روپا
کہانی کی کہانی
یہ کہانی ایک ایسے شخص کی ہے جس کا باپ رجب اودھ کی گڑھی کی سیاست میں کافی پھل پھول گیا۔ اس نے اپنے بیٹے حسین کو بھی اپنی طرح پہلوان بنایا تھا مگر اسے اپنے باپ کے دشمن منور کی بیٹی روپا سے محبت ہو جاتی ہے۔ اس محبت میں رجب کی جان چلی جاتی پے لیکن حسین روپا کو اپنے گھر لانے میں کامیاب رہتا ہے۔ روپا سے اس نے شادی تو کرلی تھی لیکن اس کے دل میں جگہ نہیں بنا سکا تھا کیونکہ روپا کو اس کا دبلا جسم پسند نہ تھا۔ پھر اچانک ایک ایسا واقعہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے روپا اس سے محبت کرنے لگتی ہے۔
نیم سار سے آگے کریا کے اندھیرے جنگل کے نکلتے ہی گومتی مغرور حسیناؤں کی طرح دامن اٹھاکر چلتی ہے۔۔۔ دور تک پھیلے ہوئے ریتیلے چمچماتے دامن میں نبی نگر گھڑا ہے جیسے کسی بدشوق رئیس زادے نے اپنے براق کپڑوں پر چکنی مٹی سے بھری ہوئی دوات انڈیل لی ہو۔ مٹی کے ٹوٹے پھوٹے مکان بچے کھچے چھپروں کی ٹوپیاں پہنے بڑے پھوہڑ پنے سے بیٹھے ہیں۔
یہ گاؤں اودھ کے دیہاتوں کی ضد ہے۔ اس کے گرد نہ تو بانسی کی وہ گھنی باڑھ ہے جس میں پھنس کر سانپ مرجاتے ہیں، نہ چھتنار پیپلوں اور جھلدارے برگدوں کے وہ خاموش شامیانے ہیں جن کے کنجوں میں گالوں کے گلاب اور ہونٹوں کے شہتوت اگتے ہیں، نہ وہ چوڑے چکلے پنگھٹ ہیں جہاں ککرے بجاتی پنہارنوں کے پیروں کے بچھوے اپنے گھنگھروؤں کے ڈنک اٹھائے راہگیروں کی راہ تکا کرتے ہیں مگردور دور تک یہ گاؤں جاناجاتا ہے۔ یہاں کی بھینسیں مشہور ہیں۔ یہاں کے گدی مشہور ہیں۔ یہاں کا رجب مشہور ہے۔ سارنگ آباد راج کا ہاتھی۔۔۔ وہاں بڑہل کے پیڑوں کے جھنڈے کے نیچے تک آکررک جاتا ہے۔۔۔ کہ ہاتھی کے پیروں برابر اونچی دیواروں کے پیچھے کلیلیں کرتی ہوئی غریب رانیوں کے کھلے ڈھلے جسموں پر نگاہوں کی گردنہ پڑجائے۔
(۲)
دس بارہ برس کارجب اپنے باپ کے ساتھ سارنگ آباد راج کی بھینسیں لگائے ’’گڑھی‘‘ جایا کرتاتھا۔ اپنی بھوری بھینسیں لگاکراس نے انگڑائی لی تو سلیقے کے شلوکے کا بٹن چٹ سے ٹوٹ کر گرپڑا۔ بٹن اٹھاکر نگاہ اٹھائی توبوکھلاگیا۔ ’’سرکار‘‘ کھڑے ہوئے گھور رہے تھے اس نے جلدی سے سلام کرلیا۔
’’کیا نام ہے تمہارا؟‘‘ سلام کے جواب میں حکم ہوا اور اس کی آواز کے ساتھ ہی رجب کے باپ کی بالٹی میں گرتی ہوئی دودھ کی دھار تھم گئی۔
’’رجب‘‘ اس نے ہکلاکر کہا۔
’’کون بھینسیں ہیں تمہاری؟‘‘
’’وا۔۔۔ بھوری‘‘
’’کتنا دودھ ہے اس کے نیچے؟‘‘
’’ڈھائی سیر۔۔۔ پکے۔‘‘
’’کھول لے جاؤ۔۔۔ دودھ پیو۔۔۔ اور محنت لگاؤ۔‘‘
(۳)
جب رجب کو دودھ پلاتے پلاتے بھوری بھینسیں بوڑھی ہوگئیں اور سارنگ آباد راج کے سارے پہلوان رسوا ہوگیے تب سرکار نے گڑھی میں ایک کوٹھری دے کر پلنگ کی پہرے داری سونپ دی۔ پھر ایک دن سرکار کی سسرال سے آیا ہواہاتھی برجھا گیا۔ فیل بانوں نے فریاد کی تو پرانے جوتے ڈھونڈ کرجمع کرکے مرمت کاحکم دیا۔ آخر جب سارے سارنگ آباد میں تہلکہ پڑ گیا اور بھگدڑ مچ گئی تب رائفل لے کر سرکار برآمد ہوئے۔ مزاج داں رجب اپنا بلم لے کر لپکا ایک جہاں ’’ہائیں ہائیں‘‘ کرتا رہا لیکن وہ ٹوٹ ہی پڑا۔ ان گنت بلموں کی مار کھاکر ہاتھی تو سیدھا ہوگیا لیکن رجب کو چارپائی اٹھاکر لائی۔ یہ دوسری بات ہے کہ خود سرکار چارپائی کے آگے پیچھے پھرتے تھے۔ پھر رجب کے نام کو پر لگ گیے۔ دور دور تک پھیلے ہوئے گدیوں کے گانوں خود سارنگ آباد کی طرح اس کی جاگیر بن گیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی جڑیں اتنی گہری اور اتنی مضبوط ہوگئیں کہ خود سارنگ آباد راج اس پر ہاتھ ڈالتے ڈرنے لگا۔
(۴)
جیسے جیسے رجب گڑھی کی سیاست کی دلدل میں دھنستا گیا ویسے ویسے اکلوتے لاڈلے اور چونچال حسینی کاقد اونچا ہوتا گیا۔۔۔ سارنگ آباد کے پرائمری اسکول سے ’’دوم‘‘ پاس کرتے ہی حسینی کی ماں نے وہ کڑم دھم مچایا کہ رجب نے اپنی سینے پر پھیلی ہوئی سیاہ داڑھی میں کنگھی کی اور ریاست کی بندوق کندھے پر رکھ کر نبی نگر کے لیے چل پڑا۔ چیت کٹ رہاتھا دھوپ سے بدن میں چنگیں پڑنے لگیں تھیں لیکن وہ بڑے ٹھنڈے دل سے ہر پہلو پر سوچتا نبی نگر کے ناکے پر آگیا۔ بڑہل کے درخت کے نیچے کھڑے ہوکر اس نے اپنے کندھے سے انگوچھا اتارا، چمرودھے جوتے میں دھنسے ہوئے پیروں پر موزوں کی طرح چڑھی ہوئی گرد جھاڑ جھاڑ کر صاف کیا پھر بڑے رعب سے بالکل زمینداروں کی طرح اپنے گاؤں میں داخل ہوا۔
چھپر میں کھٹیاں تماش بینوں کی طرح کھڑی تھیں۔ تخت پر مجلس کی مانند بڑی گمبھیرتا سے بیٹھا تھا اور سامنے ایک چمار کالونڈا جو عمر میں حسینی سے سال دو برس چھوٹا ہی تھا، حسینی کے سینے پر سوار تھا اور حسینی رجب کا اکلوتا بیٹا، حسینی لڑکیوں کی طرح دہائی دے رہا تھا۔ رجب کی کھنکار کی آواز سے محفل اجڑ گئی۔ چمار کا لونڈا اٹیڑی ہوگیا۔ حسینی رجب سے کم بندوق سے زیادہ لپٹنے کے لیے لپکا لیکن رجب کی آنکھیں دیکھ کر سہم گیا۔ اسی شام کو گڑھی میں رجب کی کوٹھری میں کھٹولہ بچھ گیا اور دبلاپتلا حسینی اپنے جلاد باپ کی ٹانگ سے بندھ گیا اور حسینی کی ماں شادی کی کچی ہنڈیا لیے بیٹھی اور گیلی لکڑیوں کو پھونک پھونک کر آنکھیں لال کرتی رہی۔
(۵)
اپنے باپ کی استادی میں حسینی سارا سارا دن محنت لگانے لگا لیکن بدن پر گوشت نہ چڑھنا تھا نہ چڑھا۔ وہ اپنے باپ سے اونچا ہوگیا، چہرے پر سرخی بھی دوڑ گئی لیکن کھونٹیوں کی طرح ابھری ہوئی رخسار کی دونوں ہڈیاں جوں کی توں رہیں۔ مگدر کی جوڑی اور گھی کے مٹرے نے ہاتھ پیر ایسے بنادیے جیسے لوہے کے موٹے موٹے تاروں کوبٹ دیا گیا ہو۔ جب وہ ڈوریے کا کرتا اور لال کناری کی نیچی دھوتی باندھ کرکھڑا ہوتاتو رجب کاچہرہ دھندلاجاتا اور وہ دل ہی دل میں حسینی کے لیے دودھ کی مقدار بڑھادینے کے مسئلے پر غور کرنے لگتا۔
اس دن بھی وہ حسینی کا راتب بڑھادینے کے مسئلے پر غور کر رہاتھا کہ گہار مچ گیا۔ وہ اپنی لاٹھی پٹکتاکوٹھری سے نکلا تو پتہ چلا کہ نٹوں (کنکلوں ) کا ایک قافلہ سرکاری باغ میں زبردستی اتر پڑا۔ سیر بانوں کو خبر ہوئی تو اکٹھا ہوکر ٹوکنے پہنچے۔ جرائم پیشہ نٹوں کے سانڈ ایسے لونڈوں کی ’’توتکار‘‘ کی کہاں تاب؟ باتوں میں گرمیاں بڑھتے ہی لاٹھیاں بجنے لگیں۔ سیرہان تقدیر کے اچھے تھے کہ اسی وقت کسی طرف سے حسینی نکل پڑا اور آتے ہی سارے نٹوں کو لپیٹ لیا اور سیربانوں کو چھٹی دے دی۔ اب سیربان گڑھی میں دہائی جمائے ہیں۔ رجب بغل میں لاٹھی مارے دونوں ہاتھوں سے صافہ باندھتا بھاگتا چلا گیا۔ باغ کی خندق پر پہنچ کر رجب کی آنکھیں پھٹ گئیں۔ بانس ایسا لمبا حسینی پندرہ بیس تیار نٹوں کے حلقے میں اچھل اچھل کر لکڑی مار رہاتھا اور اس کی مار کھائے ہوئے دس پانچ زمین پر پڑے ہوئے بھوریں بین رہے تھے۔ دوسروں کی طرح رجب کو بھی حسینی نے ڈانٹ کر دور سے تماشا دیکھنے کا حکم دیا۔ تھوڑی دیر میں فیصلہ ہوگیا، نٹ باندھ کر لائے گیے اور گڑھی کے پھاٹک پر جھکا دیے گیے۔ اس شام بڑی دیر تک رجب اپنی کوٹھری میں بھنگ گھوٹتا رہا اور بغلیں بجاتی آواز میں ’’برہے‘‘ گاتا رہا۔
(۶)
ایک ہاتھ میں ناریل اور دوسرے ہاتھ میں بندوق لے کر رجب گڑھی کی دوسری منزل پر پہنچا تو چمکدار صحن میں ہلکی چاندنی بچھی تھی۔ مراد آبادی پایوں کے پلنگ پر ڈوریوں سے کسا ہوا بے شکن اور بے داغ بستر لگا تھا اور ’’سرکار‘‘ ٹہل رہے تھے۔ رجب نے اس پتھر کی چوکی پر بندوق رکھ دی جس کے ایک گوشہ میں چاندی کے کٹورے کا تاج رکھے اور منہ بند کلیوں کے ہار پہنے کوری صراحی بیٹھی تھی۔ سرکار اس کے قریب آکر ٹھٹک گیے۔ رجب دالان کے ستون کی مانند کھڑا رہا۔
’’رجب!‘‘
’’سرکار!‘‘
’’میں۔۔۔ تمہارے گھریلو معاملے میں نہیں پڑتا۔۔۔ مگر۔۔۔ مگر۔۔۔ میں اتنا ضرور کہوں گا۔۔۔ کہ حسینی جوان ہوگیا ہے۔۔۔ اس کی شادی کرو۔ رجب نے سرکار کے لہجے سے وہ ان کہی بات جو سرکار کے لفظوں سے پرے تھی لیکن لفظوں کے دل میں دھڑک رہی تھی سن لی۔۔۔ سمجھ لی۔۔۔ اور اس کا سرجھک گیا۔
’’کا۔۔۔ سرکار کوئی ایسی ویسی بات؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ کوئی خاص بات نہیں۔۔۔ لیکن منور کہہ رہا تھا کہ وہ اس کے گھر کے چکر وکر لگاتا ہے۔‘‘
’’منور کے گھر کے چکر؟ منور کے؟‘‘
سرکار پشت پر ہاتھ باندھے ہوئے نئے سلیم شاہی کوآہستہ آہستہ چرمر کرتے ہوئے دوسرے کنارے پر پہنچ گیے تھے۔ رجب سرجھکائے بیٹھا رہا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے منور گھوم رہاتھا۔ جیسے شہر کے ڈھول میں پہیے لگا دیے گیے ہوں اور اس پر تیل کاکالا مروا رکھ دیا گیا ہو۔ اس نے دیکھا کہ گڑھی کے محرم میں منور۔۔۔ کالا۔۔۔ موٹا۔۔۔ بھدا۔۔۔ منور اچھل اچھل کر ’’پھری گد کا‘‘ کھیل رہا ہے۔ سامنے کالے چادرے کے گھونگھٹ میں دوپہرے کی آنکھیں پلکیں جھکا رہی ہیں۔ غزنی پور کے بازار میں منوربھینسوں کے غول میں بیٹھا آگے دھرے ہوئے روپے کے ڈھیر کو گن رہا ہے اور اس کے انگوٹھوں پر روشنائی لگی ہے۔ میرا پور کے باغ میں میرا پور کی پنچایت بیٹھی ہے اور میرا پور کا چودھری منور رجب کی ہیبت او ر رجب کی دوستی کو طاق پر رکھ کر رجب کے یاروں کے خلاف فیصلہ دے رہا ہے۔ رجب کی مٹھیاں بندھ گئیں، دانت بھینچ گیے، داڑھی کے سخت بال کلف لگے ہوئے جلد بدن بنے ہوئے شلوار کے پر کھڑ کھڑانے لگے، جیسے برجھایا ہوا سانڈ حملہ کرنے کے سے پہلے اگلے کھروں سے زمین کھودتا ہے۔
(۷)
سہالک کا زمانہ تھا۔ جب دیہات میں چڑیاں بھی گلگلے کرتی ہیں۔ گاؤں گاؤں لگنیں ہو رہی تھیں۔ باراتیں اتر رہی تھیں، میرا پور کی بستی کو گرد کے شامیانوں نے ڈھانپ لیا تھا۔ دھوئیں کے لہراتے گاؤ دم مینار شامیانوں کو توڑ توڑ کر اٹھ رہے تھے۔
