آرٹسٹ لوگ
اس افسانہ میں آرٹسٹ کی زندگی کا المیہ بیان کیا گیا ہے۔ جمیلہ اور محمود اپنے فن کی بقا کے لئے مختلف طرح کے جتن کرتے ہیں لیکن باذوق لوگوں کی قلت کی وجہ سے فن کی آبیاری مشکل امر محسوس ہونے لگتا ہے۔ حالات سے پریشان ہو کر معاشی آسودگی کے لیے وہ ایک فیکٹری میں کام کرنے لگتے ہیں۔ لیکن دونوں کو یہ کام آرٹسٹ کے رتبہ کے شایان شان محسوس نہیں ہوتا اسی لیے دونوں ایک دوسرے سے اپنی اس مجبوری اور کام کو چھپاتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
عورت ذات
’’ایک ایسے شخص کی کہانی جس کی گھوڑوں کی ریس کے دوران ایک مہاراجہ سے دوستی ہو جاتی ہے۔ مہاراجہ ایک دن اسے اپنے یہاں پروجیکٹر پر کچھ شہوت انگیز فلمیں دکھاتا ہے۔ ان فلموں کو مانگ کر وہ شخص اپنے گھر لے جاتا ہے اور اپنی بیوی کو دکھاتا ہے۔ اس سے اس کی بیوی ناراض ہو جاتی ہے۔ بیوی کی ناراضگی سے وہ بہت شرمندہ ہوتا ہے۔ اگلے دن جب وہ دوپہر کے کھانے کے بعد آفس سے گھر آتا ہے تواسے پتہ چلتا ہے کہ اس کی بیوی اپنی بہنوں اور سہیلیوں کے ساتھ پروجیکٹر پر وہی فلمیں دیکھ رہی ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
برقعے
کہانی میں برقعے کی وجہ سے پیدا ہونے والی مضحکہ خیز صورت حال کو بیان کیا گیا ہے۔ ظہیر نامی نوجوان کو اپنے پڑوس میں رہنے والی لڑکی سے عشق ہو جاتا ہے۔ لیکن اس گھر میں تین لڑکیاں ہیں اور تینوں برقعہ پہنتی ہیں۔ ظہیر خط کسی اور کو لکھتا ہے اور ہاتھ کسی اور کا پکڑتا ہے۔ اسی چکر میں اس کی ایک دن پٹائی ہو جاتی ہے اور پٹائی کے فوراً بعد اسے ایک رقعہ ملتا ہے کہ تم اپنی ماں کو میرے گھر کیوں نہیں بھیجتے۔ آج تین بجے سنیما میں ملنا۔
سعادت حسن منٹو
ایک زاہدہ، ایک فاحشہ
یہ ایک عشقیہ کہانی ہے جس میں معشوق کے متعلق غلط فہمی کی وجہ سے دلچسپ صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ جاوید کو زاہدہ نامی لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے اور اپنے دوست سعادت کو لارنس گارڈن کے گیٹ پر زاہدہ کے استقبال کے لئے بھیجتا ہے۔ سعادت جس لڑکی کو زاہدہ سمجھتا ہے اس کے بارے میں تانگہ والا بتاتا ہے کہ وہ فاحشہ ہے۔ گھبرا کر سعادت وہیں تانگہ چھوڑ دیتا ہے اور وہ لارنس گارڈن واپس آتا ہے تو جاوید کو زاہدہ سے محو گفتگو پاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
بیگو
’’کشمیر کی سیر کے لیے گئے ایک ایسے نوجوان کی کہانی جسے وہاں ایک مقامی لڑکی بیگو سے محبت ہو جاتی ہے۔ وہ بیگو پر پوری طرح مر مٹتا ہے کہ تبھی اس نوجوان کا دوست بیگو کے کردار کے بارے میں کئی طرح کی باتیں اسے بتاتا ہے۔ ویسی ہی باتیں وہ دوسرے لوگوں سے بھی سنتا ہے۔ یہ سب باتیں سننے کے بعد اسے بیگو سے نفرت ہو جاتی ہے، مگر بیگو اس کی جدائی میں اپنی جان دے دیتی ہے۔ بیگو کی موت کے بعد وہ نوجوان بھی عشق کی لگی آگ میں جل کر مر جاتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
