میں ادب اور فلم کو ایک ایسا میخانہ سمجھتا ہوں، جس کی بوتلوں پر کوئی لیبل نہیں ہوتا۔
پبلک ایسی فلمیں چاہتی ہے جن کا تعلق براہ راست ان کے دل سے ہو۔ جسمانی حسیات سے متعلق چیزیں زیادہ دیرپا نہیں ہوتیں مگر جن چیزوں کا تعلق روح سے ہوتا ہے، دیر تک قائم رہتی ہیں۔
جو بات مہینوں میں خشک تقریروں سے نہیں سمجھائی جا سکتی، چٹکیوں میں ایک فلم کے ذریعے سے ذہن نشین کرائی جا سکتی ہے۔
ایکٹرس بننے سے پیشتر عورت کو عشق و محبت کی تلخیوں اور مٹھاسوں کے علاوہ اور بہت سی چیزوں سے آشنا ہونا چاہیئے۔ اس لئے کہ جب وہ کیمرے کے سامنے آئے تو اپنے کریکٹر کو اچھی طرح ادا کر سکے۔
ایکٹرس چکلے کی ویشیا ہو یا کسی باعزت اور شریف گھرانے کی عورت، میری نظروں میں وہ صرف ایکٹرس ہے۔ اس کی شرافت یا رذالت سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔ اس لئے کہ فن ان ذاتی امور سے بہت بالاتر ہے۔
فلموں کو کامیاب بنانے اور ستارے پیدا کرنے کے لئے ہمیں ستارہ شناس نگاہوں کی ضرورت ہے۔
اگر ڈائریکٹروں کا اپنا اپنا اسٹائل نہ ہوگا تو فلم متحرک تصاویر کے یک آہنگ فیتے بن کر رہ جائیں گے۔