جہاں کارواں ٹھہرا تھا
اس سنسان اکیلی روش پر نرگس کی پتیوں کا سایہ جھک گیا۔ بیکراں رات کی خاموشی میں چھوٹے چھوٹے خداؤں کی سرگوشیاں منڈلا رہی تھیں۔ پیانو آہستہ آہستہ بجتا رہا اور اسے ایسا لگا جیسے ساری دنیا، ساری کائنات ایک ذرے کے برابر بھی نہیں ہے اور اس وسیع خلا میں صرف اس کا خیال، اس کی یاد ، اس کا تصور لرزاں ہے۔ اور اس وقت اس نے محسوس کیا کہ رات، مرغ زاروں کی ہوا اور اس کی یاد ایک بار پھر جمع ہوگیے تھے۔ لیکن اسی وقت دھندلے ستاروں کی مدھم چیخیں آسمان پر گونج اٹھیں اور ان تینوں ساتھیوں کو منتشر کرتی ہوئی پہاڑیوں کی دوسری طرف جاکر ڈوب گئیں اور وہ خیالوں کے دھندلکے میں سے کہتا سنائی دیا:
لیڈی ویرونیکا۔ می لیڈی۔ ہُش۔ چاند سن لے گا۔ پھول جاگ اٹھیں گے۔ اپنے ساز اور رواں نہ کرو۔ نیندوں کی بستی کے راستوں پر سے خوابوں کا، پھولوں اور گیتوں کا کارواں آہستہ آہستہ گزر رہا ہے اوراس نے انتہائی تکلیف کے ساتھ سوچا، اور ایسا سوچتے ہوئے اسے نا معلوم سی خوشی ہوئی کہ کاش، کاش وہ مر ہی جائے۔ وہ جس کی آواز اب تک ستاروں کے دھندلکے میں گونج رہی تھی۔ وہ بس مرجائے۔ اگر وہ خود نہیں مرسکی تو وہ کیوں نہیں مرتا۔ لیکن وہ زندہ ہے۔ سب زندہ ہیں۔ اور چاند آلوچے کی ٹہنیوں کے پیچھے چھپ گیا اور چاندنی رات کا گیت تھم گیا۔ مہا گنی کے بھاری سیاہ آتش دان کے کونے پر جلتی ہوئی شمع لرز اٹھی اور تصویر کے بڑے سے شیشے کی سطح پر دھندلی زرد روشنی کی لکیریں تیرتی رہیں اور نیلگوں رات کے ایوانوں میں سے جھک کر چھوٹے چھوٹے خداؤں نے چپکے سے اس سے کہا:
لیڈی ویر ونیکا، ہوائیں خاموش ہیں، پھول سوچکے ہیں۔ تمہاری تصویر کی بڑی بڑی نیلی آنکھوں کے اوپر کے شیشے کو گرد نے دھندلا کردیا ہے اور اس پر پرانے نقرئی شمع دان کا اجالا جھلملا رہا ہے کیوں کہ تم لیڈی ویر ونیکا نہیں ہو اور نہ زندگی وہ زندگی ہے جس میں چاند کی روشنی ، شوپاں کی موسیقی، پھولوں کے رنگ اور سمندر کی موجیں تھیں۔ خوب صورت زندگی، خوب صورت دنیا اور خوب صورت لیڈی ویر ونیکا۔۔۔ Oh! you silly little Lady make believe۔ شمع کا دھواں دیوار پر لہرا رہا ہے اور مہاگنی کا سیاہ آتش دان زیادہ مہیب نظر آتا ہے۔ زندگی مہیب ہے۔ ہیبت ناک، خوف ناک اور اکتائی ہوئی۔ زندگی اپنے آپ سے اکتا گئی ہے۔ زندگی کبھی ہاتھ نہ آنے والی اور دور سے نظر آکر پھر کھو جانے والی فردوس کے لیے روتے روتے تھک چکی ہے۔
اور اس اندھیری روش پر سے آدھی رات کی ہوائیں شورکرتی ہوئی گزرتی ہیں۔ اس نے پیانو بند کردیا اور اسے خیال آیا کسی نے کہا ہے: ’’ خدا نے ہمیں یادوں کا قیمتی خزانہ اس لیے عطا کیا ہے کہ ہم سرماکی برفانی فضاؤں میں بہار کے گلاب کی گرم خوشبوئیں حاصل کرسکیں۔‘‘ یہ یادیں۔ اس نے محسوس کیا کہ یادوں کی اس فراوانی نے اسے تھکا دیا ہے۔ پھر بھی وہ یادیں اور احمقانہ خواہشیں آگ کی سی تیزی کے ساتھ جل رہی ہیں اور ہواکے ایک تیز جھونکے سے لیڈی ویر ونیکا کی تصویر کے نیچے لرزاں شمع یک لخت بھڑک کر بجھ گئی اور موسیقی کی کتاب کے چند ورق منتشر ہو کر پیانو سے نیچے گر پڑے۔ قریب کی کوٹھی میں کسی نے ریڈیو گرام پر ایک پرانے نغمے کا ریکارڈ بجانا شروع کردیا تھا۔ ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مرمریں ایوانوں میں رہتی ہوں اور ان محلات کی چار دیواری کے باسی مجھ پر نازاں ہیں اور میں ان کی امیدوں کا سہارا ہوں۔ میرے پاس بے شمار دولت ہے اور میں بے انتہا اعلیٰ نسب ہوں، اور خواب میں میں نے یہ بھی دیکھا، جس سے مجھے بے حد خوشی ہوئی، کہ تم اب بھی مجھے اتنا ہی چاہتے ہو۔‘‘
ایک مرتبہ کالج کے اوپیرا میں اس نے یہ گیت اس آسٹرین ڈیوک کی لڑکی کا پارٹ ادا کرتے ہوئے، جسے بچپن میں خانہ بدوش چرالائے تھے، پائن کے جنگلوں میں پناہ گزیں پولش فوجی افسر کو سنایا تھا۔ شاید ایڈوینا نے بھی، جو اوپیرا میں ہیرو بنی تھی، اب تک یہ گیت فراموش کردیا تھا۔ ہم سب یہ گیت بھول چکے تھے۔ میں اور کملا اور وملا اور مہر جبیں۔ ایسے بے کار کے جذباتی نغموں کا اثر کون لیتا ہے اور کون یاد رکھتا ہے؟ اور اس نے بہت شدّت اور تکلیف کے ساتھ سوچا، کاش تم نے اس وقت مجھے چاہا ہوتا جب میں نے بھی تمہیں چاہا تھا۔ لیکن خداؤں نے ایسا نہ ہونے دیا کیوں کہ پھر وہ یقینا مرجاتی اور اس نے محسوس کیا کہ وہ اکیلی ہے اوراس سے بہت دور ہے اور وقت کسی پرانے دیوتا کا پرانا خواب بن کر اپنی جگہ پر ٹھہر گیا ہے۔ وہاں پر صرف رات کی چیخیں تھیں اور خوابیدہ کائنات کی سسکیاں اور چاندنی کی ٹھنڈی آگ۔
وہ ریلنگ کے سہارے برآمدے کے ٹھنڈے فرش پر لیٹی رہی اور اسے ایسا لگا جیسے اس کے چاروں طرف شبنمی راہیں پھیلی ہوئی تھیں اور ان راہوں کے کنارے، ان راستوں کی منزلوں پر ہم سب وہاں موجود تھے، اس کے منتظر تھے لیکن وہ ہم کو پیچھے چھوڑ آئی تھی۔اور پھر ،یہ سب کچھ سوچتے سوچتے نیلو فر سو گئی اور فضاؤں میں ہوا کے راگ اور خداؤں کی سرگوشیاں بند ہوگئیں۔
کس قدر جلد یہ سب مذاق ختم ہوگیے۔ ایک تصویر کو آخری ٹچ دیتے ہوئے مجھے خیال آیا۔ زندگی کا نیا چاند قہقہوں، آنسوؤں اور خوابوں کی حدوں سے دور، شفق کے جزیروں پر کبھی طلوع نہیں ہوتا اور ہم اس کے انتظار میں تھک کر سو جاتے ہیں اور پھر رات آتی ہے اور رات کی خاموشی اور پھر موت ۔ عشق کی موت۔ لیکن پھر بھی ہم زندگی کو دل چسپ اور زندہ رہنے کے قابل سمجھنے کے لیے مجبور ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں، ریوپرٹ بروک کی نظمیں، مہاراشٹرین طرز کی کلاسیکل موسیقی، والز کے نغمے، جیمس میسن کے فلم۔۔۔ یہ ٹوٹی پھوٹی احمق چیزیں۔۔۔ زندہ رہنے کی یہ بے وقوفی۔
زندگی بہت ہی مضحکہ خیز چیز ہے۔ ہے نا! اس میں کوئی پلاٹ نہیں، کوئی تک نہیں۔ بہت سی باتیں ہیں۔ ایک کے بعد ایک، لگاتار بس ہوتی چلی جاتی ہیں جن کا آپس میں کوئی منطقی ربط تلاش نہیں کیا جاسکتا، جن کا پہلے سے کچھ پتہ نہیں ہوتااور نہ بعد میں پتا چلتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ جی ہاں، زندگی مضحکہ خیز ہے اور اس وقت چائنا پلیٹ میں رنگوں کو ملاتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ میری اور کملا کی ساری منطق اور فلسفہ طرازیاں یہاں پہنچ کر بالکل نا کام ثابت ہوئیں۔ کیوں کہ بہار کی ایک نارنجی سہ پہر کو کالج کے سوئمنگ پول کے مرمریں فرش پر کہنیوں کے بل لیٹے لیٹے ہم نے اچانک یہ محسوس کیا کہ نیلوفر کی نیلی آنکھوں میں اداسی کی لہریں تیرنے لگی ہیں اور اکنومکس پڑھنے کی کوشش ملتوی کر کے چاروں طرف جھکے ہوئے آم کے درختوں کے پرے دیکھتے ہوئے ڈورؔس نے دفعتاً ایک سوال کیا: ’’اس کو دیکھا؟‘‘
’’ہوں!‘‘
سب نے ایک ساتھ جواب دیا، پھر خاموشی چھا گئی: ’’واش آؤٹ ہے بالکل۔‘‘ نیلو فر نے بے تعلقی سے رائے ظاہر کی۔ ’’اینی کے سامنے کچھ مت کہو۔ اس کو اپنے اس بھائی پر بہت فخر ہے۔ ‘‘ سعیدہ نے کہا۔ ’’خیر بھائی وہ ہرگز نہیں بگڑے گی۔ واش آؤٹ تو وہ بالکل نہیں ہے۔ مگر جناب وہ اپنے بھائیوں کا پروپیگنڈا قطعی نہیں کرتی ہے۔ بلکہ اس نے تو بہت انکساری اور خاکساری سے اور بالکل یوں ہی تذکرہ کیا تھا کہ اور تو اور زبیدہ عثمانی تک اس کے تازہ وارد بھائی سے فلرٹ کرنے کی فکر میں ہیں۔‘‘ ڈورس آہنی سیڑھیوں پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
۔۔۔اور اسی طرح دیر تک ان نئے انکشافات کے متعلق باتیں ہوتی رہیں اور جب پھولوں کا موسم گزر کرنیلے بادلوں اور پھواروں کا زمانہ آیا، جب دوپہر اور سہ پہر کے وقت قہوہ خانوں میں انتہائی چہل پہل اور رونق ہوتی ہے، تو کالج میں اچھا خاصا سنسنی خیز تہلکہ مچ گیا،’’ فرخندہ آج بھی وہ قہوہ خانہ میں سخت show off کر رہا تھا اوراکثر سیاہ چشمہ لگاتا ہے چُغد کہیں کا، کیوں کہ سیاہ چشموں سے زیادہ خوب صورت نظر آسکتا ہے اور ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ہال کے بیچ کی نشستوں پر بیٹھ کر گوگلز کے ذریعے آپ سب کو اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں لیکن یہ کسی کو نہیں معلوم ہوسکتا کہ آپ کی نظریں کس کس طرف ہیں۔ مگر بھئی بے حد شاندار ہے اور اتراتا کس قدر ہے۔ آخر ہے کون یہ؟ ‘‘ اور میں نے شرارتاً یوں ہی بے خیالی میں کہہ دیا: ’’ وہ ہے۔۔۔ وہ ہے۔۔۔ نیلو فر کا فیانسے۔‘‘ اور سارے کالج میں جانے کس طرح آپ سے آپ یہ خبر مشہور ہوگئی کہ نیلوفر کی شادی امتحانات کے فوراً بعدہوجائے گی اور اس کافیانسے آج کل لکھنؤ میں ہے۔
