جشن عروسی
بڈھا جعفر پاشا اپنے دیوان میں خاموش و متفکر بیٹھا ہوا ہے۔ خدام ادب زرکار ملبوس میں حلقہ باندھے ہوئے حکم کے منتظر کھڑے ہیں۔ جعفر اگرچہ عموماً اپنے بشرہ سے اپنے تفکرات و ترددات کو ظاہر ہونے نہیں دیتا۔ لیکن آج اس کے ماتھے کے بل اس کے اندرونی ہیجان کا کافی پتہ دے رہے ہیں۔ اس کی آنکھوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی غیرمعمولی ادھیڑ بن میں مبتلا ہے جس کو کوشش سے بھی چھپا نہیں سکتا۔ حاضرین دربار پر بھی ایک ہیبت طاری ہے اور سب دم بخود ہیں۔
دفعتاً اس نے ایک اشارہ کیا اور آن کی آن میں دربار خالی ہو گیا۔ دیوان میں جعفر کے علاوہ دو آدمی اور رہ گئے تھے۔ اس کا بیٹا سلیم اور حبشی غلام۔ جعفر نے حرم سرا کے ناظم اعلیٰ کو بلوایا اور کہا، ’’ہارون غارت ہو وہ جس نے میری لڑکی کا چہرہ بےنقاب دیکھا ہو۔ جب یہ مجمع جو ابھی یہاں سے برخاست ہوا ہے بیرونی دروازہ سے نکل جائے تو تم زلیخا کے محل میں جاؤ اور اس کو یہاں بلالاؤ۔ میں آج اس کی آئندہ زندگی کا فیصلہ کرنا چاہتا ہوں۔ بس جاؤ۔ حکم کی تعلیم میں دیر نہ ہو۔‘‘ ہارون نے ادب کے ساتھ سر تسلیم خم کیا اور اپنے کام پر چلا گیا۔ دیوان میں پھر خاموشی پھیل گئی۔ چند لمحوں بعد نوجوان سلیم نے مہر سکوت توڑی۔ اس نے آداب بجالاکر دبی ہوئی زبان سے کہا، ’’ابا جان اس خیال سے کہ کہیں میری معصوم بہن یا اس کے خواجہ سرا پر کوئی عتاب نہ نازل ہو، میں سچ سچ عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی خطا ہوئی ہے تو مجھ سے ہوئی ہے اور معتوب مجھ کو ہونا چاہیے۔ آج صبح کا سماں کچھ ایسا سہانا اور دل کش تھا کہ ضعیف اور ناتواں بڈھے شاید اس سے بے دلی اور بے اعتنائی برت سکیں۔ مگر میرے لیے غیرمتاثر رہ کر اپنی خوابگاہ میں پڑا رہنا ناممکن تھا۔ یہ بھی گوارا نہ تھا کہ ساحل اور سمندر کے حسین ترین مناظر کی سیر تنہا کروں اور ’’تبادلۂ خیالات‘‘ کے لیے کوئی رفیق نہ ہو۔ ایسے وقت میں تنہائی بےحد گراں گزرتی ہے۔ اس لیے میں نے جاکر زلیخا کے خوابِ راحت میں خلل ڈالا اور پہرہ داروں کے بیدار ہونے سے پہلے ہم دونوں صنوبر کے کنجوں میں پہنچ گئے۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ زمین، آسمان، سمندر سب ہماری ملکیت ہیں۔ دیر تک ہم لوگ مجنوں کی داستان اور سعدی کی غزلوں سے جی بہلاتے رہے۔ پھر جب نقارہ کی آواز نے اعلان کیا کہ دربار کا وقت قریب آ گیا ہے تو میں دوڑ کر سلام کرنے کی غرض سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا مگر زلیخا اب تک وہیں گلگشت میں مصروف ہے۔ نہیں ابا جان آپ خفا نہ ہوں اس کنج میں حرم کے پردہ داروں کے سوا کسی غیر کا گزر نہیں ہو سکتا۔‘‘
پاشا کی آنکھوں سے نفرت اور حقارت برسنے لگی۔ اس نے طنز کے ساتھ کہا، ’’کنیز بچہ! کافرمان کا کافر بیٹا تجھ سے مردانہ ہمت اور بہادرانہ کارناموں کی توقع عبث ہے۔ اگرچہ تیرا مذہب یونانی نہیں لیکن تیرا خون تو یونانی ہے۔ ایسے وقت میں جب کہ تیرے دست و بازو کا کام یہ تھا کہ تیروکمان کے کرتب دکھائے تو نازنین لڑکیوں کی طرح آبشاروں کے کنارے غنچوں کے چٹکنے کا تماشہ دیکھ رہا ہے۔ کاش سورج کی کرنیں جو اپنے اندر تیرے لیے اس قدر سامانِ تفریح رکھتی ہیں اپنی تھوڑی سی حرارت تجھے مستعار دے سکتیں۔ کمبخت دیکھتا ہے کہ آل عثمان کی دولت رفتہ رفتہ مسیحیوں کے ناپاک ہاتھوں میں چلی جا رہی ہے، استنبول کی فصیل بھی اب ماسکو کے کتوں کے ہاتھوں پا مال ہو رہی ہے اور تجھ میں اتنی غیرت نہیں کہ ان نصرانی جانوروں پر ایک مرتبہ بھی وار کرےاور اپنی زندگی اور موت کا فیصلہ کر لے۔ جاتیرے ہاتھوں میں چرخہ زیادہ بھلا معلوم ہوگا۔ تیغ و تفنگ سے تجھ کو کیا سروکار؟‘‘
سلیم کی زبان بند تھی کم از کم جعفر نے اس کے منھ سےایک حرف نہیں سنا مگر جعفر کا ایک ایک لفظ اس کے لیے دشمن کی تلوار سے زیادہ مہلک ثابت ہو رہا تھا۔ ’’کنیز بچہ! اور میرا باپ؟‘‘ سلیم پیچ و تاب کھا کھا کر دل ہی دل میں سوال کر رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے شعلے نکل نکل کر بجھ جاتے تھے۔ بڈھا جعفر یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ یکبارگی وہ چونک پڑا۔ اس لیے کہ سلیم کی آنکھوں میں بغاوت اور نافرمانی کے آثار نمودار ہو چلے تھے۔ جعفر نے اب محسوس کیا۔ اس لعنت و ملامت کا نتیجہ کتنا خوفناک ہو سکتا ہے۔ سلیم باپ کی ایک ایک نگاہ کا جواب دے رہا تھا جس سے غرور و سرکشی ٹپک رہی تھی۔ جعفر سوچ میں پڑ گیا، ’’مجھے اس خودسر لڑکے کی طرف سے برا اندیشہ ہے کبھی نہ کبھی یہ ضرور مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کرےگا۔ مجھے اس سے کبھی محبت نہ تھی لیکن اس میں اتنی طاقت اور ہمت بھی تو نہیں کہ ہرن یا گورخر کا شکار کر سکے، پھر مجھ سے پیکار جوئی کیونکر کر سکےگا۔ نہیں اس کی مجال نہیں کہ مجھ سے سرتابی کرے۔ تاہم میں اس کو خاص نگرانی میں رکھوں گا۔ مجھے اس چھوکرے پر بھروسہ نہیں۔ اگرچہ اس کا خون مجھ سے ملا ہے جس کا اس کو کوئی صحیح علم نہیں اور خدا کرے کبھی نہ ہو۔‘‘ جعفر اسی طرح خیالات کا طومار باندھ رہا تھا کہ اس کو زلیخا کی آہٹ ملی اور اس کے خیال کا مرکز بدل گیا۔ وہ زلیخا کو بےانتہا عزیز رکھتا تھا اور اس کو دیکھ کر اپنی ’’فکر دنیا‘‘ کو بھی بھول جایا کرتا تھا۔
زلیخا داخل ہوئی تو سارا کمرہ اس کے حسن کی شعاعوں سے جگمگا اٹھا۔ عام طور پر قسطنطنیہ میں مشہور تھا کہ حسن و جمال کے لحاظ سے زلیخا کی نظیر ’’عالم مثال‘‘ میں ملے تو اس دنیا میں ممکن نہیں۔ اس کا وہ بھولا چہرہ، وہ ہرنوں کی سی آنکھیں، وہ نو شگفتہ مرمریں سینہ، وہ صبر شکن اور تاب گداز ہونٹھ ایسے نہ تھے جن کے سامنے کوئی اپنے کو ’’دردِتمنا‘‘ سے محفوظ رکھ سکتا۔ اس پیکر حسن و شباب کو دیکھ کر کیوپڈا پنے تیر و کمان بھول جاتا،اور شکست کا آرزو مند ہوتا۔
