ہمیں اپنے قلم سے روزی کمانا ہے اور ہم اس ذریعے سے روزی کما کر رہیں گے۔ یہ ہر گز نہیں ہو سکتا کہ ہم اور ہمارے بال بچے فاقے مریں اور جن اخباروں اور رسالوں میں ہمارے مضامین چھپتے ہیں، ان کے مالک خوشحال رہیں۔
آخر کب تک ادیب ایک ناکارہ آدمی سمجھا جائے گا۔ کب تک شاعر کو ایک گپیں ہانکنے والا متصور کیا جائے گا، کب تک ہمارے لٹریچر پر چند خود غرض اور ہوس پرست لوگوں کی حکمرانی رہے گی۔ کب تک؟
عمل مزاح اپنے لہو میں تپ کر نکھرنے کا نام ہے۔
ادب کی رونق ہمارے دم سے ہے۔ ان لوگوں کے دم سے نہیں ہے جن کے پاس چھاپنے کی مشینیں، سیاہی اور ان گنت کاغذ ہیں۔ لٹریچر کا دیا ہمارے ہی دماغ کے روغن سے جلتا ہے۔
اچھے طنز نگار تنے ہوئے رسے پر اترا اترا کر کرتب نہیں دکھاتے بلکہ ’رقص یہ لوگ کیا کرتے ہیں تلواروں پر‘
زبان اور ادب کی خدمت ہو سکتی ہے صرف ادیبوں اور زبان دانوں کی حوصلہ افزائی سے اور حوصلہ افزائی صرف ان کی محنت کا معاوضہ ادا کرنے ہی سے ہو سکتی ہے۔
مضمون نگار دماغی عیاش نہیں۔ افسانہ نگار خیراتی ہسپتال نہیں ہیں۔ ہم لوگوں کے دماغ لنگر خانے نہیں ہیں۔
سب سے بڑی شکایت مجھے ان ادیبوں، شاعروں اور افسانہ نگاروں سے ہے جو اخباروں اور رسالوں میں بغیر معاوضے کے مضمون بھیجتے ہیں۔ وہ کیوں اس چیز کو پالتے ہیں جو ایک کھیل بھی ان کے منہ میں نہیں ڈالتی۔ وہ کیوں ایسا کام کرتے ہیں جس سے ان کو ذاتی فائدہ نہیں پہنچتا۔ وہ کیوں ان کاغذوں پر نقش و نگار بناتے ہیں جو ان کے لئے کفن کا کام بھی نہیں دے سکتے۔
ہندی ہندوستانی اور اردو ہندی کے قضیے سے ہمیں کوئی واسطہ نہیں۔ ہم اپنی محنت کے دام چاہتے ہیں۔ مضمون نویسی ہمارا پیشہ ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اس کے ذریعے سے زندہ رہنے کا مطالبہ نہ کریں۔ جو پرچے، جو رسالے، جو اخبار ہماری تحریروں کے دام ادا نہیں کر سکتے بالکل بند ہو جانے چاہئیں۔
سچی خوشی ہمیشہ لکھنے سے ہوتی ہے۔ میں ہر نئی تخلیق پر بچوں کی طرح خوش ہو جاتا ہوں۔