تین موٹی عورتیں
کہانی کی کہانی
طبقۂ اشرافیہ کی عورتوں کی دلچسپیوں، ان کے مشاغل اور ان کی مصروفیات کا عمدہ تذکرہ پر مبنی عمدہ کہانی ہے۔ اس کہانی میں تین ایسی عورتیں ایک ساتھ جمع ہیں جن کی باہمی دوستی کی وجہ صرف ان کا موٹاپا ہے۔ وہ سال میں ایک مہینے کے لیے موٹاپا کم کرنے کی غرض سے کربساد جاتی ہیں لیکن وہاں بھی وہ ایک دوسرے کی حرص میں مرغن غذاؤں سے پرہیز نہیں کرتیں اور برسہا برس گزر جانے کے بعد بھی ان کے موٹاپے میں کوئی فرق نہیں آتا۔
ایک کا نام مسز رچمین اور دوسری کا نام مسز ستلف تھا۔ ایک بیوہ تھی تو دوسری دو شوہروں کو طلاق دے چکی تھی۔ تیسری کا نام مس ہیکن تھا۔ وہ ابھی ناکتخداتھی۔
ان تینوں کی عمر چالیس کے لگ بھگ تھی۔ اور زندگی کے دن مزے سے کٹ رہے تھے۔ مسز ستلف کے خدوخال موٹاپے کی وجہ سے بھدے پڑ گئے تھے۔ اس کی بانہیں کندھے اور کولہے بھاری معلوم ہوتے تھے۔ لیکن اس ادھیڑ عمر میں بھی وہ بن سنور کر رہتی تھی۔ وہ نیلا لباس صرف اس لیے پہنتی تھی کہ اس کی آنکھوں کی چمک نمایاں ہو اور بناوٹی طریقوں سے اس نے اپنے بالوں کی خوبصورتی بھی قائم رکھی تھی۔ اسے مسز رچمین اور مس ہیکن اس لیے پسند تھیں کہ وہ دونوں اس کی نسبت موٹی تھیں۔ اور چونکہ وہ عمر میں بھی ان سے قدرے چھوٹی تھی اس لیے وہ اسے اپنی بچی کی طرح خیال کرتیں۔ یہ کوئی ناپسندیدہ بات نہ تھی۔ وہ دونوں خوش طبیعت تھیں۔ اکثر تفریحاً اس کے ہونے والے منگیتر کا ذکر چھیڑ دیتیں۔ وہ خود تو اس عشق و محبت کی الجھن سے کوسوں دور تھیں۔ لیکن اس معاملے میں انھیں مسز ستلف سے پور ی ہمدردی تھی۔ انھیں یقین تھا کہ وہ دنوں ہی میں کوئی نیا گل کھلانے والی ہے۔
وہ اس کے لیے کسی اچھے بر کی تلاش میں تھیں۔ کوئی پنشن یافتہ ایڈمیرل جو گولف بھی کھیلناجانتا ہو یا کوئی ایسا رنڈوا جو گھر بار کے جنجال سے آزاد ہو۔ بہرحال یہ ضروری تھا کہ اس کی آمدنی معقول ہو۔ وہ بڑے غور سے ان کی باتیں سنتی اور دل ہی دل میں ہنس دیتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک بار پھر شادی کا تجربہ کرنا چاہتی تھی۔ لیکن شوہر کے انتخاب میں اس کا مزاج مختلف تھا۔ اسے کسی سیاہ رنگ چھریرے بدن کے اطالوی کی چاہت تھی، جس کی آنکھیں حد درجہ چمکیلی ہوں یا کوئی ہسپانوی جو اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتا ہواور اس کی عمر کسی صورت میں تیس برس سے ایک دن بھی زیادہ نہ ہو۔
یہ سچ ہے کہ تینوں ایک دوسری پر جان دیتی تھیں اور ان کی آپس میں محبت کی وجہ صرف موٹاپا تھا۔ اور متواتر اکٹھے برج کھیلنے سے دوستی اور گہری ہوگئی تھی۔ ان کی پہلی ملاقات کر بساد میں ہوئی، جہاں یہ ایک ہی ہوٹل میں ٹھہری تھیں اور ایک ڈاکٹر کے زیرِعلاج تھیں۔مسز رچمین خوش شکل بھی تھی۔ اس کی نشیلی آنکھیں، کھردرے گال اور رنگین ہونٹ بہت ہی دلفریب اور دلکش تھے۔ اسے ہر وقت کھانے پینے کی فکر رہتی۔ مکھن، بالائی، آلو اورچربی ملی پڈنگ اس کا من بھاتا کھانا تھا۔ وہ سال میں گیارہ مہینے توجی بھر کر کافی کھاتی اور پھر علاج کے ذریعے دبلی ہونے کے لیے ایک مہینہ کر بساد چلی جاتی۔ وہ دن بہ دن پھولتی جارہی تھی۔ اس کا عقیدہ تھا کہ اگر اسے من مرضی کی خوراک کھانے کو نہ ملے تو زندگی بے کار ہے۔ مگر اس کے ڈاکٹروں کو اس بات سے اتفاق نہ تھا۔
مسز رچمین کا خیال تھا کہ ڈاکٹر کچھ ایسا قابل نہیں ورنہ کیا عجب تھا کہ وہ ذرا دبلی ہو جاتی۔ اس نے مس ہیکن سے اس بات کا ذکر کیا۔ وہ بس ایک قہقہہ لگا کر خاموشی ہوگئی۔ اس کی آواز بہت گہری تھی اور چپٹا سا چہرہ! اس کی دونوں آنکھوں میں بلی کی آنکھوں ایسی چمک تھی۔ اسے مردانہ پوشاک زیادہ پسند تھی اور صرف اس کی خوش مزاجی کی وجہ سے تینوں سہلیاں ایک دوسری سے بہت قریب ہوگئی تھیں۔ وہ تینوں ایک ہی وقت پر کھانا کھاتیں، اکٹھی سیر کو جاتیں اور ٹینس کھیلنے کے وقت بھی ایک دوسری سے کبھی جدا نہ ہوتیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنا وزن کرتیں تو اپنے موٹاپے میں کوئی فرق نہ پاکر اداس سی ہوجاتیں۔
مس ہیکن کو یہ بات بہت ہی ناگوار گزری کہ بیئرس رچمین طبی علاج سے اپنا وزن بیس پاؤنڈ گھٹا کر بد پرہیزی کی وجہ سے دنوں میں پھر اسی طرح موٹی ہوجائے اور اس کے کہنے پر تینوں کربساد چھوڑ کر چند ہفتوں کے لیے کہیں اور چلی جائیں۔ بیئرس کمزور طبیعت تھی اور اسے ایک ایسے انسان کی ضرورت تھی جو اسے بداعتدالی سے بچا سکے۔ اسے یقین تھا کہ اب اسے ورزش کرنے کا خوب موقع ملے گا۔ نہ صرف یہی بلکہ وہاں گھر میں اپنی باورچن رکھ لینے سے اسے چربی ملی چیزیں کھانے سے نجات مل جائے گی۔ اور کوئی وجہ نہ تھی کہ ان سب کا وزن دنوں میں کم ہو جائے۔ مسزستلف اپنے گھر میں انوکھے ارادے باندھ رہی تھی۔ اسے یقین تھا کہ وہاں دنوں میں اس کا رنگ نکھر جائے گا۔ اور اپنے لیے کوئی چھیلا بانکا اطالوی فرانسیسی یا انگریز تلاش کرے گی۔ وہ تینوں ہفتہ میں صرف دو دن ابلے ہوئے انڈے اور ٹماٹر کھاتیں اور ہر صبح اٹھ کر اپنا وزن کرتیں۔ مسز ستلف کا وزن ابھی صرف ۱۵۴ پونڈ رہ گیا اور وہ تو گویا اپنے آپ کو ایک جواں سال لڑکی سمجھنے لگی۔ مسز ہیکن اور مسز رچمین کے موٹاپے میں بھی کافی فرق پڑ گیا۔ وہ تینوں مطمئن نظر آتی تھیں۔ لیکن برج کھیلنے کے لیے ایک چوتھے کھلاڑی کی ضرورت نے انھیں ایک حد تک پریشان سا کردیا۔
وہ صبح سویرے ڈھیلے ڈھالے پاجامے پہنے چبوترے پر بیٹھی دودھ میں کھانڈ ملائے بغیر چائے پی رہی تھیں اور ساتھ ساتھ ڈاکٹر برٹ کے تیار کیے ہوئے بسکٹ بھی کھا رہی تھیں، جن کے متعلق یہ گارنٹی دی گئی تھی کہ وہ چربی سے بالکل پاک ہیں۔ ناشتے کے وقت مس ہیکن نے اتفاقاً لینا کا ذکر کیا۔
’’وہ کون ہے؟‘‘ مسز ستلف نے پوچھا۔
’’وہ میرے اس چچیرے بھائی کی بیوی ہے، جس کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ وہ گزشتہ دنوں اعصاب شکنی کا شکار رہی۔ کیوں نہ اسے دو ہفتے کے لیے یہاں بلا لیں؟‘‘
’’کیاوہ برج کھیلنا جانتی ہے۔۔۔؟‘‘
’’کیوں نہیں۔۔۔ اس کے یہاں آنے سے کسی دوسرے کی ضرورت بھی نہ رہے گی۔‘‘ بات طے ہوگئی۔۔۔ لینا کو بلانے کے لیے تار بھیجا گیا اور وہ تیسرے دن آپہنچی۔۔۔ مس ہیکن اسے اسٹیشن پر لینے گئی۔ شوہر کی موت کی وجہ سے لینا کے چہرےپرغم کےآثار نمایاں تھے۔ مس ہیکن نے اسے دو سال سے نہیں دیکھا تھا۔ اس لیے بڑی گرم جوشی سے اس کا منہ چوم لیا۔۔۔ ’’تم بہت دبلی ہو۔‘‘ اس نے کہا۔
لینا مسکرا دی۔
’’گزشتہ دنوں میری طبیعت علیل رہی۔ اور اب تو وزن بھی بہت کم ہوگیا ہے۔‘‘
مس ہیکن نے ایک سرد آہ بھری، لیکن یہ ظاہر نہ ہوسکا کہ اس کی وجہ رشک تھی یا لینا سے ہمدردی۔ وہ اسے ایک پرفضا ہوٹل میں لے گئی۔ جہاں دونوں سہیلیوں سے اس کا تعارف کرایا گیا۔ اس کی بیکسی دیکھ کر مسز رچمین کا دل بھر آیااور اس کے چہرے کی زردی نے مسز ستلف کو بھی بہت متاثر کیا۔ ہوٹل میں تھوڑی دیر تفریح کے بعد وہ لنچ کے لیے اپنی قیام گاہ کو چل دیں۔
’’مجھے کچھ روٹی چاہیے۔‘‘
لینا کے یہ الفاظ سہیلیوں کے کانوں پر بہت گراں گزرے۔ وہ تو دس سال ہوئے اسے چھوڑ چکی تھیں حالانکہ مسز رچمین ایسی لالچی عورت بھی روٹی سے پرہیز کرتی تھی۔ مسز ہیکن نے ازراہ مہمان نوازی خانساماں سے کہاکہ فوراً حکم کی تعمیل کرے۔
’’تھوڑا مکھن بھی۔۔۔‘‘
کسی غیرمرئی قوت نے ایک لمحے کے لیے ان سب کے ہونٹ سی دیے۔
’’غالباً گھر میں مکھن موجود نہیں، ابھی خانساماں سے پوچھتی ہوں۔‘‘ مس ہیکن نے کسی قدر توقف سے جواب دیا۔ ’’مکھن روٹی بہت پسند ہے۔‘‘ لینا نے مسز رچمین سے مخاطب ہوکر کہااور خانساماں سے روٹی لے کر بڑے اطمینان سے اس پر مکھن لگایا۔۔۔ مس ہیکن بولی، ’’ہم یہاں بہت سادہ غذا کھاے ہیں، تمہیں بھی غالبا کوئی اعتراض نہ ہو گا۔‘‘
’’نہیں تو، میں بھی سادہ غذا کی عادی ہوں۔‘‘ لینا نے مچھلی کے ٹکڑے پر مکھن لگاتے ہوئے کہا، ’’مجھے جب تک مکھن، روٹی آلو اور بالائی ملتی رہے بہت مطمئن رہتی ہوں۔‘‘
’’افسوس کہ یہاں کہیں بالائی نہیں ملتی۔‘‘ مسز رچمین نے کہا۔
’’اوہ۔۔۔‘‘ لینا بولی۔
لنچ پر بغیر چربی کے کباب چنے گئے۔ اس کے علاوہ پالک تھی اور دم بخت ناشپاتیاں بھی۔ ناشپاتی کھاتے ہی لینا نے متجسس نظروں سے خانساماں کی طرف دیکھا اور اشارہ پاتے ہی خانساماں کھانڈ لے کر حاضر ہوگیا۔ اس نے اپنی قہوہ کی پیالی میں تین چمچے کھانڈ ڈال دی۔
’’تمہیں کھانڈ بہت پسند ہے۔‘‘ مسز ستلف نے کہا۔
’’ہمیں تو سکرین زیادہ مرغوب ہے۔‘‘ مس ہیکن نے ایک ٹکیہ اپنی پیالی میں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’یہ تو ایک بے لذت شے ہے۔‘‘ لینا نے جواب دیا۔
مسز رچمین منہ بنا کر اور للچائی ہوئی نظروں سے کھانڈ کی طرف دیکھنے لگی۔ مس ہیکن نے اسے زور سے پکارا اور ایک سرد آہ بھر کر اس نے بھی مجبوراً سکرین کی ٹکیہ اٹھالی۔
لنچ سے فارغ ہونے کے بعد وہ برج کھیلنے لگیں۔ لینا خوب کھیلی۔ سب نے کھیل کا لطف اٹھایا۔ مسز ستلف اور مسز رچمین کے دل میں معزز مہمان کے لیے گہری ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوگیا۔ مس ہیکن کے دل کی مراد بھی برآئی۔ اور وہ یہی تو چاہتی تھی کہ لینا ان کے ساتھ دو ہفتے خوشی سے بسر کرے۔ چند ساعت بعد مس ہیکن اور مسز رچمین گاف کھیلنے چلی گئیں اورمسز ستلف ایک جوان سال، خوش شکل پرنس روکا میر کے ساتھ سیر کو نکل گئی۔ لیناکچھ دیر سستانے کے خیال سے لیٹ گئی۔ ڈنر سے تھوڑا سا وقت پہلے سب لوٹ آئیں۔
’’لینا پیاری کہو وقت کیسے گزرا۔‘‘ مس ہیکن نے کہا، ’’گاف کھیلتے وقت دھیان تمہاری ہی طرف تھا۔‘‘
’’اوہ میں تو بڑے مزے سے بستر پر ہی پڑی رہی اور جا کر کاک ٹیل بھی پی اور سنو۔ آج ایک چھوٹا سا قہوہ خانہ خیری نظر پڑا۔ جہاں بڑی اچھی بالائی بھی مل سکتی ہے۔ میں نے روزانہ مکان پر با لائی منگوانے کا انتظام کرلیا ہے۔‘‘
اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں اور اسے یقین تھا کہ وہ تینوں اس کی بات کو سراہیں گی۔
’’تم کتنی اچھی ہو، لینا‘‘ مس ہیکن نے کہا۔ ’’لیکن افسوس کہ ہمیں بالائی پسند نہیں۔ ایسی آب و ہوا میں یہ ہمیں راس نہیں آ سکتی۔‘‘
’’نہ سہی، میں جو سلامت ہوں۔‘‘ لینا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’تمھیں کیا اپنی شکل و صورت کی کوئی پروا نہیں۔‘‘ مسز ستلف نے منہ بنا کر کہا۔
’’مجھے تو ڈاکٹر نے بالائی کھانے کو کہا ہے۔‘‘
’’کیا اس نے مکھن، روٹی، آلو اور چاروں ہی چیزیں تجویز کی ہیں؟۔‘‘
’’بے شک، تمہاری سادی غذا سے میں یہی مراد لیتی ہوں۔‘‘
’’تم یقیناًبہت موٹی ہو جاؤ گی۔‘‘
لینا کھلکھلاکرہنس دی۔ رات کو اس کے سو جانے پر دیر تک تینوں نکتہ چینی کرتی رہیں۔ آج شام ان کی طبیعت کتنی شگفتہ تھی لیکن اب مسز رچمین بیزار سی نظر آنے لگی۔ مسز ستلف الگ جلی بیٹھی تھی۔ اورمس ہیکن کا مزاج بھی برہم ہوچکا تھا۔
’’میں قطعاً برداشت نہیں کرسکتی کہ وہ میرا من بھاتا کھانا میری آنکھوں کے سامنے بیٹھ کر اُڑائے۔‘‘ مسز رچمین نے ذرا تلخی سے کہا۔
’’یہ تو کوئی بھی برداشت نہیں کرسکتا۔‘‘ مس ہیکن نے جواب دیا۔
’’آخر تم نے اسے یہاں بلایا ہی کیوں۔۔۔؟‘‘
’’مجھے اس بات کی کیا خبر تھی۔‘‘
’’اگر اس کے دل میں اپنے مرحوم شوہر کا ذرابھی خیال ہوتا تو وہ کبھی پیٹ بھر کر نہ کھاتی۔۔۔ اسے فوت ہوئے ابھی دو مہینے تو گزرے ہیں۔‘‘
’’عجیب مہمان ہے کہ اسے ہماری مرضی کا کھانا ہی پسند نہیں۔‘‘
’’سنا، وہ کل کیا کہہ رہی تھی اسے ڈاکٹر نے مکھن روٹی، آلو اور بالائی کھانے کو کہا ہے۔‘‘
’’اسے تو پھر کسی سینوٹوریم کا رخ کرناچاہیے۔‘‘
’’وہ مہمان ہے تو تمہاری۔ ہمارا تو اس سے کوئی رشتہ نہیں۔ میں تو متواتر دو ہفتے تک اس پیٹو کا تماشا دیکھتی رہی ہوں گی۔‘‘
’’صرف کھانے پینے کو زندگی کا مقصد سمجھ لینا بڑی بے ہودگی ہے۔‘‘
’’تم کیا مجھے بیہودہ پکار رہی ہو۔‘‘ مسز ستلف نے کہا۔
’’آپس میں بدگمانی سے فائدہ۔۔۔؟‘‘ مسز رچمین نے بات کاٹ کر کہا۔
’’میں ہر گز برداشت نہیں کرسکتی کہ تم ہمارے سوتے میں باورچی خانہ میں گھس کر کھاتی پیتی رہو۔‘‘
ان الفاظ نے مس ہیکن کے تن بدن میں ایک آگ لگا دی۔ وہ اچھل کر کھڑی ہوگئی۔
’’مسز ستلف اپنی زبان سنبھالو۔ تم کیا مجھے اتنا ہی کمینہ خیال کرتی ہو۔‘‘
’’آخر تمہا را وزن کیوں نہیں کم ہوتا؟‘‘
’’بالکل غلط، میرا تو سیروں وزن کم ہوگیا ہے۔‘‘ وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپک ٹپک کر چھاتی پر گرنے لگے۔
’’پیاری تم میرا مطلب نہیں سمجھیں۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر مسز ستلف گھٹنوں کے بل جھکی اور اس کے جسم کو اپنی آغوش میں لینے کی کوشش کی۔ اس کا بھی دل بھر آیا اور آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری ہوگئی۔
’’تو کیا میں دبلی دکھائی نہیں دیتی۔‘‘ مس ہیکن نے ہچکی لیتے ہوئے کہا۔
’’ہاں بے شک۔۔۔‘‘ مستز ستلف نے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔
مسز رچمین بھی جو فطرتاً نہایت کمزور طبعیت واقع ہوئی تھی، اب رونے لگی۔ یہ منظر بہت رقت خیز تھا۔ مس ہیکن ایسی عورت کو آنسو بہاتے دیکھ کر سنگ دل انسان بھی موم ہو جاتا۔ بالآخر انھوں نے اپنے آنسو پونچھے اور ایک نے برانڈی اور پانی کے چند گھونٹ پیے۔ وہ اب اس بات پر متفق تھیں کہ لینا ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق اپنی من مرضی کی غذا کھائے۔ آخر وہ ان کی مہمان ٹھہری۔ ان کا فرض تھا کہ ہر طرح اس کا کلیجہ ٹھنڈا کریں۔ انھوں نے ایک دوسری کا گرم جوشی سے منہ چوما اور اپنی اپنی خوابگاہوں میں چلی گئیں۔
یہ سچ ہے کہ انسانی فطرت بہت کمزور ہے اور اس پر کسی کا کوئی اختیار نہیں۔ غذا کے معاملے میں اب ہر ایک اپنی مرضی کی مالک تھی۔ انھوں نے مچھلی کے کباب شروع کیے تو لینا کی سویاں مکھن اور پنیر پر بسر ہونے لگی۔ وہ ہفتے میں دو بار ابلے ہوئے انڈے اور کچے ٹماٹر کھاتیں۔ لینا مٹر کے دانے بالائی میں ملا کر کھاتی۔ اسے اب ٹماٹر کو مختلف مسالوں میں پکا کر کھانے کا شوق چرایا تھا۔ اس کا خانساماں بھی بڑا بامذاق تھا۔ وہ ہر بار ایک بہتر چیز تیار کرکے میز پر چن دیتا۔ لینا نے ایک موقع پر یہ بھی کہاکہ ڈاکٹر نے اسے لنچ پر برگنڈی کی ارغوانی شراب اور ڈنر پر شمپئن استعمال کرنے کو کہا ہے۔ ان الفاظ نے تینوں سہلیوں کو دم بخود کردیا۔ وہ ابھی ابھی ہنس کھیل رہی تھیں لیکن یکا یک کیفیت بدل گئی۔
مسز رچمین کا تو گویا رنگ زرد پڑ گیا۔ مسز ستلف کی نیلی آنکھوں میں ایک خوفناک سی چمک پیدا ہوگئی۔ اور مس ہیکن کی آوازبھراگئی۔ برج کھیلتے وقت وہ بڑے نرم لہجے میں ایک دوسرے سے بات کیا کرتیں۔ لیکن اب بات بات پر بگڑنے لگیں۔ لینا نے انھیں بہتیرا سمجھایا بجھایا کہ کھیل کے وقت آپس میں تکرار مناسب نہیں۔ لیکن بے سود۔ وہ خوش تھی کہ کھیل میں شروع ہی سے اس کا پلہ بھاری رہا ہے۔ اور دنوں میں اس نے ایک بڑی رقم جیت لی ہے۔ تینوں موٹی سہیلیوں کو اب ایک دوسری سے نفرت ہونے لگی۔ وہ اپنے مہمان سے بھی بدظن ہوچکی تھیں۔ اس کے باوجود اکثر ایک دوسری کے خلاف کان بھرتیں۔ لینا کے سامنے وہ ایک دوسری سے ظاہراً ملتی رہیں، لیکن پھر یہ بات بھی نہ رہی۔ وہ ایک دوسری سے بہت مایوس ہوچکی تھیں۔مس ہیکن لینا کو رخصت کرنے اسٹیشن پر گئی۔ گاڑی پر سوار ہوتے وقت وہ بولی، ’’میرے پاس الفاظ نہیں کہ تمہاری مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرسکوں۔۔۔‘‘
’’تمہاری صحبت بہت پر لطف رہی۔۔۔‘‘ مس ہیکن نے جواب دیا۔
جب گاڑی روانہ ہوئی تو اس نے اس زور سے آہ بھری کہ پلیٹ فارم اس کے پاؤں کے نیچے کانپ کانپ گیا۔ اور وہ ’’اُف اُف‘‘ کا شوربلند کرتی گھر لوٹی۔
اس نے غسل کرنے کا لباس پہنا اور ہوٹل کی طرف آنکلی۔ ایکا ایکی وہ مچل سی گئی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے مسز رچمین نیا پائیجامہ اور گلے میں موتیوں کی مالا پہنے، بناؤ سنگھار کیے بیٹھی تھی۔ وہ اس کی طرف بڑھی۔
’’کیا کررہی ہو؟‘‘ اس کے یہ الفاظ دو پہاڑوں میں بادل کی گرج کی طرح سنا ئی دیے۔
’’کچھ کھا رہی ہوں۔‘‘
اس کے سامنے مکھن، سیب کا مربہ قہوہ اور بالائی وغیرہ چنے ہوئے تھے، وہ گرم روٹی پر مکھن کی موٹی تہ جما کر اس پر مربہ اور بالائی ڈال رہی تھی۔
’’تم کھانے کی لالچ میں اپنی جان دے دو گی۔‘‘
’’کوئی پروانہیں۔‘‘ مسز رچمین نے ایک بڑا لقمہ چباتے ہوئے کہا۔
’’تم اور بھی موٹی ہو جاؤ گی۔‘‘
بس خاموش، اس نا بکار کو خدا سمجھے جسے میں متواتر دو ہفتے سے حلق میں رنگا رنگ کے نوالے ٹھونستے دیکھتی رہی ہوں۔ ایک انسان تو اتنا ہضم نہیں کرسکتا۔‘‘
مس ہیکن کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ بالکل بے جان سی ہوگئی۔ اسے اس وقت شاید ایک مضبوط مرد کی ضرورت تھی جو اسے گھٹنے پر لگا کر پچکارے۔ وہ خاموشی سے پاس ہی کرسی پر بیٹھ گئی۔ خادم حاضر ہوا۔ اور اس نے قہوے کی طرف اشارہ کرکے اسے لانے کو کہا۔ وہ ہاتھ بڑھا کر کریم رول اٹھانے لگی۔ لیکن مسز رچمین نے رکابی ایک طرف رکھ دی۔ مس ہیکن جل بھن گئی اور اسے ایک ایسے نام سے مخاطب کیا جو خاص طور پر عورتوں کے شایان شان نہ تھا۔۔۔ اتنے میں خادم اس کے لیے مکھن، مربہ اور قہوہ لیے آیا۔
’’پگلے بالائی لانا بھول گیا‘‘۔۔۔ وہ شیرنی کی طرح بپھر کر بولی۔
اس نے کھانا شروع کیا اور حلق میں مکھن، مربہ ٹھونسنے لگی۔ ہوٹل میں اب رنگا رنگ کے انسانوں کی چہل پہل نظر آنے لگی۔ مسز ستلف بھی پرنس روکا میر کے ساتھ چہل قدمی کرتی ادھر آ نکلی۔ وہ پہلے اپنے گرد ایک ریشمی لبادہ مضبوطی سے لپیٹے ہوئی تھی تاکہ اس طرح وہ کچھ دبلی دکھائی دے۔ اپنی ٹھوڑی کانقص چھپانے کے لیے اس نے سر کو اوپر اُھایا ہوا تھا۔ وہ بہت مسرور تھی۔۔۔ ایک دوشیزہ کی طرح۔ پرنس اس سے اجازت لے کرپانچ منٹ کے لیے مردانہ کمرے میں اپنے بال سنوارنے گیا اور وہ بھی اپنے رخساروں کو غازہ سےچمکانے کے لیے زنانہ کمرے کی طرف آئی۔ ایکا ایکی اس کی نظر اپنی دونوں سہلیوں پر پڑی۔ وہ رک گئی۔
’’تم پیٹو حیوان۔۔۔‘‘
وہ کرسی پر بیٹھ گئی۔ اور خادم کو آواز دی۔ اس کے ذہن سے اب پرنس کا خیال بھی اتر چکا تھا۔ آنکھ جھپکتے میں خادم حاضر ہوگیا۔
’ میرے کھانے کو بھی یہی لاؤ۔‘‘
’’اور میرے لیے سویاں۔۔۔‘‘
’’مس ہیکن!۔۔۔‘‘ مسز رچمین پکار اُٹھی۔
’’بس خاموش۔۔۔‘‘
’’تو میں بھی یہی کھاؤں گی۔‘‘
قہوہ لایا گیا اور کریم رول اور بالائی بھی۔ وہ گرم روٹی پر بالائی تہ جما کر کھانے لگیں۔ مربے کے بڑے چمچے حلق میں ٹھونس لیے۔ وہ گویا ایک خاص اہتمام سے کھا رہی تھیں۔
ایسے موقع پر مسز ستلف کے لیے پرنس سے لگاؤ ایک بے معنی بات تھی۔
’’میں نے پچیس سال سے آلو نہیں کھائے۔‘‘ مس ہیکن نے دھیمی آواز میں کہا۔
مسز رچمین نے فوراً خادم کو تینوں کے لیے بھنے ہوئے آلو لانے کو کہا۔
ایک لمحہ کے بعد بھنے ہوئے آلو ان کے سامنے تھے اور وہ بڑے چٹخارے لے کر کھانے لگیں۔ تینوں سہیلیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور سرد آہیں بھرنے لگیں۔ اب اِن کے درمیان غلط فہمی رفع ہوچکی تھی اور دلوں میں انتہائی محبت کا جذبہ موجزن تھا۔ انھیں یقین نہ آتا تھا کہ آج سے پہلے وہ ایک دوسرے سے قطع تعلق پرآمادہ ہوچکی تھیں۔ آلو اب ختم ہوچکے تھے۔
’’ہوٹل میں چاکلیٹ تو ضرور ہونگے۔‘‘ مسزرچمین نے کہا۔
’’کیو ں نہیں۔‘‘
ایک لمحہ بعدمس ہیکن اپنا منہ کھولے حلق میں چاکلیٹ ٹھونس رہی تھی۔ اس نے دوسرے پر ہاتھ ڈالااور منہ میں ڈالنے سے پہلے دونوں سہلیوں کی طرف نظر اُٹھائے نابکار لینا کو کوسنے لگی۔
’’تم جو چاہو کہولیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ برج کھیلنا نہیں جانتی۔‘‘
’’بے شک۔‘‘ مسز ستلف نے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔
مسز رچمین کا ذہن اس وقت کسی لذیذ کیک کی فکر میں تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.