خط اور اس کا جواب
منٹو بھائی !
تسلیمات! میرا نام آپ کے لیے بالکل نیا ہوگا۔ میں کوئی بہت بڑی ادیبہ نہیں ہوں۔ بس کبھی کبھار افسانہ لکھ لیتی ہوں اور پڑھ کر پھاڑ پھینکتی ہوں۔ لیکن اچھے ادب کو سمجھنے کی کوشش ضرور کرتی ہوں اور میں سمجھتی ہوں کہ اس کوشش میں کامیاب ہوں۔ میں اور اچھے ادیبوں کے ساتھ آپ کے افسانے بھی بڑی دلچسپی سے پڑھتی ہوں۔ آپ سے مجھے ہر بار نئے موضوع کی امید رہی اور آپ نے درحقیقت ہر بار نیا موضوع پیش کیا۔ لیکن جو موضوع میرے ذہن میں ہے وہ کوئی افسانہ نگار پیش نہ کرسکا۔ یہاں تک کہ سعادت حسن منٹو بھی جو نفسیات اور جنسیات کا امام تسلیم کیا جاتا ہے۔
ہو سکتا ہے وہ موضوع آپ کی کہانیوں کے موضوعات کی قطارمیں ہو اور کسی وقت بھی آپ اسے اپنی کہانی کے لیے منتخب کرلیں لیکن پھرسوچتی ہوں کہ ہو سکتا ہے، سعادت حسن منٹو ایسا بے رحم افسانہ نگار بھی اس موضوع سے چشم پوشی کر جائے۔ اس لیے کہ اس موضوع کو ننگا کرنے سے ساری قوم ننگی ہوتی ہے اور شاید منٹو قوم کو ننگا دیکھ نہیں سکتا۔
آپ کی عدیم الفرصتی کے پیش نظر میں اس خط کو الجھانا نہیں چاہتی اور صاف الفاظ میں کہہ دینا چاہتی ہوں کہ وہ موضوع ہے, ’’ہمارے ماحول کے مردوں کا کم عمر لڑکوں کے ساتھ غیر فطری تعلق۔‘‘ مختصر الفاظ میں آپ کوئی بھی اصطلاح لے سکتے ہیں۔میرا لبِ لباب یہی تھا۔۔۔ میں بہت عرصے سے سوچ رہی تھی کہ اس بارے میں آپ کو خط لکھوں اور آخر جرأت کرلی۔ سوائے منٹو کے اور کوئی اس موضوع کو بے نقاب نہیں کرسکتا۔ اگر میرے قلم میں زور ہوتا تو میں نے کبھی کی کہانی لکھی ہوتی۔
والسلام!
آپ کی بہن (میں یہاں اصل نام نہیں دے رہا) نزہت شیریں بی، اے۔
جب مجھے یہ خط ملا تو میں سوچنے لگا کہ یہ لڑکی کون ہے؟ میں کہاں کا ماہر نفسیات اور جنسیات ہوں کہ اس نے مجھ سے رجوع کیا۔ جب یہ خط ملا تو اتفاق سے میرے دست جو علمِ نجوم اور دست شناسی میں شغف رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ رمل اور جفر کے علم کے بھی طالب علم ہیں تو میں نے انہیں یہ خط پڑھنے کے لیے دیا اور کہا، ’’و ارثی صاحب! میں نے اس کے متعلق جورائے قائم کی ہے وہ محفوظ ہے۔‘‘
میرے ایک اور دوست جن کا نام دوست محمد ہے، ان سے میں اپنی رائے بیان کرچکا تھا۔ وارثی صاحب نے یہ خط پڑھا اور اپنے مخصوص انداز میں مسکرا کر کہا، ’’یہ عورت اگر واقعی عورت ہے اور شادی شدہ ہے۔۔۔ جوکہ ہونا چاہیے تو اس کے خاوند کو اغلام بازی کا شوق ہے۔‘‘
میں نے دوست محمد سے یہی کہا تھا،اپنی بیوی سے بھی۔ مگر وہ مانتے نہیں تھے۔۔۔ میری بہت سی باتیں لوگ نہیں مانتے۔ میں پیغمبر نہیں ہوں، کوئی ولی بھی نہیں۔۔۔ لیکن اپنی استطاعت کے مطابق لوگوں کوسمجھنے کی کوشش ضرور کرتا ہوں۔ میں نے بھی وہی نتیجہ اخذ کیا تھا جو میرے دوست وارثی صاحب نے کیا۔۔۔ میں نے ان سے اور دوست محمد سے مشورہ کیا کہ میں اس عورت کے خط کا کیا جواب دوں۔
وارثی صاحب نے کہا، ’’منٹو صاحب۔۔۔ آپ ہم سے پوچھتے ہیں؟ ایسے خطوں کا جواب دینا آپ ہی کا کام ہے۔‘‘
میں نے ان سے پوچھا، ’’وارثی صاحب! میرے لیے یہ بہت مشکل ہے۔ میں کوئی ڈاکٹر حکیم نہیں۔ میں تو صاف صاف لفظوں میں، جو کچھ مجھے کہنا ہوگا، لکھ دوں گا۔‘‘
انہوں نے کہا، ’’تو لکھ دو۔‘‘
’’عورت ذات ہے۔۔۔ کیسے لکھوں؟‘‘
’’جب وہ لکھتی ہے کہ مردوں کا کم عمر لڑکوں کے ساتھ غیر فطری تعلق ہوتا ہے۔۔۔ تو آپ کیوں اس کے جواب میں ایسے ہی الفاظ میں مناسب و موزوں جواب نہیں دیتے۔‘‘
میں نے ان سے کہا، ’’مجھے ایسے مناسب و موزوں الفاظ نہیں ملتے جن میں اس کا جواب لکھ سکوں۔‘‘
اور یہ حقیقت ہے کہ میں خود کو عاجز سمجھ رہا تھا۔ دوست محمد نے کہا، ’’منٹو صاحب، آپ تکلف سے کام لے رہے ہیں۔ قلم پکڑیے اور جوابی خط لکھ ڈ الیے۔‘‘
میں نے قلم پکڑا اور لکھنا شروع کردیا۔
’’خاتون محترم!
میں آپ کو اپنی بہن بنانے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے کہ مجھ پر بہت سے فرائض عائد ہو جائیں گے۔ آپ میرے لیے خاتون محترم ہی رہیں گی۔ اس لیے کہ یہ رشتہ زیادہ مناسب و موزوں ہے۔مجھے عورتوں سے ڈرلگتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کسی مرد کے بھیس میں عورت بنی ہوں۔ لیکن میں آپ کی تحریر پر اعتبارکرکے آپ کو ایک عورت تسلیم کرتا ہوں۔آپ کے خط سے جو کچھ میں نے اخذ کیا ہے۔۔۔ وہ میں مختصراً عرض کیے دیتا ہوں۔
میں یقیناً بے رحم افسانہ نگار ہوں۔۔۔ میرے سامنے لاکھوں موضوعات پڑے ہیں اور جب تک میں زندہ ہوں، پڑے رہیں گے۔ سڑک کے ہر پتھر پر ایک افسانہ کندہ ہوتا ہے۔ لیکن میں کیا کروں۔ اگر کسی خاص جیتے جاگتے موضوع پرلکھوں تو مقدمے کا خوف لاحق ہے۔
آپ کو شاید معلوم ہو کہ مجھ پر اب تک چھ مقدمے چل چکے ہیں۔۔۔ فحش نگاری کے سلسلے میں۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ فحش نگار کیسے قرار دیا جاتا ہوں۔ جب کہ میں نے اپنی زندگی میں ایک بھی گالی کسی کو نہیں دی۔ کسی کی ماں بہن کی طرف بری نظروں سے نہیں دیکھا۔۔۔ خیر یہ میرا اور قانون کا آپس کا جھگڑا ہے۔ آپ کو اس سے کیا واسطہ۔
میں یقیناً بے رحم افسانہ نگار ہوں (جن معنوں میں آپ نے’’بے رحم‘‘ استعمال کیا ہے) آپ نے جس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ میں شاید آپ کے پیش نظر موضوع سے چشم پوشی کر جاؤں تویہ غلط ہے۔
میں علامہ اقبال مرحوم کے اس قول کا قائل ہوں کہ
اگر خواہی حیات اندر خطرزی
میں نے تو اپنی ساری زندگی اس شعر کی تولید سے پہلے خطروں میں گزاری ہے اور اب بھی گزار رہا ہوں۔
جو موضوع آپ کے ذہن میں ہے، کوئی نیا نہیں ہے۔۔۔ اس پر عصمت چغتائی اپنے مشہور افسانے ’’لحاف‘‘ میں لکھ چکی ہے کہ ایک عورت کے خاوند کو اغلام بازی کی عادت تھی۔ اس کا ردِ عمل یہ ہوا کہ اس عورت نے دوسری عورتوں سے ہم جنسی شروع کردی۔
جہاں مردوں میں ہم جنسیت ہے، وہاں عورتوں میں بھی ہے۔۔۔ میں آپ کو ایک زندہ مثال پیش کرتا ہوں۔۔۔۔ بیگم پارہ (فلم ایکٹرس) کو تو آپ جانتی ہوں گی۔ اس کا تعلق پروتماداس گپتا سے ہے۔
آپ لکھتی ہیں، ’’ہمارے ماحول کے مردوں کا کم عمر لڑکوں سے غیر فطری تعلق۔۔۔‘‘
میں آپ سے عرض کروں، جہاں تک میں سمجھتا ہوں، کوئی چیز غیر فطری نہیں ہوتی۔ انسان کی فطرت میں برے سےبرا اور اچھے سے اچھا فعل موجود ہے۔ اس لیے یہ کہنا نا درست ہے کہ انسان کا فلاں فعل غیر فطری ہے۔۔ انسان کبھی فطرت کے خلاف جا ہی نہیں جاسکتا، جو اس کی فطرت ہے، وہ اسی کے اندر رہ کر تمام اچھائیاں اور برائیاں کرتا ہے۔
مجھے معلوم نہیں، آپ شادی شدہ ہیں یا کنواری۔۔۔ لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو کوئی تلخ تجربہ ہوا ہے، جس کی بِنا پر آپ نے مجھے یہ خط لکھا۔ امرد پرستی آج سے نہیں، ہزار ہا سال سے قائم ہے۔ لیکن آج کل اس کارجحان قریب قریب غائب ہوتا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتیں میدانِ عمل میں آگئی ہیں۔جب امردپرستی زوروں پر تھی، تو اس وقت عورتیں آسانی سے دستیاب نہیں ہوتی تھیں۔ مرد بھٹکتے بھٹکتے بقول آپ کے کم عمر لڑکوں سے غیرفطری تعلقات قائم کر لیتے تھے۔۔۔ مگر اب یہ رجحان بہت حد تک کم ہوگیا ہے۔
آپ عورت ہیں۔۔۔ اس لیے آپ کو معلوم نہیں کہ یہ کم عمر لونڈے اب آپ کے رقیب نہیں رہے۔۔۔ میں آپ سے ایک اور بات کہوں۔ جس چیز کی طلب ہو وہی منڈی میں آتی ہے۔۔۔ پہلے طلب چھوکروں کی تھی، اب چھوکریوں کی ہے۔آپ یقیناً جانتی ہوں گی کہ آج کل حوا کی بیٹیاں ٹانگے میں سوار شکار میں مصروف ہوتی ہیں۔۔۔!
میں آپ کو ایک اور بات بتاؤں۔۔۔ ایک زمانہ تھا (آج سے بیس بائیس برس پیچھے) جب لاہور میں ایک سکھ لڑکا ٹینی سنگھ ہوتا تھا۔۔۔ بڑا خوبصورت۔۔۔ اس کے خدوخال کے سامنے کسی بھی حسین لڑکی کے نقش ماند پڑ جاتے۔اس نے لاہور میں ایک قیامت بپا کررکھی تھی۔ اس کے عاشق نے اس کو ایک موٹر کار لے دی، تاکہ اسے گورنمنٹ کالج جانے اورگھر تک آنے میں کوئی تکلیف نہ ہو۔
میں اب آپ کوکتنے قصّے سناؤں۔۔۔ امرتسر میں (جہاں کا میں رہنے والا ہوں) میرا ایک ہندو دوست ہے۔۔۔ اچھی شکل وصورت کا تھا۔ ہم دونوں بیٹھک میں باتیں کررہے تھے جو اندر گلی میں تھی۔ اس نے ایک دم مجھ سے چونک کر کہا، ’’یار باہر بہت شور ہورہا ہے۔ چلو۔‘‘ میں کانوں سے ذرا بہرا ہوں۔۔۔ مجھے شور وور کوئی سنائی نہیں دے رہا تھا۔ بہر حال میں اس کے ساتھ ہو لیا۔۔۔ ہم باہر نکلے تو بازار کی تمام دکانیں بند تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کانگریس کی کسی تحریک کے باعث ہڑتال ہوگئی ہے۔
چند غنڈے ہاتھ میں ہاکیاں لیے پھر رہے تھے۔۔۔ وہ ہمارے پاس آئے، ایک غنڈے کو میں نے پہچان لیا۔۔۔ بڑا خطرناک تھا۔ اس نے بڑی نرمی سے میرے ہندو دوست منوہر سے کہا، ’’باؤ جی۔ آپ اندر چلے جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کوکوئی نقصان پہنچ جائے۔‘‘
منوہر اور میں واپس گھر چلے آئے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ’’یہ قصّہ کیا ہے، تو اس نے مجھے بتایا کہ دو آدمی اس سے عشق کرتے ہیں۔۔۔‘‘ بڑا صاف گو تھا۔۔۔ ایک پٹرنگوں کے محلے کا تھا۔ دوسرا فرید کے چوک کا۔۔۔ منوہر پٹرنگ سے راضی تھا۔ اس لیے ان دونوں میں لڑائی ہوئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ شام تک گیارہ آدمی زخمی ہو کر ہسپتال میں تھے اور منوہر بالکل ٹھیک ٹھاک تھا۔
اب مجھے آپ سے یہ کہنا ہے۔۔۔ بلکہ پوچھنا ہے کہ آپ نے ’’مردوں کا کم عمر لڑکوں سے غیرفطری تعلق کیسے جانا؟‘‘
جیسا کہ میں نے اور میرے دوست وارثی صاحب نے سوچا ہے اس کی وجہ صرف یہی ہو سکتی ہے کہ آپ کا شوہر ایسے شغل کرتا ہوگا۔۔۔ آپ مجھے اس کے متعلق ضرور لکھیے گا۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ آپ شادی شدہ ہیں۔۔ ہو سکتا ہے کوئی اور بات ہو۔دیکھیے میں آپ سے ایک بات عرض کروں۔۔۔ قریب قریب ہر لڑکا اپنی جوانی کے ایام میں ایسی حرکتیں کرتا ہے۔۔۔ ہو سکتا ہے آپ نے اپنے لڑکے کے متعلق ہی لکھا ہو۔۔۔ اسے تنبیہہ کردینا کافی ہے۔۔۔ یا اس کی شادی کردینا چاہیے۔ کیونکہ ہر عادت پک کر طبیعت بن جاتی ہے۔۔۔ اور یہ ایک خوفناک چیز ہے۔
جنس کا احساس صرف بالغ آدمیوں ہی میں نہیں، چھوٹے چھوٹے بچوں میں بھی ہوتا ہے۔۔۔ میں اس کے متعلق تفصیل سے کچھ نہیں کہہ سکتا، اس لیے کہ کہ اردو زبان اس کی متحمل نہیں ہوگی۔آپ نے جو مجھے چیلنج دیا ہے، قبول ہے۔۔۔ میں عر صے سے سوچ رہا تھا کہ جو موضوع آپ نے بتایا ہے، اس پر کوئی افسانہ لکھوں۔ اب یقیناً لکھوں گا، چاہے ایک مقدمہ اور چل جائے۔آپ مجھے اپنے متعلق تفصیل سے لکھیے، تاکہ میں کوئی اندازہ کرسکوں۔
خاکسار
سعادت حسن منٹو
- کتاب : برقعے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.