ناظر وحید کے اشعار
رنگ درکار تھے ہم کو تری خاموشی کے
ایک آواز کی تصویر بنانی تھی ہمیں
مجھ سے زیادہ کون تماشہ دیکھ سکے گا
گاندھی جی کے تینوں بندر میرے اندر
پڑھنے والا بھی تو کرتا ہے کسی سے منسوب
سبھی کردار کہانی کے نہیں ہوتے ہیں
لکھتے لکھتے ہی لڑی آنکھ جو رانی سے مری
پھر تو راجا کو نکلنا تھا کہانی سے مری
اک نئے غم سے کنارا بھی تو ہو سکتا ہے
عشق پھر ہم کو دوبارا بھی تو ہو سکتا ہے
دیکھنے والے تجھے دیکھتے ہوں گے لیکن
دیکھنے والوں کو حیرت بھی تو ہوتی ہوگی
حوصلے درد بیانی کے نہیں ہوتے ہیں
اب یہاں لفظ معانی کے نہیں ہوتے ہیں
شعر کی طرح جو ہوتے ہیں مکمل کچھ لوگ
وہ بنا مصرع ثانی کے نہیں ہوتے ہیں