کہانی کی کہانی
’’یہ کہانی ایک ریلوے اسٹیشن، اس کےاسٹیشن ماسٹر اور ٹکٹ بابو کے گرد گھومتی ہے۔ اسٹیشن ماسٹر کا ماننا ہے کہ پورے ہندوستان میں ہر چیز ایک دوسرے سے جڑی ہے۔ بہت کم لوگ ہی اس رشتہ کو دیکھ پاتے ہیں اور اس کی قدر کرتے ہیں۔ مگر جو لوگ اس رشتہ سے انکار کرتے ہیں وہ باغی ہیں۔ اسٹیشن ماسٹر کے مطابق ان رشتوں کو جوڑے رکھنے میں آم کے باغ اہم رول نبھاتے ہیں۔ اگر کہیں آم کے باغ نہیں ہیں تو وہ علاقہ اور وہاں کے لوگ سرے سے ہندوستانی ہی نہیں ہے۔ کسی بھی شخص کو ہندستانی ہونے کے لیے یہاں کی تہذیب میں آم کے باغ کی اہمیت کو سمجھنا ہی ہوگا۔‘‘
آم کا کنج اور بڑے بابو، ان دونوں میں کوئی تعلق بظاہر تو معلوم نہیں ہوتا، لیکن ہندوستان باوجود ضرب المثل کثرت کے وحدت کاملک ہے۔ یہاں ہر چیز دوسری چیز سے رشتہ رکھتی ہے، یہ رشتہ ہر شخص کو نظر نہیں آتا، لیکن شاعر (یہاں اس لفظ کے وسیع معنی مراد ہیں) کی درد پرور نظر اسے دیکھتی ہے اور دوسروں کو دکھاتی ہے اور جو دیکھنے سے انکار کرے وہ ’’باغی‘‘ کہلاتا ہے۔ باغی کا مفہوم سمجھنے کے لیے تعزیرات ہند، عدالت اور کالا پانی کاخیال دل سے نکال دیجیے اور ذرا دیر کے لیے ناموسِ فطرت کی طرف توجہ کیجیے جو انسان یعنی ’’کائنات مجمل اور اس کے ماحول یعنی کائنات مفصل‘‘ میں ہم آہنگی چاہتا ہے اور جس کی خلاف ورزی ’’بغاوت‘‘ ہے۔ مگر خدا کے لیے ان مسائل میں اتنے محو نہ ہو جائیے گا کہ قصے کی سادگی، اندازبیان کی دل آویزی اور ایک خاص طرح کی ظرافت جو بجا موجود ہے نظر سے چھپ جائے۔
(ڈاکٹر سید عابد حسین)
ایک چھوٹے سے دیہاتی اسٹیشن کا ذکر ہے، مسافر یہاں بہت کم دیکھنے میں آتے تھے اور گاڑیاں اور بھی کم، لیکن کسی مصلحت سے خداوندانِ تدبیر نے تین ملازمان ریلوے کا یہاں تعین کر رکھا تھا جن کی تفصیل یہ ہے، ایک اسٹیشن ماسٹر (بڑے بابو) ایک ٹکٹ بابو اور ایک سگنل والا۔
کشن پرشاد اسٹیشن ماسٹر کشیدہ قامت متین آدمی تھے۔ ان کا چہرہ چوڑا چکلا تھا اور مونچھیں بھری بھری اور کسی قدر نیچے کی طرف مڑی ہوئی، ظاہر ہے کہ ان کی ذات گویا اسٹیشن کے مرقعے میں نقش مرکزی تھی۔ یہ اپنی تنہائی کی زندگی پر قانع بلکہ اس میں مگن تھے اور جو کوئی ان کے پرسکون چہرے اور خاموشی بھری آنکھوں پر نظر ڈالتا اسے اس بات پر حیرت نہ ہوتی۔ ان کے چہرے سے غور و فکر، علم و فضل کا اظہار ہوتا تھا، حالانکہ انھوں نے برائے نام تعلیم پائی تھی اور ان کی چمک ان کے کور سواد ساتھیوں کے ساتھ۔۔۔ تقابل کا نتیجہ تھی۔
باسو، ٹکٹ بابو جو ایک دبلا پتلا نوجوان تھا اور جسے یہ عہدہ اپنے گاؤں کے مدرسے میں قابل ترین ریاضی داں ہونے کے صلے میں ملاتھا اور ہی طرز کا آدمی تھا۔ وہ بہت کمزور قلب کا اختلاجی آدمی تھا۔ ہمیشہ ہاتھ ملا کرتا تھا اور جب سر جھکاکر چلتا تھا تو معلوم ہوتا تھا گویا وہ ایک بھاری بوجھ پیٹھ پر اٹھائے اپنے بوتے سے زیادہ تیز جا رہا ہے اور اس کا بوجھ بس گراہی چاہتا ہے، اسے ہر وقت جلدی رہا کرتی تھی اور کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ وہ بڑے بابو سے کوئی بات کہہ کر ان کے جواب کے انتظار میں اور ان کے سکون و اطمینان سے عاجز آکر جلدی جلدی ان کے گرد پھرتا تھا اور اپنے سوال کو اس وقت تک دہرائے جاتا تھا جب تک جواب نہ مل جاتا۔
سگنل والا ایک قریب کے گاؤں کا رہنے والا مسلمان تھا، وہ ان دونوں کی صحبت میں بہت کم دکھائی دیتا تھا۔ عام طور پر وہ اپنے کیبن (سگنل کی اونچی کوٹھری) میں بیٹھا کھڑکی میں سے جھانکا کرتا تھا اور مزے میں اپنا ناریل پیا کرتا تھا۔ وہ بہت خاموش رہتا تھا اور کبھی بڑے بابو یا ٹکٹ بابو سے بے تکلف ہونے کی کوشش نہیں کرتا تھا۔ ان دونوں کو وہ بشر نہیں بلکہ کسی برتر درجے کی مخلوق سمجھتا تھا۔ اس کا سبب شاید یہ ہوگا کہ وہ بالکل ناخواندہ تھا اور باسو چھ سات برس سے، جب سے کہ دونوں کا ساتھ تھا اس کے دل پر یہ نقش کرتا رہا تھا کہ وہ ادنی درجہ کا آدمی ہے۔ بڑے بابو کو اس کی صحبت سے احتراز نہ تھا لیکن چونکہ وہ ٹکٹ بابو کی کارروائیوں سے ناواقف تھے اس لیے سمجھا کرتے تھے کہ سگنل والا خود تنہا رہنا پسند کرتا ہے۔
ٹکٹ بابو اپنے اختیارات کے بارے میں ہمیشہ سے گستاخ اور خودسر تھا اور بڑے بابو نے یہ دیکھ کر کہ اس کے فلسفۂ زندگی کے بدلنے کے لیے ساری کوششیں بےکار ہیں، اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ لیکن دراصل ان دونوں کے تعلقات مرغی اور اس کے بچے کے سے تھے۔ یہ بات اس وقت واضح ہو جاتی تھی جب ٹکٹ بابو کسی سبب سے سہم کر اسٹیشن ماسٹر کے چوڑے چکلے جسم کی آڑ ڈھونڈھتا تھا اور ان کے ڈھیلے ڈھالے کپڑوں میں چھپ جاتا تھا، جیسے مرغی کا بچہ مرغی کے پروں میں۔ جب کوئی بات ایسی نہ ہو جو اسے بڑے بابو کی پناہ ڈھونڈھنے پر مجبور کرے تو وہ ان کے سکون واطمینان پر جھلایا کرتا تھا اور وہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ وہ اتنا بھی نہیں کرسکتا تھا کہ اسے ایک نہ بدلنے والی چیز سمجھ کر صبر کرلے بلکہ وہ صدق دل سے یہ سمجھتا تھا کہ اس کے افسر کو یہ خصلت چھوڑ دینا چاہیے جس سے اس کے ماتحتوں کو تکلیف ہوتی ہے اور کاشت کاروں پر رعب نہیں پڑتا۔
خود اس کانصب العین کچھ اور ہی تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ اسٹیشن ماسٹر کو ایک قوی ہیکل غضب آلود آنکھوں والا آدمی ہونا چاہیے جو رعب دار وردی پہنے ہو اور جس کے انداز سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ وہ ذرا سی نافرمانی یا بیہودہ پن پر آدمی کو اور نہیں تو اٹھاکر نگل ضرور جائےگا۔ برخلاف اس کے یہ بڑے بابو جن کی نگرانی میں اسے کام کرنا پڑتا تھا ہمیشہ سکون اور خاموشی کی حالت میں رہتے تھے، کسانوں کو گالی دینا ایک طرف ڈانٹتے تک نہ تھے۔ ہر شخص کو مہربانی کی نظر سے دیکھتے اور وردی کبھی نہیں پہنتے تھے۔ بلکہ ہمیشہ ایک قمیص پہنے اور ایک لمبی سی دھوتی باندھے نظر آتے اور نیم برہنہ بےوقوف کسانوں کو مرعوب کرنے کے لیے ان کے پاس ایک ریشمی صدری کے اور کچھ نہ تھا۔
تھوڑے دن پہلے ایک واقعہ پیش آیا تھا جس کے سبب سے ٹکٹ بابو اپنے افسر سے اور بھی زیادہ ناراض ہو گیا تھا اور جتنا وہ پہلے کسانوں کو حقیر سمجھتا تھا اسی قدر اب ان سے خائف تھا اور اس کے دل میں یہ وہم سما گیا تھا کہ جو کسان اسے ملے گا اس کا سر توڑ ڈالےگا اور جب کبھی اس پر خوف کی کیفیت طاری ہوتی تو وہ ڈر کر بڑے بابو کے پاس جاتا تھا اور ان سے التجا کرتا تھا کہ وہ زیادہ سخت تدابیر اختیار کریں اور کسانوں کے مقابلے میں زیادہ استحکام دکھائیں۔
موسم خزاں کا ایک دن تھا اور سہ پہر کا وقت، آسمان پر بادل گھرا ہوا تھا اور ہوا میں خنکی تھی۔ چونکہ رات کو آٹھ بجے تک کوئی گاڑی نہیں آتی تھی اس لیے بڑے بابو نے طے کیا کہ وہ ٹہلنے کے لیے جائیں گے اور ٹکٹ بابو سے بھی ساتھ چلنے کو کہا۔ ٹکٹ بابو نے ڈرتے ڈرتے کہا، ’’کہاں تک چلیےگا؟‘‘ اسے خوف تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو گاڑی کے وقت واپسی نہ ہو سکے۔ بڑے بابو نے نہایت اطمینان سے ایک آموں کے کنج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو چند سوگز کے فاصلے پر تھا، جواب دیا کہ ’’صرف اس باغ تک‘‘ ٹکٹ بابو نے کہا کہ ’’بہت اچھا، لیکن تیز چلیے۔‘‘ بڑے بابو نے پوچھا، ’’کیوں؟‘‘ ٹکٹ بابو کو اس کے وجوہ پیش کرنے کی ہمت نہیں پڑی اور وہ بڑے بابو کے قدم بہ قدم آہستہ آہستہ چلنے لگا۔
یہ دونوں کھیتوں کے بیچ میں اٹھی ہوئی تنگ منڈیر پر جا رہے تھے۔ ٹکٹ بابو کا پیر بار بار پھسل کر کھیت میں جا پڑتا تھا اور وہ انتہائی پھرتی کے ساتھ اچک کر مینڈ پر آ جاتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کھیت والا دیکھ لے اور گالیوں کی بوچھاڑ شروع کر دے۔ بڑے بابو بھاری بھاری قدم رکھتے ہوئے چل رہے تھے اور ان کا قدم ذرا بھی نہیں ڈگمگاتا تھا، جس پر ٹکٹ بابو کو سخت تعجب تھا۔ وہ اپنے آس پاس کی سب چیزوں پر خاموش مسرت کی نظر ڈال رہے تھے اور نرم اور فرحت بخش ہوا میں گہری سانس لیتے جاتے تھے، وہ پیچھے مڑکر نہیں دیکھتے تھے، اس لیے انھیں نہیں معلوم تھا کہ ٹکٹ بابو راستے میں کیا کیا کرتب دکھاتا جا رہا ہے۔
آخرکار وہ کنج میں پہنچ گیے اور ایک درخت کے نیچے زمین کے ایسے حصے پر بیٹھ گیے جسے ہوا نے گویا انھیں کی خاطر پتیوں اور خاک سے صاف کردیا تھا۔ بڑے بابو نے ٹکٹ بابو کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا، ’’باسو، تمہیں معلوم ہے، مجھے ایک ایسی چیز کی تلاش ہے جو ہماری قوم اور ہمارے ملک کی تمام اہم خصوصیتوں کا مرکز ہو۔ میں نے بہت ڈھونڈھا لیکن آم کے کنج سے زیادہ معنی خیز مجھے کوئی چیز نہیں ملتی۔ حقیقت میں ہماری زندگی کی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی جھلک تمہیں ان میں نظر نہ آئے۔ آم کے جس کنج کو دیکھو معلوم ہوتا ہے وہ ہمیشہ سے اسی جگہ موجود تھا جہاں اب ہے۔ کسی کو نہیں معلوم ان درختوں کو کس نے لگایا تھا اور کوئی ایسا بے رحم نہیں جو انھیں کاٹ کر پھینک دے۔ ہماری زندگی ہمیشہ سے ہے اور ہمارا ملک بھی جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ہمارا ملک دنیا میں ہے اور ہم اس میں رہتے ہیں، باوجود ان شیطانوں اور برم راکششوں کی مخالفت کے جن کا ذکر ہماری مذہبی کتابوں میں ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر ہمارے یہاں آم کے کنج نہ ہوتے تو ہماری زندگی بڑی بوجھل ہو جاتی، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ خود مجھ پر یہ بات صادق آتی ہے اگر میں اپنی کھڑکی سے اور اسٹیشن سے اتنے آم کے درخت نہ دیکھ سکتا تو میں کب کا مر گیا ہوتا یا نوکری چھوڑ کر چلا گیا ہوتا۔‘‘
ٹکٹ بابو موقع پاتے ہی بول اٹھا، ’’مگر آم کے کنج تو سارے ایک ہی سے ہوتے ہیں۔‘‘ بڑے بابو نے کہا، ’’ہاں اسی طرح سب ہندوستانی قریب قریب ایک سے ہوتے ہیں اور جو دوسری طرح کے ہیں وہ باغی ہیں۔ جو کوئی آم کےکنج کی خوبصورتی کا قائل نہ ہو وہ باغی ہے چاہے وہ کوئی بڑا بھاری انگریز افسر ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
ٹکٹ بابو کے ذہن میں باغی کا تصور ایک خوفناک مجرم کا تھا جو پھانسی کا سزاوار ہو اور جس کا تعاقب سارے ملک کی پولیس کر رہی ہو اور کسی انگریز کے ساتھ یہ بات ناممکن تھی، لیکن وہ اس وقت بحث نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے تردید کے لیے صرف سر ہلا دیا۔ ایک منٹ تک خاموشی رہی، بڑے بابو نے باسو کے اظہار تردید کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ وہ اپنے خیالات میں ڈوبے ہوئے تھے اور گہری سانس لیتے ہوئے شوق اور پسندیدگی کی نظر سے ان پتیوں کو دیکھ رہے تھے جو ہوا میں جھکولے کھا رہی تھیں اور تھک کر زمین پر گرنے والی تھیں۔ ٹکٹ بابو اسٹیشن کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہاتھا کہ بڑے بابو کب اٹھیں گے اور واپس چلیں گے۔
آخر بڑے بابو نے مہر خموشی کو توڑا، ’’بغیر ان کنجوں کے واقعی ہم پر بڑی مصیبت ہوتی۔ کہا جاتا ہے کہ گنگا مائی کی وادی جہاں ہم پلے ہیں، دوہزار میل لمبی اور دو سو میل چوڑی ہے۔ ہمارے یہاں پہاڑ نہیں ہیں اور جیٹھ بیساکھ میں بڑی گرمی پڑتی ہے، اگر کنج نہ ہوتے تو بھوکے پیاسے مسافر کہاں بیٹھ کر کھاتے اور آرام کرتے۔ ایک درخت سے دھوپ کا کافی بچاؤ نہیں ہوتا اور اس طرح بڑے درحت خودبخود تو مل کر نہیں اگتے۔‘‘
ٹکٹ بابو نے بات کاٹ کر کہا، ’’اگر مجھ سے پوچھیے تو مجھے یہ کنج دیکھ کر ہمیشہ یہ خیال آتا ہے کہ خدا جانے کتنے سانپ اس کے سایے میں بیٹھے مجھے ڈسنے کو تیار ہیں۔‘‘
