دیکھ کبیرا رویا
کبیر کو علامت بنا کر یہ کہانی ہمارے معاشرے کی اس حقیقت کو بیان کرتی ہے جس کے بنا پر لوگ ہر اصلاح پسند کو کمیونسٹ، آمریت پسند قرار دے دیتے ہیں۔ سماج میں ہو رہی برائیوں کو دیکھ کر کبیر روتا ہے اور لوگوں کو ان برائیوں سے روکتا ہے۔ لیکن سب جگہ اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ لوگ اسے برا بھلا کہتے ہیں اور مار کر بھگا دیتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
خودکشی کا اقدام
افسانہ ملک کی معاشی اور قانونی صورتحال کی ابتری پر مبنی ہے۔ اقبال فاقہ کشی اور غربت سے تنگ آکر خود کشی کی کوشش کرتا ہے جس کی وجہ سے اسے قید با مشقت کی سزا سنائی جاتی ہے۔ عدالت میں وہ طنزیہ انداز میں دریافت کرتا ہے کہ صرف اتنی سزا؟ مجھے تو زندگی سے نجات چاہیے۔ اس ملک نے غربت ختم کرنے کا کوئی راستہ نہیں نکالا تو تعذیرات میں میرے لیے کیا قانون ہوگا؟
سعادت حسن منٹو
چوری
یہ ایک ایسےبوڑھے بابا کی کہانی ہے جو الاؤ کے گرد بیٹھ کر بچوں کو اپنی زندگی سے وابستہ کہانی سناتا ہے۔ کہانی اس وقت کی ہے جب اسے جاسوسی ناول پڑھنے کا دیوانگی کی حد تک شوق تھا اور اس شوق کو پورا کرنےکے لیے اس نے کتابوں کی ایک دکان سے اپنی پسند کی ایک کتاب چرا لی تھی۔ اس چوری نے اس کی زندگی کو کچھ اس طرح بدلا کہ وہ ساری عمر کے لیے چور بن گیا۔
سعادت حسن منٹو
موتری
تقسیم ہند سے ذرا پہلے کی صورت حال کی عکاسی اس کہانی میں کی گئی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں کے خلاف پیشاب گاہ میں مختلف جملے لکھے ملتے تھے۔ مسلمانوں کی بہن کا پاکستان مارا اور ہندوؤں کی ماں کا اکھنڈ ہندوستان مارا کے نیچے راوی نے دونوں کی ماں کا ہندوستان مارا لکھ کر یہ محسوس کیا تھا کہ ایک لمحے کے لیے موتری کی بدبو مہک میں تبدیل ہو گئی ہے۔
سعادت حسن منٹو
نعرہ
یہ افسانہ ایک متوسط طبقہ کے آدمی کی انا کو ٹھیس پہنچنے سے ہونے والی درد کو بیاں کرتا ہے۔ بیوی کی بیماری اور بچوں کے اخراجات کی وجہ سے وہ مکان مالک کو پچھلے دو مہینے کا کرایہ نہیں دے پایا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مالک مکان اسے ایک مہینے کی اور مہلت دے دے۔ اس درخواست کے ساتھ جب وہ مالک مکان کے پاس گیا تو اس نے اس کی بات سنے بغیر ہی اسے دو گندی گالیاں دیں۔ ان گالیوں کو سن کر اسے بہت تکلیف ہوئی اور وہ مختلف خیالوں میں گم شہر کے دوسرے سرے پر جا پہنچا۔ وہاں اس نے اپنی پوری قوت سے ایک ’نعرہ‘ لگایا اور خود کو بہت ہلکا محسوس کرنے لگا۔
سعادت حسن منٹو
جھوٹی کہانی
اس کہانی میں ایک مفروضہ بدمعاشوں کی انجمن کی وساطت سے سیاست دانوں پر گہرا طنز کیا گیا ہے۔ بدمعاشوں کی انجمن قائم ہوتی ہے اور بدمعاش اخباروں کے ذریعہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان کی روک تھام کے لیے ایک بڑے ہال میں جلسہ کیا جاتا ہے جس میں سیاست داں اور عمائدین شہر بدمعاشوں کی انجمن کے خلاف تقریریں کرتے ہیں۔ اخیر میں پچھلی صف سے انجمن کا ایک نمائندہ کھڑا ہوتا ہے اور غالب کے اشعار کی مدد سے اپنی دلچسپ تقریر سے سیاست دانوں پر طنز کرتا ہے اور ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان قائم کرتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
شیر آیا شیر آیا دوڑنا
بچپن میں اسکول میں پڑھائی جانی والی جھوٹے گڑریے کی کہانی کو ایک نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کہانی میں گڑریے کے شیر کے نہ آنے کے باوجود چلاّنے کے مقصد کو بتایا گیا ہے۔ گڑریا شیر نہ ہونے کے باوجود چلاتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ لوگ شیر کے آنے سے پہلے ہی خود کو تیار رکھیں۔ اگر اچانک شیر آ گیا تو کسی کو بھی بچنے کا موقع نہیں ملے گا۔
سعادت حسن منٹو
ماتمی جلسہ
’’ترکی کے مصطفی کمال پاشا کی موت کے سوگ میں بمبئی کے مزدوروں کی ہڑتال کے اعلان کے گرد گھومتی کہانی ہے۔ ہندوستان میں جب پاشا کے مرنے کی خبر پہنچی تو مزدوروں نے ایک دوسرے کے ذریعہ سنی سنائی باتوں میں آکر شہر میں ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ ہڑتال بھی ایسی کہ دیکھتے ہی دیکھتے پورا شہر بند ہو گیا۔ شام کو جب مزدوروں کی یہ بھیڑ جلسہ گاہ پرپہنچی تو وہاں تقریر کے دوران اسٹیج پر کھڑے ایک شخص نے کچھ ایسا کہہ دیا کہ اس ہڑتال نے فساد کی شکل اختیار کر لی۔‘‘
سعادت حسن منٹو
باغی
’’یہ کہانی ایک ریلوے اسٹیشن، اس کےاسٹیشن ماسٹر اور ٹکٹ بابو کے گرد گھومتی ہے۔ اسٹیشن ماسٹر کا ماننا ہے کہ پورے ہندوستان میں ہر چیز ایک دوسرے سے جڑی ہے۔ بہت کم لوگ ہی اس رشتہ کو دیکھ پاتے ہیں اور اس کی قدر کرتے ہیں۔ مگر جو لوگ اس رشتہ سے انکار کرتے ہیں وہ باغی ہیں۔ اسٹیشن ماسٹر کے مطابق ان رشتوں کو جوڑے رکھنے میں آم کے باغ اہم رول نبھاتے ہیں۔ اگر کہیں آم کے باغ نہیں ہیں تو وہ علاقہ اور وہاں کے لوگ سرے سے ہندوستانی ہی نہیں ہے۔ کسی بھی شخص کو ہندستانی ہونے کے لیے یہاں کی تہذیب میں آم کے باغ کی اہمیت کو سمجھنا ہی ہوگا۔‘‘