ہم لوگ
ہاؤ۔۔۔ ہوّہ۔۔۔ ہلو لیو ٹیننٹ۔۔۔ اہم۔۔۔ ٹٹ ٹٹ۔۔۔ فلکس۔۔۔ یپ۔۔۔ مے فیئر۔۔۔ یاہ۔۔۔ او کے۔۔۔ ٹیڈل اووسویٹی پائی۔۔۔ چیریوسیم۔۔۔ اور دوسرے لمحے ریٹا میری بہن نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ جیسے آپ ایک بار پلک جھپک کر کہیں ’’جیک رو بنسن‘‘ میری آٹھ سلنڈرز والی موٹر پانی کے تیز چھینٹے اڑاتی زنّاٹے کے ساتھ موڑ پر سے گزر کر جنوبی مال کی طویل اور اندھیری خاموشی میں کھوجائے اور پیچھے رات کے بھاری کہرے میں ڈوبی ہوئی سڑک کی اونچی اور زرد اور دھندلی روشنیوں کی قطاریں بے بسی سے جھلملاتی رہیں۔ ریٹا اور پیکرڈ اور تم رائل انڈین نیوی کے گلفام ’’سب لیوٹ‘‘ اور تھکی ہوئی سکون اور آرام کی خواہاں یہ خوابیدہ جنوبی مال جو ہم کو مے فیئر لے جارہی ہے۔
آج رات تمام سڑکیں مے فیئر کو جارہی ہیں کیوں کہ وہاں گالا نائٹ ہے ایک روسی اوپیرا کی نقل۔۔۔ سمجھے؟ کم ون، کم آل۔ ہم نے اسٹیج اوربار اورگیلریاں اور گرین روم سب کے سب ہتھوڑے اور درانتی والے سرخ کاغذی پرچموں سے سجائے ہیں۔ پچھلی مرتبہ جب ہم نے مے فیئر کی اسٹیج پر ہندوستانی رقص پیش کیے تھے تو نیلی اور سرخ دھاریوں اور ستاروں اور لکیروں والے جھنڈے سارے میں آراستہ کیے تھے، سمجھے کامریڈ۔ اوہو معاف کرنا تم تو کامریڈ نہیں ہو بلکہ آر۔ آئی۔ این۔ کے ایک بے حد گلفام سے سب لفٹننٹ ہو۔ جنرل اسٹل ول کا جامِ صحت تجویز کرنے کے بعد فوری ہی ،’’اِز اے جولی گڈ فیلو‘‘ خوب زور زور سے اس لیے گاتے ہو کیوں کہ ہم ہندوستانیوں کا امریکہ اورامریکنوں سے بہت ہی گہرا قلبی تعلق ہے۔
لیکن کیسی فضول سی اور اکتا دینے والی باتیں ہیں یہ۔ میں بہت تھک گئی ہوں اور میری بہن ریٹا بھی، مگر میری آٹھ سلنڈرز والی کار کبھی نہیں تھکتی۔ اس کے ٹائروں کے نیچے کہر آلود لیمپوں کی مدھم روشنی میں مال تیزی سے بہہ رہی ہے۔ مے فیئر ابھی بہت دور ہے۔ میرا چھوٹا اور خوب صورت سا نیند سے بوجھل سر اپنے شانوں پر رکھ لو۔ جنوبی مال تک، صرف شمالی مال سے لے کر جنوبی مال تک۔ یعنی کسی قدر مختصر یہ شرحِ زندگی ہے، سوچو تو!
اور ہماری دنیا ذرا اعلیٰ پیمانے پر کتنا کا ر آمد پِٹ منیز شارٹ ہینڈ انسٹی ٹیوٹ۔ ریٹا خاموش ہے۔ ریٹا بہت سے اہم مرحلے اسی شارٹ ہینڈ میں طے کرلیتی ہے اور پھر اطمینان سے چوئنگ گم کھاتی رہتی ہے اور اپنی بڑی بڑی سبز آنکھیں اس طرح جھپکتی ہے جیسے پوچھ رہی ہو، معاف کیجئے گا، لیکن کیا آپ کو زندگی بسر کرنے کا فن آتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر سے جاکر کسی کنڈر گارٹن میں داخل ہوجائیے ورنہ میرے ساتھ آکر ناچیے۔
ارے آپ کو ناچنابھی نہیں آتا؟ اور سوسائٹی میں یوں ہی داخل ہوگیے آپ؟ چچ چچ ۔ اچھا آپ مادام والگا کے اسکول میں داخل ہوجائیے جو نیو انڈیا کافی ہاؤس کے اوپر ہے۔ اور آپ نے اس نکتے پر بھی غور نہیں فرمایا جسے امریکن بہت اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ (فش !امریکن تمہارے اعصاب پر کب سے سوار ہوگیے ہیں بھئی!) یعنی زندگی تجارت ہے، تجارت اشتہار بازی ہے، اور اشتہار بازی زندگی۔ یہ سب اچھی طرح مکس کیے ہوئے کاک ٹیل کی طرح ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہیں۔
دیکھئے مادام والگا کے رقص کے اسکول کا اشتہار کس خوب صورتی سے صرف ایک سطر میں میں نے آپ تک پہنچا دیا ہے۔ یہ فن میں نے یونی ورسٹی کی تعلیم ختم کرنے کے بعد کمرشیل کالج کی شام کی کلاسوں میں شغلِ بے کاری کے طور پر سیکھا ہے۔ آپ حضرات بھی اس طرف توجہ فرمائیے اور گھر بیٹھے ہزاروں روپیہ کمائیے۔ اس کے علاوہ ہماری فرم سے آپ امریکن یونی ورسٹی کی اعلیٰ ڈگریاں بذریعہ خط و کتابت حاصل کرسکتے ہیں۔ فیس بالکل واجبی۔ پھر آپ دیکھیے ڈبلیو۔ اے سی (آئی)۔ کی زندگی کس قدر دل چسپ ہے ، اور ہندوستانی شاہی بحری بیڑے کو اس وقت آپ جیسی لڑکیوں کی کتنی ضرورت ہے۔ یہ مس معینہ امام ہیں اور یہ سینئر کمانڈر لتیکا بنرجی۔
چنانچہ ہماری پیکارڈ اسی طرح تیز رفتاری سے مے فیئر کی طرف بڑھتی جارہی ہے اور ہم بہت مطمئن ہیں۔ ہمیں تھکن محسوس نہ کرنی چاہیے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ’منزل‘ مے فیئر کی ان نیلگوں روشنیوں سے بہت دور کہیں دھندلکوں کے پرے چھپی ہوئی ہے۔ منزل۔۔۔ فِش بہت ہی لغو اور بے معنیٰ فقط ہے یہ ۔ زندگی ذوقِ سفر کے سوا کچھ بھی نہیں، خصوصاً جب یہ سفر ایک پیکارڈ میں کیا جارہا ہو۔
لیکن ریٹا اسلام احمد تم جو زندگی کی شارٹ ہینڈ میں ماہر ہو اور اپنی انسٹی ٹیوٹ کا بہترین اشتہار‘ آہستہ آہستہ ناچو‘ کیوں کہ برسات کی یہ کالی راتیں بہت جلد گزرتی جارہی ہیں اور بادلوں کے اوپر تاریک آسمانوں میں نقرئی ستارے تیزی سے گھوم رہے ہیں۔
اور صبح صبح جب کھڑکی کے نیچے پھیلی ہوئی کچی رس بھری کی مدھم خوشبو ناک میں گھستی ہے تو سبزے کے پرے رہنے والے کیپٹن عثمان اپنے دریچے میں کھڑے ہو کر یوں ہی بے فکری اور بے نیازی سے سیٹی بجانے لگتے ہیں۔ (یہ ایک اہم سائیکلوجیکل نکتہ ہے کہ انسان کھڑکی میں کھڑے ہو کر سیٹی کیوں بجاتا ہے۔) اس وقت ریٹا میری بہن کی آنکھ کھل جاتی ہے اور چند لمحوں تک اپنی بڑی بڑی سبز آنکھیں کاہلی سے جھپکانے کے بعد وہ دوسری کروٹ لے کر خوابوں کے نقرئی تارکو وہیں سے ملادیتی ہے جہاں سے کیپٹن صاحب کی سیٹی نے اسے توڑ دیا تھا۔ کہتے ہیں کہ بجھتے تاروں کی چھاؤں میں جنم لینے والے سپنے ہمیشہ خوش گوار اور سچے ثابت ہوتے ہیں، رس بھری کی سوتی ہوئی خوشبو کی لپٹوں جیسے۔ ان دھندلے سنہری پانیوں میں اپنی خوابوں کی کشتی کھیتی رہو، ریٹا رانی۔۔۔ انجانی چٹانوں اور اجنبی ساحلوں سے بچا کے۔