اور جانے کس طرح نیلوفر نے یہ سوچ لیا۔۔۔ جانے کیا کیا سوچ لیا۔ اور سعیدہ نے کہا : ’’بھئی نیلوفر اپنی ساری آئیڈیلزم تہہ کر کے رکھ دو۔ بہترین پتنگ ہے۔ خوب صورت ، دل کش اوراعلیٰ عہدے پر ،اور تمہاری ہی دوست کا کزن بھی ہے۔‘‘ نیلوفر نے ایک دفعہ کہا تھا کہ وہ بچپن میں پورٹ بلیئر میں ہم لوگوں کے ساتھ رہ چکا ہے۔ میں نے اور کملا نے دماغ پر بہت زور ڈالا لیکن قطعی یاد نہیں آیا اور پھر ڈورس نے کہاکہ بھئی وہ تمہارے بچپن کے جاننے والے بھی نکل آئے Go ahead sister وہ اپنے مخصوص اینگلوانڈین انداز میں بولی اور نیلوفر فوراً رو پڑنے پر آمادہ ہوگئی۔ ’’بچپن کے جاننے والے کیا تمہارے نہیں ہیں۔ اینی کے توکزن ہیں۔‘‘
’’ہوں گے بھئی، ہم کو تو بالکل یاد نہیں۔ پورٹ بلیئر کا زمانہ گزرے اتنا عرصہ ہوگیا۔ اگر ہمیں پہلے نہ معلوم ہوتا کہ تم کنیرڈ سے آئی۔ ٹی۔ آر ہی ہو تو ہم تم کو بھی نہ پہچان سکتے۔‘‘وملا نے کہا۔ اور ہمارے ٹیلی فون کی گھنٹیاں زیادہ تیزی سے بجنے لگیں۔ جب تک مسعود بھیّا کو الگ کوٹھی نہیں ملی وہ ہمارے یہاں ہی رہے اور ہماری ایک دوست کی دوست زبیدہ عثمانی نے، جو ایم۔ اے۔ اور لاء کے امتحان دیا کرتی تھیں ، اب براہ راست میری دوست بن جانا از حد مناسب سمجھا۔ وہ دو دن میں آٹھ بار فون کرتیں۔ نوکروں سے کہہ دیا گیا تھا کہ جب ان کا فون آئے تو کہہ دینا کوئی گھر پر نہیں ہے۔
اور اس شام نیلوفر قانون کی کلاس کے بعد ہوسٹل جانے کے بجائے سیدھی ہمارے یہاں آگئی۔ لان پر درختوں کے اندھیرے میں سب گھر والے جمع تھے۔ اس نے پھاٹک سے ہی دیکھ لیا کہ ایک شان دار نیلی اسپورٹس کار برساتی میں کھڑی ہے۔ سبزے پر پہنچ کو سرو کے درختوں سے چھنتی ہوئی روشنی میں اس نے غور سے دیکھا کہ سوائے کنور مہندر سنگھ اور ایک صاحب کے باہر کا آدمی کوئی نہ تھا۔ اس نے سوچا شاید کنور صاحب نے اپنی کار تبدیل کر لی ہے۔ وکیل صاحب آگیے بھئی۔ نیلو فر تھکی تھکائی ممی کے قریب آرام کرسی پر بیٹھ گئی۔ ہلو وکیل صاحب۔ کنور مہندر نے دوبارہ کہا، ’’اوہو آپ کب آئے مہندر بھائی۔ نیلو فر نے چونک کر کہا ۔ شکر کہ بیرسٹر صاحب کو یاد تو آیا کہ اس خاکسار کو مہندر کہتے ہیں اور میں مسعود جاوید ہوں ۔ مہندر کے ساتھی نے کھڑے ہو کر اس وثوق اور خود اعتمادی کے ساتھ اپنا تعارف کرایا جیسے دنیا میں صرف ایک وہی مسعود جاوید ہوسکتے ہیں، کوئی بہت ہی اہم اور مشہور ہستی۔
نیلوفر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔۔۔ ہونھ ۔۔۔ اتراہٹ کی انتہا ۔۔۔ رات کا وقت ہے ورنہ گوگلز اس وقت بھی موجود ہوتے۔ کھانے کا انتظام کروا کے تھوڑی دیر بعد میں باہر آگئی۔ بھائی جان بھی شام کی شفٹ ختم کر کے پائینر کے دفتر سے واپس آگیے تھے۔ چاند سرو کے درختوں کے پیچھے سے طلوع ہوچکا تھا۔ کھانے کے وقت تک کے لیے ہم سب مس عثمانی کے فون کی باتیں کرتے ہوئے باہر خاموش سڑک پر ٹہلنے لگے۔ کنور مہندر نے کہا : مسعود کو اب تک لکھنؤ کی تاریخی عمارتوں کی سیر نہیں کرائی گئی۔ اگر اگلے مہینے اس کا یہاں سے بھی تبادلہ ہوگیا تو وہ کچھ نہیں دیکھ پائے گا۔
میں نے بے حد سنجیدگی سے انہیں بتایا لکھنؤ کے سب سے زیادہ تاریخی اور اہم ترین مقامات صرف تین ہیں: 21فیض آباد روڈ -3 فیض آباد روڈ ، جہاں کملا رہتی ہے، اور ہمارے کالج کا لیڈی مہاراج سنگھ سوئمنگ پول جس کی خشک تہہ میں جمع ہو کر ہمارے اسکینڈل مونگرنگ کلب کی میٹنگ ہوتی ہے۔ اتنے میں گومتی کے قریب والی سڑک پر سے انوری بیگم اور قمر الاسلام آتے دکھائی دیے۔ دیکھو مسعود بھیّا اسے مون لائٹ سیرینیڈ کہتے ہیں ،میں نے ایک مستعد گائیڈ کی طرح سمجھایا۔ کنور مہندر، بھائی جان اور مسعود بھیّا نے اپنی خوب صورت یونانی قسم کی ناکیں سکیڑ کر گویا کچھ سونگھنے کی کوشش کی۔ مسعود بھیّا نے کچھ سوچتے ہوئے کہا: اور تمہارے یہاں ڈونکی سیرینیڈ کیسا ہوتا ہے؟ بڑا زبردست قہقہہ پڑا۔ ہم ٹہلتے ہوئے ریلوے کراسنگ تک چلے گئے۔ وہاں تاروں پر بیٹھتے ہوئے مسعود بھیّا کو دفعتاً جیسے کچھ یاد آگیا ہو اور انہوں نے آہستہ سے کہا:
لیڈی ویروینکا ۔ نیلوفر چونک پڑی اور پھر ہم سب کو دور، ریلوے لائن کے اس پار، گنّے کے کھیتوں کے اوپر جھکے ہوئے چاند کے اجالے میں یاد آیا۔ پورٹ بلیئر میں ایک بار وملا کی سالگرہ کے فینسی ڈریس بال روم میں نیلوفر اٹھارویں صدی کی ایک مغربی شہزادی بنی تھی۔۔۔ لیڈی ویرونیکا۔۔۔ می لیڈی ! اور ڈھیروں جھالروں اور ریتوں والے وزنی لباس میں چھپی ہوئی چھوٹی سی لیڈی ویرونیکا نے اپنی بڑی بڑی نیلی آنکھیں جھپکا کر شاہانہ وقار سے اپنی پنکھیا ہلاتے ہوئے کہا تھا: وی موسیو! مجھے ماری انطونی کہو۔ اور مسعود بھیّا نے دوزا نو جھک کر اس کے حکم کی تعمیل کی تھی اور نیلوفر نے اپنی عجیب مضحکہ خیز حماقت آفرین ٹوپی کا پر چھوتے ہوئے کہا تھا: ارے میرے ڈارلنگ لوئی۔۔۔ میرا بھیڑ کا سفید بچہ تم نے اب تک پیرس سے نہیں منگوایا۔ اور اچھا بھئی تم جیسے ایک بے وقوف سے سوئیڈش کاؤنٹ ہو،اب تم جھک کر ہکلاتے ہوئے کہو۔۔۔ یور۔۔۔ یور میجسٹی۔۔۔ آپ دنیا کی خوب صورت ترین ملکہ ہیں۔
اور اس وقت چاند کے مدھم اجالے میں ہمیں جزائر انڈیمان میں گزارا ہوا اپنا بچپن یاد آگیا۔ جزیرے میں جو کوئی افسر سمندر پار سے تبدیل ہو کر آتا، ہم سب سے پہلے یہ کھوج لگاتے کہ اس کے ساتھ بچے ہیں یا نہیں۔ مسٹر جسپال کے بچّے، ہم بہن بھائی، نیلوفر اور اس کی دونوں بڑی بہنیں اور چیف کمشنر کی لڑکی ایزمی۔۔۔ سارے جزیرے میں صرف اتنے بچّے تھے۔ ہم صبح سے شام تک کھیلتے اور لڑتے۔ سہ پہر کو ساحل پر جاکر سیپیاں جمع کرتے، ریت کے قلعے بناتے، ایزمی کی قیادت میں کنارے کنارے تیرنے کی مشق کرتے اور رات کو بیٹھ کر جیومیٹری اور گرامر میں سرکھپاتے۔ بھائی جان، کملا اور وملا کے بڑے بھائی، ہم سب میں بلندو بالا اور قابلِ قدر ہستیاں سمجھی جاتیں کیوں کہ دونوں ہم سے دور، سمندر پار، کرنل بوائز میں پڑھ رہے تھے۔
کرسمس اور گرمیوں کی چھٹیوں میں جب یہ دونوں دہرہ دون پورٹ بلیئر آتے تو ہم سب کو کس قدر خوشی ہوتی تھی۔ ہم سب کی کوٹھیاں پاس پاس تھیں۔ لکڑی کے دو منزلہ جاپانی وضع کے سرخ چھتوں اور سبز جنگلوں والے ہمارے پیارے پیارے سے گھر۔ نچلی منزل میں ہماری کوٹھی کی حفاظت کے لیے گارڈ کے سپاہی رہتے تھے۔ برساتی کے اوپر سمندر کے رخ پر بڑے بڑے شیشے کے دریچوں والا ڈرائنگ روم تھا جہاں سے بندرگاہ کی طرف آتے ہوئے جہاز نظر آتے رہتے تھے۔ رات کو افق کی سیاہ لکیر کے قریب لائٹ ہاؤس کی روشنی جھلملاتی تھی۔ وہاں رنگوں کی کس قدر فراوانی تھی۔ گہرا نیلااور گہرا سبز سمندر، سنہری ریت، سرمئی چٹانیں، کوٹھیوں کی سرخ چھتیں، ناریل کے ہرے جھنڈ، ساحل پر لہریں مارتی ہوئی نارنجی دھوپ، سفید سمندری پرندے اور ہماری کشتیوں کے سفید بادبان ۔۔۔ چاروں طرف رنگ ہی رنگ پھیلا ہوا تھا۔ کاش میں بڑی ہوتی تو ان رنگوں کو سمیٹ کر کینوس پر بکھیر دیتی۔ حدِ نظر تک پھیلے ہوئے لالہ زاروں پر برستی ہوئی دھوپ میں ایسا لگتا تھا جیسے فضا میں آگ لگ گئی ہے اور رنگ برنگے شعلے لپک رہے ہیں۔ ہمارے باغ کی ڈھلوان کے اختتام پر ناریل کے جھنڈ میں چھپی ہوئی مسٹر جسپال کی کوٹھی تھی۔ جب ابّا جان اور انکل جسپال اپنے دفتروں کو چلے جاتے اور ہمیں بادلِ ناخواستہ اپنے اپنے گھروں میں ماسٹروں سے پڑھنا پڑتا اس وقت ٹیلی فون کی شامت آجاتی۔
وملا فون کرتی: اینی تمہارے ٹیڈی بیئر کی طبیعت اب کیسی ہے؟ میری پوسی کو زکام ہوگیا ہے اور شکنتلا نے میرے اسکوٹر کے پہیے توڑ ڈالے ہیں۔۔۔ تمہارے مولی صاحب اب تک نہیں سوئے۔
سہ پہر تک یہی ہوتا رہتا تا وقتیکہ ممی کی ڈانٹ نہ پڑجاتی یا مولی صاحب اس شور سے گھبرا کر اپنے مراقبے سے نہ چونک اٹھتے۔ ہمیں اردو بالکل نہیں آتی تھی۔ ابّا جان کو سخت پریشانی تھی کہ اگر یہی عالم رہا تو بچّے بالکل اینگلو انڈین بن کر رہ جائیں گے۔
چنانچہ بیحد انتظام سے کلکتہ سے ایک سرخ داڑھی والے مولی صاحب کو پکڑ کر منگوایا گیا تھا اور الٹی میٹم ملا تھا کہ اگر تم نے مولی صاحب کے ساتھ بھی شرارت کی تو یاد رکھو کان پکڑ کر علی گڑھ بھیج دیا جائے گا۔ یہ بات اس قدر خوف ناک معلوم ہوئی تھی کہ دل پر جبر کر کے ہم نے اردو کی گرامر اور آمد نامہ یاد کرنا شروع کردیا تھا۔۔۔ مجھے اب تک اچھی طرح یاد ہے کہ جس روز مولی صاحب پہلی مرتبہ آئے تو انہوں نے قرآن شریف شروع کروانے سے پہلے بے حد سنجیدگی سے پوچھا: بی بی تم ہاتھ کھول کر نماز پڑھتی ہو یا ہاتھ باندھ کر ۔ ہم نے بتایا کہ ہم نماز ہی نہیں پڑھتے۔ اتنے چھوٹے سے تو ہیں، کیسے پڑھیں۔ پھر انہوں نے پوچھا: اچھا تمہاری ممی کس طرح پڑھتی ہیں ۔۔۔ جواب ملا معلوم نہیں۔
انہوں نے پریشان ہو کر ابّا جان سے اس مسئلے پر رجوع کیا۔ روزانہ ہمیں آٹھ بجے ہی سونے کو بھیج دیا جاتا لیکن ہفتے اور اتوار کی رات ہمارے لیے گالانائٹ ہوتی تھی کیوں کہ اس روز ہم سب کے امی اور ابّا جزیرۂ نکوبار کے کلب سے بہت رات گیے واپس آتے۔ ان کی غیر موجودگی میں بچّوں کی حفاظت کے لیے گارڈ دہری کردی جاتی تھی اور ہم سب کوجمع کرکے شکنتلا یا ایزمی کے سپرد کردیا جاتا تھا۔ ہم لوگ جی بھر کے شورمچاتے ۔۔۔ اندھیرے کمروں، گیلریوں اور زینوں میں چھپ کر آنکھ مچولی کھیلتے۔ اس قدر زور زور سے گاتے کہ پیانو کے پردے ٹوٹتے ٹوٹتے رہ جاتے۔۔۔اور پھر ایک روز ہم نے سنا کہ ہماری اس جنت میں ایک اور فرد کا اضافہ ہونے والا ہے۔
میں باغ کی سیڑھیوں پر بیٹھی فرنچ گرامر یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ نیلو فر بھاگی بھاگی آئی اور اپنی نیلی آنکھیں پوری طرح کھول کر بولی: اینی آج صبح جو بہت لمبا سا سفید جہاز سنگاپور سے آیا ہے اس میں سے ایک کرنل صاحب اترے ہیں۔ ان کی بیوی انگریز ہیں اور دوبچّے ہیں ۔۔۔اور وہ سب اس وقت انکل جسپال کے یہاں چائے پی رہے ہیں۔ میں نے کتاب وہیں سیڑھیوں پر چھوڑ دی اور ہم دونوں باغ کے نشیب کا فاصلہ پھلانگتے ہوئے انکل جسپال کے یہاں پہنچے۔ ہمیں آتا دیکھ کر کملا اسی رفتار سے دوڑتی ہوئی برآمدے کے سبز جنگلے پر سے کود کر ہماری طرف بھاگی۔ ہمارے دو ساتھی اور آگیے۔’’ دونوں پوری طرح شیطان ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ اسکیٹنگ اور تیرنے کے مقابلے میں وہ ہم کو ہرا دیں گے۔‘‘
لیکن کماّ۔۔۔ ان کے ڈیڈی بھی دُم والا کوٹ پہنتے ہیں نا یعنی ٹیل کوٹ۔۔۔ میں نے کچھ سوچ کر پوچھا کیوں کہ ابّا جان شام کے وقت دم والا سیاہ کوٹ پہن کر اپنی موٹر بوٹ میں بیٹھ کے جزیرہ نکوبار کی طرف جایا کرتے تھے جہاں کلب تھا جس میں ہر وقت موسیقی گونجتی رہتی تھی اورجہاں رات گیے تک خوب تیز روشنی رہتی تھی اور میرا خیال تھا کہ دنیا میں صرف دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں: وہ جو شام کو دُم والا کوٹ پہنتے ہیں جیسے انگریز چیف کمشنر، ابّا جان اور انکل جسپال اور نیلوفر کے ڈیڈی اور دوسرے جو دُم والا کوٹ نہیں پہنتے۔ کیوں نہیں پہنتے؟ یہ سوال میرے دماغ میں نہیں آسکا تھا اور نہ یہ کہ ان دوسرے قسم کے لوگوں کے بچّوں کے ساتھ کھیلنے کی ہمیں اجازت کیوں نہیں ملتی۔
اور ان دونوں بچوں کی وجہ سے ہماری زندگی زیادہ دلچسپ بن گئی۔ ممی کے بہن بھائیوں کی قوم سارے ہندوستان میں پائی جاتی ہے۔ یہ دونوں بھائی بھی کسی رشتے سے بالکل ہمارے فرسٹ یا سیکنڈ کزن ثابت ہوگیے۔ ان کی ممی یعنی ہماری خالہ کا انتقال ہوچکا تھا اور ان کے ڈیڈی نے ایک انگریز خاتون سے شادی کرلی تھی اور چونکہ وہ ممی کے بھانجے تھے لہذا وہ ان کی نگہداشت اور خاطر مدارات کی خود ہی انچارج مقرر ہوگئیں۔ وہ جتنی بھی شرارتیں کریں اور ہمیں تنگ کریں سب بجا اور روا تھا کیوں کہ دکھیا، بن ماں کے بچے ہیں۔ مسعود بھیا ،ہم سب اور ہمارے سمندر پاروالے بھائیوں سے بھی عمر میں بڑے تھے۔ بیک وقت بے حد سنجیدہ اور بے حد شریر۔ ہر بات میں ہم سب کو Boxکرتے تھے اور ہم اپنی عافیت اسی میں سمجھتے تھے کہ ان کا ہر حکم چپکے سے مان لیں۔ ایک روز مسعود بھیا کی شرارتوں سے عاجز آکر وملا اور میں نے آنکھوں میں آنسو بھر کے دعا مانگی تھی کہ اللہ کرے بھیا جلدی سے دہرہ دون سے آجائیں۔ وہ آکے سارے مظالم کا انتقام لیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے اگلی چھٹیوں میں ہمارے بھائیوں میں جہاز سے اترتے ہی مسعود بھیا سے اس قدر گہری دوستی ہوگئی کہ ہمیں بھی انتقام سے نا امید ہونا پڑا۔