اولاد
یہ اولاد نہ ہونے کے غم میں پاگل ہو گئی ایک عورت کی کہانی ہے۔ زبیدہ کی شادی کے بعد ہی اس کے والد کی موت ہو گئی تو وہ اپنی ماں کو اپنے گھر لے آئی۔ ماں بیٹی ایک ساتھ رہنے لگیں تو ماں کو فکر ہوئی کہ اس کی بیٹی کو ابھی تک بچہ کیوں نہیں ہوا۔ بچہ کے لیے ماں نے بیٹی کا ہر طرح کا علاج کرایا، پر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ماں دن رات اسے اولاد نہ ہونے کے طعنے دیتی رہتی ہے تو اس کا دماغ چل جاتا ہے اور ہر طرف اسے بچے ہی نظر آنے لگتے ہیں۔ اس کی اس دیوانگی کو دیکھ کر اس کا شوہر ایک نوزائیدہ کو اس کی گود میں لاکر ڈال دیتا ہے۔ جب اس کے لیے اس کی چھاتیوں سے دودھ نہیں اترتا ہے تو وہ استرے سے اپنی چھاتیوں کو کاٹ ڈالتی ہے جس سے اس کی موت ہو جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
اس کا پتی
یہ افسانہ استحصال، انسانی اقدار اور اخلاقیات کے زوال کی کہانی ہے۔ بھٹے کے مالک کا عیاش بیٹا ستیش گاؤں کی غریب لڑکی روپا کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر چھوڑ دیتا ہے۔ جب گاؤں والوں کو اس کے حاملہ ہونے کی بھنک لگتی ہے تو روپا کا ہونے والا سسر اس کی ماں کو لعن طعن کرتا ہے اور رشتہ ختم کر دیتا ہے۔ معاملے کو سلجھانے کے لیے نتھو کو بلایا جاتا ہے، جو سمجھدار اور معاملہ فہم سمجھا جاتا تھا۔ ساری باتیں سننے کے بعد وہ روپا کو ستیش کے پاس لے جاتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ روپا اور اپنے بچے کو سنبھال لے۔ لیکن ستیش سودا کرنے کی کوشش کرتا ہے جس پر روپا بھاگ جاتی ہے اور پاگل ہو جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
عشقیہ کہانی
یہ عشق میں گرفتار ہو جانے کی خواہش رکھنے والے ایک ایسے نوجوان جمیل کی کہانی ہے جو چاہتا ہے کہ وہ کسی لڑکی کے عشق میں بری طرح گرفتار ہو جائے اور پھر اس سے شادی کر لے۔ اس کے لیے وہ بہت سی لڑکیوں کا انتخاب بھی کرتا ہے۔ ان سے ملنے، انہیں خط لکھنے کے منصوبے بناتا ہے، لیکن اپنے کسی بھی منصوبہ پر وہ عمل نہیں کر پاتا۔ آخر میں اس کی شادی طے ہو جاتی ہے، اور رخصتی کی تاریخ بھی مقرر ہو جاتی ہے۔ اسی رات اس کی خالہ زاد بہن خودکشی کر لیتی ہے، جو جمیل کے عشق میں بری طرح گرفتار ہوتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
عشق حقیقی
اخلاق نامی نوجوان کو سنیما ہال میں پروین نامی ایک ایسی لڑکی سے عشق ہو جاتا ہے جس کے گھر میں سخت پابندیوں کا پہرا ہے۔ اخلاق ہمت نہیں ہارتا اور بالآخر ان دونوں میں خط و کتابت شروع ہو جاتی ہے اور پھر ایک دن پروین اخلاق کے ساتھ چلی آتی ہے۔ پروین کے گال کے تل پر بوسہ لینے کے لئے جب اخلاق آگے بڑھتا ہے تو بدبو کا ایک تیز بھبھکا اخلاق کے نتھنوں سے ٹکراتا ہے اور تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ پروین کے مسوڑھوں میں گوشت خورہ ہے۔ اخلاق اسے چھوڑ کر اپنے دوست کے یہاں لائل پور چلا جاتا ہے۔ دوست کے غیرت دلانے پر واپس آتا ہے تو پروین کو موجود نہیں پاتا۔