دیکھتے ہو کامریڈ۔ اس بورژوا لڑکی، اس جاگیر دارانہ نظام اور ذہنیت کی فروزاں قندیل کا وجود کتنا فضول اور بے مصرف ہے۔ اٹھ اور خوب صورت کاہل عورت، تجھے اسکیٹنگ ہاکی ٹورنامنٹ کی شیلڈ حاصل کرنے کے حد سے زیادہ لغو خواب دیکھنے کا کیا حق ہے جب کہ۔۔۔ جب کہ۔۔۔ جاگ کہ سرخ سویرا آتا ہے۔ (’’سرخ سویرا‘‘ اور تمام کمیونسٹ لٹریچر آپ کو قومی کتاب گھر مقابل پلازا سنیما مل سکتا ہے۔) گومتی کے پار نارنجی افق پر صبح کی پہلی کرنیں بکھرنے لگی ہیں اور ریٹا، میری بہن، ہلکی ہلکی سیٹیوں کی آوازوں کے سہارے خواب میں مسوری کی رِنک کی سطح پر شیلڈ کی جانب بڑھتی جارہی ہے۔ اس کے نئے اوبیرائے کے اسکیٹس ہر سال اسی طرح اسے جیتنے میں مدد دیتے ہیں۔ (ہمیشہ اوبیرائے کے اسکیٹس اور ہاکیاں استعمال کیجیے)۔ اورمسوری کا چمپئن این۔ کے۔ خواجہ، جسے ریٹا نے پچھلے سیزن میں ہرایا تھا، کہتا ہے کہ ایک سخت میچ کے بعد روزیز اسکویش کا ایک گلاس مجھے ہمیشہ بے حد ریفریشنگ ثابت ہوا ہے۔ روزیز اسکویش کے علاوہ اگر آپ ہوٹل برلنگٹن کے نیلگوں کیفے میں تشریف لائیے تو ہم آپ کورس بھری کا بہترین شربت پیش کریں گے۔
اس لیے بھائی ریٹا اب جاگ اٹھو۔ اتنی آہستگی سے رقص نہ کرو، سمجھیں، کیوں کہ زندگی بہت مختصر ہے اور ہم بہت مصروف اور ابھی ہم کو کتنے بے حد ضروری کام کرنے باقی ہیں۔ تمہیں این۔ کے۔ خواجہ کو ہرانا ہے۔ میں ہندوستانی کلچر سوسائٹی کے ایٹ ہوم میں مانی پور رقص پر انگریزی میں جو تقریر کرنے والی ہوں۔اس کے لیے کتابوں میں سے خوب صورت جملے چرانے میں مشغول ہوں( کیوں کہ ابھی ہندوستان میں فنِ تقریر سکھانے کے کالج قائم نہیں ہوئے) اور کیپٹن عثمان کے سیرینیڈ بے کار جا رہے ہیں۔ اب جاگو رادھا رانی!
کیوں کہ صبح ہوگئی ہے اور سنہری پھولوں کے راستے تمہارے منتظر ہیں۔
صبحِ نو۔ افوہ ۔ صبحِ نو!
پھر ایک اور صبح اور ایک شام۔۔۔ یہ دن اور راتیں۔۔۔ حماقت کے افسانوں کے کارواں۔۔۔ بے بس و بے معنیٰ! آئیے کامریڈ میں آپ کو ایک نئی داستان سناؤں۔ امید ہے آپ کو معلوم ہوگا کہ میں ایک بڑی سحر طراز افسانہ نگار ہوں۔
جی ہاں، جی ہاں۔۔۔ خوب! مس حیدر آپ کی تو نثر میں نظم کی سی حلاوت، روانی اور لچک ہے۔ مجھے اجازت دیجیے کہ میں اپنے تازہ ترین قطعات آپ کے گوش گزار کروں جو میرے نئے مجموعے ’’ چھپّر‘‘ میں بھی شامل ہیں۔
عرض کرتا ہوں کہ۔۔۔ مجھ کو منظور نہیں چاند ستاروں کا سفر!
میرے کھوئے ہوئے۔۔۔
افوہ ۔۔۔بہت بہت شکریہ۔۔۔ واقعی کس قدر خوب صورت نظم ہے آپ کی۔ لیکن اب مجھے باہر جانا ہے۔ اگر آپ کسی اور دن تشریف لائیں تو کیسا رہے۔ خدا حافظ! کامریڈز۔ کھم اے لانگ کیپٹن!
اُف یہ سرمایہ دار!
یہ لڑکیاں!!
یہ لوگ !!!
عثمان، عثمان، سچ مچ میں بہت تھک گئی ہوں۔ سچ مجھے منظور نہیں چاند ستاروں کے سفر، بالکل سچ۔ مجھے منظور نہیں۔۔۔ میں نے صاف جھوٹ بولا تھا کہ مجھے ان سایہ دار، خاموش، سکون بخش راستوں، اس سوتی ہوئی موسیقی ، اس تیسرے درجے کی پٹی ہوئی رومان پر ستی سے شدید نفرت ہے۔
نہ جانے کیا کیا کہتی رہتی ہو۔ بھئی مجھ سے افسانوں والی کے علاوہ جو دوسری اردو ہوتی ہے اس میں بولا کرو۔ سمجھیں ؟ لیکن وہ جانتا ہے کہ میں نہیں سمجھ سکتی۔۔۔نہیں سمجھنا چاہتی۔
پھر گومتی کے کنارے آموں کے سائے میں رکی ہوئی پیکارڈ کے فٹ بورڈ پر بیٹھے بیٹھے کیپٹن عثمان دنیا جہاں کی باتیں کرتا رہتا ہے۔ شبنمی خوابوں کی باتیں، قطعی غیر ضروری اور بالکل بے معنی جن کی کوئی اہمیت نہیں، جنہیں سنجیدگی سے لینے کا ذرا احساس نہیں ہوتا لیکن پھر بھی آموں کے سائے بڑھتے جاتے ہیں، گومتی بہتی رہتی ہے اور یہ باتیں ختم ہونے میں نہیں آتیں۔ زندگی کے سوال کو اب تک ہم حل نہیں کرسکے ہیں۔ لیکن وہ متجسس اور متلاشی اور حساس آنکھوں اور بوجھل پلکوں والی زرد رو عیسائی لڑکی،جو بھائی میاں کے پاس ریڈیو کی ملازمت کی درخواست لے کر آئی تھی، بہت آسانی اور صفائی سے سوال کو حل کر چکی ہے۔
وہ سوتی ہوئی سی لڑکی، جو اس روز برآمدے میں پہنچ کر بھائی میاں کے سامنے جانے سے قبل ہیٹ ریک کے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھنے کے لیے ایک لمحے کو ٹھٹک گئی تھی، مجھے اندر آرام کرسی پر ’’لائف‘‘کےصفحوں میں ڈوبا دیکھ کر جیسے اس کی آنکھیں کہہ رہی تھیں: تم رولنگ چیئر پر جھولتی رہو مگر یقین کرو کہ میں تم سے زیادہ عقل رکھتی ہوں۔ حالاں کہ میرے پاس یہی ایک بہترین ساری ہے جسے میں نے انٹرویو کے لیے اتنے دنوں سے سنبھال رکھا ہے۔ اس سے بھائی میاں نے پوچھا تھا آپ کو پہلے بھی کوئی کام کرنے کا تجربہ رہ چکا ہے؟ اور اس کی سایہ دار پلکیں لرز اٹھی تھیں۔ کیسا بھونڈا اور غیر ضروری سوال ہے۔ وہ ہمیشہ سے کچھ نہ کچھ کرتی آئی ہے اور ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرتی رہے گی کیوں کہ اسے زندہ رہ کر زندگی کے سوال کا حل تلاش کرنا ہے اور زندہ رہنا رولنگ چیئر پر جھولنے والوں کے علاوہ دوسرے کے لیے خاصا مصیبت کا کام ہے۔
پھر بھائی میاں نے اس سے پوچھا تھا: آپ کس قسم کی ملازمت زیادہ آسانی اور دل چسپی سے کرسکیں گی۔ٹیلی فون آپریٹر، ڈرامہ آرٹسٹ، ری سپ شن اِسٹ Anything, Anything۔ بھائی میاں نے اس کے الفاظ دہراتے ہوئے اس کا نام کاغذ پر بے فکری سے گرادیا اور چلتے وقت اس نے بھائی میاں پر شکر یہ کا ایک تبسم پھینکا جو کہہ رہا تھا کہ تم نہیں جانتے زندگی کے پِٹ منیز شارٹ ہینڈ انسٹی ٹیوٹ کا ایک اشتہار میں بھی ہوں جو گھر بیٹھے ایک ہزار ماہوار کمانے کی دعوت دیتا ہے لیکن یہ پیکارڈ کے کشنوں اور اسکیٹنگ رِنگ پر پھسلنے والی نفاست کا حامل نہیں بلکہ خدا کو حاضر و ناظر جان کر شائقین کو مخاطب کرتے ہوئے ’’ چترا‘‘ اور ’’ بیسویں صدی‘‘ میں شائع ہونے والے اعلانوں کی قسم میں سے ہے جس کو نہایت آسانی اور بے تکلفی سے پڑھ سکتے ہیں اور جو زندگی سے زیادہ قریب اور زیادہ صحیح ہے۔
لیکن ہم اس عیسائی اور سوتی ہوئی سی لڑکی سے شکست ماننے کو تیار نہیں ہو سکتے ۔۔۔ ہم جو چار ہیں ۔۔۔ اور اس سے بہت بلند اور اعلیٰ و ارفع ہیں۔
ہم لوگ جو ستاروں سے پرے رہتے ہیں۔۔۔ شیشے کے رنگ محلوں میں۔اور شیشے کا رنگ محل بہت جلد ٹوٹ سکتا ہے۔ مگر ہم چاروں نیچے زمین کی پستیوں میں بسنے والوں پر پتھر پھینکتے رہتے ہیں اور چوئنگ گم کھاتے رہتے ہیں۔
شکنتلا وارشنے، جو ہیڈی لیمار کی طرح آنکھیں نیم وا کر کے فرصت کے لمحوں میں سوچا کرتی ہے کہ جب وہ فلائٹ لیفٹینیٹ روجرز کے ساتھ شادی کر کے زمانہ بعد از جنگ کے بین الاقوامی تعلقات استوار کرتی ہوئی فلاڈیلفیا یا میامی جائے گی تو کس قسم کا بالوں کا اسٹائل بنایا کرے گی۔ اور طلعت، جو کہ کمیونسٹ ہے اور ہندوستان کی قومی مشترکہ زبان کے لیے صبح سے شام تک فکر مند رہتی ہے اور جب سے ہمارے صوبے میں ’’ قومی جنگ‘‘ پر پابندی عائد کی گئی ہے اس کا وزن پورا آدھ پونڈ کم ہوگیا ہے۔ پارٹی کے حکم کے مطابق مسلم لیگ میں شامل ہونے کے بعد سے اس نے بے حد مستعدی سے پاکستان کی اقتصادیات اور حکومتِ الٰہیہ پر کتابیں پڑھنی شروع کردیں۔ روزانہ ہمیں فرسکو اور شملہ کانفرنس کے متعلق ضروری باتوں سے واقف کراتی ہے۔ اس قدر مخلص اور سویٹ بچی ہے۔ خدارا آپ ہی اس سے شادی کر لیجیے۔
اور ریٹا، جو میری ماموں زاد بہن ہے ، جس کی آنکھیں شاہِ بلوط کے جنگلوں کے کنارے کسی جھیل کے پانی کی طرح گہری سبز ہیں اور جب وہ سیٹی بجاتی ہے تو کائنات زیر و زبر اور فضائیں تہ و بالا ہوجاتی ہیں اور بربطِ دل کے تار لرز اٹھتے ہیں اور نیلی آنکھوں والے امریکن اپنی چمکیلی ڈاج یا نیش کے بریک دبا کر اسے لفٹ دینے کو رک جاتے ہیں، اسی طرح جیسے اس کی بلونڈ ماں میری آنٹ ربیکا کے گرم یہودی خون کی کشش سے مجبور ہو کر میرے ماموں میاں نے استفسارانہ سیٹی بجا کے بین الاقوامی نسلی مسائل کی گتھی میں ایک اور چھوٹی سی کبھی نہ کھل سکنے والی گرہ کا اضافہ کردیا تھا۔
آنٹ ربیکا، جو برلن کے ایک دہکتے مہکتے ہوئے قہوہ خانہ کی ویٹرس تھیں اور میرے ماموں میاں جنہوں نے اعلی طبّی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جرمنی مراجعت فرمائی تھی اور وہاں سے واپس آکر ہندوستان میں آفتابی اور بنفشی شعاعیں پھیلانے کے بجائے ایک میڈیکل کالج میں محض تھرڈ گریڈ لیکچرر ہوگیے تھے اور جو پروجرمن خیالات رکھنے کے جرم میں اب تک نینی تال میں نظر بند ہیں۔ آنٹ ربیکا عرصہ گزرا اسی میڈیکل کالج کے ایک انگریز پرنسپل کے ساتھ بھاگ چکی ہیں اور ان کی سبز آنکھوں والی بیٹی ریٹا سیٹیاں بجاتی ہے اور تاروں کی چھاؤں میں رس بھری کی ٹھنڈی کونپلوں کے خواب دیکھتی ہے، اپنی ماں جیسے ۔۔۔ اور اس کی ماں نے بھی یوں ہی ہلکی ہلکی سیٹیاں بجائی ہوں گی۔ میرا مطلب ہے کہ یوں ہی ہوتا آیا ہے۔ نظامِ عالم کی تشکیل و تنظیم اسی طرح ہوئی ہے بھئی!
لیکن حماقت دیکھیے کہ فرسکو کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں۔ نسلوں کے اختلاف سے منتج مسائل کے حل کے لیے انٹرنیشنل ہیلتھ بیورو اور لیگ آف نیشنز قائم کی جاتی ہے، لڑائیاں لڑی جاتی ہیں، حالاں کہ اس ساری درد سری کے باوجو ان پر وبلمز کو نہایت آسانی سے اور اطمینان کے ساتھ نہایت نفاست سے انڈیا گیٹ کے آس پاس تاج کے سوٹوں اور و رسوا کی کاٹجوں میں حل کر دیا جاتا ہے۔ غور فرمائیے کہ ان ہی سیٹیوں اور جوابی مسکراہٹوں کے نقرئی اور غیر مرئی تار کے سہارے یہ دنیا رقصاں ہے ورنہ ہم سب کب کے ختم ہوچکے ہوتے۔ کرّے میں حرارت کی نارمل ڈگری برقرار رکھنے کے لیے یہ ساری باتیں بے حد ضروری ہیں۔ اور اس نکتے کو وہ زرد رُو عیسائی لڑکی اور میری بہن ریٹا اور شاہدہ اکرام، جو چند ماہ میں جونیر آفیسر سے ایک دم سینئر کمانڈر ہوگئی، اور میری آنٹ ربیکا سب اچھی طرح سمجھ چکی ہیں۔