اور اس طوفانی بچپن کے دن تیزی سے پرواز کرتے رہے۔ چند سال بعد ابا جان اور انکل جسپال کا تبادلہ ساتھ ساتھ پھر ہندوستان کا ہوگیا۔ ایزمی ہمارے آنے کے کچھ عرصے بعد انگلستان واپس چلی گئی۔ مسعود بھیا بھی جانے کہاں گیے اور بے چاری نیلوفر جزیرے میں اکیلی رہ گئی۔
پورٹ بلیئر سے آنے کے بعد ہم ان سب کو بھول گیے۔ ہندوستان واپس آکر شکنتلا، کملا، وملا اور میں دہرہ دون کے کانونٹ میں پڑھنے لگے۔ پھر ریٹائر ہونے کے بعد ابا جان ہماری اعلیٰ تعلیم کے خیال سے لکھنؤ میں رہنے لگے۔ اسی دوران میں انکل جسپال کا تبادلہ الٰہ آباد سے لکھنؤ کا ہوگیا اور ہم سب ساتھ ساتھ کالج اور یونی ورسٹی کی مختلف کلاسوں میں داخل ہوئے اور بڑے ہو کر تو ہم سب اس قدر تیز نکلے کہ خدا کی پناہ۔ شکنتلا اور کملا بی۔ اے۔ ایم۔ اے۔ ایل۔ ایل۔ بی۔ سب امتحانوں میں فرسٹ آتی چلی گئیں۔ تقریری مقابلوں میں ڈھیروں کپ جیت ڈالے۔ کملا اور وملا نے اودے شنکر کے سینٹر جاکر کلاسیکل رقص میں مہارت حاصل کرلی۔ کملا انٹر یونی ورسٹی تقریری مقابلے میں علی گڑھ جاکر ایک بڑی سی چاندی کی مسجد اٹھا لائی اور میں نے تصویروں کے کینوس تہہ کرکے افسانے جو لکھنے شروع کیے تو سب گھر والوں کا ہنستے ہنستے براحال ہوگیا۔ افوہ، ذرا سوچو تو سہی، بی بی گھر سے باہر کی دنیا میں افسانہ نگار مشہور ہیں۔ اور کھانے کی میز پر اس قدر شور مچتا۔۔۔ میں بے چاری سب سے لڑتی کہ بھائی قسم خدا کی میں اتنے اچھے افسانے لکھتی ہوں۔
ابھی یہ دیکھیے ’’ادبِ لطیف‘‘اور ساقی کے ایڈیٹروں کے خط آئے ہیں کہ سالنامے کے لیے مضمون بھیجئے۔ اور وہ قہقہہ پڑتا کہ رونا آجاتا۔
ایک روز میں نے بے حد خوش ہو کر چائے کے وقت سب کو یہ خبر سنائی کہ بھئی ہمارا مجموعہ شائع ہو رہا ہے۔ کسی کو یقین ہی نہ آئے۔ بھائی جان کے ایک دوست نے انتہائی سنجیدگی سے فرمایا کہ کتاب کے ساتھ ساتھ ایک شرح بھی چھپوا لیجیے تاکہ پڑھنے والوں کی سمجھ میں آجائے کہ آپ نے کیا لکھا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ ہم سب اس قدر انٹلکچوئیل بن گیے کہ افوہ۔ ہمارا اپنا فلسفہ تھا، اپنی زندگی تھی، اپنا مخصوص ماحول، اپنی مصروفیتیں۔ اور زندگی بڑے سکون اور اطمینان سے گزر رہی تھی۔ ہم گھنٹوں ٹینس کھیلتے، کالج کے سوئمنگ پول میں پیرتے، کالج کے ڈراموں اور رقصوں کی مشق اور ریڈیو پروگراموں کی ری ہرسل کرتے۔ scandal mongering کی جاتی۔ رات کو ابّا جان کے ساتھ میں دیر تک اقبال کی شاعری اور دنیا جہاں کی باتوں پر بحث کرتی رہتی۔ اباّ جان میرے بہترین دوست تھے۔
۔۔۔لیکن ایک موقع ایسا آیاکہ مجھے اور کملا کو اپنا confusionism کا سارا فلسفہ بھول جانا پڑا۔ زندگی کے متعلق ہمارے اصول اور نظریے بالکل غلط اوربے کار ثابت ہوئے۔ ہم نے تجزیۂ نفس کے سارے تجربے پڑھ ڈالے پر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ کیوں کہ نیلوفر کی نیلی آنکھوں میں آنسو جھلملا اٹھے۔ کس قدر چغد ہو، میں نے انتہائی بے زاری کے ساتھ کہنا چاہا۔ محبت۔۔۔محبت جو ابلیس کی طرح جنت سے جہنم میں پھینک دی جاتی ہے اور دھندلکوں میں بھٹکے ہوئے وہ احمق راہی، جو سایوں کے پیچھے بھاگتے ہیں اور یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کے دیوتاؤں کے پاؤں مٹی کے ہیں۔ میں نے سوچا کہ ان الفاظ کے ذریعے نیلوفر کے سر میں عقل واپس آجائے گی لیکن اس کی آنکھوں میں پانی اسی طرح مچلتا رہا۔
۔۔۔اوراسی وقت فون کی گھنٹی تھرا اٹھی۔ مسعود بھیا کو علاحدہ کوٹھی مل گئی تھی اور وہ ہمارے یہاں سے جاچکے تھے لیکن مس عثمانی برابر فون کیے چلی جارہی تھیں۔ آج پہلی مرتبہ مس عثمانی سے میرا سابقہ پڑا۔ ادھر سے آواز آئی: ’’ ہلو ! آپ کہاں سے بول رہی ہیں۔‘‘
’’فرمائیے ۔‘‘
’’ار ۔۔۔ مسعود امام صاحب ہیں؟‘‘
غصہ کے مارے جی چاہ رہا تھا کہ بس زبیدہ عثمانی مرجائیں۔یا میں مر جاؤں اسی وقت۔ادھر سے پھرآواز آئی، ’’اور آپ یلدرم صاحب کی صاحبزادی ہیں!‘‘
’’جی اس خاکسار کو آپ سے فون پرنیاز حاصل کر کے بیحد قلبی مسرت ہوئی۔‘‘ میں نے انتہائی مری ہوئی آواز میں کہا۔
’’آپ ازابلا تھوبرن کالج میں پڑھتی ہیں نا؟‘‘
’’جی۔ ‘‘میں نے جواب دیا۔
’’ہی ہی ہی۔ مجھے تو آپ سے ملنے کا بیحد اشتیاق ہے۔ آپ کو تو میں کہیں دیکھ بھی چکی ہوں اور آپ کی آواز بھی بے حد مانوس سی معلوم ہو رہی ہے۔ ریڈیو پر تو اکثر آپ کی آواز سنتی ہوں۔ بیحد سوئٹ آواز ہے آپ کی۔‘‘
’’جی۔‘‘ میں نے ان کی رائے سے اتفاق کیا۔ لیکن ان کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی،’’ار۔۔۔ ار۔۔۔ وہ آپ کے بھائی۔ یعنی کہ وہ اس وقت گھر پر موجود ہیں؟‘‘
’’جی نہیں‘‘ میں نے فون بند کرنا چاہا لیکن وہ پھر بولیں:’’کہاں گئے ہیں؟ دل کشا کلب تو نہیں؟ اوہو تو ضرور اودھ جیم خانہ گیے ہوں گے۔ آج وہاں غوث محمد کا سیمی فائنل ہے یا چھتر منزل کلب۔۔۔ انڈیا کافی ہاؤس تو آج نہ گیےہوں گے۔‘‘
’’جی ۔‘‘ میں نے جل بھن کر جواب دیا، ’’میں کیا بتاؤں، آپ کو خود ہی معلوم ہے کہ انہیں کہاں کہاں پایا جاسکتا ہے۔ ‘‘
’’جی۔۔۔ جی ہاں۔۔۔‘‘
’’واقعہ یہ ہے مس عثمانی ۔۔۔میں نے کھنکار کر کہنا شروع کیا، ’’کہ مسعود صاحب کو کوتوالی لے جایا گیا ہے۔‘‘
’’ایں!‘‘
’’جی ہاں۔ در اصل ان کے پیچھے وارنٹ نکلا ہے کیوں کہ وہ الٰہ آباد سے کلکٹر کے یہاں کے چاندی کے چمچے چرا کر بھاگے ہیں اور یہاں بھیس بدل کر گھوم رہے ہیں۔ وہ جوائنٹ مجسٹریٹ وغیرہ کچھ نہیں ہیں بلکہ فیض آباد میں جو توں کی دکان کرتے ہیں۔ اور مس عثمانی بات یہ ہے کہ۔۔۔‘‘
دوسرے سرے پر کھٹ سے ریسیور رکھ دیا گیا۔
مجھے ساری دنیا پر غصہ آرہا تھا۔نیلو فر اور زبیدہ عثمانی اور وہ سب جن کی عقلیں خراب ہوگئی ہیں۔ میں نے اپنے چاروں طرف پھیلی ہوئی جگمگاتی جاگتی بے وقوف دنیا کو دیکھا۔ سامنے درختوں کے اندھیرے کے پار کالج کے اونچے اونچے مرمریں ایوانوں میں کرسمس کیرل گائے جارہے تھے۔ سڑکوں پر شور مچاتی ہوئی لمبی لمبی چمکیلی موٹریں بھاگ رہی تھیں۔ ندی کے اس پار کافی ہاؤسوں کی فضائیں دہک رہی تھیں اور نیلو فر اپنے ہوسٹل کے ڈرائنگ روم میں پیانو بجا رہی تھی۔
لیکن پھر دنیا کی حماقتوں اور کمزوریوں پر غصہ آنے کی بجائے مجھے ان بے وقوفوں سے ہمدردی سی ہوگئی اور میں نے سوچا کیوں نہ ان چیزوں کو فراخ دلی سے دیکھا جائے کیوں کہ سوئمنگ پول کے اسکینڈل کلب میں ایک روز یہ انکشاف ہوا کہ سر رحمن کی جو نارنجی بالوں والی لڑکی لوریٹو کا نونٹ میں پڑھتی ہے، مسعود بھائی سے کرسمس میں اس کی شادی ہورہی ہے۔
۔۔۔ خداؤں کے یہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچّے رقصاں ساعتوں کے ساتھ ساتھ ناچتے ہوئے کھلے سبزہ زاروں میں نکل گیے لیکن جب وہ ستارہ سحری کی کلیاں جمع کر کے واپس آئے تو انہوں نے جنگل کے دیوتاؤں کو وہاں نہ پایا۔
ریڈیو پر رقص کے نئے ریکارڈ بج رہے تھے اور بھائی جان نے، جو اس وقت موڈ میں تھے، کہا: ’’آؤ بی بی تمہیں نئے Stepsسکھائیں۔‘‘ ہم حسب معمول برآمدے کے فرش پر رقص کرنے لگے۔ ’’اونھ، ٹھیک سے قدم رکھو۔‘‘ بھائی جان نے ڈانٹا۔ وہ سکھاتے سکھاتے تھک گیے لیکن میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ پھر ایک دم سے انہیں کچھ یاد آگیا، ’’تمہاری دوست کا رومان کیسا چل رہا ہے؟ ہاں، اس پر خیال آیا، ابھی جب میں دفتر سے آرہا تھا تو مسعود سر عزیز الرحمن کی پیکارڈ میں لاپلاز کی طرف جاتا نظر آیا تھا۔‘‘ میرا دل ڈوب سا گیا اور بھائی جان کہہ رہے تھے: ’’ بے ایمان کہیں کا۔ فلرٹ ہے بالکل۔ ارے کل اتوار ہے۔ مجھے میگزین سیکشن کی تیاری کرنی ہے۔‘‘ اور وہ برآمدے کے فرش پر سے کود کر برساتی میں رکھی ہوئی سائیکل پر بیٹھے اور پھاٹک سے باہر نکل گئے۔ میں انہیں سرو کے درختوں کے پیچھے اوجھل ہوتا ہوا دیکھتی رہی اور مجھے یاد آیا: پانیر کی عظیم الشان امریکن وضع کی عمارت کے نیچے برساتی میں ہم نے پہلی مرتبہ مسعود بھائی کو دیکھا تھا جواسٹیشن سے سیدھے بھائی جان کے پاس آگیے تھے اور وہاں سے ہمارے ساتھ گھر آئے تھے اور خداؤں نے چپکے سے نیلوفر سے کہا تھا: یہ وہی ہے، یہ وہی ہے جس کے لیے زندگی منتظر تھی!