سعادت حسن منٹو
ترقی پسند
طنز و مزاح کے پیرایہ میں لکھا گیا یہ افسانہ ترقی پسند افسانہ نگاروں پر بھی چوٹ کرتا ہے۔ جوگندر سنگھ ایک ترقی پسند افسانہ نگار ہے جس کے یہاں ہریندر سنگھ آکر پڑاؤ ڈال دیتا ہے اور مسلسل اپنے افسانے سنا کر بو رکرتا رہتا ہے۔ ایک دن اچانک جوگندر سنگھ کو احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کی حق تلفی کر رہا ہے۔ اسی خیال کے تحت وہ ہریندر سے باہر جانے کا بہانہ کرکے بیوی سے رات بارہ بجے آنے کا وعدہ کرتا ہے۔ لیکن جب رات میں جوگندر اپنے گھر کے دروازہ پر دستک دیتا ہے تو اس کی بیوی کے بجائے ہریندر دروزہ کھولتا ہے اور کہتا ہے جلدی آ گئے، آو، ابھی ایک افسانہ مکمل کیا ہے، اسے سنو۔
سعادت حسن منٹو
بادشاہت کا خاتمہ
حسن و دلکشی کے خواہش مند ایک ایسے بے روزگار نوجوان کی کہانی ہے جس کی زندگی کا بیشتر حصہ فٹ پاتھ پر رات بسر کرتے ہوئے گزرا تھا۔ اتفاقیہ طور پر وہ ایک دوست کے آفس میں چند دنوں کے لیے ٹھہرتا ہے جہاں ایک لڑکی کا فون آتا ہے اور ان کی گفتگو مسلسل ہونے لگتی ہے۔ موہن کو لڑکی کی آواز سے عشق ہے اس لیے اس نے کبھی اس کا نام پتہ یا فون نمبر جاننے کی زحمت نہیں کی۔ دفتر چھوٹ جانے کی وجہ سے اس کی جو ’بادشاہت‘ ختم ہونے والی تھی اس کا خیال اسے صدمہ میں مبتلا کر دیتا ہے اور ایک دن جب شام کے وقت ٹیلیفون کی گھنٹی بجتی ہے تو اس کے منہ سے خون کے بلبلے پھوٹ رہے ہوتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
چودھویں کا چاند
فطری مناظر کے پرستار ولسن کی کہانی ہے جو ایک بینک منیجر تھا۔ ولسن ایک مرتبہ جزیرے پر آیا تو چودھویں کے چاند نے اسے اس قدر مسحور و مبہوت کیا کہ اس نے ساری زندگی وہیں بسر کرنے کا ارادہ کر لیا اور بینک کی ملازمت چھوڑ کر گھر بیچ کر مستقل وہیں رہنے لگا۔ لیکن جب قرض خواہوں نے تنگ کرنا شروع کر دیا تو اس نے ایک دن اپنے جھونپڑے میں آگ لگا لی، جس کی وجہ سے اس کا ذہن ماؤف ہو گیا اور کچھ دن بعد چودہویں کا چاند دیکھ کر ہی وہ مر گیا۔
سعادت حسن منٹو
عزت کے لیے
چونی لال کو بڑے آدمیوں سے تعلق پیدا کرنے میں ایک عجیب قسم کا سکون ملتا تھا۔ اس کا گھر بھی ہر قسم کی تفریح اور سہولت کے لیے ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ ہربنس ایک بڑے افسر کا بیٹا تھا۔ فسادات کے زمانے میں اس نے چونی لال کی بہن روپا کی عصمت دری کی تھی۔ جب خون بہنا بند نہیں ہوا تو اس نے چونی لال سے مدد مانگی تھی۔ چونی لال نے اپنی بہن کو دیکھا لیکن اس پر بے حسی طاری رہی اور وہ یہ سوچنے میں مصروف رہا کہ کس طرح ایک بڑے آدمی کی عزت بچائی جائے۔ اس کے برعکس ہربنس پر جنون طاری ہو جاتا ہے اور وہ چونی لال کو گولی مار کر ہلاک کر دیتا ہے۔ اخباروں میں خبر چھپتی ہے کہ چونی لال نے اپنی بہن سے منہ کالا کرنے کے بعد خودکشی کر لی۔
سعادت حسن منٹو
فرشتہ
زندگی کی آزمائشوں سے پریشان شخص کی نفسیاتی کیفیت پر مبنی کہانی۔ بستر مرگ پر پڑا عطاء اللہ اپنے اہل خانہ کی مجبوریوں کو دیکھ کر خلجان میں مبتلا ہو جاتا ہے اور نیم غنودگی کے عالم میں دیکھتا ہے کہ اس نے سب کو مار ڈالا ہے یعنی جو کام وہ اصل میں نہیں کر سکتا اسے خواب میں انجام دیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
بائے بائے
کہانی ایک ایسے نوجوان کی ہے جسے کشمیر کی وادیوں میں فاطمہ نام کی لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے۔ فاطمہ پہلے تو اس کا مذاق اڑاتی ہے، پھر وہ بھی اس سے محبت کرنے لگتی ہے۔ فاطمہ سے شادی کے لیے وہ لڑکا اپنے والدین کو بھی راضی کر لیتا ہے۔ مگر شادی سے پہلے اس کے والدین چاہتے ہیں کہ وہ فاطمہ کی ایک دو تصویریں انہیں بھیج دے۔ علاقے میں کوئی اسٹوڈیو تو تھا نہیں۔ ایک دن اس نوجوان کا ایک دوست وہاں سے گزر رہا تھا تو اس نے اس سے فاطمہ کی تصویر لینے کے لیے کہا۔ جیسے ہی اس نے فاطمہ کو دیکھا تو وہ اسے زبردستی اپنی گاڑی میں ڈال کر فرار ہو گیا۔
سعادت حسن منٹو
خالد میاں
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو اپنے بیٹے کی موت کے وہم میں ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ خالد میاں ایک بہت تندرست اور خوبصورت بچہ تھا۔ کچھ ہی دنوں میں وہ ایک سال کا ہونے والا تھا، اس کی سالگرہ سے دو دن قبل ہی اس کے باپ ممتاز کو یہ وہم ہونے لگا کہ خالد ایک سال کا ہونے سے پہلے ہی مر جائیگا۔ حالانکہ بچہ بالکل تندرست تھا اور ہنس کھیل رہا تھا۔ مگر جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا تھا، ممتاز کا وہم اور بھی گہرا ہوتا جاتا تھا۔
سعادت حسن منٹو
پھندنے
افسانے کا موضوع جنس اور تشدد ہے۔ افسانے میں بیک وقت انسان اور جانور دونوں کو بطور کردار پیش کیا گیا ہے۔ جنسی عمل سے برآمد ہونے والے نتائج کو تسلیم نہ کر پانے کی صورت میں بلی کے بچے، کتے کے بچے، ڈھلتی عمر کی عورتیں، جن میں جنسی کشش باقی نہیں وہ سب کے سب موت کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
جواری
یہ ایک معلوماتی اور مزاحیہ انداز میں لکھی گئی کہانی ہے۔ جواریوں کا ایک گروہ بیٹھا ہوا تاش کھیل رہا تھا کہ اسی وقت پولیس وہاں چھاپا مار دیتی ہے۔ پولیس کے پکڑے جانے پر ہر جواری اپنی عزت اور کام کو لے کر پریشان ہوتا ہے۔ جواریوں کا سرغنہ نکو انھیں دلاسہ دیتا ہے کہ تھانیدار اس کا جاننے والا ہے اور جلد ہی وہ چھوٹ جائیں گے۔ لیکن جواریوں کو چھوڑنے سے قبل تھانیدار انھیں جو سزا دیتا ہے وہ کافی دلچسپ ہے۔
غلام عباس
