مجید کا ماضی
’’عیش وآرام کی زندگی بسر کرتے ہوئے اپنے ماضی کو یاد کرنے والے ایک ایسے دولت مند شخص کی کہانی ہے جس کے پاس کوٹھی ہے، اچھی تنخواہ ہے، بیوی بچے ہیں اور ہر طرح کی عیش و عشرت ہے۔ ان سب کے درمیان اس کا سکون نہ جانے کہاں کھو گیا ہے۔ وہ سکون جو اسے یہ سب حاصل ہونے سے پہلے تھا، جب اس کی تنخواہ کم تھی، بیوی بچے نہیں تھے، کاروبار تھا اور نہ ہی دوسرے مسایل۔ وہ سکون سے تھوڑا کماتا تھا اور چین و سکون کی زندگی بسر کرتا تھا۔ اب سارے عیش و آرام کے بعد بھی اسے وہ سکون نصیب نہیں ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
مراسلہ
اس افسانہ میں ایک قدامت پسند گھرانے کی روایات، آداب و اطوار اور طرز رہائش میں ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر ہے، افسانہ کے مرکزی کردار کے گھر سے اس گھرانے کے گہرے مراسم ہوا کرتے تھے لیکن وقت اور مصروفیت کی دھول اس تعلق پر جم گئی۔ ایک طویل عرصے کے بعد جب واحد متکلم اس گھر میں کسی کام سے جاتا ہے تو ان کے طرز زندگی میں آنے والی تبدیلیوں پر حیران ہوتا ہے۔
نیر مسعود
بن بست
افسانہ میں دو زمانے اور دو الگ طرح کے رویوں کا تصادم نظر آتا ہے۔ افسانہ کا مرکزی کردار اپنے بے فکری کے زمانے کا ذکر کرتا ہے جب شہر کا ماحول پر سکون تھا دن نکلنے سے لے کر شام ڈھلنے تک وہ شہر میں گھومتا پھرتا تھا لیکن ایک زمانہ ایسا آیا کہ خوف کے سایے منڈلانے لگے فسادات ہونے لگے۔ ایک دن وہ بلوائیوں سے جان بچا کر بھاگتا ہوا ایک تنگ گلی کے تنگ مکان میں داخل ہوتا ہے تو اسے وہ مکان پراسرار اور اس میں موجود عورت خوف زدہ معلوم ہوتی ہے اس کے باوجود اس کے کھانے پینے کا انتظام کرتی ہے لیکن یہ اس کے خوف کی پروا کیے بغیر دروازہ کھول کر واپس لوٹ آتا ہے۔