منور اپنے چاروں بیٹوں کے ساتھ نیوتہ کھانے جاچکا تھا۔ روپا نے دوڑ دوڑ کر اپنی ماں کے ساتھ بھینسوں کی گوڑھی کو رسیاں پہنائیں۔ بھر بھر کر سانی لگائی۔ پھر رات گیے تک وہ دونوں بھینسیں لگاتی رہیں۔۔۔ دودھار پھونکتی رہیں جب اوپلوں نے آگ پکڑلی تب وہ دونوں روٹی کھاکر پڑ رہیں۔ ایک ہی نیند ہوئی تھی کہ بڑکی (بڑی بھینس) کا ڈکرانا سن کر ماں چونک پڑی، آنکھیں مل کر لیٹے لیٹے دیکھا تو یہاں سے وہاں تک بھینسوں کے سارے چھپر میں کھلبلی پڑی تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھاکر جلدی سے روپا کو کھسوٹا، پھر ایک سے چادر اور دوسرے سے روپا کو کھسیٹتی ہوئی بھینسوں کے چھپر میں گڑاپ سے گھس گئی۔ اب سارے چھپر میں تہلکہ پڑ گیا جیسے جانباز سورماؤں کے کیمپ میں شب خون کی خبر پہنچ گئی ہو۔ اب چھتوں پر سے آدمی لاٹھیاں لگالگا کراترنے لگے۔ لانبے چوڑے۔۔۔ ڈھاٹا باندھے ہوئے۔ بھیانک آدمی کوٹھری کا دروازہ توڑ رہے تھے اور روپا اپنی ماں کے کولہے سے لگی بڑکی کی ناند کے پاس بیٹھی ہول رہی تھی کہ بڑکی نے ڈکراکر رسی تڑائی اور پھانسی دینے والے جلادکی طرح جھومتی ہوئی نکلی۔
اس کے پیچھے ساری بھینسیں۔۔۔ چھوٹی چھوٹی پڑیاں تک کلیلیں کرتی ہوئی نکل پڑیں۔ آدمیوں نے لاٹھیاں سوتیں اور چاہا کہ ان کو باڑھ پر لے لیں لیکن پندرہ بیس پاگل بھینسوں کو جھیل لے جانا ٹھٹھ نہیں تھا۔ ایک ہی چپیٹے میں فیصلہ ہوگیا۔ بڑکی نے رجب کو آٹے کی طرح گوندھ کر رکھ دیا۔ سارے داؤپیچ دھرے رہ گیے۔ جیالے ساتھیوں نے جان پر کھیل کر نیم مردہ رجب کو باہر نکالا اور گاؤں والوں سے لڑتے بھڑتے گڑھی تک آگیے۔ جب اپنی کوٹھری میں رجب کو ہوش آیا تو حسینی پیروں کے پاس بیٹھا تھا۔ کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا، بات رہ گئی جان نکل گئی۔
(۸)
باپ کا گھاؤ بھر گیا۔ روپا کے بدن کی دھار حسینی کا جگر اسی طرح کاٹتی رہی۔ جب رات بھیگ جاتی، ڈھور ڈھنکر اپنے اپنے کھونٹوں پر پاگر کرتے کرتے دم سادھ لیتے اور پنکھ پکھیرو اپنے اپنے کنجوں میں سورہتے، کتے چپ ہوجاتے، چوکیدار لیٹ رہتے، دکھوں کی ماری بیوہ ماں آنگن میں پڑی ہوئی چارپائی پر کڑمڑا جاتی اور ڈھابلی میں بند مرغے پھر پھڑاکر بانگ دینے لگتے۔ تب وہ پورے سکون قلب کے ساتھ ان حسین لمحوں کا خزانہ کھول کر بیٹھ جاتاجن کو روپا کے حسن کے پارس نے اشرفیوں کی طرح جگمگا دیا تھا۔ وہ ان اشرفیوں پر دیدے گڑائے بیٹھا رہتا جیسے گاؤں کے ندیدے لڑکے موتی چور کے لڈوؤں کا تھال گھور رہے ہوں۔ ان حسین لمحوں کے خزانے پر وہ سانپ کی طرح بیٹھا پہرہ دیا کرتا پھر گھمر گھمر چکیاں چلنے لگتیں۔ چھوٹی چھوٹی پڑیاں اپنی ماؤں کو دیکھ کر رسیاں تڑانے لگتیں اور دھوپ منڈیروں پر بیٹھ کر آوازوں کے تھال لڑھکانے لگتی۔
بوڑھی ماں جھانکروں کی لانبی جھاڑو لے کر گوبر سمیٹنے لگتی، تب وہ جھوٹی انگڑائیاں لیتا ہوا اٹھتا اور اپنی لال آنکھوں کی زخمی نگاہوں کو اماں سے چرائے ہوئے بھینس کے نیچے جابیٹھتا اور مٹرے میں دودھ کی دھار بجنے لگتی۔ ہاتھ مشین کی طرح چلتے رہتے اور ذہن گلیوں میں آوارگی کرتا رہتا جو روپا کے کپڑوں سے مہک رہیں تھیں جو روپا کے زیوروں سے بج رہی تھیں۔ جب اماں رات کی روٹی مٹھے میں مل کر مٹی کا پیالہ اس کے سامنے رکھتیں تو وہ بھی کبھی پیٹ میں انڈیل لیتاتو کبھی بہانہ کرکے ٹال جاتا۔ گومتی کے کنارے سرکاری باغ کی منڈیر کو تکیا بناکر لیٹ رہتا اور سوچ نگر کی بھول بھلیاں میں چکر کاٹا کرتا۔ جانور چراکرتے۔ اسے اس وقت ہوش آتا جب کسی کھیت میں ہلا ہوتا اور کھیت والا اس کے جانوروں کی ماں بہنوں سے اپنے جنسی تعلقات کا پوری آواز سے اعلان کرتا۔ زندگی کرنے کے اس ڈھب پر جب حسینی کے یاروں کی حسینی کے عزیزوں کی نگاہ پڑتی تو وہ اس کے مرحوم باپ کی کہانیاں کہتے۔ پھر اپنی بھی گلوگیر آواز میں اپنے دکھوں کا پٹارہ کھولتے اور خون میں لتھڑی ہوئی تصویریں دکھاتے۔ وہ بھی سنتا رہتا اور کبھی جھنجھلاکر اٹھ جاتا اور کندھے پر لٹھ رکھ کر سیلانیوں کی طرح مارا مارا پھرتا۔
(۹)
پھر ایک دن اس کے یاروں نے اسے گھیر لیا۔ باتیں کرتے کرتے اس کے پیٹ میں گھس گیے اور حسینی کے کلیجے پر بنی ہوئی روپا کی تصویر کی رونمائی کی۔ حسینی کے یار بیٹھے ہوئے ایک دوسرے کا منہ تکتے رہے حسینی رسی لگے ہوئے چور کی طرح گم سم بیٹھا رہا۔ ان یاروں میں بھی جنھوں نے حسینی کے ساتھ مگدر گھمائے تھے، ساتھ لکڑیاں ہلائی تھیں اور فوجداریاں لڑی تھیں کسی کی مجال نہ تھی جو یہ کہتا کہ روپا اس باپ کی بیٹی ہے جس کے آنگن میں رجب مارا گیا۔ وہ سب کے سب سرجوڑے بیٹھے رہے۔ بیڑیاں پھونکتے رہے اور سوچتے رہے۔ آخر یار علی سے رہا نہ گیا، اس نے تڑ سے کہہ دیا کہ وہ بھجا کی بیوی ہے۔ اس کی مراد سے بات چیت چل رہی ہے اور گاجی سے آشنائی کی کہانی ایک ایک چھپر میں دس دس مرتبہ سنی گئی ہے۔ عورتوں کو تو اس کی پوری مہابھارت منہ زبانی یاد ہے۔ وہ اپنی ماں سے چار چوٹ کی لڑائی لڑتی ہے اور باپ سے ٹھٹھول کرتی ہے۔ روپا تو ایسی ہے روپا تو ایسی ہے۔ جیسی برج بنی رنڈی۔۔۔ جیسی مٹی کی وہ ہانڈی جس میں کتے نے منہ ڈال دیا ہو۔
حسینی گمبھیرتا اور دھیرج سے سب سنتا رہا۔ جب یار علی کے پاس کہنے کو کچھ نہ رہا تب اس نے گردن اٹھائی، ایک ایک کی آنکھیں دیکھیں اور نگاہیں ٹٹولیں اور لاٹھی چلوانے والی آواز میں بولا کہ نبی نگر میں روپا اسی طرح پہچانی جاتی ہے جیسے میراپور میں یہ بات مشہور ہے ک پچھلے محرم میں روپا حسینی کے ساتھ پکڑی گئی تو بھائی میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میں نے روپا کا روپ بھی آنکھ بھر کر نہیں دیکھا۔ میں نے روپا کو اسی طرح دیکھا جیسے جنم اشٹمی کے تیوہار پر بھگوان کی جھانکی کہ ساری نگاہ گہنے پاتے میں الجھ کر رہ جائے اور بس پھر منور ایسا پانی دار باپ کہ پرچھائی سے لڑائی لڑتاہو، وہ بھلا زندہ رکھتا روپا کو یہ سب کچھ سن کر؟ رہ گئی بھجا کی بات تو وہ ان کے گھر کا بکھیڑا ہے۔ روپا کی بھجا سے بنتی نہیں تو منور اپنی اکیلی بیٹی کو پرچھائیں میں لے کر کھڑا ہوگیا۔ جس دن منور نے آنکھ بدل لی اسی دن سے بھجا جی مہاراج فارختی لکھ کر اٹھک بیٹھک لگانے میرا پور میں دھرے ہیں۔ یاروں نے حسینی کی باتوں کے شعلے اور آنکھوں کی چنگاریاں دیکھ کرزبان سی لی اور دور سے ہاتھ اٹھاکر دعا کی سوچنے لگے۔
(۱۰)
ایک دن جوار کے سب سے مشہور نائی گدی کے اکلوتے بیٹے کا پیغام منور کے گھر پہنچ گیا۔ منور کو ایسا لگا جیسے اس کے دروازے پر نیا خریدا ہوا ہاتھی جھوم رہا ہو۔ میرا پور کے بڑے بوڑھوں کے جھوٹ موٹ کی پنچایت ہوئی۔ بھجا سے فارختی لی گئی اور چٹ منگنی اور پٹ بیاہ کی مثل دہرائی گئی۔ حسینی کے ہمدرد اور دوست جو حسینی کے پریم سے بوکھلا گیے تھے۔ بیاہ کا نام سنتے ہی دم سادھ کر بیٹھ گیے۔ روپا کی وہ کہانیاں جن کے دوہرانے کے خیال سے منہ میں پانی بھر آتا تھا اسی طرح اپنے سینے میں دفن رہیں، مہوے کی شراب کی مستی میں اڑائے ہوئے لمحوں کی طرح کچھ دن بیت گیے۔ پھر حسینی کو ٹوہ لگی کہ جیسے روپا اس کی بیوی نہیں ہے۔ ان کے گھر آئی ہوئی ایسی رحم دل مہمان ہے جو کبھی رات برات اسے اپنے پاؤں چاٹنے کی اجازت دے دیتی ہے۔ یہ زہریلا خیال اس حسینی کی چھاتی سے چپٹ گیا جس کے لیے ساری برادری آنکھیں بچھائے تھی۔ اس سنپولے کومارنے کے لیے اس نے اپنے خود فریبی کے ترکش سے ایک ایک تیر نکال کر پرکھ لیا لیکن کسی سے جی نہ پورا ہوا۔
(۱۱)
آخر وہ پنڈت بلا آئے جن کی ججمانی میں نبی نگر تھا۔ حسینی کی ماں نے ان کو سیدھا اور آکھت دیاپھر اپنی بپتا کہی۔ پنڈت جی نے سایت بچاری، پترا دیکھا، الپ کاٹی اور دکھشنا لے کر چلے گیے۔ دوسرے دن شام ہوتے ہی حسینی کی ماں دس بیس عورتوں کے ساتھ اس پیپل کو پوجنے گئی جس پر برم راکس رہتے تھے۔ سارنگ آباد کی پرانی مسجد کے امام نے تعویذ دیے تھے وہ شربت میں گھول کر روپا کو دھوکے سے پلائے گیے۔ لیکن حسینی کی آنکھوں میں سوچ کی پرچھائیاں اسی طرح تیرتی رہیں۔
سارنگ آباد کی بازار سے حسینی نے ایک لپلپاتے کپڑے کا لہنگا، ایک چمچماتے کپڑے کی کرتی اور میل کھاتا ہوا دوپٹہ خریدا۔ اپنے کندھے پر سے چادر اتار کر جب تمام چیزیں باندھ چکا تب سیر بھر برفی کا دونہ ایک کھونٹ میں باندھ لیا اور بڑے ارمانوں سے گھر میں گھسا۔ روپا چولہے والے کمرے میں سجی بنی بیٹھی کوئی مہین کام کر رہی تھی۔ حسینی کا اشارہ دیکھ کر سمجھ کر بھی انجان بنی بیٹھی رہی۔ آخر جب حسینی کی گردن کے پٹھے دکھنے لگے تب وہ مہارانیوں کی طرح چلتی ہوئی بڑے وقار سے کوٹھری میں آئی اور بے نیازی سے بیٹھ گئی۔ حسینی نے پسینے میں ڈوبی ہوئی قمیص کا غلاف اپنے جسم سے اتارا تو شام کی ٹھنڈی ہوا بہت اچھی لگی۔ وہ ہوا کے رخ پر کھڑا ہوگیا اور اپنے سینے اور شانوں پر پسینے کی ننھے ننھے قطروں کو انگلی سے چھونے لگا جیسے کھٹمل مار رہا ہے۔
’’کرتا پہن لیو۔‘‘ روپا نے شرمندہ کردینے والی ناگواری سے کہا۔
’’کاہے؟‘‘ حسینی سوچتی ہوئی آواز میں بولا۔
’’ای لیے۔۔۔ کہ برچھلے ہاتھ پاؤں دیکھ کے جی متلانے لگتا ہے۔‘‘ روپا یہ کہہ کر برفی کا دونا کھولنے لگی۔ حسینی بت بنا کھڑا رہا۔
(۱۲)
پانی تھم گیا تھا لیکن آسمان اسی طرح رندھا ہوا تھا۔ بادل تلے کھرے تھے۔ گڑھی دودھ پہنچا کر آتے آتے دوپہر ہونے لگی تھی۔ حسینی چلور درختوں کے پاس ہی تھا کہ اس نے دیکھا بوڑھی ماں دونوں ہاتھوں میں دو گگرے لیے رسی پر پھسلتے ہوئے نٹ کی طرح سنبھل سنبھل کر چل رہی تھی۔ حسینی کو ایسا معلوم ہوا جیسے کسی نے بڑی موٹی گالی دے دی ہو۔ اس کا سر سنسنانے لگا اور چال تیز ہوگئی۔
گھر میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر روپا پر پڑی جو چھپر کی تھمڑیا سے پشت لگائے بیٹھی تھی۔ کالے کپڑوں میں گورابدن کوندے کی طرح لپک رہا تھا۔ موتی کی انگلیوں کے پوروں پر مہندی کے لال جڑے تھے۔ بھونرائے سیاہ بالوں پر کوئی ڈیڑھ پاؤ چاندی کا چھپکا رکھا تھا۔ اس کے زانو کے پاس رنگ برنگی مونج رکھی تھی اور رانی کی تمکنت سے بیٹھی ہوئی ڈلیا بن رہی تھی۔ جب وہ سوچنے میں مونج پھانس کر جھٹکا دیتی تو گٹے سے کہنی تک بھرے ہوئے چاندی کے زیور چھنچھنا اٹھتے۔ حسینی کی ساری آگ بجھ کر رہ گئی۔ دوسری طرف چولہے والے چھپر میں اکڑوں بیٹھی ہوئی ماں جھوم جھوم کر پیتل کا بٹلا مانجھ رہی تھی۔ زمین پر پڑے چادرے کا کونہ منہ میں رکھے چھوٹی سی پڑیا پاگر کر رہی تھی۔ حسینی یہ دیکھتے ہی پاؤں پھٹپھٹاتا ہوا لپکا۔ ماں نے چابا ہوا چادر انہار کر دیکھا اور سر پر ڈال لیا۔
’’بنانے والے تو مر ہی گیے۔۔۔ موئی چاب ڈالی۔۔۔ میں ننگی گھوم لیہوں۔‘‘ ماں بربرائی۔ روپا نے مونج کا سرا دانت سے توڑا اور ’’آپڑوسن لڑ‘‘ کے انداز میں بولی، ’’کاہے ننگی کا ہے گھو میہو۔۔۔ لاٹ ایسا پوت نائیں ہے بنانے والا۔‘‘
’’پوت تو تیرے سر مسی بھر کانائیں ہے۔۔۔ میرا کا بنائے دیئے۔‘‘
روپا نے ڈلیا ہاتھ سے رکھ دی۔
’’ہاں۔۔۔ ای ماں کا جھوٹ ہے۔۔۔ جب سے امرا پور چھٹا۔۔۔ پہنا کھاتا چھٹ گوا۔‘‘ بڑھیا نے بٹلا ہاتھ سے رکھ دیا اور سامنا کرنے کے لیے گھومی۔ ’’یہاں تو بھوکی ننگی رہت ہو۔۔۔ کے نائن؟‘‘
’’ناہیں۔۔۔ راج کرت ہوں یہاں۔‘‘
’’راج تو امراپور میں ہے تیرے باپ کا۔۔۔ یہاں کہاں راج۔‘‘
’’اے بڑھیا۔۔۔ میرے باپ دادا کا نام لیہے تو تیری سات پشتیں نوچ کے پھینک دیہوں۔‘‘ یہ کہتے کہتے روپا تنتناکر کھڑی ہوگئی۔ حسینی نے دیکھا کہ اس کے چتونوں سے آگ برس رہی تھی۔
’’توئی دیکھ رہا ہے حرام جادے۔۔۔ یونائیں ہوت کہ لے کئے ڈنڈا۔‘‘
’’کون۔۔۔ ای پوت۔۔۔ ای مری انگلی چھولیں۔۔۔ تو کھون پی جاؤں۔‘‘
’’ہائے رجب کے پوت دھکارہے۔۔۔ توی پر۔‘‘
بڑھیا پھٹپھٹاتی ہوئی دھڑاک سے دروازہ بند کرکے نکل گئی۔ روپا پھر اطمینان سے بیٹھ کر اپنی ڈلیا بنانے لگی۔ حسینی کے سر سے پاؤں تک آگ لگی ہوئی تھی۔ وہ آتش بازی کے درخت کی طرح پھنک رہاتھا۔ جب وہ لمبے لمبے ڈگ رکھتا ہوا آنگن سے گزر گیا تب بھی اس نے اپنے مونجے پر سے نگاہ نہ اٹھائی۔ اس کی انگلیاں تو ڈلیا پر چل رہی تھیں لیکن نظریں کہیں اور تھیں۔ حسینی گومتی کے کنارے چرتی ہوئی بھینسوں کے ریوڑ کو گھورتا رہا۔ گھاس کے تنکے نوچ نوچ کر چباتا رہا۔ جب شام ہوگئی، فضا کی روشنی گڑہل کے پھولوں کے رنگ میں رنگ گئی، بھینسوں کی گردنوں کی گھنٹیاں بجنے لگیں تو وہ اس پجاری کی طرح اٹھا جسے دیوی نے شراپ دے دیا ہو۔ وہ سیدھا اپنے ماموں کے گھر گیا جہاں اس کی ماں دودھ دوہ رہی تھی۔ اس نے بڑے دلار سے اپنی ماں کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
’’کاہے۔۔۔ ہتیارے۔‘‘ ماں نے بھیگی ہوئی آنکھیں اٹھاکر جلی ہوئی آواز میں کہا۔
’’گھر۔۔۔ چلو۔‘‘
’’وابدماس تو ہے گھرماں؟‘‘
’’تم ہو چلو۔‘‘
’’نا۔۔۔ میں رجب کی دلہن ہوں۔۔۔ جواجواڑن کی آنکھ نائیں دیکھیں۔‘‘
اس جملے نے حسینی کے خیالوں میں بجھی ہوئی بارود میں آگ لگادی۔ وہ تیر کی طرح گھر سے نکل آیا۔ ماں جانوروں کی مزاج داں تھی۔ پہلے وہ سب کی ناند میں پھرتی، پھر کسی کو چمکارتی، کسی کو ڈانٹتی، کسی کونمک، کسی کو گڑ، کسی کو دانہ دیتی، کسی کو چوکر۔ ضدی بچوں کی طرح جانوروں کی ناک کرتی تب دوہنے بیٹھتی۔ روپا کے اجنبی ہاتھوں نے جو تھنوں کو چھوا تو وہ گھوڑے کی طرح بھڑک کر لاتیں چلانے لگیں۔ وہ تو انگاروں کی گٹھری تھی۔ مردوں کی طرح لاٹھی لے کر ٹوٹ پڑی۔ اس تڑاتڑی میں حسینی آگیا۔
’’مارڈالو۔۔۔ بھینسوں کا مار ڈالو۔‘‘
’’سب کا مار چکی ہوں۔۔۔ بھینسیں بچی رہیں۔۔۔ اب انہوں کا مارے ڈالت ہوں۔‘‘
’’کون جانے۔۔۔ کی کا مار چکی ہو۔۔۔‘‘
پھر جیسے ہوش آیا ہو اس نے اپنے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ لیے اور ٹھنڈے لہجے میں بولی، ’’اے رجب کے پوت۔۔۔ رجب کی گرمی بھول جاؤ۔ منورکے گھر سے رجب کی لاش نکلی ہے۔‘‘ حسینی دانت پیس کر گھوما اور کونے سے لاٹھی کھینچ لی۔ لیکن جب مڑا تو اس نے روپا کے ہاتھ میں ہنسیا دیکھا جسے وہ تولے کھڑی تھی۔ نکلے ہوئے قد اور دوہریلے پتھریلے بدن کی غضب ناک روپا چٹان کی طرح کھڑی تھی۔
(۱۳)
