Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ateequllah's Photo'

عتیق اللہ

1941 | دلی, انڈیا

ممتاز نقاد اور شاعر، دہلی یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر رہے

ممتاز نقاد اور شاعر، دہلی یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر رہے

عتیق اللہ کے اشعار

857
Favorite

باعتبار

آئنہ آئنہ تیرتا کوئی عکس

اور ہر خواب میں دوسرا خواب ہے

کچھ بدن کی زبان کہتی تھی

آنسوؤں کی زبان میں تھا کچھ

ذرا سے رزق میں برکت بھی کتنی ہوتی تھی

اور اک چراغ سے کتنے چراغ جلتے تھے

وہ رات نیند کی دہلیز پر تمام ہوئی

ابھی تو خواب پہ اک اور خواب دھرنا تھا

ریل کی پٹری نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے

آپ اپنی ذات سے اس کو بہت انکار تھا

اس گلی سے اس گلی تک دوڑتا رہتا ہوں میں

رات اتنی ہی میسر ہے سفر اتنا ہی ہے

لمس کی شدتیں محفوظ کہاں رہتی ہیں

جب وہ آتا ہے کئی فاصلے کر جاتا ہے

فضا میں ہاتھ تو اٹھے تھے ایک ساتھ کئی

کسی کے واسطے کوئی دعا نہ کرتا تھا

ہر منظر کے اندر بھی اک منظر ہے

دیکھنے والا بھی تو ہو تیار مجھے

کس کے پیروں کے نقش ہیں مجھ میں

میرے اندر یہ کون چلتا ہے

کسی اک زخم کے لب کھل گئے تھے

میں اتنی زور سے چیخا نہیں تھا

ہم زمیں کی طرف جب آئے تھے

آسمانوں میں رہ گیا تھا کچھ

یہ دیکھا جائے وہ کتنے قریب آتا ہے

پھر اس کے بعد ہی انکار کر کے دیکھا جائے

تم نے تو فقط اس کی روایت ہی سنی ہے

ہم نے وہ زمانہ بھی گزرتے ہوئے دیکھا

اپنے سوکھے ہوئے گلدان کا غم ہے مجھ کو

آنکھ میں اشک کا قطرہ بھی نہیں ہے کوئی

مجھ میں خود میری عدم موجودگی شامل رہی

ورنہ اس ماحول میں جینا بڑا دشوار تھا

کہاں پہنچ کے حدیں سب تمام ہوتی ہیں

اس آسمان سے نیچے اتر کے دیکھا جائے

پانی تھا مگر اپنے ہی دریا سے جدا تھا

چڑھتے ہوئے دیکھا نہ اترتے ہوئے دیکھا

کوئی شب ڈھونڈتی تھی مجھ کو اور میں

تری نیندوں میں جا کر سو گیا تھا

بڑی چیز ہے یہ سپردگی کا مہین پل

نہ سمجھ سکو تو مجھے گنوا کے بھی دیکھنا

وہ بات تھی تو کئی دوسرے سبب بھی تھے

یہ بات ہے تو سبب دوسرا نہیں ہوگا

خوابوں کی کرچیاں مری مٹھی میں بھر نہ جائے

آئندہ لمحہ اب کے بھی یوں ہی گزر نہ جائے

دن کے ہنگامے جلا دیتے ہیں مجھ کو ورنہ

صبح سے پہلے کئی مرتبہ مر جاتا ہوں

ابھی تو کانٹوں بھری جھاڑیوں میں اٹکا ہے

کبھی دکھائی دیا تھا ہرا بھرا وہ بھی

یہ راہ طلب یارو گمراہ بھی کرتی ہے

سامان اسی کا تھا جو بے سر و ساماں تھا

ترے فلک ہی سے ٹوٹنے والی روشنی کے ہیں عکس سارے

کہیں کہیں جو چمک رہے ہیں حروف میری عبارتوں میں

سفر گرفتہ رہے کشتگان نان و نمک

ہمارے حق میں کوئی فیصلہ نہ کرتا تھا

کچھ اور دن ابھی اس جا قیام کرنا تھا

یہاں چراغ وہاں پر ستارہ دھرنا تھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے