افشائے راز
کہانی کی کہانی
’’یہ افسانہ میاں بیوی کے درمیان پنجابی زبان کے ایک گیت کو لیکر ہوئے نوک جھونک پر مبنی ہے۔ میاں ایک روز نہاتے ہوئے پنجابی کا کوئی گیت گانے لگا تو بیوی نے اسے ٹوک دیا، کیونکہ اسے پنجابی زبان سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ اس پر شوہر نے اسے کئی طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی۔ مگر بات نہیں بنی۔ تبھی نوکر ڈاک لیکر آ گیا۔ بیوی نے شوہر کی اجازت کے بغیر ڈاک کھولی تو وہ ایک خاتون کا خط تھا، جس میں اسی گیت کی کچھ سطریں لکھی ہوئی تھیں، جو اس کا شوہر کچھ دیر پہلے گنگنا رہا تھا۔‘‘
’’میری لگدی کسے نہ ویکھی ،تے ٹٹدی نوں جگ جاندا‘‘
’’یہ آپ نے گانا کیوں شروع کر دیا ہے؟‘‘
’’ہر آدمی گاتا اور روتا ہے۔۔۔ کونسا گناہ کیا ہے؟‘‘
’’کل آپ غسل خانے میں بھی یہی گیت گا رہے تھے۔‘‘
’’غسل خانے میں تو ہر شریف آدمی اپنی استطاعت کے مطابق گاتا ہے۔۔۔ اس لیے کہ وہاں کوئی سننے والا نہیں ہوتا۔۔۔ میرا خیال ہے،تمھیں میری آواز پسند نہیں آتی۔‘‘
’’آپ کی آواز تو ماشاء اﷲ بڑی اچھی ہے۔‘‘
’’مجھے بنا رہی ہو۔۔۔ مجھے اس کا علم ہے کہ میں کن سرا ہوں،میری آواز میں کوئی کشش نہیں۔۔۔ کوئی بھی اسے پھٹے بانس کی آواز کہہ سکتا ہے۔‘‘
’’مجھے تو آپ کی آواز بڑی سریلی معلوم ہوتی ہے،باقی اﷲ بہتر جانتا ہے۔۔۔ لیکن میں پوچھتی ہوں،ہر وقت یہ پنجابی بولی وردِ زبان کیوں رہتی ہے؟‘‘
’’مجھے اچھی لگتی ہے۔۔۔ بیگم تم کو اگر ادب اور شعر سے ذرا سا بھی شغف ہو۔۔۔‘‘
’’یہ شغف کیا بلا ہے۔۔۔ آپ ہمیشہ ایسے الفاظ میں گفتگو کرتے ہیں جسے کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا۔‘‘
’’شغف کا مطلب۔۔۔ بس تم یہ سمجھ لو۔۔۔ کہ اس کا مطلب لگاؤ ہے۔‘‘
’’مجھے شاعری سے لگاؤ کیوں ہو۔۔۔ ایسی واہیات چیز ہے۔‘‘
’’یعنی شاعری بھی ایک چیز ہو گئی۔۔۔ یہ تمہاری بڑی زیادتی ہے۔۔۔ فرصت کے لمحات میں اپنے اندر ذوق پیدا کیا کرو۔‘‘
’’چھ بچے پیدا کر چکی ہوں۔۔۔ اب میں اور کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتی۔‘‘
’’میں نے تم سے کئی مرتبہ کہا کہ معاملہ ختم ہونا چاہیے،پر تم ہی نہیں مانیں۔۔۔ چھ بچے پیدا کر کے تم تھک گئی ہو، تمہارے پڑوس میں مسز قیوم رہتی ہےاس کے گیارہ بچے ہیں۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ میں بھی گیارہ ہی پیدا کروں؟‘‘
’’میں نے یہ کب کہا ہے۔۔۔ میں تو ایک کا بھی قائل نہیں تھا۔‘‘
’’میں اچھی طرح جانتی ہوں۔۔۔ جب میرے بچہ نہ ہوتا تو آپ اسی بہانے سے دوسری شادی کر لیتے۔‘‘
’’میں تو ایک ہی شادی سے بھرپایا ہوں۔۔۔ تم ساری زندگی کے لیے کافی ہو۔۔۔میں دوسری شادی کے متعلق سوچ ہی نہیں سکتا۔‘‘
’’اور یہ پنجابی بولی کس لیے گائی جا رہی تھی؟‘‘
’’بھئی،میں کہہ چکا ہوں کہ مجھے یہ پسند ہے۔۔۔ تمھیں ناپسند ہو تو میں کیا کہہ سکتا ہوں۔۔۔ میری لگدی کسے نہ ویکھی۔۔۔ تے ٹٹدی نوں جگ جاندا۔‘‘
’’اس بولی میں آپ کو کیا لذت محسوس ہوتی ہے؟‘‘
’’میں اس کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘‘
’’آپ نے اب تک کوئی بات وقوث سے نہیں کہی۔‘‘
’’وقوث نہیں۔۔۔ وثوق۔۔۔ یعنی یقین کے ساتھ۔‘‘
’’آپ نے ابھی تک کوئی بات ایسی نہیں کی جس میں یقین پایا جاتا ہو۔‘‘
’’لو،آج یہ نئی بات سنی۔۔۔ میری باتوں پر آپ کو یقین کیوں نہیں آتا۔ ‘‘
’’مردوں کی باتوں کا اعتبار ہی کیا ہے؟‘‘
’’عورتوں کی باتوں کا اعتبار ہی کیا۔۔۔ گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ۔۔۔ آپ ہی پھاڑتی ہیں،آپ ہی رفو کرتی ہیں،سمجھ میں نہیں آتا یہ آج کی برہمی کس بات پر ہے۔‘‘
’’آپ ایسے واہیات گیت گاتے رہیں اور میں چپ رہوں۔۔۔ اب سے دور قرآن درمیان،آپ نے ہمیشہ مجھ سے بے اعتنائی کی۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کو غزلوں اور گیتوں سے اتنی دلچسپی کیوں ہے ۔۔۔ابھی پچھلے دنوں آپ مسلسل یہ شعر گنگناتے رہے:
سنا ہے مہ جبینوں کوبھی کچھ کچھ
مروت کے قرینے آ رہے ہیں
مجھے اس پر سخت اعتراض ہے۔۔۔ کوئی شریف آدمی ایسے شعر نہیں گاتا۔۔۔ آپ:
تیری ذات ہے اکبری سروری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
کیوں نہیں گاتے۔‘‘
’’لاحول ولا۔۔۔ تم بھی کیسی اوٹ پٹانگ باتیں کرتی ہو۔‘‘
’’یہ باتیں گویا آپ کے نزدیک اوٹ پٹانگ ہیں۔۔۔؟ اس لیے کہ پاکیزہ ہیں؟‘‘
’’دنیا میں ہر چیز پاکیزہ ہے۔‘‘
’’آپ بھی؟‘‘
’’میں تو ہمیشہ صاف ستھرا رہتا ہوں، تم نے کئی مرتبہ اس کی تعریف کی ہے،دن میں دو مرتبہ کپڑے بدلتا ہوں، سخت سردی بھی ہو، غسل کرتا ہوں،تم تو تین چار دن چھوڑ کے نہاتی ہو، تمھیں پانی سے نفرت ہے۔‘‘
’’اجی واہ۔۔۔ میں تو ہر ہفتے باقاعدہ نہاتی ہوں۔‘‘
ہر ہفتے کا نہانا تو سفید جھوٹ ہے۔۔۔ قرآن کی قسم کھا کے بتاؤ ،تمھیں نہائے ہوئے کتنے دن ہو گئے ہیں۔‘‘
’’میں قرآن کی قسم کھانے کے لیے تیار نہیں۔۔۔ آپ بتائیے کب غسل کیا تھا۔‘‘
’’آج صبح۔‘‘
’’جھوٹ۔۔۔ آپ کا اول جھوٹ، آخر جھوٹ۔۔۔ آج صبح تو نل میں پانی ہی نہیں تھا۔۔۔ میں نے ساڑھے نو بجے کے قریب دو مشکیں منگوائی تھیں۔‘‘
’’میں بھول گیا۔۔۔ واقعی آج میں نے غسل نہیں کیا۔‘‘
’’آپ کو بھول جانے کا مرض ہے۔‘‘
’’بھولنا انسان کی فطرت ہے۔۔۔ اس پر تمھیں اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔۔۔ چند روز ہوئے تم دس کا نوٹ کہیں رکھ کے بھول گئی تھیں اور مجھ پر الزام لگایا کہ میں نے چوری کر لیا ہے۔۔۔ یہ کتنی بڑی زیادتی تھی۔‘‘
’’جیسے آپ نے میرے روپے کبھی نہیں چرائے۔۔۔ پچھلے مہینے میری الماری سے آپ نے سو روپے نکالے اور غائب کر گئے۔‘‘
’’ہوسکتا ہے وہ کسی اور نے چرائے ہوں۔۔۔ اگر تمہیں مجھ پر شک تھا تو بتا دیا ہوتا۔۔۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تم نے وہ سوروپے کا نوٹ کسی محفوظ جگہ رکھا ہواور بعد میں بھول گئی ہو۔۔۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا ہے۔‘‘
’’کب؟‘‘
’’پچھلے سال اسی مہینے تم نے پانچ سو روپے کے نوٹ اپنے پلنگ کے بستر کے نیچے چھپا رکھے تھے اور تم ان کے متعلق بالکل بھول گئی تھیں۔۔۔مجھ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ میں نے چرائے ہیں۔۔۔ آخر میں نے ہی تلاش کر کے نکالے اور تمھارے حوالے کردیے۔‘‘
’’کیا پتا ہے کہ آپ نے چرائے ہوں اور بعد میں میرے شور مچانے پر اپنی جیب سے نکال کر بستر کے نیچے رکھ دیے ہوں۔ ‘‘
’’میری سمجھ میں تمہاری یہ منطق نہیں آتی۔‘‘
’’آپ کی سمجھ میں تو کوئی چیز بھی نہیں آتی۔۔۔کل میں نے آپ سے کہا تھاکہ دہی کھانا آپ کے لیے مفید ہے، لیکن آپ نے مجھے ایک لکچر پلا دیا کہ دہی فضول چیز ہے۔‘‘
’’دہی تو میں ہر روز کھاتا ہوں۔‘‘
’’کتنا کھاتے ہیں؟‘‘
’’یہی،کوئی آدھ سیر۔‘‘
’’میں ہر روز سیر منگواتی ہوں۔۔۔ باقی پڑا جھک مارتا رہتا ہے۔‘‘
’’دہی کو جھک مارنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔ جو بچ جاتا ہے اس کی تم کڑھی بنا لیتی ہو۔‘‘
’’میں دہی کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔۔۔ کڑھی بناتی ہوں تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ میں سلیقہ شعار عورت ہوں۔۔۔میں نے آپ سے صرف اتنا پوچھا تھا کہ آپ آج کل ایک خاص پنجابی بولی کیوں ہر وقت گاتے رہتے ہیں۔ ‘‘
’’اس لیے کہ مجھے پسند ہے۔‘‘
’’کیوں پسند ہے۔۔۔؟ اس کی وجہ بھی تو ہونی چاہیے۔‘‘
’’تمہیں کالا رنگ کیوں پسند ہے۔۔۔ اس کی وجہ بتاؤ؟تمھیں بھنڈیاں مرغوب ہیں۔۔۔ کیوں؟ تمھیں سینما دیکھنے کاشوق ہے۔ اس کا جواز پیش کرو۔۔۔ تم لٹھے کی بجائے ریشم کی شلواریں پہنتی ہو۔۔۔ اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘
’’آپ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ مجھ سے اس قسم کے سوال کریں۔۔۔ میں اپنی مرضی کی مالک ہوں۔ ‘‘
’’اپنی مرضی کا مالک میں بھی ہوں۔۔۔ کیا مجھے یہ حق حاصل نہیں کہ جو شعر بھی مجھے پسند ہو،اپنی بھونڈی آواز میں دن رات گاتا رہوں۔ ‘‘
’’مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔۔۔ لیکن میں سمجھتی ہوں۔۔۔‘‘
’’رک کیوں گئیں؟ ‘‘
’’دیکھیے،آپ میری زبان نہ کھلوائیے۔۔۔ میں نے آج تک آپ سے کچھ نہیں کہا،حالانکہ میں سب کچھ جانتی ہوں۔ ‘‘
’’تم میرے متعلق کیا جانتی ہو؟‘‘
’’سب کچھ۔‘‘
’’کچھ مجھے بھی بتادو، تاکہ میں اپنے متعلق کچھ جان سکوں۔۔۔میں تو سالہاسال کے غوروفکر کے بعد بھی اپنے متعلق کچھ جان نہ سکا۔‘‘
’’آپ اس پنجابی بولی میں جو آپ مسلسل گنگناتے رہتے ہیں۔۔۔ سب کچھ جان سکتے ہیں۔ ‘‘
’’تم اس قدر شاکی کیوں ہو؟‘‘
’’ہر مرد بے وفا ہوتا ہے۔‘‘
میں نے تم سے کیا بےوفائی کی ہے۔۔۔ اصل میں عورتیں جا و بے جا اپنے شوہروں پر شک کرتی رہتی ہیں۔‘‘
ٹھہریے۔۔۔ دروازے پر دستک ہوئی ہے۔۔۔میرا خیال ہے،ڈاکیا ہے۔‘‘
****
’’یہ خط میرا ہے۔۔۔ لاؤ ادھر۔‘‘
’’میں کھولتی ہوں۔۔۔ پڑھ کے آپ کے حوالے کر دوں گی۔‘‘
’’تمھیں میرے خط پڑھنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔‘‘
’’میں ہمیشہ آپ کے خط پڑھتی رہی ہوں۔۔۔ یہ حق آپ نے کب سے چھین لیا؟‘‘
’’اچھا یہ بتا دو کہ خط کس کا ہے؟‘‘
’’آپ ہی کا ہے؟‘‘
’’کس نے لکھا ہے؟‘‘
’’آپ کی کسی سہیلی نے۔۔۔ جس کا نام عذرا ہے۔۔۔ وہ پنجابی بولی جو آپ گاتے پھرتے ہیں اس کاغذ کی پیشانی پر لکھی ہے
میری لگدی کسے نہ دیکھی وے۔۔۔ تے ٹٹدی نوں جگ جاندا۔
یہ ٹوٹ ہی جائے تو بہتر ہے۔‘‘
- کتاب : منٹو نقوش
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.