تارے جو کبھی اشک فشانی سے نکلتے
ہم چاند اٹھائے ہوئے پانی سے نکلتے
خاموش سہی مرکزی کردار تو ہم تھے
پھر کیسے بھلا تیری کہانی سے نکلتے
مہلت ہی نہ دی گردش افلاک نے ہم کو
کیا سلسلۂ نقل مکانی سے نکلتے
اک عمر لگی تیری کشادہ نظری میں
اس تنگئ داماں کو گرانی سے نکلتے
بس ایک ہی موسم کا تسلسل ہے یہ دنیا
کیا ہجر زدہ خواب جوانی سے نکلتے
وہ وقت بھی گزرا ہے کہ دیکھا نہیں تم نے
صحراؤں کو دریا کی روانی سے نکلتے
شاید کہ سلیمؔ امن کی صورت نظر آتی
ہم لوگ اگر شعلہ بیانی سے نکلتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.