نظیر باقری
غزل 10
اشعار 13
کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
اس لیے چل نہ سکا کوئی بھی خنجر مجھ پر
میری شہ رگ پہ مری ماں کی دعا رکھی تھی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
زخم کتنے تری چاہت سے ملے ہیں مجھ کو
سوچتا ہوں کہ کہوں تجھ سے مگر جانے دے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
اپنی آنکھوں کے سمندر میں اتر جانے دے
تیرا مجرم ہوں مجھے ڈوب کے مر جانے دے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
کسی نے ہاتھ بڑھایا ہے دوستی کے لیے
پھر ایک بار خدا اعتبار دے مجھ کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تصویری شاعری 3
اپنی آنکھوں کے سمندر میں اتر جانے دے تیرا مجرم ہوں مجھے ڈوب کے مر جانے دے اے نئے دوست میں سمجھوں_گا تجھے بھی اپنا پہلے ماضی کا کوئی زخم تو بھر جانے دے زخم کتنے تری چاہت سے ملے ہیں مجھ کو سوچتا ہوں کہ کہوں تجھ سے مگر جانے دے آگ دنیا کی لگائی ہوئی بجھ جائے_گی کوئی آنسو مرے دامن پہ بکھر جانے دے ساتھ چلنا ہے تو پھر چھوڑ دے ساری دنیا چل نہ پائے تو مجھے لوٹ کے گھر جانے دے زندگی میں نے اسے کیسے پرویا تھا نہ سوچ ہار ٹوٹا ہے تو موتی بھی بکھر جانے دے ان اندھیروں سے ہی سورج کبھی نکلے_گا نظیرؔ رات کے سائے ذرا اور نکھر جانے دے