گیلی مٹی ہاتھ میں لے کر بیٹھا ہوں
گیلی مٹی ہاتھ میں لے کر بیٹھا ہوں
ذہن میں اک دھندلے پیکر سے الجھا ہوں
پیس رہا ہے دل کو اک وزنی پتھر
دوب کو بانہوں میں بھر کر میں ہنستا ہوں
تیرے ہاتھوں نے مجھ میں سب رنگ بھرے
لیکن ہر پل یہ احساس ادھورا ہوں
دھوپ کبھی چمکے گی اس امید پہ میں
برف کے دریا میں صدیوں سے لیٹا ہوں
اس جانب کب اودے بادل نے دیکھا
پھر بھی میں تنہا سرسبز جزیرہ ہوں
میرا کرب مری تنہائی کی زینت
میں چہروں کے جنگل کا سناٹا ہوں
اک دھندلی تصویر ابھی آنکھوں میں ہے
اس وادی سے دور بھلا کب رہتا ہوں
رات افق پر کچھ سائے لہرائے تھے
عنبرؔ اب تک آس لگائے بیٹھا ہوں
- کتاب : doob (Pg. 45)
- Author : amber bahraichii
- مطبع : danish mahal aminabad lucknow (1990)
- اشاعت : 1990
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.