گلاب تھا نہ کنول پھر بدن وہ کیسا تھا
گلاب تھا نہ کنول پھر بدن وہ کیسا تھا
کہ جس کا لمس بہاروں میں رنگ بھرتا تھا
جہاں پہ سادہ دلی کے مکیں تھے کچھ پیکر
وہ جھونپڑا تھا مگر پر شکوہ کتنا تھا
مشام جاں سے گزرتی رہی ہے تازہ ہوا
ترا خیال کھلے آسمان جیسا تھا
اسی کے ہاتھ میں تمغے ہیں کل جو میداں میں
ہماری چھاؤں میں اپنا بچاؤ کرتا تھا
یہ سچ ہے رنگ بدلتا تھا وہ ہر اک لمحہ
مگر وہی تو بہت کامیاب چہرا تھا
ہر اک ندی سے کڑی پیاس لے کے وہ گزرا
یہ اور بات کہ وہ خود بھی ایک دریا تھا
وہ ایک جست میں نظروں سے دور تھا عنبرؔ
خلا میں صرف سنہرا غبار پھیلا تھا
- کتاب : doob (Pg. 21)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.