اور نیلوفر سوچتی رہی۔ شہد کے جنگلوں کا دیوتا شفق زاروں میں شاید اب بھی موجود ہے۔ میرے اللہ کس قدر شاعری کی حد تک احمقانہ خیال تھا۔
ایک بہت طویل راستہ ہے۔۔۔ اندھیرا اور خاموش اور اس کے کناروں پر دور دور پرستان کے چھوٹے چھوٹے شہر جگمگا رہے ہیں اور اس راستے کے اختتام پر کسی جگہ وہ اس کا منتظر ہوگا۔ لیکن اس کو کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ آگے چلی جائے گی اور اس کے خواب پیچھے پڑے رہ جائیں گے اور ڈورس فون پر کہہ رہی تھی: ’’اینی، نیلوفر کی پتنگ کٹ گئی۔‘‘
’’بھئی خدا کے لیے چپ رہو۔ ‘‘ میں نے اُکتا کرکہا۔ وہ بولتی رہی: ’’ نکہت رحمن کی شادی ۲۳ ۔ دسمبر کو ہورہی ہے ۔ بتاؤ کیا پہنیں گے؟ میں تو رو پہلے ٹشو کی ساڑھی پہنوں گی اور کملا سرخ مدراسی ساڑھی پہن رہی ہے۔‘‘ اور پھر ہم دیر تک کپڑوں اور زیوروں کے متعلق طے کرتے رہے۔
۔۔۔ نیلو فر پیانو کے پردوں پر زور سے انگلیاں پٹخ کر کھڑی ہوگئی۔ فوہ، تم یہی کہو گی ناکہ کیا حماقت ہے؟ تمہارا یہ فلسفہ کہ دنیا کی ہر بات حماقت ہے، سب سے زیادہ عقل مند بس آپ ہی ہیں۔ میں تھک گئی ہوں اس فلسفے سے تمہارے ۔ یہ تو ہئی ۔۔۔میں نے کہا۔ ایک بزرگوار کا، جنہیں آپ نے کہیں بچپن میں دیکھا تھا، اپنے خیالوں میں آپ نے ایک انتہائی رومینٹک کردار بنا لیااور اب ان کی شادی آپ سے نہیں بلکہ کسی اور لڑکی سے ہورہی ہے، یعنی ایک بہت ہی میٹر آف فیکٹ واقعہ۔
۔۔۔ لیکن ریڈیو پروگرام پر وہ پرانا نغمہ بجتا رہا: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مرمریں ایوانوں میں رہتی ہوں۔اور میں نے محسوس کیا کہ میں واقعی تھک گئی ہوں۔ اسے کس طرح یقین دلاؤں کہ یہ سب کچھ سچ مچ کی حماقت ہے۔ وہ کیوں نہیں دیکھتی کہ ہم سب اپنے آپ سے کس قدر مطمئن اور خوش ہیں۔
اس کے چاروں طرف پھیلی ہوئی دنیا جو خواب نہیں دیکھتی کیسی پرسکون اور قانع ہے۔ سوتے ہوئے بوڑھے، روتے ہوئے بچے، بارش کے بعد کا آسمان، موسم خزاں کے ویران راستے، دریچے کے نیچے بکھرے ہوئے زرد اور سرخ پتے۔ سرما کی راتوں میں آتشدان کے پاس قہوے کی دلنواز بھاپ اور دوستوں کے قہقہے۔ مگر نیلوفر نہ سمجھ سکی اور ریڈیو گرام چیختا رہا۔
۔۔۔پھر مجھے ریوپرٹ بروک کی ایک نظم یاد آئی۔ خداؤں سے انتقام لینے کے لیے وہ ان کے آتشیں تخت کے قریب گیا لیکن وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ جنت کے سارے ایوان خالی پڑے ہیں اور فضاؤں میں صرف ایک آواز بازگشت کی گونج تیر رہی تھی۔۔۔اور بارگاہِ خدا وندی میں گھاس اگ آئی تھی اور خالی تخت کے چاروں طرف ہوا کا ایک بھولا بھٹکا جھونکا کاہلی سے منڈلا رہا تھا جس سے ایوانوں کے پردے آہستہ آہستہ ہل رہے تھے۔ اور ہوا کے اس جھونکے نے مرے ہوئے خداؤں کی خاکستر خلائے بے کراں میں منتشر کردی تھی۔
۔۔۔ کتنی جلدی یہ سب کچھ ختم ہوگیا اور جب سرما کی اس جگمگاتی ہوئی شام کے اختتام پر شادی کے ایٹ ہوم کے بعد ہم لاپلاز سے واپس آرہے تھے تو دفعتاً میں نے محسوس کیا کہ زندگی کے راستوں کی قندیلیں بجھ گئی ہیں اور ستارے دھندلے پڑ گیے ہیں اور وہ واقعی اکیلی رہ گئی ہے، اور ہمارے قریب سے بارش کے چھینٹے اڑاتی سر عزیز الرحمن کی پیکارڈ تیزی سے گزر گئی اور ہم نے دیکھا کہ وہ دونوں اپنے نئے گھر، اپنی نئی زندگی کی طرف جارہے تھے اور کار مال پر بڑھتے ہوئے کہرے میں کھو گئی اور میں نے خود کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہوئے پھر دعا مانگی کہ کاش وہ سمجھ سکے، کاش وہ سمجھ جائے اوراس نے مڑ کر دیکھا، اس کا خیال تھا کہ محبت گرتی پڑتی اس کے پیچھے بھاگتی آرہی ہے لیکن وہاں پر صرف ستاروں کا دھندلکا تھا اور سرما کی بارش کے ٹھنڈے قطرے تھے اور کہر آلود برفانی ہوائیں تھیں کیوں کہ محبت کب کی مرچکی تھی!
اور اس نے قہقہہ لگا کر اپنے پرانے انداز میں کہا: ’’ٹھیرو بچیو! ڈورس،اینی، کملا، وملا، مہرجبیں۔۔۔ میں تم سب کے ساتھ کافی ہاؤس آرہی ہوں۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.