Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

اسد علی خان قلق

1820 - 1879 | لکھنؤ, انڈیا

اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کے ممتاز درباری ،آفتاب الدولہ شمس جنگ کے خطاب سے سرفراز شاعر

اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کے ممتاز درباری ،آفتاب الدولہ شمس جنگ کے خطاب سے سرفراز شاعر

اسد علی خان قلق کے اشعار

4.1K
Favorite

باعتبار

ادا سے دیکھ لو جاتا رہے گلہ دل کا

بس اک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا

اپنے بیگانے سے اب مجھ کو شکایت نہ رہی

دشمنی کر کے مرے دوست نے مارا مجھ کو

اے بے خودی دل مجھے یہ بھی خبر نہیں

کس دن بہار آئی میں دیوانہ کب ہوا

آخر انسان ہوں پتھر کا تو رکھتا نہیں دل

اے بتو اتنا ستاؤ نہ خدارا مجھ کو

دست جنوں نے پھاڑ کے پھینکا ادھر ادھر

دامن ابد میں ہے تو گریباں ازل میں ہے

پھر مجھ سے اس طرح کی نہ کیجے گا دل لگی

خیر اس گھڑی تو آپ کا میں کر گیا لحاظ

آثار رہائی ہیں یہ دل بول رہا ہے

صیاد ستم گر مرے پر کھول رہا ہے

ہونٹھوں میں داب کر جو گلوری دی یار نے

کیا دانت پیسے غیروں نے کیا کیا چبائے ہونٹھ

خفا ہو گالیاں دو چاہے آنے دو نہ آنے دو

میں بوسے لوں گا سوتے میں مجھے لپکا ہے چوری کا

زمین پاؤں کے نیچے سے سرکی جاتی ہے

ہمیں نہ چھیڑئیے ہم ہیں فلک ستائے ہوئے

رستے میں ان کو چھیڑ کے کھاتے ہیں گالیاں

بازار کی مٹھائی بھی ہوتی ہے کیا لذیذ

کریں گے ہم سے وہ کیوں کر نباہ دیکھتے ہیں

ہم ان کی تھوڑے دنوں اور چاہ دیکھتے ہیں

کرو تم مجھ سے باتیں اور میں باتیں کروں تم سے

کلیم اللہ ہو جاؤں میں اعجاز تکلم سے

یہی انصاف ترے عہد میں ہے اے شہ حسن

واجب القتل محبت کے گنہ گار ہیں سب

خدا حافظ ہے اب اے زاہدو اسلام عاشق کا

بتان دہر غالب آ گئے ہیں کعبہ و دل پر

یاد دلوایئے ان کو جو کبھی وعدۂ وصل

تو وہ کس ناز سے فرماتے ہیں ہم بھول گئے

بنا کر تل رخ روشن پر دو شوخی سے سے کہتے ہیں

یہ کاجل ہم نے یارا ہے چراغ ماہ تاباں پر

چلا ہے چھوڑ کے تنہا کدھر تصور یار

شب فراق میں تھا تجھ سے مشغلہ دل کا

عمر تو اپنی ہوئی سب بت پرستی میں بسر

نام کو دنیا میں ہیں اب صاحب اسلام ہم

ہمت کا زاہدوں کی سراسر قصور تھا

مے خانہ خانقاہ سے ایسا نہ دور تھا

ستم وہ تم نے کیے بھولے ہم گلہ دل کا

ہوا تمہارے بگڑنے سے فیصلہ دل کا

وہ ایک رات تو مجھ سے الگ نہ سوئے گا

ہوا جو لذت بوس و کنار سے واقف

اے پری زاد جو تو رقص کرے مستی میں

دانۂ تاک ہر اک پاؤں میں گھنگھرو ہو جائے

سندور اس کی مانگ میں دیتا ہے یوں بہار

جیسے دھنک نکلتی ہے ابر سیاہ میں

کیا کوئی دل لگا کے کہے شعر اے قلقؔ

ناقدریٔ سخن سے ہیں اہل سخن اداس

منزل ہے اپنی اپنی قلقؔ اپنی اپنی گور

کوئی نہیں شریک کسی کے گناہ میں

رخ تہ زلف ہے اور زلف پریشاں سر پر

مانگ بالوں میں نہیں ہے یہ نمایاں سر پر

کھلنے سے ایک جسم کے سو عیب ڈھک گئے

عریاں تنی بھی جوش جنوں میں لباس ہے

وہ رند ہوں کہ مجھے ہتھکڑی سے بیعت ہے

ملا ہے گیسوئے جاناں سے سلسلہ دل کا

میں وہ میکش ہوں ملی ہے مجھ کو گھٹی میں شراب

شیر کے بدلے پیا ہے میں نے شیرہ تاک کا

خط میں لکھی ہے حقیقت دشت گردی کی اگر

نامہ بر جنگلی کبوتر کو بنانا چاہئے

یار کی فرط نزاکت کا ہوں میں شکر گزار

دھیان بھی اس کا مرے دل سے نکلنے نہ دیا

گھاٹ پر تلوار کے نہلائیو میت مری

کشتۂ ابرو ہوں میں کیا غسل خانہ چاہئے

نیا مضمون لانا کاٹنا کوہ و جبل کا ہے

نہیں ہم شعر کہتے پیشۂ فرہاد کہتے ہیں

عالم پیری میں کیا موئے سیہ کا اعتبار

صبح صادق دیتی ہے جھوٹی گواہی رات کی

مجھ سے ان آنکھوں کو وحشت ہے مگر مجھ کو ہے عشق

کھیلا کرتا ہوں شکار آہوئے صحرائی کا

چھیڑا اگر مرے دل نالاں کو آپ نے

پھر بھول جائیے گا بجانا ستار کا

بہار آتے ہی زخم دل ہرے سب ہو گئے میرے

ادھر چٹکا کوئی غنچہ ادھر ٹوٹا ہر اک ٹانکا

پوچھا صبا سے اس نے پتا کوئے یار کا

دیکھو ذرا شعور ہمارے غبار کا

ہوا میں رند مشرب خاک مر کر اس تمنا میں

نماز آخر پڑھیں گے وہ کسی دن تو تیمم سے

جب ہوا گرم کلام مختصر مہکا دیا

عطر کھینچا یار کے لب نے گل تقریر کا

کفر و اسلام کے جھگڑوں سے چھڑایا صد شکر

قید مذہب سے جنوں نے مجھے آزاد کیا

دل خستہ ہو تو لطف اٹھے کچھ اپنی غزل کا

مطلب کوئی کیا سمجھے گا مستوں کی زٹل کا

ترے ہونٹھوں سے شرما کر پسینے میں ہوا یہ تر

خضر نے خود عرق پونچھا جبین آب حیواں کا

مثال آئنہ ہم جب سے حیرتی ہیں ترے

کہ جن دنوں میں نہ تھا تو سنگار سے واقف

ان واعظوں کی ضد سے ہم اب کی بہار میں

توڑیں گے توبہ پیر مغاں کی دکان پر

مے جو دی غیر کو ساقی نے کراہت دیکھو

شیشۂ مے کو مرض ہو گیا ابکائی کا

خوش قدوں سے کبھی عالم نہ رہے گا خالی

اس چمن سے جو گیا سرو تو شمشاد آیا

مدلل جو سخن اپنا ہے وہ برہان قاطع ہے

طبیعت میں روانی ہے زیادہ ہفت قلزم سے

جمے کیا پاؤں میرے خانۂ دل میں قناعت کا

جگر میں چٹکیاں لیتا ہے ناخن دست حاجت کا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے