کہانی کی کہانی
افسانہ جیل کے ایسے قیدی کی داستان بیان کرتا ہے جو سیاسی مجرم ہے۔ قید میں باہری دنیا اور گزری ہوئی زندگی کو یاد کرکے وہ اداس ہو جاتا ہے۔ پھر ایک روز اس کے پاس ایک بلی کا بچہ آ جاتا ہے، بلی کا بچہ اسکے ساتھ رہنے لگتا ہے۔ ایک دن اس قیدی کی طبیعت اچانک خراب ہوتی ہے اور وہ تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے۔ صبح جب سنتری اسے دیکھنے آتا ہے تو پاتا ہے کہ قیدی کی ساتھ بلی کا بچہ بھی مرا ہوا ہے۔
بدنصیب قیدی جیل خانے کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں سرجھکائے بیٹھا تھا۔ چند گھنٹے پیشتر وہ آزادتھا۔ دنیا کی تمام راحتیں اسے حاصل تھیں۔ اس کا ہر مقصد تکمیل کی مسرت سے ہمکنار تھا اور ہر ایک آزاد کامیابی کی نشاط انگیزیو ں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، زندگی کے روشن و مصفّا راستے پر رواں دواں۔ یکایک عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوکر اس نے منصف کی خوفناک و لرزہ خیز آواز میں ’’حبس دوام‘‘ کی سزا کا حکم سنا۔ کچھ دیر کے لیے تو اسے معلوم ہی نہ ہواکہ وہ کہاں کھڑا ہے اور کیا سن رہا ہے؟ اسے منصف کی خشمناک اور آتشیں نگاہیں جہنم کے دو دہکتے ہوئے شعلوں کی طرح نظر آ رہی تھیں اور اس کی گرجتی ہوئی آواز؟ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پہاڑ کی چوٹی سے ایک عظیم الہئیت پتھر گرتا ہوا ہول انگیز شور پیدا کر رہا ہے۔ ہتھکڑی کی جھنکار گونجی، اس کے ہاتھ لوہے کی وزنی زنجیرو ں میں جکڑ دیے گئے۔ اسے محسوس ہوتا تھا کہ وہ ایک خواب دیکھ رہا ہے، ایک خوفناک، دہشتناک خواب۔ کمرہ عدالت میں وکلا اور دوسرے حاضرین کی ایک دوسرے کو معنی خیز نگاہوں سے دیکھتی ہوئی آنکھیں، اسے یوں نظر آ رہی تھیں گویا دور افق خونیں پرستارے آپس میں ٹکرانے کے لیے تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ سپاہیوں کی حراست میں اس نے کمرے سےباہر نکلنے کے لیے قدم اٹھایا، دو تین گھنٹوں کے بعد اسے قید خانےکی آہنی سلاخوں میں پہنچا دیا گیا۔ ہتھکڑی اتار دی گئی۔ دوسرے قیدی تمسخر انگیز نظروں سے اسے دیکھنے لگے اور اپنی بھدی آواز میں اسے اشارے کر کرکے کچھ کہنے لگے۔ اس کے کانوں میں تمام آوازیں آتی تھیں مگر وہ کچھ بھی نہ سمجھ سکتا تھا۔ اس کی حالت دریا میں ڈوبتے ہوئے ایک ایسے انسان کی طرح تھی جس نے خود کو سہمگیں موجوں کے سپرد کر دیا ہو۔ آخرکار اسے سب سے آخری کوٹھڑی میں پہنچا دیا گیا۔ لوہے کی بڑی بڑی موٹی اور اونچی سلاخیں اس کے گرد کھڑی تھیں اور ایکطرف سلاخوں سے کچھ فاصلے پر سربفلک پہاڑوں کا سلسلہ جا رہا تھا۔ وہ متحیر نظروں سے سلاخوں کو دیکھنے لگا۔ ان پر ہاتھ رکھنے لگا۔ اس کی چاروں طرف آہنی سلاخیں تھیں، خوفناک اونچی اونچی آہنی صلاخیں اور بلند پہاڑ ان کے سوا اور کچھ بھی اسے نظر نہ آتا تھا۔
قیدی ایک متمول خاندان کا چشم و چراغ تھا۔ دولت مند والدین نے اس کی تعلیم و تربیت میں خاص کوشش سے کام لیا تھا۔ اس کا والد ایک بہت بڑے عہدے پر فائز تھا اور اسے امید تھی کہ اس کا اکلوتا لڑکا بھی اپنی علمی صلاحیتوں کی بناپر حکومت کی نگاہوں میں خاص امتیاز حاصل کرےگا اور شہباز کی محنت پسندی نے بھی کبھی اپنے والد کےارادوں کو تقویت دینے میں کوتاہی نہیں کی تھی۔ یکایک ملک کی دوپارٹیوں میں فساد ہو گیا۔ شہباز ایک پارٹی میں شامل ہو گیا اور اپنے ساتھیوں کی نظروں میں خاص وقعت حاصل کرنے کے لیے اس نےمخالف پارٹی کے لیڈر کو موت کےگھاٹ اتار دیا۔ یہ تھا جرم جس کی پاداش میں اسے تمام عمر کے لیے لوہے کی سلاخوں میں دنیا کی تمام مسرتوں سے محروم کرکے، عزیزوں اور دوستوں سے جدا کرکے لایا گیا۔ اسے اس جرم کی پاداش میں پھانسی ملتی مگر اس کے باپ کی خدمات آڑے آئیں اور پھانسی کی سزا حبس دوام میں تبدیل ہو گئی۔
وہ کوٹھڑی میں گرد آلود، پھٹی پرانی چٹائی پر بیٹھ گیا۔ دو تین منٹ کے بعد اٹھا۔ اپنی پیشانی سلاخوں سے لگاکر باہر پہاڑوں کو دیکھنے لگا۔ آہ! ان پہاڑوں کے پیچھے خوشیوں سے بھری ہوئی دنیا تھی، وقت آہستہ آہستہ گزرتا جا رہا تھا۔ یہاں آئے ہوئے اسے پورے سات گھنٹے گزر چکےتھے۔ ان سات گھنٹوں میں اسے کیا کیا محسوس ہوا؟ تپش، پریشانی، خوف، بےچینی، وہ بار بار بھاگنے کا ارادہ کرتا، مگرسلاخیں اس کے سامنے آ جاتیں اور وہ اس خوابِ پریشاں سے چونک اٹھتا۔ متعدد بار اس نے سلاخوں پر ہاتھ رکھے، اپنے ہاتھ سلاخوں سے باہر نکالے، کیوں؟ کیونکہ وہ ایسا کرنے پر مجبور تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اب اس کا سلاخوں، پہاڑوں کے پیچھے بسنے والی روشن، رنگین نشاط انگیز و دلچسپ دنیا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ وہ ہمیشہ کے لیے دنیا اور دنیا کے نظاروں سےمحروم کر دیا گیا ہے۔ تاہم غیرارادی طور پر ایسی حرکات اس سے سرزد ہو رہی تھیں۔ انسان بعض اوقات سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنے دل کو تسکین دینے کے لیے عجیب و غریب مضحکہ خیز حرکات کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
اب شام ہو چکی تھی۔ تاریکی کے دیوتا کے لمبے لمبے ناخن بڑھ بڑھ کر، روشنی کی قبا کے پرزے پرزے اڑا رہے تھے۔ ایک ایسے نو گرفتار پرندے کی طرح جو بیتاب ہوکر، قفس کی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر، زخمی ہو ہو کر مایوسانہ گر رہا ہو، اس کی آرزوئیں، امیدیں بھی آہنی سلاخوں سے تصادم کر کرکے مایوسیوں کی صورت میں تبدیل ہو رہی تھیں، جیسے جیتے تاریکی بڑھتی جارہی تھی اس کی پریشانی بھی ترقی پذیر! بار بار وہ سلاخوں کے پاس جاتا پھر واپس آ جاتا، آخر چٹائی پر لیٹ گیا۔ پھر بےقرارانہ اٹھا اور مضطربانہ چلنے لگا۔ اس کی پیشانی سلاخوں سے ٹکرائی اور وہ بیہوش ہوکر گرپڑا۔
(۲)
شہباز کی آنکھ کھل گئی۔ کوئی اس کے دائیں بازو کو زور زور سے ہلا رہا تھا۔ وہ لیٹے ہی لیٹے مبہوت و ششدر نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔ اس کے پاس ایک بوڑھا شخص تھا جو ہمدردی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ چند لمحوں تک تو وہ بالکل نہ سمجھ سکا کہ بات کیا ہے؟ وہ گھبراکر اٹھ بیٹھا۔ اس کی پیشانی سے خون نکل نکل کر، اس کی بھوؤں پر اور اس کے گالوں پر جم گیا تھا۔ جسم کے عضو عضو میں سوئیاں سی چبھ رہی تھیں۔ دماغ میں نشتر چبھتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے، آنکھیں درد سے بےقرار تھیں۔ اس نے آنکھیں کھولیں۔ مگر شدت درد سے بیقرار ہوکر پھر آنکھیں بند کر لیں۔ ساتھ کی کوٹھڑیوں میں شور و غل برپا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہوتا تھا گویا وہ ایک سنسان، لق و دق جنگل میں کھڑا ہے۔ آندھی کے تیز و تند جھونکے درختوں سے ٹکرا ٹکرا کر شور پیدا کر رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ شور تھمنے لگا۔ وہ دو منٹ تک آنکھیں بند کیے بیٹھا رہا۔ بوڑھے نے زور سے اس کا بامو کھینچا۔ شہباز نے دوبارہ آنکھیں کھولیں، ان سے پانی بہنے لگا۔ اب تکلیف کسی حدتک کم ہو گئی تھی۔ وہ متحرانہ بوڑھے کو دیکھنے لگا۔ آہستہ آہستہ گزشتہ واقعات اس کی آنکھوں کے سامنے پھرنے لگے۔ جج کی خوفناک آواز، ہتھکڑی۔۔۔ اس نے اپنے اردگرد دیکھا، وہی خوفناک لرزہ خیز سلاخیں کھڑی تھیں۔
’’لو یہ کھا لو!‘‘ بوڑھے نے اس کے پاس پڑی ہوئی، ایک چیز کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہا۔
اس نے بولنے کے لیے منھ کھولنا چاہا مگر ناکام رہا۔ اس کے دانتوں میں سخت درد محسوس ہونے لگا۔ حلق سوکھا ہوا تھا۔ اس نے زبان تالو پر پھیری تو کانٹے سے چبھتے ہوئے محسوس ہوئے۔
’’تمہارے سر پر زخم آیا ہے، رات کوگر پڑے ہوگے اور سر پھٹ گیا ہوگا؟‘‘ بوڑھے نے کہانا شروع کیا، ’’میں جمعدار سے جاکر کہتا ہوں۔‘‘
بوڑھا یہ کہہ کر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد شہباز دو تین منٹ تک گم سم بیٹھا رہا۔ پھر کھڑا ہو گیا اور سلاخوں کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ اس کی انگلیاں بےاختیار شبنم آلود سلاخوں سے مس کرنے لگیں۔ سامنے سورج پہاڑ کے عقب سے طلوع ہو رہا تھا۔ ہوا کے جھونکے اس کی پیشانی کو مس کرنےلگے۔ اب اس کے ہوش و حواس کسی حد تک قائم ہو گئے تھے۔ وہ آدھ گھنٹہ تک ایک ہی جگہ پر اپنی پیشانی ٹھنڈی سلاخوں سے لگائے، ہاتھوں کو باہر نکال کر۔۔۔ کبھی آنکھیں بند کرکے اور کبھی انھیں کھول کر کھڑا رہا۔ معلوم نہیں وہ کب تک کھڑا رہتا کہ ایک کرخت آواز اس کے کان میں آئی۔ اس نے مڑکر دیکھا جیل خانے کا سیاہ فام داروغہ اس کے پاس کھڑا، استہزا انگیز نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا اور اسکی بائیں جانب وہی بوڑھا تھا۔
’’گرپڑے تھے رات کو؟‘‘ جمعدار نے شہباز کو مخاطب کرکے کہا۔
’’سرکار! رات کو اندھیرےمیں گرپڑا ہوگا۔‘‘ بوڑھے نےکہا۔
شہباز نے پہلی بار اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ وہاں اسے کوئی کھردری سی چیز محسوس ہوئی۔ وہ خاموش رہا۔
’’دیکھو ناجو!‘‘ جمعدار نے بوڑھے کو دیکھتے ہوئے کہنا شروع کیا، ’’جب یہ چاول کھالے تو اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔
’’تمہاری زبان سے کوئی حرف نہیں نکلتا۔ بھائی! تم نے تمام عمر یہاں رہنا ہے۔‘‘ بوڑھے ناجو نے جمعدار کے جانے کے بعد کہا۔ ’جانو‘ کے یہ الفاظ پتھر بن کر اس کے دماغ پر گرے۔ تمام عمر یہاں رہنا ہے۔ اس قید خانے میں، لوہے کی سلاخوں میں تمام عمر، اس کے دماغ میں خیال پیدا ہوا۔ ایک بار پھر گزشتہ واقعات کانقشہ اس کی نگاہوں کے سامنے پھرنے لگا۔
’’میں‘‘ اس نے بصد مشکل کہا۔
’’بولو کیا چاہتے ہو؟‘‘
شہباز نے اپنا سر سلاخ کے ساتھ لگا دیا۔
ناجو نے وہی چیز جو وہ پہلے لایا تھا، اس کے سامنے رکھ دی۔ یہ ایک مٹی کی تھالی تھی جس میں چاول تھے اور ان کے اوپر کراہت انگیز دال۔ اس نے پہلی بار چاول کی تھالی کو دیکھا اور پھر مستفسرانہ بوڑھے کو دیکھنے لگا۔
’’کھاتے کیوں نہیں ہو بھائی!‘‘ ناجو نے اس کے شانو پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، ’’اب نہیں کھانا چاہتے ہو تو چلو میرے ساتھ، مرہم پٹی کراکر کھا لینا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے شہباز کا ہاتھ پکڑا اور چلنے لگا۔ آدھ گھنٹہ کے بعد شہباز پھر اپنی کوٹھڑی میں تھا۔ اس کی پیشانی پر پٹی بندھی تھی، وہ چٹائی پر بیٹھ گیا۔ تھالی کو اٹھایا اور لقمہ میں منہ میں ڈالا۔ کچھ حصہ کھانے کے بعد اس نے تھالی کو زمین پر رکھ دیا۔ اس کے دانتوں میں سخت درد ہو رہا تھا۔ پانی کے چند گھونٹ پیے۔ آج کا دن زندگی کے گزشتہ واقعات کے تصورات میں گزر گیا۔ رات اس نے بہت بےچینی سے کاٹی۔ صبح کے وقت اس کے سامنے چاول کی تھالی رکھی تھی۔ اب کے اس نے تمام چاول کھائے اور گزشتہ واقعات زندگی اس کی آنکھوں میں پھرنے لگے، مگر آج ایک واقعے کا اضافہ تھا اور وہ ایک خوبصورت لڑکی سے عشق تھا۔ یہ لڑکی کون تھی؟ حمیری، گیسودراز، آہو چشم حمری۔ حمری اس کا حقیقی نام نہیں تھا، مگر شہباز اسے پیار سے حمری کہتا تھا۔ حمری سے اس کی ملاقاتیں۔۔۔ کئی بار ہوئیں۔ عہد و پیمان ہوئے، مگر بدقسمتی سے یہ حسین دوشیزہ تپ دق میں مبتلا ہوکر فوت ہو گئی۔ اسے سخت صدمہ پہنچا مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کا زخم مندمل ہوکر فوت ہو گئی۔ اسے سخت صدمہ پہنچا مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کازخم مندمل ہو گیا اور چار پانچ سال کے بعد اس واقعے کو قریباً قریباً وہ بھول گیا۔ آج اس آہنیں سلاخوں والے کمرے میں اس کی یاد ازمانہ محبت کے خوشگوار لمحات کی نشاط زائیوں کے آغوش میں کروٹیں لینے لگی۔
شام کی ظلمت پھیل رہی تھی۔ ناجو کھانا لے کر آیا۔ وہ خاموشی سے کھانا کھانے لگا۔
(۳)
شہباز کو یہاں آئے ہوئے چھ مہینے گزر چکے تھے۔ وہ خوفناک آہنیں سلاخوں میں ایک سو اسی دناور ایک سو اسی راتیں گزار چکا تھا۔ وہ رات دن گم سم، خاموش افسردہ پڑا رہتا۔ اس کا دل کوئی کام کرنے کو نہیں چاہتا تھا۔ مگر بحیثیت ایک قیدی ہونے کے وہ مشقت کرنے پر مجبور تھا۔ اس کے ذمے کتابوں کی نقل تھی۔ صبح جب آفتاب کی شعاع اولیں سامنے کے پہاڑ کی چوٹی کو چومتی۔ وہ اپنے فرض کے ادا کرنے میں مصروف ہو جاتا۔ جمعدار اور قیدخانے کے دیگر منتظم اس سےخوش تھے۔ کتابوں کے نقل کرنے میں اس کا دل بالکل نہیں لگتا تھا۔ لیکن چند دن سے وہ اس میں ایک قسم کی لذت محسوس کر رہا تھا اور اس میں ایک اور لذت بھی شامل ہو گئی تھی اور وہ بوڑھے ناجو کا انتظار تھا۔ وہ پہروں دروازے کی جانب دیکھتا رہتا اور جب ناجو آتا تو اس کے دل میں خوشی کی لہر دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی اور اس کے جانے کے بعد ایک قسم کی خلش شہباز کے دل پر طاری ہو جاتی، وہ خود نہیں سمجھ سکتا تھا کہ وہ ناجو کے لیے اتنا بیقرار کیوں ہے؟ ناجو مسکراکر اسے کہتا، ’’مجھے یہاں کام کرتے ہوئے ۲۵ سال ہو گئے ہیں۔ لیکن تمہارے ایسا انوکھا قیدی میں نے آج تک نہیں دیکھا تھا۔‘‘
شہباز اس کے جواب میں مسکرا دیتا۔
شہباز اسے اپنی زندگی کے گزشتہ واقعات مزے لے لے کر بتاتا اور وہ اسے اپنے حالات۔ دن گزرتے جا رہے تھے۔ وہ عمر کے ساڑھے چارسال یہاں بسر کر چکا تھا، ساڑھے چار سال کا لمبا عرصہ، قیدخانے کی آہنی سلاخوں میں، ج بھی وہ حسب معمول ’ناجو‘ کا انتظار کر رہا تھا۔ دروازے پر فقل کھلنے کی آواز آئی، ناجو آیا اور اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا لڑکا بھی آیا جس نے ہاتھوں میں بلی کابچہ پکڑا ہوا تھا۔
’’یہ میرا پوتا ہے۔‘‘ ناجو نے لڑکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’میں یہاں سے بدل دیا گیا ہوں۔‘‘
شہباز کے چہرے پر مایوسی برسنے لگی۔
تم نہیں آیا کرو گے ناجو؟
’’نہیں کوئی اور شخص آیا کرےگا۔‘‘
’’مگر تمہیں آنا چاہیے ناجو۔‘‘
’’یہ قید خانہ ہے بھائی، یہاں ہماری یا تمہاری مرضی نہیں چل سکتی۔‘‘ ناجو نے سرہلاتے ہوئے کہا۔
شہباز اٹھ بیٹھا۔ اس نے لڑکے کو دیکھا۔ پھر معاً اس کی نظر بلی کے بچے پر جا پڑی۔
’’لڑکے! یہ مجھے دو۔‘‘ شہباز نے بچے کو لینے کے واسطے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’یہ میری مانوکا بچہ ہے۔‘‘ لڑکے نے معصومانہ انداز میں کہا۔
’’یہ مجھے دیدونا!‘‘
’’نہیں میری مانو روئےگی، ہے نا دادا؟‘‘ اس نےبوڑھے ناجو کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’دیدوسلو! تم اس بچے کو کیا کروگے۔ بلی جو تمہارے پاس ہے۔‘‘ ناجو نے کہا۔
’’مانو روئےگی تو نہیں۔‘‘
’’روئے گی تو ضرور، مگر ایک دو دن کے بعد چپ ہو جائےگی۔‘‘ شہباز نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دیا۔
لڑکے نےبچہ شہباز کی گود میں دے دیا اور دونوں چند منٹ ٹھہر کر چلے گئے۔
شہباز گود میں بچے کو اٹھائے، سلاخوں کے پاس کھڑا، اونچے اونچے ہیبت ناک پہاڑوں کو دیکھنے لگا۔ آندھی چل رہی تھی، درختوں کی ٹہنیاں آپس میں ٹکرا رہی تھیں۔ وہ اپنی بوسیدہ چٹائی پر بیٹھ گیا اور چاول اس کے منہ میں ڈالنے لگا۔ وہ بار بار باریک کمزور آواز میں، میاؤں میاؤں کرتا اور مڑ مڑ کر دروازے کو دیکھتا۔ تھوڑی دےر کے بعد بارش ہونےلگی۔۔۔ چاروں طرف ظلمت چھاگئی۔ بارش کے موٹے موٹے قطرے سلاخوں سے ٹکراٹکرا کراندر آ رہے تھے۔ شدت کی سردی تھی۔ قیدی نےبچے کوگود میں چھپا لیا۔
وقت برابر گزرتا جا رہا تھا۔ شہباز کا کھانا اب ایک درشت مزاج شخصیت لایا کرتا تھا۔ جس نےشہباز کے ساتھ کبھی بولنےکی کوشش نہ کی۔ بچہ اب بلی کی صورت میں تبدیل ہو گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی تمام امیدوں کا مرکز یہی بلی تھی، وہ بلی کو، جسے وہ پیار سے اپنی محبوبہ کےنام ’’حمری‘‘ کہا کرتا تھا۔ بیحد چاہتا تھا۔ یہ بے زبان جانور، یہ ننھی سی جان، یہ سفید بالوں میں لپٹی ہوئی معصوم روح اس کی غم خوار، ہمدرد اور انیس تنہائی تھی وہ شدت محبت سے اسے اپنے سینے کے ساتھ چمٹا لیتا تھا۔ اسے حمری کی نیلگوں آنھوں میں محبت اور ہمدردی کی ایک دنیا آباد نظر آتی تھی، وہ اس کی ہر حال میں شریک غم تھی۔ جب وہ غمگین ہوتا تو وہ بھی غمگین صورت بنا لیتی، مایوسی سے اس کے چہرے کو دیکھتی، اس کی ٹانگوں سے لپٹ جاتی۔ اچھل کر گود میں بیٹھ جاتی، غمگین قیدی کا رنج دور ہو جاتا اور وہ خوشی خوشی اس کے ساتھ کھیلنے لگتا۔ یونہی کافی عرصہ گزر گیا۔
شہباز کی طبیعت چند دن سے علیل تھی۔ اسے کھانسی آ رہی تھی۔ ’حمری‘ پژمردہ سی ہو گئی تھی، اس کی تمام شوخی جاتی رہی تھی، قیدی لیٹے ہوئے، سینے پر اسے بٹھاکر اس سے باتیں کرتا۔ اسے اپنے واقعات زندگی بتاتا، اسے اپنا واقعہ عشق سناتا اور پھر جب ’حمری‘ کی وفات کا ذکر کرتا تو اس کی آنکھوں سےآنسو بہنے لگتے۔ معصوم حمری بھی اس کے سینے پر اپنا سر رکھ دیتی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا اس کے ننھے سے دل کو سخت صدمہ پہنچا ہے۔ دو دن سے شہباز کی حالت بہت بگڑ چکی تھی، کھانسی کے ساتھ خون بھی آ رہا تھا۔ اسے معلوم ہو رہا تھا کہ اس کا آخری وقت آپہنچا ہے۔ ابھی رات نہیں آئی تھی۔ مگر چاروں طرف تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔ بادل گرج رہا تھا۔ بجلی چمک رہی تھی۔ قیدی نے اس چمک میں حمری کو دیکھا۔ اس کا سر جھکا ہوا تھا۔ اس نے اپنے بازو حمری کے گرد ڈال دیے اور کمزور آواز میں کہنے لگا۔
’’میری حمری! میں مر رہا ہوں۔۔۔ حمری۔۔۔! میری حمری!‘‘ وہ ذرا ٹھہرا، سینے میں سخت درد ہو رہا تھا۔۔۔ ’’میں مرجاؤں گا تو تو مجھے بھول جائےگی نا؟ حمری! ننھی حمری!‘‘
بدنصیب قیدی کی آواز آہستہ آہستہ رکنے لگی اور ایک آہ کے ساتھ اس کی آواز ہمیشہ کے لیے رک گئی۔ قیدخانے کی مختصر سی فضا میں بلی کی دردناک آواز گونجنے لگی۔ وہ کبھی قیدی کے سینے پر سر رکھتی۔ کبھی اس کے بازوؤں کو چھوتی، کبھی اس کی پیشانی پر منہ رکھ دیتی، ہر طرف تاریکی تھی۔ بارش زور شور سے ہو رہی تھی۔ بلی کی دردناک آواز گونجتی رہی۔۔۔، آہ اس معصوم جانور نے تمام رات اپنے مالک کا ماتم کیا۔ صبح جمعدار جیل خانے کے چندملازموں کے ساتھ شہباز کے کمرے میں آیا۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ مرا پڑا ہے اور اس کے سینے پر بلی لیٹی ہے۔ جمعدار نے بلی کو اٹھایا۔ وہ بے حق و حرکت تھی۔۔۔ بےحس و حرکت۔۔۔ مردہ!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.