چنانچہ یہ ہم لوگ ہیں۔ غور فرمایا آپ نے ؟ اگر غور نہیں فرمایا تو اور بھی اچھا کیا۔
مجھ سے ملیے۔ میں جو اپنی گونا گوں قابلیتوں پر بہت نازاں ہوں۔ بچپن میں کونوینٹ میں تھوڑی سی فرنچ سیکھی تھی۔ اب وہ بالکل یاد نہیں رہی مگر ت کے رومینتک تلفظ کے ساتھ انگریزی کے چند خاص خاص الفاظ اس طرح استعمال کرتی ہوں جیسے مجبوراً انگریزی بولنی پڑ رہی ہے۔ بچپن میں ایک دفعہ والدین کے ہمراہ یورپ گئی تھی شاید دو مہینے کے لیے ۔ اب کسی نئے شخص سے تعارف ہوتا ہے تومیں اسے کہتی ہوں مجھے یاد پڑتا ہے شاید میں نے continent میں کہیں آپ کو دیکھا تھا۔ وہ بے چارہ فوراً مرعوب ہوجاتا ہے۔ دیگر اوصافِ حمیدہ یہ ہیں کہ بہترین conversationalist ہوں۔ پہلے جب ٹینس کا بے حد شوق تھا تو آپ پر ثابت کرسکتی تھی کہ ابھی ابھی سمنت مصرا کو ہرا کر چلی آرہی ہوں۔ اب کچھ عرصے سے افسانہ نگاری شروع کردی ہے اور اپنے ہر افسانے میں پیکار ڈیا ایک اسٹوڈی بیکر کار کا ذکر کردینا ضروری خیال کرتی ہوں۔
اور ان چمکیلے دنوں اور سنہری راتوں کا کارواں اس طرح گزر رہا ہے۔ ہم بڑھتے جاتے ہیں اسی منزل کی جانب جو مے فیئر کی نیلی روشنیوں سے کہیں آگے چھپی ہوئی ہے۔ طلعت کی ’’قومی جنگ‘‘ اور دیہاتی گیتوں کے مجموعے ، شکنتلا کا تان پورہ، ریٹا کی اسکیٹس ، میرے ٹینس ریکٹ۔ ہم سمجھتے ہیں جیسے ان چیزوں نے ہماری گہرائیوں کو پالیا ہے۔ یہ ہماری شخصیتوں، ہماری طبیعتوں کی نمائندگی اور رہنمائی کرتے ہیں۔ لیکن یہ غلط ہے۔ ہمیں ان چیزوں سے بھی اتنی ہی نفرت ہے جتنی دنیا کی کسی اور معمولی چیز سے ہوسکتی ہے۔ گو ہم اپنی جگہ سے ہٹ کر اپنی ہار ماننے کا خیال بھی نہیں کرنا چاہئے۔ دنیا کتنی بے انتہا اکتادینے والی گھسی ہوئی اور گھٹیا جگہ ہے۔
طلعت ’’ذہن پرست‘‘ ہے (اس اصطلاح سے میں ابھی چند روز ہوئے اشک کے ایک ڈرامے کے ذریعے واقف ہوئی ہوں)۔ یونی ورسٹی میں بھی سب اسے انٹلکچوئل اور جانے کیا کیا سمجھتے ہیں لیکن اس وقت میں اس سے کہوں کہ اگر وہ مستقل اس پوز سے اکتا گئی ہو تو دوسرا دل چسپ مشغلہ شروع کر دے تو وہ یقینا رو پڑنے کے علاوہ اور کچھ نہ کرے گی حالاں کہ وہ کہتی ہے کہ وہ سب کچھ کرسکتی ہے۔
وہ ’’قومی جنگ‘‘پر پابندی کے خلاف ایک زوردار احتجاجی مقالہ لکھنے میں محو ہے۔ شکنتلا تان پورے کوٹیون کرنے کی کوشش میں مشغول اور میں اس پر مصرکہ چونکہ میں موسیقی کے میرس کالج میں سکنڈ ایر تک رہ چکی ہوں اس لیے تان پورے کے درست کرنے کا حق قانوناً مجھ تک زیادہ پہنچتا ہے۔ خصوصاً جب کہ بارش میں لالہ کے پودے نکھر رہے ہیں اور کیپٹن عثمان کی سیٹیاں برساتی ہواؤں میں تیر رہی ہیں۔ آسمان پر ایک طویل و وسیع اکتاہٹ طاری ہے۔
روم جھوم بدروابر سے ۔ روم جھم!
شکنتلا وارشنے، تان پورے سے سرٹیک کر گو ملہار کا خیال گاتی ہے ۔ طلعت،جو سامراج اور فاشیت کے خلاف قہوے کی پیالیوں کے ذریعے لڑ رہی ہے۔ اور ریٹا جس کی آنکھوں کی سبزی میں ہمیشہ سکون اور خاموشی جھلکتی ہے۔۔محمد شاہ پیاسدا رنگیلے۔ محمد شاہ آہ پیاسدا رنگیلے۔۔ اُن بِن جیرا ترسے۔۔۔ جیرا ترسنے کا ساون کے مہینے سے کیا خاص تعلق ہے؟
ہیولاک ایلس کا مطالعہ کرو!
اووف۔۔۔ اے خدا۔۔۔ کاش وہ سارے بکھرے ہوئے نغمے ایک مضر اب سے جاگ اٹھیں جو صدیوں سے تان پورے کے تاروں میں سمٹے ہوئے ہیں۔ وہ پرانے تار جو ہندوستان کے رنگیلے پیاؤں کے درباروں میں چھیڑے جاتے تھے۔ وہ رنگیلے پیا جنہوں نے ہندوستان کی تاریخ کو اتنا ضخیم بنا دیا کہ مقابلے کے امتحانوں میں ان کے متعلق جواب لکھ کر پی۔ سی۔ ایس۔ بنا جا سکے۔
دیکھا آپ نے ہم چاروں کو سیاسیات میں بھی دخل ہے۔
مجھے تمہارے میر قاسم اور تمہارے سراج الدولہ اور تمہارے جانِ عالم سے قطعی کوئی ہمدردی نہیں۔ طلعت بیٹھے بیٹھے نہ جانے کیا سوچتے ہوئے یک لخت کہہ اٹھتی ہے۔ وہ عوام کی کہاوتوں اور گیتوں پر ریسرچ کر رہی ہے۔
برسو رام دھڑاکے سے۔ بڑھیا مرگئی فاقے سے۔
کتنا زبردست اور عظیم الشان انکشاف ہے کہ عہدِ زرّیں میں، سامراج اور قحطِ بنگال سے بھی پہلے، بڑھیاں فاقے سے بھی مرا کرتی تھیں۔
فش۔۔۔ کیپٹن عثمان۔۔۔
ایک نقطے پر ہم ہر پھر کے آتے آتے رک جاتے ہیں۔
جہنم میں جائیں تمہارے کیپٹن عثمان اور جانِ عالم پیا۔۔۔ سب کے سب ۔ اور میری بادام جیسی آنکھوں میں پانی چھلک آتا ہے۔ مجھے اپنی بے کار تاریخ، اپنے مردہ بادشاہوں سے عشق ہے۔ میں انہیں موردِ الزام ٹھہرتے دیکھنا برداشت نہیں کرسکتی۔ اودھ کے وہ پرانے بادشاہ جن کی عطا کی ہوئی جاگیروں کی آمدنی اور معجونیں کھاتے کھاتے میرے سارے بزرگوں نے مسہری پر انتقال کیا۔ وہ بزرگ جن کی خلعتوں والی روغنی تصویریں ڈرائنگ روم کی شان میں اضافہ کرتی ہیں اور پکار پکار کر کہتی ہیں کہ اے آنے والے تم ایک تعلقہ دار کے ڈرائنگ روم میں داخل ہو رہے ہو جس کے پردادا کے پاس پینتالیس گاؤں تھے اور جس کے پرپوتے نے فروخت اور ضبطی کے سلسلے کی آخری چوالیسویں کڑی تک پہنچ کر آخری گاؤں کے روپے سے ایک رولس خریدی جس کو village on wheels کہلاتا سن کر وہ اتنا خوش ہوتا تھا جیسے وہ خود جان عالم کا بھتیجا ہے ۔ اس جانِ عالم کا بھتیجا جس کا ملک ویلز لے اور ڈلہوزی کی کوچ کے پہیّوں کی رگڑ سے ترش ترشا کے سات سمندر پار کے جگمگاتے تاج کا کوہِ نور بن چکا ہے۔ اور وہ ملک جس پر کبھی غروب نہ ہونے ولے آفتاب کی کرنیں دو سو سال سے مستقل برس رہی ہیں، جن کی تمازت سے کھیت اور وادیاں سونا اگلتی ہیں اور انسان سڑک کے کنارے پٹریوں پر سوتے ہیں اور اکثر وہیں مرتے بھی ہیں۔
اور ’’مدرانڈیا‘‘ کے گرد پوش پر بنی دیو داسی کے پازیب کی جھنکار گونج اٹھتی ہے۔
ریٹا چپ چاپ مے فیئر کے نئے رقص کے متعلق سوچ رہی ہے۔ کیپٹن عثمان کی کوٹھی میں ریڈیو گرام بجتا رہتا ہے۔ ایف۔ کیسا نووا کا آرکسٹرا اور اس کے ساتھ ساتھ پنکج ملک کا گیت۔۔۔ پران چاہیں۔۔۔ نینا نہ چاہیں۔۔۔ پران چاہیں۔۔۔ کیپٹن عثمان، جنہیں اپنی خوب صورتی اور قابلیت کی وجہ سے مغالطہ ہے کہ سارے جہاں کی لڑکیاں ان پر ایک ساتھ جان دیتی ہیں۔ کیپٹن عثمان آئی۔ اے ۔ ایم ۔ سی میں ہیں۔ ایک دفعہ ایکٹنگ میجر رہ چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ بہت جلد لفٹننٹ کرنل ہوجائیں گے جو یقینا بہت بڑی بات ہے کیوں کہ میڈیکل کالج سے نکلے ابھی پورے تین سال بھی نہیں ہوئے۔ ان کے باپ بھی فوج میں تھے اور دادا بھی اور پردادا بھی۔ ان کا راجپوت خاندان جان لارنس کے زمانے سے دولت انگلشیہ کا جاں نثار و وفادار رہا ہے اور پنجاب میں ستلج کے کنارے کنارے ان کے بہت سے چک ہیں جو غالباً انہیں بھی کسی پرچے پر خون سے لکھے ہوئے الفاظ میں ان کے پردادا کی غدر کی فوجی خدمات کے اعتراف کے سلسلے میں ملے تھے۔ (ستلج کے وہ کنارے جہاں الاؤ کے گرد اور بیریوں کے نیچے اور چوپال میں بانسریاں بجتی ہیں اور احمد ندیم قاسمی کے افسانے جنم لیتے ہیں۔)
کیپٹن عثمان دلاور سورماؤں کی اسی زر خیز سرزمین کے فرزند ہیں۔ وہ جاپانی شہنشاہیت اور فسطائیت کے خلاف نہایت تن دہی سے سرگرمِ عمل ہیں۔ زخمیوں کو تندرست کر کے دوبارہ محاذ پر بھیجتے ہیں اور اپنی یونٹ کی سرخ ہونٹوں اور نارنجی بالوں والی ویلفیئر ورکرز سے فلرٹ کرتے ہیں۔ ان کا بیٹا بھی اپنی خاندانی بہترین روایات ملحوظ رکھتے ہوئے آئندہ پچیس سال بعد بین الاقوامی سیاست کی لیباریٹری میں تیار شدہ کسی نئی ’اِزم‘ کے خلاف لڑے گا اور فلرٹ کرے گا۔
تو آپ کیپٹن سے ملیں گے؟ مے فیئر تشریف لائیے۔ یہ آپ کے ساتھ بہترین پولکا کریں گے اور رومبا اور فوکس ٹروٹ۔ اگر آپ کو واپس گھر لوٹنے میں خنکی کی وجہ سے زکام ہوگیا ہو تو یہ آپ کو ہسپتال سے دن میں پندرہ مرتبہ فون کر کے یقین دلائیں گے کہ آپ کے زکام کی وجہ سے انہیں فکر کے مارے رات بھر نیند نہیں آئی اور آپ رات بھر چاندنی میں رس بھری کی خوشبوؤں کے خواب دیکھتی رہیں گی۔ پران چاہیں، ممکن ہے اخلاقی جرأت کی کمی کی وجہ سے نینا نہ چاہتے ہوں۔ اسی وجہ سے طلعت پوسٹ وار ورلڈ کے مضامین کے ڈھیر پر چڑھی بیٹھی رہتی ہے۔ یہ بھی بقول شکنتلا ایک بڑا اہم سائیکلوجیکل نکتہ ہے۔
لہٰذا میرے گل فام سب لیوٹ، ہم سارے کے سارے رات کے کہرے میں چھپی ہوئی اس مال پر رواں ہیں۔ ایک دوسرے کی نظروں سے بچتے ہوئے میں اور تم۔۔۔ اور ریٹا میری بہن اور پیکر ڈ میری کار۔۔۔اور ہمارے پیچھے پیچھے ان کہی پہیلیوں اور جانے بوجھے سوالیہ نشانوں کا عظیم الشان کارواں دبے دبے قدموں سے گرتا پڑتا چلا آرہا ہے۔ ہم میں اتنی ہمت نہیں کہ مڑکر اسے دیکھ سکیں۔ ہم اس سے چھپنے کے لیے مے فیئر کے نیلگوں دھندلکوں میں پناہ لیتے ہیں۔ بال روم کے ٹیریس پر، کھلے آسمان اور چمکیلے ستاروں کے نیچے، اپنی بلندی پر سے جھک کر دیکھیے زندگی کا یہ مارچ پاسٹ ۔ تازہ ڈانس نمبر کے یہ اداس نغمے۔ ریٹارنگین برقی قمقموں، جاپانی قندیلوں اور کاغذی ربنوں کے رقصاں و لرزاں سائے تلے آہستہ آہستہ ناچ رہی ہے، نپے تلے تھکے تھکے قدموں سے۔ آج فتحِ برلن کے جشن کی رات ہے۔ ڈانس کے دوسرے نمبر کے لیے اپنے پارٹنر کا انتظار کرتے کرتے ٹیریس کے ریلنگ کے سہارے مجھے مدھم سی نیند آجاتی ہے۔ یہ ٹھنڈی ریلنگ کتنی پرسکون جائے پناہ ہے۔
ہم لوگ!
بے چارے !!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.