Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وہ طریقہ تو بتا دو تمہیں چاہیں کیونکر؟

حجاب امتیاز علی

وہ طریقہ تو بتا دو تمہیں چاہیں کیونکر؟

حجاب امتیاز علی

MORE BYحجاب امتیاز علی

    کہانی کی کہانی

    یہ نوجوان محبت کی داستان ہے۔ ایک نوجوان ایک لڑکی سے بے ہناہ محبت کرتا ہے لیکن لڑکی اس کے اظہار محبت کے ہر طریقے کو دقیانوسی، پرانا اور بور کہتی رہتی ہے۔ پھر یکبارگی جب نوجوان اسے دھمکی دیتا ہوا اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے تو لڑکی مان جاتی ہے کہ اس میں محبت کا اظہار کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

    بہار کی ایک سنہری صبح میں صوفی اطمینان سے بیٹھی نفسیاتی مباحثہ کی ایک کتاب کے دلائل کو فی کے گھونٹوں کی امداد سے دماغ میں اتارنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اچانک ریحانی اپنے کالج کا بلیز پہنے ہانپتے ہوئے دریچے میں سے اندر کمرے میں کود پڑا۔

    ’’تم۔۔۔!‘‘

    ’’میں!‘‘

    صوفی، ’’چوروں کی شکل بنائے ادھر ادھر کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘

    ریحانی، ’’ش ش ش۔۔۔! دادا ابا کا ڈر ہے۔ موجود تو نہیں گھر میں؟‘‘

    صوفی، (حقارت سے) ’’دادا ابا سے ڈرنا کس قدر دقیانوسی بات ہے۔ مزید برآں مجھے بزدلی اور بزدلوں سے اتنی نفرت ہے کہ کسی اور چیز سے نہیں۔‘‘

    ریحانی، ’’میری جگہ کوئی شیر دل بھی ہوتا تو ایسے موقع پر دادا ابا سے ڈرے بغیر نہ رہ سکتا۔ جانتی بھی ہو ان دنوں سالانہ امتحان ہورے ہیں اور میں ایسے موقع پر کالج سے بھاگ کر یہاں آپہنچا ہوں۔‘‘

    صوفی، (بے پروائی سے) ’’کوئی کتاب لینے آئے ہو؟‘‘

    ریحانی، ’’اب جان بوجھ کر انجان نہ بنو میری جان۔‘‘

    صوفی، ’’یہ طریق خطاب دقیانوسی ہونے کے علاوہ بہت ارزاں بھی ہے ریحانی۔ خیر جس غرض سے بھی آئے ہو میری بلا سے۔ میرے مطالعہ میں خلل اندازی نہ کرو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کتاب میں غرق ہوگئی۔

    ریحانی، ’’اتنا ظلم؟ آہ کس قدر حسین معلوم ہورہی ہو کتاب پر جھکے ہوئے! جیسے یونانیوں کی علم کی دیوی! میں کالج سے صرف اس لیے آیا ہو تاکہ تم پر ثابت کردوں کہ مجھے تم سے کس قدر محبت ہے۔‘‘ یہ کہہ کرر یحانی ایک ڈمپی پر بیٹھ کر صوفی کے چہرے کو تکنے لگا مگر صوفی کتاب میں غرق تھی۔ اس نے سنا ہی نہیں۔

    ریحانی، (دوبارہ) ’’تاکہ تم پر ثابت کردوں کہ مجھے تم سے کس قدر محبت ہے۔‘‘

    صوفی، (کتاب سے نظر اٹھائے بغیر) ’’کچھ کہا تم نے؟‘‘

    ریحانی، ’’میں نے کہا مجھے تم سے محبت ہے۔‘‘

    صوفی، ’’پھر۔۔۔؟ جملہ ختم بھی تو کردو۔‘‘

    ریحانی، ’’اس سے زیادہ مکمل جملہ اور کیا ہوگا بھلا؟ مجھے تم سے محبت ہے۔‘‘

    صوفی، ’’کتنی دقیانوسی باتیں کرتے ہو۔ پچھلی صدی کی مظلوم عورتیں شاید اس قسم کی باتوں سے خوش ہوجاتی ہوں۔ اب ایسی باتوں کا زمانہ لد چکا۔ میں تم سے پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ پچھلی صدی کی سی باتیں نہ کیا کرو۔‘‘

    ریحانی، ’’پچھلی صدی کی سی۔۔۔؟آخر محبت جیسی پچھلی صدی میں ہوتی ہوگی ویسی ہی اب ہوتی ہے۔ ا سے کیا پھپھوندی لگ سکتی ہے اور اس میں کیا فرق پڑسکتا ہے؟ مجھے تم سے محبت ہے صوفی۔‘‘

    صوفی، (حقارت سے) ’’کند ذہن! محبت عملی ہونا چاہئے عملی نہ کہ لفظی!‘‘

    ریحانی، (بے تابا نہ بڑھ کر) ’’یعنی! یعنی! تمہیں اپنے بازوؤں میں؟‘‘

    صوفی، (ناک پر رومال رکھ کر) ’’بات مناسب فاصلہ پر رہ کر کرنی چاہئے۔ قریب ہی آکر کچھ کہنا ہو تو بات کرتے وقت منہ دوسری طرف پھیر لینا چاہے۔ خصوصیت سے ایسی صورت میں جب گزشتہ مہینے انفلونزہ ہوچکا ہو۔ تم نے پڑھا ہوگا جراثیم نو فٹ تک اثر کرسکتے ہیں اور انفلونزا کے جراثیم عشق کے جراثیم کو مار ڈالتے ہیں۔تو کیا کہہ رہے تھے تم؟‘‘

    ریحانی، (منہ دوسری طرف پھیر کر) ’’یہی کہ مجھے تم سے عشق ہے۔‘‘

    صوفی، ’’یہ اور بھی دقیانوسی بات ہے۔ محبت کہنا بہت کافی تھا۔ عشق سے خواہ مخواہ دماغی امراض کا خیال آجاتا ہے۔‘‘

    ریحانی، ’’تو یونہی سہی۔ مجھے تم سے محبت ہے۔‘‘

    صوفی، ’’یہ میں چار سال سے سنتی آرہی ہوں۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اظہار محبت سے پہلے اپنے اوپر ایک نگاہ تنقید ڈالنا بے حد فائدہ مند ہوتا ہے۔‘‘

    ریحانی، (نکٹائی کی گرہ درست کرتے ہوئے) ’’میں نے کل ہی شام سنیما جانے سے پہلے ڈالی تھی۔‘‘

    صوفی، ’’میرا مطلب تمہاری عنابی نکٹائی کی یاد دلانا نہ تھا۔ اس رنگ کی ٹائی تو ہر ایرا غیرا لگاسکتا ہے۔ تم نے ہی کون سا تیر مار لیا؟ میرا مطلب تھا عاشق بننے سے پہلے تمہیں وہ باتیں اپنے میں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئیں جن پر عورتیں فدا ہوں۔‘‘

    ریحانی، ’’اس سے زیادہ تم مجھ سے اور کیا چاہتی ہو صوفی۔ میں تمہارا زر خرید غلام بن چکا ہوں۔‘‘

    صوفی، ’’زر خرید سے محبت کرنا احساس کمتری کی دلیل ہے جو پچھلی صدی کی عورتوں میں تھی۔ شکر ہے یہ مرض مجھ میں نہیں ہے۔‘‘

    ریحانی، ’’ٹھیک کہتی ہو۔ گزشتہ ہفتے ڈاکٹر نجم کی محکومی اور فرماں برداری ہی کے باعث ڈاکٹر اور بیگم نجم میں قانونی جدائی ہوتے ہوتے رہ گئی۔‘‘

    صوفی، ’’یہ ہوتے ہوتے رہ جانا اور بھی دقیانوسی بات ہے۔ ہوجانا زیادہ عملی پہلو لیے ہوئے ہے اور زندگی عمل کا نام ہے۔‘‘

    ریحانی، ’’تو میں کہہ رہا تھا کہ تم جو حکم بھی دوگی میں اسی کے مطابق بن جاؤں گا اور وہی حرکتیں کروں گا جن کی تم اجازت دوگی ۔ تم بتاؤ مجھے کیا کرنا اور کیا نہیں کرنا چاہئے؟‘‘