آسمان پر کالے کالے بادل مٹرگشتی کر رہے تھے جیسے بڑی بڑی ’’مندراجی‘‘ بھینسوں کے ریوڑ چرائی پر نکلے ہوں۔ چاند کبھی ابھر کر دیواروں اور منڈیروں پر قلعی کر دیتا اور کبھی ڈوب کر سارے پر ہجر کا اندھیارہ لیپ دیتا جیسے سنسان دوپہر میں تالاب کے ہرے پانی میں روپا نہارہی ہو۔ نہا کم رہی ہو اور کھیل زیادہ رہی ہو۔ حسینی نے آہ بھر کر نگاہ اٹھائی، سامنے پلنگڑی کی انگوٹھی پر روپا شیشے کے لانبے نگ کی طرح جگمگا رہی تھی۔ حسینی دیکھتا رہا۔ رام لعل حلوائی کی جلیبیوں کی طرح گرم گرم سوندھے سوندھے میٹھے میٹھے خیال اس کے رال ٹپکاتے دل میں گھلتے رہے۔ پھر وہ ایک دم چونک پڑا تھا جیسے جلیبی کی بجائے منہ میں کنکھجورہ چلا گیا ہو جیسے جلتی ہوئی لکڑی پانی میں ڈبودی گئی ہو۔ اس نے گردن گھماکر سارے گھر کو دیکھا اور دیکھتا ہی رہا۔ اس کو ایسا لگا جیسے یہ گھر اس کا اپنا گھر نہیں ہے۔ یہ پوری ایک بستی ہے، اس کا اپنا ایک وطن ہے جسے کچی عمر میں چھوڑ کر وہ اپنے پیٹ کی روٹی کمانے پردیس چلا گیا تھا اور آج ایک زمانے ے بعد واپس آیا ہے۔ لانبے چھپر میں اپنے پہلوؤں میں منہ دیے بیٹھی ہوئی بھینسیں ان عزیز بوڑھی عورتوں کی طرح ہیں جن سے ان کی پشتینی عداوت رہ چکی ہے۔ ڈھابلی میں مرغیاں کڑکڑا رہی ہیں جیسے رستے چیختے ہوئے کھیلتے ہوئے بچے اسے نہ پہچان کر اسی طرح چیخ رہے ہوں۔ اسی طرح کھیل رہے ہوں۔
وہ ٹوٹا پلنگ رجب کے چوپال کی طرح اجاڑ پڑا ہے۔ جس میں اب کبھی گاؤں کی پنچایتوں کے پنچ بیٹھ کر فیصلے نہیں کریں گے۔ اور یہ روپا سے بھری ہوئی روپا کی پلنگ ہی اس کا اپنا گھر ہے جس کے صدر دروازے پر مورچہ کھایا ہوا تالا جھوم رہا ہے اور وہ سوچ رہا ہے کہ اس کی کنجی کہاں بھول آیا ہے۔ چھپروں کے موٹے موٹے شہتیر۔۔۔ سرکار کے ظالم کارندوں کی طرح اسے گھیرے کھڑے ہیں اور بقایہ کا تقاضا کر رہے ہیں۔ پھر کونے میں کھڑے ہوئے ہل کی نیسی چمک اٹھی گویا کسی کارندے نے اپنا بلم سیدھا کردیا ہو۔ اس بلم کی چمک کے ساتھ ہی اس کے دماغ میں دہک اور بار کوند گئی جیسے تنی ہوئی روپا ہنسیا اٹھائے کھڑی ہے۔ اس کا جی چاہاکہ روپا کے ہاتھ سے ہنسیا کھینچ لے اور اسے روپا کے پیٹ میں بھونک دے۔ روپا کے پیٹ کا خیال آتے ہی ’’سرکار‘‘ کے قاصدان کی چاندی کی مسندی اور مخملیں تکیے میں بھرے سرمائی پرندوں کے پروں کا گداز دونوں اس کے ذہن میں گڑھ مڑھ ہوگیے۔۔۔ اور چارپائی سسکیاں بھرتی رہی۔ دن بھینسیں لگاتے رہے او ردودھ پہنچاتے رہے۔۔۔ اور راتیں سوچ کی ننگی بیریوں کے نیچے ننگے پاؤں چلتی رہیں اور کراہتی رہیں۔
(۱۴)
پھر دسہرا آگیا۔ سارنگ آباد میں لگا۔ گڑھی کے سامنے میدان میں شامیانہ کھڑا کیا گیا۔ دور دور تک جاجم کا فرش کیا گیا۔ ہل گاڑ کر گڑھی کی ان گنت گیس لٹکائی گئیں۔ سرکار کی چوکی پر سچے کام کی ہری مسند بچھائی گئی۔ ہری اطلس کے غلافوں میں لپیٹے ہوئے تکیے رکھے گیے۔ گاؤں گاؤں بھنگیوں نے ڈگی پیٹ کر اعلان کیا کہ آج رات ’’ویرا بھیمنیو‘‘ کھیلا جائے گا۔ ساری خلقت کے دل گرما گیے۔ بوڑھے بوڑھے دلوں پر ’’تیوہار‘‘ کی جوانی ٹوٹ پڑی۔ حسینی سارنگ آباد کے بازار سے سودا سلف لے کر گھر لوٹا تو اس کادوارا جگمگا رہا تھا جیسے ابھی ابھی گوبر سے لیپا گیا ہو۔ اندر پہنچا تو بھینسیں ناند سے الجھ الجھ کر کھا رہی تھیں اور گھنٹیاں بجارہی تھیں۔ ان کے چھپر کے کونے میں ٹوٹی ہوئی روئیوں کا ڈھیر لگاتھا۔ مرغیاں پر پھڑ پھڑاکر لڑ رہی تھیں اور کڑکڑا کر کھا رہی تھیں۔ بیچ آنگن میں ستلی سے بناہوا جہازی پلنگ پڑا تھا اس پر قالین بچھا تھا۔۔۔ ایک آدمی۔۔۔ ایک دانو۔۔۔ اکڑوں بیٹھاناریل پی رہا تھا۔ سیاہ گھنی سخت داڑھی گردن پر چھائی ہوئی تھی۔ تازہ بنا ہوااوپری ہونٹ چمک رہا تھا۔ کلے چرے ہوئے تھے۔ بڑی بڑی بھیانک آنکھوں پر چوڑے چوڑے سیاہ ابرو جھکے ہوئے تھے۔ سرکے خشخشی سیاہ بالوں کے بیچوں بیچ ایک پان بنا تھا۔ گوشت سے لدی ہوئی کلائیاں گنجان بالوں میں الجھی ہوئی تھیں۔ حسینی کو دیکھتے ہی پلنگ سے اترنے لگا۔ کھڑے ہوکر پہلے اس نے داہنی ران پر دھوتی برابر کی جس کی پھڑکتی مچھلی پر حسینی کی نگاہ جڑی ہوئی تھی۔ پھر ڈکارا۔۔۔
’’سلام آلیک۔‘‘
’’والیکم‘‘
یہ کہہ کر حسینی نے اس کی آنکھوں میں اپنی سوالیہ نگاہیں رکھ دیں مگر وہ اسی طرح کھڑا ہوا اسی طرح محبت کے ساتھ ناریل گڑگڑاتا رہا جیسے بھوکا کتا ہڈی چچوڑ رہا ہو۔ پھر روپا ایک کوٹھری سے نکلی، رنگے ہوئے پیروں میں جھانجھیں بجاتی اور کلائیوں میں زیور چمکاتی ہوئی آئی اور حسینی کے پاس آکر شادی کے بعد سکھی زمانے والی البیلی آواز میں مخاطب ہوئی، ’’ای گاجی بھائی ہیں۔‘‘
ابھی حسینی ان آنکھوں پر رکھی ہوئی کاجل کی تازی دھار کو پرکھ ہی رہاتھا کہ روپا چولہے والے چھپر کی طرف مڑگئی اور حسینی کے نتھنے نئے لہنگے کے کلف کی خوشبو سے بھر گیے۔
’’بیٹھو۔۔۔ آپ گاجی بھائی بیٹھو۔‘‘ اس نے انگوچھے سے سارا سودا کھول کر دوسری کھٹیا پر انڈیل دیا۔ پھر اسی انگوچھے سے پٹاخے داغنے والی آواز میں پانوں اور جوتے صاف کرنے لگا۔
(۱۵)
روپا کے جہیز میں آئی چھوٹے سے سوتی قالین جیسی جانماز پر گاجی بھائی نماز پڑھ رہے تھے جیسے بیٹھکیں لگا رہے ہوں۔ چھپر کی تھمڑیا میں وہ پیتل کی لالٹین ٹنگی تھی جو آخری بار حسینی کے بیاہ میں قلعی ہوئی تھی۔ حسینی نے کوٹھری سے کپڑے میں لپٹا ہوا مرادآبادی حقہ اور سیتاپور کا بندھا ہوا نیچہ تازہ کرکے جب وہ چلم میں آگ رکھنے چولہے کے پاس گیا تو ’’دودھار‘‘ دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ ’’دودھار‘‘ گلے تک بھری پڑی تھی۔
’’کادودھ کہوں سے آوا ہے؟‘‘ حسینی نے انگارے کی راکھ جھاڑتے ہوئے روپا کو دیکھے بغیر پوچھا۔
’’ناہیں تو۔۔۔ گھر کا ہے‘‘
حسینی نے تڑ سے محسوس کیا کہ آج مدت کے بعد اس آواز میں برچھی کی طرح کھنچی ہوئی خفگی نہیں ہے اس سے تو ’’تلک‘‘ کی مٹھاس ٹپک رہی ہے۔ اس نے گردن موڑ کر بے یقینی سے روپا کو دیکھا جو پیتل کے بٹلے میں پیتل کا چمچہ گھما رہی تھی جیسے کلائی کونچا رہی ہو۔ حسینی دیکھتا رہ گیا۔ روپا کے چہرے پر اپنائیت کی وہ نرمی چمک رہی تھی جو موسم کی پہلی بارش کی پھوار میں ہوتی ہے۔۔۔ جس کے انتظار میں اس کے دن سوکھ کر کانٹا ہوگیے۔۔۔ اس کی راتیں جل کر کوئلہ ہوگئیں تھیں۔ اس کے دل کے تھال میں رکھے ہوئے۔۔۔ بجھے ہوئے سب دیے یکبارگی جل اٹھے جیسے ناچتے مور کے پیروں کے چانا چمک اٹھے ہوں۔ اس نے گاجی بھائی کے پٹی سے حقہ لگادیا اور گاجی بھائی سے باتیں کرنے پر آمادہ ہوگیا جس کا قیافہ ہمیشہ اس کا دل میں شبہے جگاتا رہا جس کا نام روپا کی بدنامیوں کے آنچل سے بندھاتھا۔
’’ہاں تو سب کھیر صلا ہے گاجی بھائی؟‘‘
’’سب اللہ کاسکر ہے۔‘‘
’’گھر سے آئے رہے ہو سیدھے؟‘‘
’’ہاں کل۔۔۔ منور چاچا بولے کہ تنی روپا کی کھیر کھبر لے آؤ۔۔۔ تو ہم کہا کہ چلے جائیں۔‘‘
’’ہوں۔۔۔ اچھاکیو۔۔۔‘‘
چار پہاڑ ایسے لڑکوں میں سے ایک کو بھی اتنی چھٹی نہ تھی کہ وہ روپا کی خیر صلالے جاتا۔ وہ دل میں سوچتا رہا۔ گوبر سے لپے ہوئے چوکے میں بٹلے اور چمچ لیے روپا بیٹھی رہی۔ دیر کے بعد گاجی بھائی اور حسینی نہاکر آئے۔ سر سے پانی کے چھوٹے چھوٹے قطرے ٹپکاتے ہوئے چوکے میں بیٹھ گیے۔ روٹیوں کے چئے (انبار) مٹھے کی ہانڈی آلوکی بھاجی اور انڈوں کی ترکاری سب دیکھتے ہی دیکھتے اڑنچھو ہوگئی۔ گاجی بھائی کے بعد حسینی ایک لمبی ڈکار لیتا ہوا اٹھا اور طاق میں رکھے ہوئے تمباکو کے کالے کالے ڈبے کو اٹھائے چھپر میں آیا تو اس نے کھلے ہوئے دروازے سے دیکھا کہ روپا کوٹھری میں بانس کا پٹارا کھولے کھڑی کھدر بدر کر رہی ہے۔
کڑوے تیل کی میٹھی روشنی نے کوری ہانڈی ایسے چہرے پر پتریوں (رنڈیوں ) کے گالوں پر لگانے والی لالی پھیر دی ہے۔ کالا موٹا دوپٹہ شانوں پر سورہا ہے، سر کے زیور کی چاندی دھیمی دھیمی چمک رہی ہے۔ گردن کے چوڑے چکلے طوق کی لمبی لمبی جھالر کے نیچے سراٹھاکر کھڑی بے پناہ جوانی ہاتھ ہلا ہلا کر حسینی کو بلانے لگی۔ اس نے تمباکو کا بکوٹاچلم میں جمادیا اور گاجی بھائی کو کنکھیوں سے دیکھا جو دوسرے چھپر کی دہلیز پر بیٹھے وضو کر رہے تھے اور اونچی آواز میں کھنکار کر آنگن کاکلیجہ ہولارہے تھے۔ حسینی ترچھا ترچھا چل کر ایک ہاتھ روپا کے شانوں پر رکھ دیا۔ دھیرے دھیرے کانپتے ہاتھوں کا لمس محسوس کرتے ہی روپا چمک دھڑک رہی تھی۔ چتونوں سے وہی جان کو ہلکان کردینے والی لاپروائی برس رہی تھی جس نے حسینی کی راتیں اجاڑ دی تھیں اورنیندیں لوٹ لی تھیں۔ قبل اس کے حسینی کی سنسناتی ہوئی کنپٹیاں معمول پر آئیں وہ جاچکی تھی۔
(۱۶)
گاجی بھائی کو نماز پڑھتے مدت ہوگئی۔ جانوروں کی گھنٹیاں سوگئیں۔ گڑھی کے شامیانے میں بجتے ہوئے نقاروں کی کڑم دھڑم حسینی کے آنگن میں کڈکڑے لگانے لگی۔ نبی نگر سے جانے والوں کی ٹولیاں گلیارے میں لاٹھیاں پٹکتی اور گالیاں بکتی دور نکل گئیں۔ تب حسینی کو ہوش آیا۔ الگنی سے چادر اتاری، جھاڑ کر کندھے پر ڈالی، مہندی سے رنگی اور لوہے سے بندھی لاٹھی بغل میں دابی اور گاجی بھائی کے قالین لگے پلنگ کے پاس پڑی ہوئی اپنی کھری چارپائی کے پاس کھڑا ہوگیا۔
’’تو کا گاجی بھائی تم۔۔۔‘‘
گاجی بھائی نے لیٹے لیٹے بات اچک لی، ’’نائیں حسینی بھیا۔۔۔ جوڑ جوڑ ٹوٹا ہواہے۔۔۔ تم دیکھ آؤ نوٹنکی، میں کا سووئے دیو۔‘‘ روپا چھپر میں جھولتے چھینکے پر پتیلی بیٹھا رہی تھی۔ حسینی کی آواز سے چونک پڑی، ’’درواجا بند کرلیو۔۔۔ میں رات اترنے آئے جیوں۔‘‘
(۱۷)
نوٹنکی کامسخرہ ہاتھوں کے اشاروں اور آواز کے گھٹتے بڑھتے حجم سے فحش مذاق کر رہا تھااور سامعین لوٹن کبوتر بنے ہوئے تھے۔ چاندی کے پیچوان سے شغل کرتے ہوئے ’’سرکار‘‘ تک مسند پر پہلو بدل بدل کر داد دے رہے تھے کہ نبی نگر کے نوجوانوں کی چھٹیاں بھرا مار کر کھڑی ہوگئی۔ مجمع کو پھاڑ کر شامیانے کے باہر آگئی اور اس خاموشی سے نبی نگر کے راستہ پر ہولی جیسے وہاں ڈاکہ ڈالنے جارہی ہو۔ یار علی کے پہلو میں چلتا ہوا حسینی خلا میں دیکھ رہا تھا کہ وہ اپنے اس مکان کو جس کے دروازے پر مورچہ لپٹا ہوا پنیسری بھر کا قفل جھول رہاہے اور جس کی کنجی وہ کہیں رکھ کر بھول گیا ہے۔۔۔ اس مکان کو مٹی کا تیل چھڑک چھڑک کر پھونک رہا ہے اور اس آدمی کو جو مکان کی تنہائی میں اپنے گناہوں کی پوٹ کھول بیٹھا ہے، سانپ کی طرح کچل رہا ہے۔
