نذیر بنارسی
غزل 25
نظم 14
اشعار 14
عمر بھر کی بات بگڑی اک ذرا سی بات میں
ایک لمحہ زندگی بھر کی کمائی کھا گیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
یہ عنایتیں غضب کی یہ بلا کی مہربانی
مری خیریت بھی پوچھی کسی اور کی زبانی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
بد گمانی کو بڑھا کر تم نے یہ کیا کر دیا
خود بھی تنہا ہو گئے مجھ کو بھی تنہا کر دیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
اندھیرا مانگنے آیا تھا روشنی کی بھیک
ہم اپنا گھر نہ جلاتے تو اور کیا کرتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
قطعہ 8
رباعی 10
نعت 1
کتاب 8
تصویری شاعری 1
مری سانسوں کو گیت اور آتما کو ساز دیتی ہے یہ دیوالی ہے سب کو جینے کا انداز دیتی ہے ہردے کے دوار پر رہ رہ کے دیتا ہے کوئی دستک برابر زندگی آواز پر آواز دیتی ہے سمٹتا ہے اندھیرا پاؤں پھیلاتی ہے دیوالی ہنسائے جاتی ہے رجنی ہنسے جاتی ہے دیوالی قطاریں دیکھتا ہوں چلتے_پھرتے ماہ_پاروں کی گھٹائیں آنچلوں کی اور برکھا ہے ستاروں کی وہ کالے کالے گیسو سرخ ہونٹ اور پھول سے عارض نگر میں ہر طرف پریاں ٹہلتی ہیں بہاروں کی نگاہوں کا مقدر آ کے چمکاتی ہے دیوالی پہن کر دیپ_مالا ناز فرماتی ہے دیوالی اجالے کا زمانہ ہے اجالے کی جوانی ہے یہ ہنستی جگمگاتی رات سب راتوں کی رانی ہے وہی دنیا ہے لیکن حسن دیکھو آج دنیا کا ہے جب تک رات باقی کہہ نہیں سکتے کہ فانی ہے وہ جیون آج کی رات آ کے برساتی ہے دیوالی پسینہ موت کے ماتھے پہ چھلکاتی ہے دیوالی سبھی کے دیپ سندر ہیں ہمارے کیا تمہارے کیا اجالا ہر طرف ہے اس کنارے اس کنارے کیا گگن کی جگمگاہٹ پڑ گئی ہے آج مدھم کیوں منڈیروں اور چھجوں پر اتر آئے ہیں تارے کیا ہزاروں سال گزرے پھر بھی جب آتی ہے دیوالی محل ہو چاہے کٹیا سب پہ چھا جاتی ہے دیوالی اسی دن دروپدی نے کرشن کو بھائی بنایا تھا وچن کے دینے والے نے وچن اپنا نبھایا تھا جنم دن لکشمی کا ہے بھلا اس دن کا کیا کہنا یہی وہ دن ہے جس نے رام کو راجہ بنایا تھا کئی اتہاس کو ایک ساتھ دہراتی ہے دیوالی محبت پر وجے کے پھول برساتی ہے دیوالی گلے میں ہار پھولوں کا چرن میں دیپ_مالائیں مکٹ سر پر ہے مکھ پر زندگی کی روپ_ریکھائیں لیے ہیں کر میں منگل_گھٹ نہ کیوں گھٹ گھٹ پہ چھا جائیں اگر پرتو پڑے مردہ_دلوں پر وہ بھی جی جائیں عجب انداز سے رہ رہ کے مسکاتی ہے دیوالی محبت کی لہر نس نس میں دوڑاتی ہے دیوالی تمہارا ہوں تم اپنی بات مجھ سے کیوں چھپاتے ہو مجھے معلوم ہے جس کے لیے چکر لگاتے ہو بنارس کے ہو تم کو چاہئے تیوہار گھر کرنا بتوں کو چھوڑ کر تم کیوں الہ_آباد جاتے ہو نہ جاؤ ایسے میں باہر نذیرؔ آتی ہے دیوالی یہ کاشی ہے یہیں تو رنگ دکھلاتی ہے دیوالی