بڑے بابو آہستہ سے ہنسے اور بولے، ’’لوگوں کے خیالات میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ جب میں چھوٹا سا تھا تو کبھی کبھی ایسا ہوا ہے کہ میں کئی رات دن اپنے گاؤں کے ایک کنج میں رہا ہوں اور آج تک کبھی مجھے سانپ نے نہیں کاٹا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آدمی کے آس پاس کوسوں تک کوئی کنج نہ ہو اور پھر بھی اسےسانپ ڈس لے۔ سانپ اور کنج میں کوئی چیز مشترک نہیں اور اگر تم سمجھتے ہو کہ دونوں کا ساتھ لازمی ہے تو تم غلطی پر ہو۔ کیا تمہاری طرف بہت کنج ہوتے ہیں؟‘‘
’’نہیں تو۔۔۔ معلوم نہیں۔۔۔ شاید ہوتے ہوں۔۔۔ ہاں ہاں مجھے خیال آیا وہاں بھی اسی کثرت سے ہوتے ہیں جیسے یہاں۔‘‘
بڑے بابو نے پھر سلسلہ تقریر شروع کیا، ’’ہاں میں بھی یہی سمجھتا تھا، ہم سب اصل میں ایک ہیں۔ میرے نزدیک تمام ہندوستان میں تمدن شہروں میں دیہات سے آیا ہے اور دیہات میں آم کے کنج سے پیدا ہوتا ہے۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں اسے مان لو۔ جہاں کسی گاؤں میں آم کا کنج ہے وہاں کرشن جی کی پوجا، موسیقی بلکہ تمام فنونِ لطیفہ اور میل ملاپ کے دیوتا کی حیثیت سے ہوتی ہے اور جہاں آم کے کنج نہیں وہاں دوسرے دیوتا پوجے جاتے ہیں اور وہاں کے لوگ ہندو نہیں بلکہ اگر سچ پوچھو تو سرے سے ہندوستانی نہیں۔ مجھے اکثر یہ خیال آیا ہے کہ اگر آم کے کنج نہ ہوتے تو شری کرشن جی کا بانسری بجانے یا عشق و محبت کی باتیں کرنے کو جی نہ چاہتا۔ وہ شیطان کے ہاتھ سے اپنے انسانی جسم کو برباد ہو جانے دیتے اور بہشت کو لوٹ جاتے۔‘‘
اگر چاندنی رات میں جمنا کے کنارے آم کے کنج کے سائے میں سونا ان کے دل کو نہ لبھاتا۔ گاؤں کی زندگی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہندوستان کی زندگی کے لطف کا مرکز آم کا کنج ہے۔ شاعر کے لب پر کسی شیریں نغمے کا جاری ہونا سوائے اس حالت کے ناممکن ہے کہ وہ آم کے کنج میں بیٹھا ہو، سورج ڈوب رہا ہو، ہلکی ہلکی ہوا چل رہی ہو اور عشق و آرزو کا دل پر نرغہ ہو اور میرے خیال میں یہی آم کے درخت جھک کر کرشن جی کے کان میں چپکے سے راگ اور راگنیاں پھونک دیا کرتے تھے۔ یہ اپنی خاص فضا اور اپنی خاص موسیقی رکھتے ہیں اور دن کی ہر گھڑی میں نئے گیت سناتے ہیں۔ اگر تم دن کے کسی حصے میں یہ معلوم کرنا چاہو کہ تم پر کیا کیفیت طاری ہونا چاہیے تو بس تم نزدیک کے کنج میں جابیٹھو وہاں تمہیں پتیاں مناسب وقت گیت سنائیں گی۔‘‘
جب بڑے بابو یہ کہہ رہے تھے تو وہ آس پاس نظر ڈالتے جاتے تھے، آم کے کنج پر اور اس ناہموار قطعہ زمین پر جو ان کے سامنے پھیلا ہوا تھا۔ جملے ان کی زبان سے آہستہ آہستہ بلا ارادہ نکل رہے تھے، گویا ان پر کسی بڑی طاقت، شاید کنج کی روح کا غلبہ تھا اور وہ ان کے پردے میں بول رہی تھی۔ کچھ عرصے بعد ٹکٹ بابو نے یقین کے لہجے میں کہا، ’’بہت ممکن ہے۔‘‘
’’ممکن ہی نہیں بلکہ سچ ہے۔ میں جانتا ہوں کیونکہ میں نے خود انھیں گاتے سنا ہے۔ بس تم لیٹ جاؤ اور کان لگاکر سنو، مگر شرط یہ ہے کہ تمہارا قلب صاف ہو اور تم سانپوں کے ڈر سے کانپتے نہ ہو۔‘‘ بڑے بابو نے مسکراکر ٹکٹ بابو کی طرف دیکھا لیکن وہ سہما ہوا سامنے کی جھاڑی کو دیکھ رہا تھا اور اس نے آخر کا جملہ نہیں سنا۔ دونوں ایک منٹ تک خاموش رہے۔ اس عرصے میں قدرت نے بڑے بابو کی ساری آرزؤں کے پورا کرنے کا انتظام کر دیا۔ مغربی افق پر بادل پھٹ گئے تھے تاکہ سورج اور زمین کو موقع دیں کہ وہ ایک دوسرے کو رخصتی سلام کر لیں۔ چند کرنیں بادل کے گرد گھیرا بناتی ہوئی آم کے کنج پر پڑ رہی تھیں۔ بڑے بابونے کہا، ’’دیکھو، دیکھو سورج ڈوب رہا ہے۔‘‘
ٹکٹ بابو نے گھبراکر کہا، ’’تب تو ہمیں چلنا چاہیے۔‘‘ بڑے بابو نے بغیر کچھ کہے اپنی گھڑی نکالی۔ ابھی صرف ساڑھے چھ بجے تھے۔ وہ کہنے لگے، ’’ابھی بہت وقت ہے، میں ذرا سورج کو ڈوبتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں، تم بھی ٹھہر جاؤ۔‘‘
ہمارے ہندوستان میں غروب آفتاب کا منظر عموماً نہایت شان دار ہوتا ہے۔ اس وقت جو منظر تھا وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ بڑے بابو اس پرشوکت رخصتی کے نظارے میں محو، وجد کے عالم میں خاموش بیٹھے تھے۔ کبھی وہ تاریکی کو افقِ مشرق سے بڑی بڑی لہروں میں بڑھتے ہوئے اور سورج کی شعاعوں میں گم ہوتے ہوئے دیکھتے تھے۔ کبھی کنج کے حسرت خیز سائے پر نظر ڈالتے تھے اور کبھی کسی چھوٹی سی کرن کے تبسم کے جواب میں جو پتیوں سے جھانکتی تھی اور ایک جھلک دکھاکر منہ چھپالیتی تھی، وہ خود مسکرا دیتے تھے۔جب سورج سب سے دور کے کنج کے پیچھے غائب ہو گیا تب جاکر بڑے بابو اٹھے اور پھر بھی بادل ناخواستہ تاسف کے ساتھ۔
ٹکٹ بابو کی حالت پہلے ہی سے غیر تھی، شام کو اسے عموماً قلب کے دورے ہوا کرتے تھے، تاریکی میں ہمیشہ کوئی چیز ہوتی تھی جو اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھی، کوئی چیز جو اس کی دشمن تھی اور اسے سہما دیتی تھی۔ آج اس کے دل میں گاڑی کے وقت پر نہ پہنچ سکنے کا خوف سمایا ہوا تھا۔ وہ سوچتا تھا کہ اگر گاڑی آ گئی اور اسٹیشن ماسٹر اور ٹکٹ بابو کے نہ ہونے کے سبب دیر تک کھڑی رہی تو غضب ہی ہو جائےگا۔ ہر شخص دونوں کو برا بھلا کہےگا، کسان پھاٹک کے اوپر سے پھاند پھاند کر بلاٹکٹ اندر داخل ہو جائیں گے، ممکن ہے کہ ڈرائیور کو غصہ آ جائے اور وہ بغیر لائن کلیر اور سگنل کے گاڑی چھوڑدے اور کوئی حادثہ پیش آ جائے۔
اس خیال نے تو اس کا خون ہی خشک کردیا کہ کہیں افسران بالا دست نے آج ہی کے دن کو معائنہ کے لیے منتخب کرکے کسی انگریزی گارڈ کو نہ بھیج دیا ہو کہ وہ سب ملازموں کی کارگزاری کی پوری رپورٹ کرے۔ اگر یہ صورت ہوئی تو کیا ہوگا۔ یہ دیکھ کر کہ اس قسم کا کوئی خیال بڑے بابو کے دل میں نہیں آتا تھا اور وہ اس قدر آہستہ قدم اٹھا رہے تھے گویا کوئی گاڑی آنے والی نہ تھی، وہ اور جھلاتا تھا۔ لیکن باوجود اس کے کہ اسے اپنے افسر کی یہ سستی اس قدر ناگوار تھی اسے اتنی جرأت نہ ہوئی کہ تیز چلنے کو کہے کیونکہ اس صورت میں سبب بتانا پڑتا اور یہی اسے منظور نہ تھا۔
چنانچہ اس نے کتے کی طرح جو چاہتا ہو کہ اس کا مالک تیز چلے اور جو اپنی بے زبانی پر دل ہی دل میں کڑھ رہا ہو وہ بہت تیز ی سے چل کر بڑے بابو سے دس قدم آگے نکل جاتا، پھر دفعتاً رک جاتا اور بڑے بابو کا انتظار کرتا اور پھر اسی طرح تیز چلنے لگتا۔ باوجود اس کے کہ وہ یہ بدنما حرکت بار بار کر رہا تھا، بڑے بابو اسی دھیمی چال سے چلتے رہے۔ انھوں نے اتنا بھی نہ پوچھا کہ تم یہ کیا تماشا کر رہے ہو۔
خدا خدا کرکے دونوں اسٹیشن پر پہنچے، ٹکٹ بابو جھپٹ کر ٹکٹ گھر میں گیا اور اس نے فوراً وہ چھوٹی سی کھڑکی کھولی جس میں سے وہ کسانوں کو ٹکٹ دیا کرتا تھا، حالانکہ کوئی مسافر موجود نہ تھا اور وہ خوب جانتا تھا کہ کسان اگر گاڑی کے وقت سے چھ گھنٹے پہلے نہ پہنچ جائیں تو پھر وہ نہیں آتے۔ لیکن اسے اپنے ٹکٹ گھر سے بہت محبت تھی۔ وہاں بیٹھ کر وہ اپنے وسیع اختیارات کا لطف اٹھاتا تھا جنھیں وہ اس طرح استعمال کرتا تھا کہ کسی کو ٹکٹ دیا، کسی کو نہ دیا اور جس سے چاہا خوشامد کرائی، وہاں اسے یہ احساس ہوتا تھا کہ کسان اس سے مرتبے میں بدرجہا کم ہیں اور ان سے گفتگو اور برتاؤ کاطریقہ محض اس کی مرضی پر موقوف ہے۔ یہ نہیں تھا کہ وہ کسانوں سے من مانے دام وصول کرلے، بلکہ عموماً کسان اس سے کرائے میں رعایت کی درخواست کرتے تھے اور وہ انھیں جھڑک کر مقررہ کرائے سے زائد وصول کرنے کی دھمکی دیتا تھا، مگر آخر میں بڑا احسان جتاکر ٹھیک دام پر ٹکٹ دیتا تھا۔
اگر کوئی کسان اپنے لڑکے یا لڑکی کے لیے جس پر بلوغ قانونی کاشبہ ہو سکے آدھا ٹکٹ مانگتا تھا تو وہ نہایت خشونت سے اور اس سراغ رس کا منہ بناکر جو کسی مشتبہ آدمی سے جرح کرتا ہے، اس لڑکے یا لڑکی کو اپنے پاس بلاتا، اس کے دانت اور زبان کا معائنہ کرتا اور بہت سے سوال پوچھتا تھا، جو اس نے خود بناکر رکھے تھے۔ اس کاخیال تھا کہ وہ ان سوالات سے اس لڑکے یا لڑکی کی سمجھ کااندازہ کرکے نتیجہ نکال سکتا ہے کہ اس کی عمر کیا ہے۔ عموماً اگر ذرا بھی موقع ہوتا تو وہ یہ فیصلہ کرتا تھا کہ پورا ٹکٹ خریدنا چاہیے۔ کسان کو اس کی بےوقوفی اور لیچڑپن پر ڈانٹتا تھا اور دھمکاتا تھا کہ وہ اسے کارکنانِ ریلوے کو دھوکا دینے کے الزام میں پولیس کے سپرد کر دےگا۔ مگر آخر میں یہ کہہ کر آدھا ٹکٹ دے دیتا تھا کہ پھر کبھی نہ دوں گا۔ وہ ہمیشہ سمجھتا تھا کہ اس کا ضمیر اسے اس طرزِ عمل پر مجبور کرتاہے۔ اس کے نزدیک کسانوں کو دھمکانا اور گالی دینا ضروری تھا، ورنہ بقول اس کے ’’خدا جانے کیا ہو جائے؟‘‘
وہ کچھ دیر تک ٹکٹ گھر میں بیٹھا اپنے حسابات دیکھتا رہا، اس کے بعد یہ خیال کرکے کہ اب اسے اپنے اختیارات کے استعمال کرنے کا موقع نہیں ملےگا، اس نے ٹکٹ گھر کو بند کر دیا، پلیٹ فارم پر بڑے بابو ٹہل رہے تھے، وہ اب تک محویت کے عالم میں اس پیغام پر غور کر رہے تھے جوانھیں آم کے کنج کی زبانی ملا تھا۔ انھیں محسوس ہو چلا تھا کہ جیسے وہ ابھی تک کنج میں ہیں، وہ کان لگاکر اور دل لگاکر اس پیام امن کو سننا چاہتے تھے اور اپنی روح کو اس کی موسیقی سے پر کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ دنیا میں آم کے کنج کی طرح کسی کے لیے برکت، کسی کے لیے نعمت عظمیٰ ہو جائیں اور ان لوگوں کے سامنے جو ان اسرار سے واقف نہ ہوں، متانت اور وقار کا مجسمہ بن کر رہیں۔
شام کی تاریکی سے انھیں کوئی الجھن نہ تھی، یہ سوچ کر بھی نہیں کہ اب کنج ان کی نظر سے چھپ جائیں گے۔ آج شام کو ان کنجوں میں ایک نئی شان پیدا ہو گئی تھی، اسٹیشن ماسٹر کے دل پر ان کا اثر بھی نئی طرح کا تھا۔ یہ اب درختوں کے کنج نہیں تھے بلکہ ایک فلسفیانہ تصور بن گیے تھے۔ یہ اب اشیانہیں تھے جن کا خیال کیا جائے بلکہ خود خیالات تھے، اس قابل کہ ان سےلطف اٹھائے، ان میں محو ہوکر سو جائے، اپنے آپ کو زندگی کے عظیم الشان سمندر میں ایک قطرہ سمجھے اور اس کی بے پایاں وسعت میں گم ہو جائے۔
ٹکٹ بابو نے دور سے دھواں دیکھا اور دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ سنبھل کر کھڑا ہو گیا تاکہ مسافروں سے ٹکٹ لے، لیکن بڑے بابو اب تک اس اطمینان سے ٹہل رہے تھے گویا کوئی گاڑی وہاں نہیں آ رہی ہے اور وہ ہر قسم کے فرائض و افکار سے بے تعلق ہیں۔ جب گاڑی پہنچ گئی تو وہ آہستہ آہستہ اپنے اوفس میں گئے اور وہاں سے لائن کلیر اور سبز جھنڈی لے آئے لیکن آج وہ اپنے خیالات میں اس قدر محو تھے کہ وہ اپنے معمول کے مطابق ڈرائیور سے مسکراکر پوچھنا بھول گیے کہ تمہارا انجن اگلے اسٹیشن تک کام دے جائےگا یا نہیں اور جب گاڑی چھوٹنے کا وقت آیا تو انھوں نے زبان سے کچھ نہیں کہا، بلکہ صرف سبز جھنڈی ہلا دی۔
گاڑی سے صرف ایک مسافر اترا، ٹکٹ بابو دروازہ پر انتظار کرتا رہا۔ جب وہ نہ آیا تو پلیٹ فارم کی طرف لپکا، وہ اس پر بہت اصرار کرتا تھا کہ کسان ٹکٹ پلیٹ فارم پر نہیں بلکہ مقررہ جگہ پر دیں، حالانکہ انھیں آسانی پلیٹ فارم پر ہی دینے میں ہوتی تھی کیونکہ ان کو متعدد گٹھریاں کھول کر ٹکٹ نکالنا پڑتا تھا۔ ٹکٹ بابو شاید اس ارادے سے آیا تھا کہ مسافر کو خلاف ورزی قانون اور مزاحمت بکار سرکار کے جرم میں خوب ڈانٹے ڈپٹے اور اس کے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ٹکٹ نکالنے کا تماشا دیکھے لیکن اسے خلافِ توقع ایک عجیب منظر دکھائی دیا۔ اس نے ایک تنومند کسان کو دیکھا جس کے ہاتھ میں بڑی سی لاٹھی تھی اور جو کھڑا ہوا غضب آلود نظروں سے ہر طرف دیکھ رہا تھا، کچھ فاصلے پر بڑے بابو کھڑے تھے اور خاموش ملامت کے انداز سے کسان کو دیکھ رہے تھے۔ کسان نے ٹکٹ بابو کو دیکھ کر گرج کر کہا، ’’کون سار ہم سے ٹکٹ مانگ سکت ہے؟‘‘
ٹکٹ بابو اس طرح کھڑا رہ گیا جیسے کسی نے اس کے پیر پکڑ لیے ہوں اور خوف کے مارے اس کی گھگگھی بندھ گئی۔ کسان نے پھر اسی لہجے میں لاٹھی پلیٹ فارم پر ٹیک کر کہا، ’’ہم سےکوئی سار ٹکٹ نہیں مانگ سکت ہے۔‘‘ ٹکٹ بابو رفوچکر ہو چکا تھا اس لیے اب وہ بڑے بابو کی طرف مخاطب ہوا، بڑے بابو نے جن پر ذرا بھی خوف طاری نہ تھا، چپکے سے پوچھا، ’’کیا تمہارے پاس ٹکٹ نہیں ہے؟ کسان نے ایک قدم بڑھ کر اور لاٹھی ہلاکر کہا، ’’کا تم ٹکٹ منگہو؟‘‘
ٹکٹ بابو اپے سونے کے کمرے کی کھڑکی سے جھانک رہا تھا۔ وہ چاہتا ہی تھا کہ دہائی مچانا شروع کرے لیکن اسے خیال آ گیا کہ کسان کو اس کی جائے پناہ معلوم ہو جائےگی اور وہ بھی قتل عام میں مارا جائےگا، بڑے بابو اور کسان چند لمحے تک خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے اور بڑے بابو نے جو اب تک خوفزدہ نہ تھے کہا، ’’بھائی اگر تمہارے پاس ٹکٹ ہے تو دے دو نہیں تو اپنا راستہ لو۔ بھگوان تمہارا بھلا کرے مگر اس قدر لال پیلے ہونے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
کسان نے پھر بدتمیزی کے ساتھ کہا، ’’چلے ہیں ہم سے ٹکٹ مانگنے۔‘‘
اس کے بعد وہ دروازے کی طرف مڑا اور نکل کر اکڑتا ہوا چلا گیا۔ بڑے بابو پھر ٹہلنے لگے جیسے کوئی بات ہی نہ ہوئی اور پھر آم کے کنج کے خیال میں غرق ہو گیے۔ کچھ دیر بعد ٹکٹ بابو اپنے سونے کے کمرے سے ڈرتا ڈرتا نکلا جیسے ہر لمحہ اسے لاٹھی پڑنے کا خوف ہو اور سگنل والے کی کوٹھری کی طرف چلا۔ سگنل والا بھی اسی طرح احتیاط کےساتھ ٹکٹ بابو کے کمرے کی طرف جا رہا تھا، دونوں کی پلیٹ فارم پر مڈبھیڑ ہو گئی۔
ٹکٹ بابو نے آہستہ سے پوچھا، تم نےاسے دیکھا تھا؟ سگنل والے نے کہا، ’’ہاں۔‘‘ ٹکٹ بابو نے کہا، ’’بڑا غضب ہوا، اب وہ جاکر دوسرے کسانوں سے کہےگا اور سب لاٹھی باندھ باندھ کر آئیں گے اور ہمیں مار ڈالیں گے۔ میرے خیال میں ہمیں فوراً پولیس کو اطلاع کرنا چاہیے۔‘‘ سگنل والا بولا، ’’ہاں رپورٹ فوراً کرنا چاہیے، مگر کون سے تھانے میں جائیں۔ یہ جو گاؤں میں ہے اس میں تو میں کبھی نہیں جاؤں گا۔ ہاں ریل کے کنارے کسی تھانے میں کہیے تو چلا جاؤں۔‘‘
ٹکٹ بابو نے کہا، ’’ہاں میری بھی یہی رائے ہے اور میں بڑے بابو سے سپرنٹنڈنٹ پولیس کے نام یہ رپورٹ ضرور بھجواؤں گا کہ ہمارا علاقہ خطرناک ہو گیا ہے اور ہماری جانیں محفوظ نہیں۔‘‘ بڑے بابو ٹہلتے ہوئے ان دونوں کے پاس سے گزر رہے تھے مگر انھوں نے ان کو نہیں دیکھا کیوں کہ رات ہوگئی تھی، دوسرے وہ اپنے خیالات میں ڈوبے ہوئے تھے۔ دیر تک یہ دونوں خاموش اور بےحس و حرکت کھڑے رہے اور اسٹیشن ماسٹر کو ٹہلتے ہوئے دیکھتے رہے۔ تھوڑی دیر کے بعد ان کی آواز آئی، ’’باسو، باسو آؤ، نکل آؤ، اب کوئی خطرہ نہیں۔‘‘ وہ سمجھے کے ٹکٹ بابو اب تک اپنے گھر میں ہے۔ سگنل والے نے بابو کو ٹھوکا دے کر کہا، ’’جائیے آپ کو بڑے بابو بلا رہے ہیں، میں اپنے سگنل پر جاتا ہوں اور آپ بڑے بابو سے کہہ دیجیے کہ ایک چوکیدار رکھ لیں، میری جان فالتو نہیں ہے۔‘‘
یہ کہہ کر سگنل والا لمبا ہوا اور ٹکٹ بابو کو وہیں کھڑا چھوڑ گیا۔ ٹکٹ بابو کو اب سوائے اس کے کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اس مقام کی طرف بڑھے جہاں اسے اندھیرے میں بڑے بابو کے سفید کپڑے نظر آ رہے تھے۔ اس نےبہت آہستہ سے کہا، ’’کیا آپ نے مجھے پکارا تھا؟‘‘ وہ بڑے بابو کے پاس جاتے جاتے ڈرتا تھا گویا ان میں سے اسے خونخوار کسان کی جھلک نظر آتی تھی۔ بڑے بابو نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا، ’’ہاں میں نے پکارا تھا، آؤ دیکھو کیسی پیاری رات ہے۔ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ دم بھر میں چاند کہیں سے نکل آئےگا۔ دیکھو ایک جگہ ہے جہاں تاریکی سب سے زیادہ گہری ہے۔ یہی وہ کنج ہے جہاں ہم تھوڑی دیر ہوئی بیٹھے تھے۔ کہو پھر چلتے ہو؟‘‘
ٹکٹ بابو جانے کے خیال سےکانپ گیا۔ اس نے فیصلہ کن لہجےمیں کہا، ’’جی نہیں‘‘ کچھ دیر ٹھہر کر اس نے پھر کہا، ’’ہاں تو بتائیے، آپ اس کسان کے معاملے میں کیا کریں گے۔ بہت سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔‘‘ بڑے بابو نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا، ’’میں کیا سخت کارروائی کروں جب میرے اردگرد ہر چیز پرامن و امان، خاموشی اور سنجیدگی چھائی ہوئی ہے۔‘‘
ٹکٹ بابو نے نہایت حیرت کے ساتھ کہا، ’’آپ کچھ نہیں کریں گے، مگر یہ تو سوچیے کہ سب کسان لاٹھی باندھ کر آیا کریں گے اور ہم ان سے ٹکٹ مانگیں گے تو ہمیں مار ڈالیں گے۔‘‘ بڑے بابو نے کہا، ’’نہیں وہ ایسا نہیں کریں گے۔‘‘ ٹکٹ بابو نے گھبراکر پوچھا، ’’آپ کیسے کہتے ہیں وہ نہیں کریں گے؟‘‘
’’کیونکہ مجھے معلوم ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں جس شخص نے آج بدتمیزی کی وہ ’’باغی‘‘ تھا۔ وہ سب لوگوں کی طرح نہیں تھا۔ دوسرے کسان جہاں تک ان سے ہو سکتا ہے سارے قوانین کی پابندی کرتے ہیں، وہ کھیتوں میں کام کرتے ہیں اورفطرت کی ہم آہنگی کے اثر سے وہ بھی امن پسند ہو جاتے ہیں۔‘‘
’’اور جو وہ سب باغی ہو جائیں؟‘‘
بڑے بابو پر دفعتاً یاس کا غلبہ ہو گیا اور وہ کہنے لگے، ’’باسو، معلوم ہوتا ہے تم خود باغی ہو ورنہ ایسی باتیں نہ کرتے، تم عالم فطرت کو جو تمہارے گرد ہے، ذرا بھی نہیں سمجھ سکتے، ورنہ تم ایسے خیالات نہ رکھتے۔ مجھے دیکھو، میں چالیس برس کا ہو گیا مگر میں ہرجگہ ہروقت بےدھڑک جا سکتا ہوں، تم جوان آدمی ہو مگر ڈرا کرتے ہو کہ لوگ بس تمہیں مارنے کے لیے منتظر ہی بیٹھے ہیں۔ نہیں بھائی تم بھی باغی ہو، تم بھی نہیں سمجھتے۔ آج شام والے کسان کی طرح تم بھی یہی خیال کرتے ہو کہ ہر چیز دنیا میں تمہاری مخالفت پر تلی ہوئی ہے۔ تو تم بھی لاٹھی باندھا کرو نا۔‘‘
ٹکٹ بابو نے کچھ جواب نہیں دیا کیونکہ وہ بات سمجھا ہی نہ تھا لیکن اگر اس میں ہمت ہوتی تو وہ اس پر خفا ہوتا کہ بڑے بابو نے اسے باغی کہا اور ایک معمولی کسان اور مجرم سے اس کا مقابلہ کیا۔ وہ چپ چاپ بڑے بابو کے پاس کھڑا رہااور اسے بڑا سہارا یہ تھا کہ اندھیرا ہے۔ اس وقت کوئی حملہ کرنے نہ آئےگا۔ بڑے بابو نے کہا، ’’اور میں کر ہی کیا سکتا ہوں۔ اگر میں پولیس کو اطلاع کرتا ہوں تو وہ کسی بےگناہ کو پکڑ کے اس پر جرمانہ کر دےگی۔ یہ پولیس والے بھی نہیں سمجھتے، کسان اکٹھا ہوکر بلاٹکٹ سفر کرنے نہیں آئیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو پولیس ان کا چالان کر دےگی۔ تمہیں ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔‘‘
ٹکٹ بابو نے بہت زور دے کر کہا، ’’میں ڈرتا نہیں ہوں صرف سردی کے سبب سے کانپ رہا ہوں۔ آپ جانتے ہیں اب سردی پڑنے لگی ہے۔ مگر سنیے بڑے بابو آپ کو کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے ورنہ کسانوں کی نظر میں ہماری بڑی بدرعبی ہوگی اور خدا جانے کیا ہو جائےگا۔‘‘
’’میں اس وقت جو کچھ کر سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم کو گھر پہنچا دوں۔ اب کوئی کام نہیں۔ اس لیے اب آرام کرنا چاہیے۔‘‘
دونوں گھر چلے گیے۔
ٹکٹ بابو کو بہت دن تک خواب میں خوں خوار کسان نظر آتے تھے اور نیند آنا دشوار تھا اور جب کبھی اسے دفعتاً اس شام کا حادثہ یاد آتا تھا، وہ جھپٹ کر بڑے بابو کے پاس جاتا تھا اور ان سے منت سماجت سے کہتا تھا کہ وہ شدید تدابیر اختیار کریں اور کسانوں کے ساتھ سختی سے پیش آئیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.