’’اور منور والے؟‘‘ کسی نے اس کے اندر سے سوال کیا۔ اس نے بھناکر کوئی موٹی سی گالی تجویز کی۔ چلور کے درختوں کے پاس سب کھڑے ہوگیے۔
’’یار علی۔۔۔ تم پہنچ گھر گھیر لیو۔۔۔ بس۔‘‘ حسینی کنوئیں سے بولا۔ یار علی نے گردن ہلاکر ان پندرہ بیس آدمیوں کو دیکھا جو مرنے مارنے پر تلے ہوئے تھے۔ سب سے پہلے حسینی نے اپنے گھر کے چاروں طرف گھوم پھر اطمینان کرلیا کہ کہیں گاجی کی چھٹیا والے چھپے تو نہیں بیٹھے ہیں۔ پھر اپنے صدر دروازے کے سامنے پہنچ کر اس نے کمر سے وہ بارہ انچی چاقو نکالا جس پر کئی آدمیوں کے لہو نے دھار رکھی تھی۔ جب یار علی نے سب انتظام سے فارغ ہوکر گردن کو ہلایا تب حسینی دروازے کے طاق پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوا اور گردن اونچی کرکے چوروں کی طرح اپنے مکان کاجائزہ لیا۔
(۱۸)
صحن کے بیچوں بیچ پلنگ پر قالین لیٹا سو رہا تھا۔ اس کے دونوں پہلوؤں پر ایک ایک چارپائی بے سدھ پڑی تھی۔ اپنی سانسوں کو سنبھال کراس چھپر کو دیکھا جس میں روپا کی کوٹھری تھی۔ دونوں کواڑوں کے بیچ ایک بالشت چوڑی لالٹین کی روشنی کی جھالر ٹنگی تھی۔ حسینی طاق سے پاؤں اتار نیچے آیا۔ زمین پر بیٹھ گیا۔ ہرن مارکہ بیڑی کابنڈل نکالا، چپکے سے دیا سلائی جلائی۔ چار ہی کش میں بیڑی کو کھاگیا۔ آخری کش کا دھواں اپنے سینے پرچھوڑا جہاں بھنگرے لگے تھے۔ چاقو کی دھار ایک بار پھر ٹٹولی اور دیوار پر چڑھ کر صحن میں بلی کی طرح اتر گیا۔
پل صراط پر چلتا ہوا کوٹھری کے دروازے پر پہنچ گیا۔ سانسوں کی دھونکنی بند کردی۔ دل کی دھڑکن کے بجتے ہوئے گھنٹے کو تھاما اور نگاہ اٹھائی اور شیشم کی گاؤدم ران کے شہتیر پر روپا لیٹی تھی۔ کاجل لگی آنکھوں سے ایسی من موہنی باتیں کر رہی تھی جن کو سننے کے لیے ہر رات حسینی نے خوابوں کی فصل بوئی تھی اور ہر صبح ٹیڑی دل نے بسیارہ چن لیا تھا۔ گاجی بھائی کی انگلیاں جیسے مرکھنے بیلوں کو باندھنے والے کھونٹے۔۔۔ ایسی انگلیاں کرتی کی چنٹ، لہنگے کے بھنور اور آنچل کی مٹھائی۔۔۔ سب کی خیریت پوچھتی چل رہی تھی۔۔۔ حسینی کے بدن کا سارا خون اچھل کر اس کے سر میں تڑپنے لگا اور کانوں پہ بجلیاں سی گرپڑیں۔
’’رجب کے بیٹے۔۔۔ دھکار ہے توئی پر۔‘‘
دھڑاک سے دروازہ کھل گیا۔ روپا گھپنی (گوپھن) کے ڈھیلے کی طرح اڑی اور کونے میں کھڑی ہوئی آدمی بھر اونچی مٹھور سے چپک گئی۔ گاجی بھائی اس جھگڑے سے برجھا گیے جیسے ہاتھی کی خلوت میں کوئی آدمی چلاجائے۔ گاجی بھائی کوٹھری میں اس طرح کھڑے ہوگیے جیسے نیام سے جدھر نکلتا ہے۔ گاجی بھائی نے اکہرے بدن کے حسینی کو خالی ہاتھ دیکھا تو اندر ہی اندر کھل گیے جیسے آدھی لڑائی جیت لی ہو۔ پھر وہ گینڈے کی طرح اچھلے پھرتیلا حسینی بازو میں ہوگیا اور وہ اپنے زور میں توپ کے گولے کی طرح کوٹھری سے نکل گیے۔ پھر حسینی کی بانہوں میں آگیے۔ لوہے کے موٹے موٹے تاروں سے بنی ہوئی بانہوں میں آگیے۔ اس دانو سے الجھے ہوئے حسینی نے دیکھا کہ روپا دہلیز پر کھڑی ہے۔ لالٹین کی روشنی میں جگمگا رہی ہے۔ پھر اسے ایسا محسوس ہواجیسے خالی روپا نہیں سارا نبی، نگر سارنگ آباد ساری دنیا اس نامی رجب کے اکلوتے بیٹے کی آخری کشتی دیکھ رہی ہے۔
اس خیال کے آتے ہی اس کے بدن میں آگ بھر گئی۔ اس نے اپنی عمر بھر کی ساری طاقت اور رجب کی زندگی بھر کی کمائی کو پکار کر زور کیا اور گاجی بھائی کو۔۔۔ دانو کو اپنے سر تک اونچا اٹھالیا تھا اور حسینی کی کنکھیوں نے د یکھا کہ روپا کی آنکھ، کان تک چری ہوئی آنکھیں پھٹ گئیں۔۔۔ وہ اس دیو کو اٹھائے ہوئے اس طرح چلتا صدر دروازے تک پہنچ گیا جس کے دونوں پٹ کھلے ہوئے تھے اور اس کی دہلیز پر یار علی پستول لیے کھڑا تھا۔ حسینی نے دروازے کی چوکھٹ ہی سے گاجی بھائی کو پھینک دیا۔ جیسے کنویں کی گراری تک کھینچے ہوئے جہازی گگرے کی رسی ٹوٹ جائے۔۔۔ حسینی تھوڑی دیر تک ساکت کھڑا رہا۔
پھر جب مڑا تو اس کے پاؤں نہیں اٹھ رہے تھے۔ دونوں بازو جھول گیے تھے جیسے ان کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں ہوں۔ ہونٹوں پر گرم گرم نمکین نمی رینگ رہی تھی۔ کوٹھری کی دہلیز پار کرتے ہی اپنے آپ کو پلنگ پر پھینک دینے کے لیے وہ جھکا لیکن راستے ہی میں اسے روپا نے سنبھال اپنا چادرہ اتار کر حسینی کے ہونٹوں کاخون پونچھا۔ جب اس کا ہاتھ حسینی کے پکھوڑے سے چھوگیا اور وہ بے قرار ہو کر چیخ اٹھا تو وہ چونک پڑی۔ نادم نادم نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔ اپنے سفید شیشے کے ہاتھوں سے حسینی کے سینے کو سہلانے لگی۔۔۔ جیسے وہ حسینی کا ابھرتی ہوئی ہڈیوں والا سپاٹ سینہ نہیں ولائتی شیشے کا فانوس ہو۔۔۔ حسینی آنکھیں پھاڑے دیکھ رہا تھا۔۔۔ کہ ولائتی شیشے کا فانوس روپا کے چہرے کی مشعل سے جگمگا اٹھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.