سلیم کوثر
غزل 57
نظم 19
اشعار 49
قربتیں ہوتے ہوئے بھی فاصلوں میں قید ہیں
کتنی آزادی سے ہم اپنی حدوں میں قید ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
کہانی لکھتے ہوئے داستاں سناتے ہوئے
وہ سو گیا ہے مجھے خواب سے جگاتے ہوئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
اور اس سے پہلے کہ ثابت ہو جرم خاموشی
ہم اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
ہم نے تو خود سے انتقام لیا
تم نے کیا سوچ کر محبت کی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تصویری شاعری 6
ملنا نہ ملنا ایک بہانہ ہے اور بس تم سچ ہو باقی جو ہے فسانہ ہے اور بس لوگوں کو راستے کی ضرورت ہے اور مجھے اک سنگ_رہ_گزر کو ہٹانا ہے اور بس مصروفیت زیادہ نہیں ہے مری یہاں مٹی سے اک چراغ بنانا ہے اور بس سوئے ہوئے تو جاگ ہی جائیں_گے ایک دن جو جاگتے ہیں ان کو جگانا ہے اور بس تم وہ نہیں ہو جن سے وفا کی امید ہے تم سے مری مراد زمانہ ہے اور بس پھولوں کو ڈھونڈتا ہوا پھرتا ہوں باغ میں باد_صبا کو کام دلانا ہے اور بس آب و ہوا تو یوں بھی مرا مسئلہ نہیں مجھ کو تو اک درخت لگانا ہے اور بس نیندوں کا رت_جگوں سے الجھنا یوں_ہی نہیں اک خواب_رائیگاں کو بچانا ہے اور بس اک وعدہ جو کیا ہی نہیں ہے ابھی سلیمؔ مجھ کو وہی تو وعدہ نبھانا ہے اور بس