساتھ فریب کیا گیا۔ وہ جہاں بھی گیا اس کے ساتھ دھوکا اور فریب ہوتا رہا۔ پھر اس نے بھی لوگوں کو دھوکا دینے کا ارادہ کر لیا۔ آخر میں زندگی سے تنگ آکر اس نے موت کو گلے لگانے کا فیصلہ کیا۔ خودکشی کے لیے اس نے جو زہر خریدا تھا اس میں بھی ملاوٹ تھی، جس کی وجہ سے اس کی وہ حسرت پوری نہ ہو سکی۔
سعادت حسن منٹو
شیدا
’’یہ امرتسر کے ایک مشہور غنڈے کی اپنی غیرت کے لیے ایک پولیس والے کا قتل کر دینے کی کہانی ہے۔ شیدا کا اصول تھا کہ جب بھی لڑو دشمن کے علاقے میں جاکر لڑو۔ وہ لڑائی بھی اس نے پٹرنگوں کے محلے میں جاکر کی تھی، جس کے لیے اسے دو سال کی سزا ہوئی تھی۔ اس لڑائی میں پٹرنگوں کی ایک لڑکی اس پر فدا ہو گئی تھی۔ جیل سے چھوٹنے پر جب وہ اس سے شادی کی تیاری کر رہا تھا تو ایک پولس والے نے اس لڑکی کا ریپ کرکے اس کا خون کر دیا۔ بدلے میں شیدا نے اس پولیس والے کا سر کلہاڑی سے کاٹ کر دھڑ سے الگ کر دیا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
گھر تک
اپنے گاؤں کو جاتے ہوئے ایک ایسے شخص کی کہانی جو راستہ بھٹک گیا ہے۔ اس کے ساتھ ایک معاون بھی ہے جسے وہ راستے میں کہانی سناتا ہے۔ راستہ تلاش کرتے شام ہو جاتی ہے تو انھیں دور سے مشعل جلنے اور عورتوں کے رونے کی آواز آتی ہے۔ قریب جانے پر پتہ چلتا ہے کہ رونے والی اس کی ماں اور بہن ہیں۔ وہ دونوں اس کے چھوٹے بھائی کے قبر کے پاس رو رہی ہیں، جس کے لیے وہ شہر سے کھلونے اور کپڑے لے کر آیا تھا۔
ممتاز شیریں
زنان مصر اور زلیخا
یہ افسانہ نبی یوسف اور زلیخا کے محبت کی داستان کی بازیافت ہے۔ حالانکہ اس افسانے میں اس داستان کو ایک مرد کی بجائے ایک عورت کے نظریے سے دکھایا گیا ہے۔ زلیخا کا یوسف سے ملنا اور پھر یوسف کے قید کیے جانے تک کے سارے واقعے کو زلیخا اپنے نظریے سے بیان کرتی ہوئی ثابت کرتی ہے کہ ان دونوں کے درمیان جو کچھ بھی ہوا وہ زلیخا نے خود غرضی سے نہیں بلکہ خدا کے حکم سے کیا۔
اختر جمال
قیدی کی سرگزشت
افسانہ جیل کے ایسے قیدی کی داستان بیان کرتا ہے جو سیاسی مجرم ہے۔ قید میں باہری دنیا اور گزری ہوئی زندگی کو یاد کرکے وہ اداس ہو جاتا ہے۔ پھر ایک روز اس کے پاس ایک بلی کا بچہ آ جاتا ہے، بلی کا بچہ اسکے ساتھ رہنے لگتا ہے۔ ایک دن اس قیدی کی طبیعت اچانک خراب ہوتی ہے اور وہ تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے۔ صبح جب سنتری اسے دیکھنے آتا ہے تو پاتا ہے کہ قیدی کی ساتھ بلی کا بچہ بھی مرا ہوا ہے۔
مرزا ادیب
لالہ امام بخش
دیوی پرساد بخش نے اپنے اکلوتے بیٹے کا نام لالہ امام بخش اسلیے رکھا تھا کہ وہ محرم میں مانگی گئی دعاؤں کا نتیجہ تھا۔ چونکہ لالہ امام بخش کی پرورش بڑے لاڈ پیار سے ہوئی تھی اسلیے امام بخش سرکش ہو گیا تھا۔ دیوی پرساد کی موت کے بعد وہ اور بھی بے لگام ہو گیا اور اس کا ظلم گاؤں والوں پر بڑھتا گیا۔ گاؤں والوں نے مشورہ کرکے اسے پردھان بنا دیا۔ حالات اس وقت بدل گیے جب گاؤں میں ایک قتل ہوا اور قتل کے جرم میں لالہ امام بخش کو گرفتار کر لیا گیا۔