زلیخا آتے ہی پہلے تو ادب کے ساتھ ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو گئی۔ پھر باپ کا اشارہ پاکر اس نے اپنے ہاتھ بڑھائے اور جعفر کے گلے سے لپٹ گئی۔ جعفر نے اس کا پیار کیا اور دعائیں دیں۔ درحقیقت وہ اس وقت ایک کشمکش میں گرفتار تھا۔ ایک طرف تو اس کو زلیخا کے فلاح و بہبود کا خیال ستا رہا تھا۔ دوسری طرف جب وہ یہ سوچتا تھا کہ اس مناکحت سے اس کے دولت و اقبال میں اضافہ ہونے والا ہے تو دنیا کا ہر خیال اس کے دل سے نکل جاتا تھا یہاں تک کہ بیٹی کی محبت بھی اس کو اپنےارادہ سے پھیر نہ سکتی تھی۔
جعفر نے زلیخا کی پیشانی پر بوسہ دے کر کہا، ’’آج میں تجھے ایسی خبر سناؤں گا جو میرے لیے باعث مسرت بھی ہے اور وجہ ملال بھی۔ مسرت اس کی ہے کہ میں اپنی زندگی میں تیرا ’’جشن عروسی‘‘ دیکھ رہا ہوں۔ اس پر جہاں تک ناز کیا جائے کم ہے کہ تیرا شوہر ایک نہایت جری اور بہادر سردار ہے ساری فوج میں اس کا ایسا جانباز سورما کوئی نہیں اور اگرچہ اخوتِ اسلام کی رو سے نسبت نامہ کوئی چیز نہیں لیکن یہ بھی ہماری خوش قسمتی ہے کہ قرسمان کی نسل اب تک غیرمخلوط رہی ہے۔ زیادہ کہنے سننے کی ضرورت نہیں۔ اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ تیرا خاندان اغلوبے کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اور میں نے اگر اس سے یہ رشتہ قائم کر لیا تو ہماری متفقہ دولت کے آگے کوئی ٹھہر نہ سکےگا اور اطراف و جوانب میں ہمارا سکہ بیٹھ جائےگا۔ البتہ تیری اور اس کی عمر میں فرق بہت زیادہ ہے۔ مگر میں اپنی زلیخا کو کسی ناآزمودہ کار کم سن لڑکے سے بیاہنا نہیں چاہتا۔ بس جا تجھے میری مرضی معلوم ہو گئی۔ ایک باپ جو کچھ اپنی بیٹی کے روبرو کہہ سکتا ہے میں تجھے سے کہہ دیا۔ میرا کام تجھ کو اپنی خواہش سے آگاہ کردینا تھا۔ اب میری متابعت کرنا تیرا کام ہے اور محبت کا سبق دینا تیرے سرتاج کا کام ہوگا۔‘‘
زلیخا نے گردن جھکا لی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے جن کو اس نے بہنے نہ دیا۔ بہت ممکن ہے یہ آنسو اس خوف و ہراس کا نتیجہ رہے ہوں جو ایسے وقت میں ایک دوشیزہ دل میں پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس کے بڑے بڑے ڈھلے ہوئے قطرہ ہائے اشک میں کچھ اس بلاکی دل کشی تھی کہ کسی طرح آنکھیں ہٹانے کوجی نہیں چالتا تھا اور نرم سے نرم اور کمزور سے کمزور دل بھی اس امر کو گوارا نہ کر سکتا تھا کہ ان کو پونچھ کر مٹایا جائے۔
جعفر اتنا کہہ کر اور ضروری کاموں میں مصروف ہو گیا اور پھر زلیخا کا تصور بھی اس کے دماغ سے نکل گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اپنےگھوڑے پر سوار ہوکر لشکر گاہ کی طرف روانہ ہو گیا۔