    صوفی، ’’تمہاری یہی باتیں مجھے زہر لگتی ہیں۔ آدمی میں ۔۔۔۔میرا مطلب ہے عاشق میں طبع زاد باتیں ہونی چاہئیں نہ کہ مانگے تانگے کی،

    شعور سیکھ تجھے امتیاز عشق کہاں

    کہاں تو لذت سوزو گداز عشق کہاں

    ریحانی، ’’طبع زاد دباتیں؟ تو میرے خیال میں مجھے سب سے پہلے تمہیں اس بات کا یقین دلانا چاہئے کہ میں نے آج تک کسی دوسری لڑکی سے محبت نہیں کی۔‘‘

    صوفی، ’’خطرناک طور پر دقیانوسی بات ہے! مزید برآں میں نے یہ کب کہا تھا کہ تم بے تعلق باتیں شروع کردو؟‘‘

    ریحانی، ’’یہ بے تعلق بات تھی؟ تو پھر میں کیا کہہ کر تمہیں اپنی پہلی گہری اور اٹل محبت کا یقین دلاؤں؟ اچھا یاد آگیا۔۔۔یوں فرض کرو کہ حسین مئی کی ایک دلربا چمکیلی صبح تم محو گلگشت ہو اور زرد لیموں کی خمیدہ ٹہنی پر سے ایک بلبل ناشاد اچانک تم پر حملہ آور ہوجائے اور تمہاری ایک سرمگیں نرگسی آنکھ اس ظالم بلبل کی چونچ کی نذر ہوجائے تو کیا تم سمجھتی ہو کہ میری محبت میں کسی قسم کا فرق پڑ جائے گا؟‘‘

    صوفی، ’’اصولاً پڑجانا چاہئے۔‘‘

    ریحانی، (فخریہ) ’’غلط! میری جان! ایک تو کیا تمہاری دونوں آنکھیں پٹ ہوجائیں اور تمہاری ستون جیسی ناک کی نوک پر کسی تیز چاقو کا بدنما داغ بھی پڑ جائے تب بھی میری محبت میں سرمو فرق نہیں پڑے گا۔‘‘

    صوفی، (حیران ہوکر) ’’عجیب ہے! کیا سچ کہتے ہو؟‘‘

    ریحانی، ’’بالکل سچ۔‘‘

    صوفی، ’’ہوگا لیکن اگر اس پر یقین کر بھی لیا جائے تو اس سے صرف تمہاری بد مذاقی پر روشنی پڑتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ مذاقِ حسن تم کو چھوکر بھی نہیں گیا۔‘‘

    ریحانی، ’’تو آخر میں کیا کہوں؟ کیا کہہ کر تمہیں اپنی محبت کا قائل کروں؟ یہ کہہ کر کہ اگر تم زہر کا پیالہ بھی مجھے دو تو میں اسے امرت سمجھ کر پی جاؤں گا؟‘‘

    صوفی، ’’پی جاؤگے؟‘‘

    ریحانی، ’’یقیناً اور ہنستے ہوئے۔‘‘

    صوفی، ’’کس قدر بے وقوف ہو! جی چاہتا ہے کہ تمہیں واقعی ایک ہاتھ سے زہر کا پیالہ دوں اور دوسرے سے ایک تھپڑ رسید۔۔۔‘‘ چشم زدن میں ریحانی کا چہرہ چقندر کی طرح سرخ ہوگیا۔

    ریحانی، (چلاکر) ’’کیا کہا تھپڑ؟ ادھر تو آجو اٹھاکر دریچی سے باہر سمندر میں نہ پھینک دیا ہو اور اگر لہروں میں سے ابھر آئے تو کیواڑ توڑ کر ابھری ہوئی پردھڑ سے نہ دے مارا ہو! ایک گھنٹے سے بک رہا ہوں کہ مجھے محبت ہے۔ محبت ہے۔ سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتی! خچر کہیں کی! ٹھہر تو سہی تو!‘‘

    صوفی، (مسرت اور خوف کی تیز چیخ کے ساتھ) ’’میری جان ریحانی! تم میں محبت کیے جانے کی صلاحیت ہے! تم قابل پرستش ہو! تم میں جدت ہے! تم ماڈرن ہو‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے