عنبر بہرائچی
غزل 18
نظم 10
اشعار 18
ہر اک ندی سے کڑی پیاس لے کے وہ گزرا
یہ اور بات کہ وہ خود بھی ایک دریا تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
یہ سچ ہے رنگ بدلتا تھا وہ ہر اک لمحہ
مگر وہی تو بہت کامیاب چہرا تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
میرا کرب مری تنہائی کی زینت
میں چہروں کے جنگل کا سناٹا ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
باہر سارے میداں جیت چکا تھا وہ
گھر لوٹا تو پل بھر میں ہی ٹوٹا تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
جانے کیا سوچ کے پھر ان کو رہائی دے دی
ہم نے اب کے بھی پرندوں کو تہہ دام کیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے