جمہوریت پر افسانے
جمہوریت ایک سیاسی ںظام
ہے جس میں اقتدار کی تمام راہیں عوام سے ہوکر گزرتی ہیں اور عوام ہی طاقت کا بنیادی مرکز ہوتی ہے وہ اپنی مرضی سے اپنے حکمراں چنتی ہے ۔ اقتدار کا یہ نظام باقی تمام نظاموں سے اپنی بہت سی خصوصیات کی بنا پر اچھا ہے اور زیادہ کامیاب بھی لیکن اسی کے ساتھ اس کی اپنی کچھ کمزوریاں بھی ہیں کہ اس میں قابلیت کی نہیں صرف تعداد کی اہمیت ہوتی ہے اسی لئے سیاسی اور سماجی سطح پر بہت سی منفی صورتیں جنم لے لیتی ہیں ۔ تخلیق کاروں نے جمہوری ںظام کی انہیں اچھائیوں اور کمزریوں کو بہت گہری سطح پر جا کر دیکھا ہے اور ان کا تجزیہ کیا ہے ۔ ہم ایک چھوٹا سا انتخاب پیش کر رہے ہیں ۔
دیکھ کبیرا رویا
کبیر کو علامت بنا کر یہ کہانی ہمارے معاشرے کی اس حقیقت کو بیان کرتی ہے جس کے بنا پر لوگ ہر اصلاح پسند کو کمیونسٹ، آمریت پسند قرار دے دیتے ہیں۔ سماج میں ہو رہی برائیوں کو دیکھ کر کبیر روتا ہے اور لوگوں کو ان برائیوں سے روکتا ہے۔ لیکن سب جگہ اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ لوگ اسے برا بھلا کہتے ہیں اور مار کر بھگا دیتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
خودکشی کا اقدام
افسانہ ملک کی معاشی اور قانونی صورتحال کی ابتری پر مبنی ہے۔ اقبال فاقہ کشی اور غربت سے تنگ آکر خود کشی کی کوشش کرتا ہے جس کی وجہ سے اسے قید با مشقت کی سزا سنائی جاتی ہے۔ عدالت میں وہ طنزیہ انداز میں دریافت کرتا ہے کہ صرف اتنی سزا؟ مجھے تو زندگی سے نجات چاہیے۔ اس ملک نے غربت ختم کرنے کا کوئی راستہ نہیں نکالا تو تعذیرات میں میرے لیے کیا قانون ہوگا؟
سعادت حسن منٹو
جھوٹی کہانی
اس کہانی میں ایک مفروضہ بدمعاشوں کی انجمن کی وساطت سے سیاست دانوں پر گہرا طنز کیا گیا ہے۔ بدمعاشوں کی انجمن قائم ہوتی ہے اور بدمعاش اخباروں کے ذریعہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان کی روک تھام کے لیے ایک بڑے ہال میں جلسہ کیا جاتا ہے جس میں سیاست داں اور عمائدین شہر بدمعاشوں کی انجمن کے خلاف تقریریں کرتے ہیں۔ اخیر میں پچھلی صف سے انجمن کا ایک نمائندہ کھڑا ہوتا ہے اور غالب کے اشعار کی مدد سے اپنی دلچسپ تقریر سے سیاست دانوں پر طنز کرتا ہے اور ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان قائم کرتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
رشوت
’’ایک نوجوان کی زندگی کے تلخ تجربوں کی کہانی ہے۔ نوجوان نے جب بی۔ اے پاس کیا تو اس کے باپ کا ارادہ تھا کہ وہ اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے ولایت بھیجیں گے۔ اس درمیان اس کے باپ کو جوا کھیلنے کی عادت پڑ گئی اور وہ اپنا سب کچھ جوئے میں ہار کر مر گیا۔ نوجوان خالی ہاتھ جد و جہد کرنے لگا۔ وہ جہاں بھی نوکری کے لیے جاتا، سب جگہ اس سے رشوت مانگی جاتی۔ آخر میں پریشان ہو کر اس نے اللہ کو ایک خط لکھا اور اس خط کے ساتھ رشوت کے طور پر وہ تیس روپیے بھی ڈال دیے، جو اس نے مزدوری کر کے کمائے تھے۔ اس کا یہ خط ایک اخبار کے ایڈیٹر کے پاس پہنچ جاتا ہے، جہاں سے اسے دو سو روپیے ماہوار کی تنخواہ پر نوکری کے لیے بلاوا آ جاتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
ماتمی جلسہ
’’ترکی کے مصطفی کمال پاشا کی موت کے سوگ میں بمبئی کے مزدوروں کی ہڑتال کے اعلان کے گرد گھومتی کہانی ہے۔ ہندوستان میں جب پاشا کے مرنے کی خبر پہنچی تو مزدوروں نے ایک دوسرے کے ذریعہ سنی سنائی باتوں میں آکر شہر میں ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ ہڑتال بھی ایسی کہ دیکھتے ہی دیکھتے پورا شہر بند ہو گیا۔ شام کو جب مزدوروں کی یہ بھیڑ جلسہ گاہ پرپہنچی تو وہاں تقریر کے دوران اسٹیج پر کھڑے ایک شخص نے کچھ ایسا کہہ دیا کہ اس ہڑتال نے فساد کی شکل اختیار کر لی۔‘‘