چور
’’یہ ایک قرضدار شرابی شخص کی کہانی ہے۔ وہ شراب کے نشہ میں ہوتا ہے، جب اسے اپنے قرض اور ان کے وصول کرنے والوں کا خیال آتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اسے اگر کہیں سے پیسے مل جایں تو وہ اپنا قرض اتار دے۔ حالانکہ ایک زمانہ میں وہ اعلیٰ قسم کا تکنیشین تھا اور اب وہ قرضدار تھا۔ جب قرض اتارنے کی اسے کوئی صورت نظر نہیں آئی تو اس نے چوری کرنے کی سوچی۔ چوری کے ارادے سے وہ دو گھروں میں گیا بھی، مگر وہاں بھی اس کے ساتھ کچھ ایسا حادثہ ہوا کہ وہ چاہ کر بھی چوری نہیں کر سکا۔ پھر ایک دن اسے ایک شخص پچاس ہزار روپیے دے گیا۔ ان روپیوں سے جب اس نے اپنے ایک قرضدار کو کچھ روپیے دینے چاہے تو تکیے کے نیچے سے روپیوں کا لفافہ غائب تھا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
افشائے راز
’’یہ افسانہ میاں بیوی کے درمیان پنجابی زبان کے ایک گیت کو لیکر ہوئے نوک جھونک پر مبنی ہے۔ میاں ایک روز نہاتے ہوئے پنجابی کا کوئی گیت گانے لگا تو بیوی نے اسے ٹوک دیا، کیونکہ اسے پنجابی زبان سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ اس پر شوہر نے اسے کئی طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی۔ مگر بات نہیں بنی۔ تبھی نوکر ڈاک لیکر آ گیا۔ بیوی نے شوہر کی اجازت کے بغیر ڈاک کھولی تو وہ ایک خاتون کا خط تھا، جس میں اسی گیت کی کچھ سطریں لکھی ہوئی تھیں، جو اس کا شوہر کچھ دیر پہلے گنگنا رہا تھا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
موسم کی شرارت
یہ ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے، جو کشمیر گھومنے گیا ہے۔ صبح کی سیر کے وقت وہ وہاں کے دلکش مناظر کو دیکھتا ہے اور اس میں کھویا ہوا چلتا چلا جاتا ہے۔ تبھی اسے کچھ بھینسوں، گایوں اور بکریوں کو لیے آتی ایک چرواہے کی لڑکی دکھائی دیتی ہے۔ وہ اسے اتنی خوبصورت نظر آتی ہے کہ اسے اس سے محبت ہو جاتی ہے۔ لڑکی بھی گھر جاتے ہوئے تین بار اسے مڑ کر دیکھتی ہے۔ کچھ دیر اس کے گھر کے پاس کھڑے رہنے کے دوران بارش ہونے لگتی ہے، اور جب تک وہ ڈاک بنگلے پر پہنچتا ہے تب تک وہ پوری طرح بھیگ جاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
بیمار
یہ ایک تجسس آمیز رومانی کہانی ہے جس میں ایک عورت مصنف کو مسلسل خط لکھ کر اس کے افسانوں کی تعریف کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی بیماری کا ذکر بھی کرتی جاتی ہے جو مسلسل شدید ہوتی جا رہی ہے۔ ایک دن وہ عورت مصنف کے گھر آ جاتی ہے۔ مصنف اس کے حسن پر فریفتہ ہو جاتا ہے اور تبھی اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورت اس کی بیوی ہے جس سے ڈیڑھ برس پہلے اس نے نکاح کیا تھا۔
سعادت حسن منٹو
شاہ دولے کا چوہا
مذہب کے نام پر گورکھ دھندہ کرنے والوں کی کہانی ہے۔ شاہ دولے کے مزار کے بارے میں یہ عقیدہ رائج کر دیا گیا تھا کہ یہاں منت ماننے کے بعد اگر بچہ ہوتا ہے تو پہلا بچہ شاہ دولے کا چوہا ہے اور اسے مزار پر چھوڑنا ضروری ہے۔ سلیمہ کو اپنا پہلا بچہ مجیب اسی عقیدے کے تحت مجبوراً چھوڑنا پڑا۔ لیکن وہ اس کا غم سینے سے لگائے رہی۔ ایک مدت کے بعد جب مجیب اس کے دروازے پر شاہ دولے کا چوہا بن کر آتا ہے تو سلیمہ اسے فوراً پہچان لیتی ہے اور تماشا دکھانے والے سے پانچ سو کے عوض اسے لے لیتی ہے۔ لیکن جب وہ پیسے دے کر واپس اندر آتی ہے تو مجیب غائب ہو چکا ہوتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
سب سے چھوٹا غم
یہ ایک ایسی دکھیاری عورت کی کہانی ہے جو اپنے حالات سے پریشان ہو کر حضرت شیخ سلیم چشتی کی درگاہ پر جاتی ہے۔ وہ یہاں اس دھاگے کو ڈھونڈھتی ہے جو اس نے برسوں پہلے اس شخص کے ساتھ باندھا تھا جس سے وہ محبت کرتی تھی اور جو اب اس کا تھا۔ درگاہ پر اور بھی بہت سے پریشان حال مرد عورتیں حاضری دے رہے تھے۔ وہ عورت ان حاضرین کی پریشانیوں کو دیکھ کر دل ہی دل میں سوچتی ہے کہ ان کے دکھوں کے آگے اس کا غم کتنا چھوٹا ہے۔
عابد سہیل
تم میرے ہو
یہ سایرہ نام کی ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے، جو شادی شدہ ہونے کے باوجود اپنے چچا زاد بھائی جمیل سے محبت کرتی ہے۔ جمیل بھی اسے بہت چاہتا ہے۔ جب اس کی چاہت کا علم اس کے رشتہ داروں کوہوتا ہے تو وہ جمیل کی شادی کر دینے کی سوچتے ہیں۔ سایرہ کی وجہ سے جمیل شادی کرنے سے انکار کر دیتا ہے اور شہر چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ جمیل کے چلے جانے بعد سایرہ اس کی جدائی میں تڑپ کر مر جاتی ہے۔
مجنوں گورکھپوری
گرم لہو میں غلطاں
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو ایک قتل کا گواہ تھا۔ اس نے شادی میں جب پہلی بار اس عورت کو دیکھا تھا تو وہ اسے پہچان نہیں سکا تھا، غور سے دیکھنے پر اسے یاد آیا کہ وہ عورت ایک بار ان کے گھر آئی تھی۔ تنہائی میں اس نے بڑے بھائی سے بات کی تھی اور پھر رات کے اندھیرے میں بڑے بھائی نے ایک بیگ کو ٹھکانے لگانے کے لیے کچھ لوگوں کو دیا تھا، اس بیگ میں لاش تھی۔ اس نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا مگر چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکا تھا۔
قاضی عبد الستار
محبت کا جوگ
’’ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جسے ایک روز دریا پر گھومتے وقت ایک بیحد خوبصورت لڑکی دکھائی دیتی ہے۔ دوبارہ جب وہ اس لڑکی کی تلاش میں جاتا ہے تو وہ اسے کہیں نہیں ملتی۔ اس لڑکی کا اس پر ایسا نشہ ہوتا ہے کہ وہ شب و روز اسی کے خیالوں میں کھویا رہتا ہے۔ کچھ دنوں بعد دریا کے اسی کنارے پر اسے ایک سادھو ملتا ہے۔ سادھو اسے اس لڑکی سے ملنے کی ایسی ترکیب بتاتا ہے کہ جس کے پورا ہوتے ہی اس کی زندگی بدل جاتی ہے۔‘‘