سلیم زلیخا کی طرف پشت کیے ہوئے اور اپنا سر ہاتھوں پر دھرے ہوئے جھروکہ کے پاس کسی خیال میں مستغرق تھا۔ اس نے جعفر کو جاتے ہوئے بھی نہیں دیکھا۔ اس کی نگاہیں درہ دانیال کی نیلی سطح پر جمی ہوئی تھیں اور بظاہر معلوم ہوتا تھا کہ وہ سمندر کے پر فضا مناظر سے لطف اٹھا رہا ہے۔ لیکن دراصل اس کو نہ ساحل کی خبر تھی نہ پانی کی ترنم خیز لہروں کی۔ اس پر صرف ایک خیال مستولی تھا۔ زلیخا اس سے مفارقت کرنے والی تھی۔
سلیم خاموش تھا۔ زلیخا اس کی خاموشی پر غور کر رہی تھی۔ اس نے ایک آہ سے اس طلسمِ سکوت کو توڑنا چاہا۔ سلیم متوجہ نہ ہوا۔ زلیخا اس کے سامنے آ گئی۔ سلیم چپ رہا۔ زلیخا نے اس کے بُشرے کا مطالعہ کیا۔ مگر اس کے جذبات کا پتہ نہ چلا سکی۔ وہ مضمحل ہوکر دل میں کہنے لگی، ’’کیا اس پر اس قدر اثر ہوا ہے، کیا اس کو ایسا صدمہ پہنچا ہے یہ خبر خود میرے لیے کچھ کم روح فرسا نہیں ہے، مگر کیا اس کو مجھ سے زیادہ ملال ہوا ہے۔‘‘ اس نے سلیم کو یوں مخاطب کرنا چاہا کہ ایرانی گلاب پاش اٹھاکر اس کے سامنے سنگ مرمر کے فرش پر چھڑکنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ سارا دیوان ایک دل آویز اور مست کر دینے والی خوشبو سے مہک اٹھا۔ سلیم اسی طرح بے حس و حرکت کھڑا رہا اب زلیخا نے سوچا، ’’اگر اس کو میں گلاب کا پھول توڑ کر دوں تو وہ میری نذر کو ضرور قبول کرےگا اور میری طرف ضرور متوجہ ہو جائےگا۔‘‘ اس خیال سے وہ ایک گلاب توڑ لائی اور سلیم کے قدموں سے لگ کر کہنے لگی، ’’یہ پھول میرے پیارے بھائی کے لیے بلبل کی طرف سے ایک پیغام لایا ہے، وہ کہتی ہے، آج سلیم کی افسردگی دور کرنے کے لیے اپنے غمگین اور دردناک ترانوں میں مسرت و ابتہاج کی لے پیدا کر دوں گی اور جب تک وہ حسبِ معمول شگفتہ نہ ہو جائےگا، میں اپنی نواسنجیاں بند نہ کروں گی۔
’’یہ کیا؟ کیا سلیم آج تم میری نذر نہیں قبول کروگے۔ پھر تو میں بڑی بدنصیب ہوں۔ تم مجھ کو ایسے تیوروں سے کیسے دیکھ سکتے ہو جب کہ جانتے ہو کہ میں تم کو اپنی زندگی سے عزیز رکھتی ہوں؟ سلیم! پیارے سلیم! کیا تم مجھ سے نفرت کرنے لگے ہو؟ نہیں ہرگز نہیں! ادھر آؤ۔ میرے سینہ پر اپنا سر رکھ دو۔ میں تم کو چوم چوم کر سلا دوں، کیا ابا جان نے کچھ کہا ہے؟ میں جانتی ہوں ان کو تم سے کوئی انس نہیں، وہ تمانرے ساتھ سختی سے پیش آیا کرتے ہیں۔ مگر کیا اپنی زلیخا کی محبت کو بھول گئے؟ اچھا اب میں سمجھی پاشا نے آج میری نسبت کا جو تذکرہ کیا ہے وہ شاید تمہیں ناگوار ہوا ہو۔ اگر یہی ہے تو میں بیت اللہ کی قسم کھاکر کہتی ہوں تم کو دکھ پہنچا کر میری شادی ہرگز نہیں ہو سکتی۔ یقین مانو میں تم سے علیحدہ ہوکر اپنے دل کو دو جگہ تقسیم نہیں کر سکتی۔ اگر میں نے تم کو چھوڑ دیا تو پھر میری ہمدمی اور تمہاری غمگساری کون کرےگا۔ زمانہ گردشیں کرتا رہےگا۔ صبح شام ہوتی رہیں گی، انقلاب ہوتے رہیں گے، مگر وہ ساعت کبھی نہ آئےگی جو مجھ تم سے جدا کر سکے۔ عزرائیل کی بھی یہ مجال نہیں کہ ہم کو جدا کرے۔ہمارے دل خاکی میں مل کر بھی ایک رہیں گے۔‘‘
سلیم اب تغافل نہ برت سکا۔ اس کے جسم کو حرکت ہوئی۔ اس نے ایک ٹھنڈی سانس کھینچی اور اس کی خوبصورت آنکھیں اس کے کیفیاتِ قلب کی ترجمانی کرنے لگیں۔ اس کی محویت کا طلسم ٹوٹ گیا۔ اس کی پتلیاں محبت سے چمکنے لگیں۔ اس نے زلیخا کو اٹھاکر بیتابانہ گلے لگا لیا۔ اوراس کے محبت بھرے ہونٹھوں کو چوم کر کہا، ’’بس بس! زلیخا اب تو میری ہے اور میں تیرا۔ اس مقدس ’’پیمانِ وفا‘‘ نے نہ صرف تجھے میرا بنایا ہے بلکہ مجھے بھی تیرا بنا دیا ہے۔ ہرچند کہ میں نےاپنی زبان سے کوئی عہد نہیں کیا۔ مگر تم نے بڑا کام کیا اور نہ جانے کتنی مشکلوں کو حل کر دیا ہے اور نہ جانے کتنے خطروں سے مجھ کو بچالیا ہے ورنہ دنیا دیکھ لیتی کہ میں واقعی اتنا بزدل نہیں ہوں جتنا کہ پاشا نے سمجھ لیا ہے۔ ان کا ’’کنیز بچہ‘‘ بھی کچھ جوہر اپنے اندرپوشیدہ رکھتا ہے۔ اور ضرورت کے وقت وہ کارنامے دکھا سکتا ہے۔ جن کی وہ امید نہیں رکھتے۔ حیرت نہ کرو آج یہی خطاب مجھے دیا گیا ہے۔ مگر مجھے اس کا مطلق غم نہیں۔ ہاں اس کا خیال رکھنا کہ ہمارے ’’پیمانِ وفا‘‘ کا علم کسی دوسرے کو نہ ہو۔ میں عثمان بے سے خوب واقف ہوں جس سے تم منسوب کی گئی ہو۔ آج تک کسی مسلمان نے اس سے زیادہ ناجائز اور ممنوع طریقوں سے دولت و عزت نہیں حاصل کی ہے۔ اس کی بےایمانی، مکاری، خودغرضی اور نفس پر ستی کے ثبوت میں شاید اتنا کہہ دینا کافی ہو کہ اس کا وطن اگریپو ہے اور سب جانتے ہیں کہ یہودی بھی باشندگان اگریپو سے زیادہ کمینے نہیں ہو سکتے۔ ہاں تو ہمارے ’’میثاقِ محبت‘‘ کی خبرپاشا کو بھی نہ ہونے پائے۔ باقی باتیں آنے والا وقت خود بتا دےگا۔ عثمان بے سے معاملہ فہمی میں کرلوں گا۔ ایسے نازک اور فیصلہ کن وقت کے لیے میرے رفیق موجود ہیں۔ زلیخا! تم نےمجھے بےنقاب نہیں دیکھا ہے۔ میں بظاہر جو کچھ معلوم ہوتا ہوں وہ نہیں ہوں۔ میرے بھی مددگار ہیں۔ اسلحہ کا استعمال میں بھی جانتا ہوں، انتقام کا جذبہ میرے دل میں بھی ہے۔‘‘
زلیخا بت بنی سلیم کی باتیں سن رہی تھی۔ آخری جملے سن کر اس کو تشویش ہوئی۔ اور اس نے کہا، ’’تم کو بے نقاب نہیں دیکھا ہے۔ اس کے کیا معنی؟ سلیم! تم کو ہوا کیا ہے؟ تم یکایک اس طرح بدل کیوں گئے ہو۔ ابھی صبح کے وقت کیسے شگفتہ اور بے فکر نظر آرہے تھے۔ مگر اس وقت اپنی ذات سے بھی اجنبی معلوم ہو رہے ہو! میری الفت کا علم تو تم کو پہلے بھی تھا۔ تمہارے قریب رہنا، تمہاری صورت دیکھنا، تمہاری باتیں سننا میری زندگی کی سب سے بڑی مسرت رہی ہے، رات سے مجھ کو صرف اس لیے دشمنی ہے کہ ظالم تم کو مجھ سے جدا کر دیتی ہے۔ اس سے زیادہ راحت میرے لیے اور کیا ہو سکتی ہے کہ اچھے برے وقت میں تمہاری شریک رہوں۔ تمہاری خوشی کو خوشی اور تمہارے رنج کو رنج سمجھوں۔ میں اس سے زیادہ کر سکتی ہوں اورتم اس سے زیادہ مجھ سے کیا امید رکھتے ہو؟ لیکن سلیم ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی، ہم اپنے عہدوپیمان کو راز کیوں رکھیں؟ اور ’’مددگار‘‘ اور ’’اسلحہ‘‘ سے تمہارا کیا مطلب تھا؟ آج اگر اباجان کو ہماری محبت کا علم ہو جائے تو یقین مان لو ان کا قہر و عتاب بھی مجھے اپنے قول سے نہ پھیر سکےگا۔ ان کو اس معاملہ میں مداخلت کرنے کا حق ہی کیا ہے؟ ہر شخص محبت کرنے کے لیے آزاد پیدا کیا گیا ہے۔ اس بات کو چھپائے ہوئے نہ جانے کیوں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں کوئی بڑا گناہ کر رہی ہوں۔‘‘
زلیخا اپنی بات ختم بھی نہ کرنے پائی تھی کہ چوبدار کی آواز نے جعفر پاشا کی واپسی کا اعلان کیا۔ سلیم نے کسی قدر گھبراکر کہا، ’’بس اب وقت نہیں۔ فوراً اپنے محل میں واپس جاؤ ابا جان سے میں باتیں کرلوں گا۔ اس وقت ان کو سرکاری کاغذات پر دستخط کرنا ہے اور جو پریشان کن خبریں صوبہ جات ڈینیوب کے متعلق موصول ہوئیں ہیں ان کے لیے یہ طے کرنا ہے کہ کیا کارروائی کی جائے اور کون سی تدابیر اختیار کی جائیں۔ لیکن جب ایک گھڑی رات گزر جائے اور لشکر گاہ میں سونے کا وقت ہو تو میرا انتظار کرنا۔ میں حرم میں چھپ کر آؤں گا۔ میں تم کو ہمراہ لے کر پائیں باغ میں چلوں گا جہاں ہم بلا کسی کی مداخلت کے اپنی آئندہ زندگی کے متعلق گفتگو کر سکیں گے اور آزادی کے ساتھ ایک دوسرے کے دل کی باتیں سن سکیں گے۔ اس وقت تم اپنے سلیم کو بےنقاب دیکھوگی اور تب معلوم ہوگا کہ میں بظاہر جو کچھ معلوم ہوتا ہوں وہ ہوں نہیں، ڈرنے کی وجہ نہیں۔ پیاری زلیخا! مجھ پر بھروسہ رکھو اور شک و شبہ کو دل میں راہ نہ دو۔‘‘
’’تم سے شک و شبہ! سلیم یہ میں کیا سن رہی ہوں؟ تمہارے دل میں یہ خیال۔۔۔‘‘
’’اچھا دیر نہ کرو‘‘ سلیم نے بات کاٹ کر کہا ’’اپنے محل میں چلی جاؤ۔ میں رات کو آؤں گا۔ اس کا پورا انتظام کر چکا ہوں۔ حرم کی کنجی میرے پاس ہے اور ہارون اور دوسرے نگہبانوں کو انعامات کے لالچ نے میرے قابو میں کر دیا ہے۔ اس وقت میری جو داستان سنوگی وہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگی۔‘‘
رات کی تاریکی کائنات پر مسلط ہو چکی ہے۔ ہر چیز آرام و سکون کی طرف مائل ہے لیکن بحیرۂ یونان کی لہروں میں آج جیسی شورش ہے وہ اس منحوس طوفانی رات کی یاد تازہ کر رہی ہے جب کہ محبت بھی اپنے دم بھرنے والے کو بے رحم اور سفاک موجوں سے نہ بچاسکی۔ آرزوئے دید اور تمنائے وصال کی امنگیں مقابلہ کرتی تھیں۔ محبت اپنا منتر پڑھتی رہی، مگر ہیرو کا دلدار ساحل تک سلامت نہ پہنچ سکا۔ وہ بھی کیا رات تھی۔ بلہ لٹیا ندر آفات ارضی و سماوی سے بے خبر، طوفان ابروباد سے بے پروا ہیرو سے ملنے کی دھن میں چل کھڑا ہوا۔ طرح طرح کی بدشگونیاں اس کو روکتی رہ گئیں۔ بادل کی برج، بجلی کی چمک۔ سمندر کا خروش یہ سب دہشت انگیز آثار اس کے دل میں کوئی ہراس پیدا نہ کر سکے۔ دلربائے سستوث کے تصور سے مبہوت و بیخود لیٹاندر نے اپنے کو سمندر کے حوالہ کر دیا اور پھر کبھی ہیرو تک نہ پہنچ سکا۔ ہیرو کی آنکھیں انتظار میں پتھراگئیں وہ اپنے دروازہ پر مشعل لیے دعائیں مانگتی رہ گئی مگر اپنے جانباز کی صورت پھر نہ دیکھ سکی۔ ہزاروں برس گزر گئے ہیں، داستان پرانی ہو چکی ہے لیکن محبت اب بھی ایسے کرشمے دکھا سکتی ہے اور پُرارمان دلوں کو ابھار کر دنیا و مافیہا سے اسی طرح بےخبر بنا سکتی ہے۔
چاند کی دیوی اب تک روپوش ہے، ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ مگر زلیخا کی خواب گاہ میں ابھی تک شمع جل رہی ہے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ زلیخا جو شیرخوار بچوں کی طرح سویرے سوجانے کی خوگر تھی آج کسی وجہ سے اب تک جاگ رہی ہے۔ وہ سوفہ پر بیٹھی ہوئی ہے۔ ہاتھ میں عنبر کی تسبیح ہے، اور قریب ہی اس کی ماں کا دیا ہوا تعویذ رکھا ہوا ہے جس میں زمرد جڑے ہوئے ہیں اور جس پر آیت الکرسی کندہ ہے۔ ایک طرف سنہرے جلی حرفوں میں لکھا ہوا قرآن مجید رکھا ہوا ہے۔ سامنے فارسی غزلوں کی ایک بیاض کھلی ہے اور اس کے ہاتھوں میں اس کا بربط ہے جس کی طرف وہ متوجہ نہیں معلوم ہوتی۔ میز پر شمع کے گرد چینی گلدانوں میں رنگ برنگ کے پھول آراستہ ہیں۔ جن کی مہک عطر و گلاب کی مہک سے مل کر ساری خوابگاہ کو ایک مدہوش کر دینے والی فضا سے معمور کر رہی ہے۔ یہ سب کچھ ہے۔ زمین فردوس بنی ہوئی ہے۔ لیکن زلیخا متفکر اور بےچین نظر آ رہی ہے۔ اس کی آنکھیں سوئے در لگی ہیں۔ اس کے کان کسی کی آہٹ کے منتظر ہیں اور وہ پہلو پر پہلو بدل رہی ہے۔
اتنے میں سلیم سیاہ لبادہ میں اپنا جسم لپیٹے ہوئے باغ کے پھاٹک سے داخل ہوا۔ زلیخا نے جھروکہ سے اس کو اپنے محل کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا وار اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ سلیم نے آتے ہی اشارہ کیا اور وہ اس کے ساتھ باغ کے اس گوشہ کی سمت چلی جہاں وہ اکثر بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کیا کرتی تھی اور بہشت کی بابت سوچا کرتی تھی۔ آج اس نے اس کنج میں کچھ تبدیلیاں محسوس کیں۔ اس نےخیال کیا کہ ممکن ہے رات کی تاریکی کی وجہ سے وہ صحیح اندازہ نہ کر سکی ہو۔ لیکن جب ایک کونے میں کچھ ایسے ہتھیار چمکتے ہوئے نظر آئے جن سے اس کی آنکھیں آشنا نہ تھیں تو وہ چونک پڑی۔ ان ہتھیاروں میں ایک تلوار تھی جس پر کچھ سرخ دھبے تھے اور کسی خونی داستان کی حامل معلوم ہوتی تھی۔ بنچ پر ایک پیالہ رکھا ہوا تھا جس میں شربت کی سی کوئی دوسری چیز تھی۔ زلیخا نے اپنے دل میں سوچا، ’’آخر اس کے کیا معنی ہیں؟‘‘ اس نے مڑ کر دیکھا اور اس کے منھ سے بےساختہ نکل گیا، ’’کیا یہ سلیم ہے؟‘‘
سلیم نے لبادہ اتار دیا تھا۔ اور اب زلیخا نے دیکھا کہ صافہ کی جگہ اس کے سرپر ایک سرخ شال لپیٹی ہوئی تھی۔ اس کی کمر میں آج مرصع خنجر نہیں تھا جس کو وہ ہمیشہ لٹکائے رکھتا تھا۔ اس کی جگہ پستول تھا اور اس کے کمر بند میں ایک قرولی تھی۔ اس کا لبادہ سفید تھا جس کو زلیخا نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا اور اس کے سینہ سے ایک سپر بندھی تھی۔ سلیم آج ایک ترکی ملاح کے لباس میں تھا۔ اس نے زلیخا کی گھبراہٹ دیکھ کر کہا،
’’میں نے کہہ دیا تھا کہ تم نے مجھے بےنقاب نہیں دیکھا ہے۔ زلیخا میرا کہنا جھوٹ نہ تھا۔اب اصلیت کو چھپانا بیکار ہے۔ میں یہ کبھی گوارا نہیں کر سکتا کہ تم عثمان بے کی بیوی بنو اگر تم نے اس بلند آہنگی کے ساتھ میری محبت کا دعویٰ نہ کیا ہوتا تو میں ابھی اپنا راز تم پر فاش نہ کرتا۔ میں اس وقت اپنی محبت جتانا نہیں چاہتا۔ لیکن تم سے یہ قول لینا چاہتا ہوں کہ تم کسی دوسرے سے شادی نہیں کروگی۔ زلیخا! تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں واقعی تمہارا بھائی نہیں ہوں۔‘‘
زلیخا کا دل دھڑکنے لگا اور اس نے خوفزدہ ہوکر پوچھا، ’’کیا؟ کیا تم میرے بھائی نہیں ہو! نہیں نہیں تم مذاق کر رہے ہو، یا اللہ! کیا میں دنیا میں بے یارومددگار چھوڑ دی گئی ہوں۔ میں کیسی بدبخت ہوں۔ سلیم! اب تم مجھ کو نہیں چاہوگے؟ میرے دل میں پہلے ہی سے منحوس خالات آرہے تھے۔ نہیں مجھ کو اپنی بہن زلیخا، اپنی جان نثار سمجھو۔ تم مجھ کو یہاں شاید قتل کرنے لائے ہو۔ اگر یہی ہے تو میرا سینہ حاضر ہے۔ جی بھر کے ارمان نکال لو۔ اب جب کہ میں تمہارے لیے کوئی چیز نہیں رہی تو میرا مرجانا ہی بہتر ہے۔ میرا باپ تمہارا دشمن ہے اور تم اپنا انتقام لینا چاہتے ہو۔ لیکن اپنی اگلی محبت کا خیال کرو۔ اگر میں تمہاری بہن نہیں ہوں تو مجھے اپنی کنیز بنالو اور میری جان چھوڑ دو۔
’’میری کنیز زلیخا!‘‘ سلیم نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا، ’’نہیں یہ نہ کہو۔ میں تمہارا غلام ہوں۔ اس طرح سراسمیہ نہ ہو تمہاری زندگی اب بھی میری زندگی سے وابستہ ہوگی۔ میں کعبہ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں تمہارا ہوں۔ اس خیال سے اپنے دل کو تسکین دو اور صبر کے ساتھ انتظار کرو۔ یہ سچ ہے کہ میں تمہارے لیے ایک نئی چیز ہو گیا ہوں اور ممکن ہے نئی صورت حال سے موانست پیدا کرنے میں تم کو کچھ وقت محسوس ہو۔ مگر یہ یاد رہے کہ میں اپنا عہدِ رفاقت بھولا نہیں ہوں۔ اگرچہ تمہارا باپ میرا جانی دشمن ہے لیکن میرا باپ دنیا میں اس کا سب سے بڑا بہی خواہ تھا۔ جس طرح میں تمہارا ہوں۔ جعفر نے اس کے ساتھ بیوفائی کی اور اس کو قتل کر ڈالا۔ ڈرو نہیں میری پوری داستان غور سے سنو۔ ہاں تو تمہارے باپ نے مجھ کو بچہ سمجھ کر زندہ چھوڑ دیا اور اپنے حرم میں میری پرورش کی۔ کچھ اس لیے نہیں کہ اس کو مجھ سے محبت تھی۔ بلکہ جس طرح قابیل نے اپنے کمسن بھتیجہ کو نہیں مارا اسی طرح جعفر نے بھی مجھ معصوم کا خون اپنی گردن پر نہیں لیا۔ میں اسی کے زیر نگرانی پلا اور اسی کو اپنا باپ سمجھتا رہا۔ میں ایک مدت تک اسی دھوکہ میں رہا کہ میں جعفر پاشا کا بیٹا ہوں۔ اف! انتقام کی آگ سے پھنکا جاتا ہوں۔ مگر صرف تمہارے خیال سے ابھی کچھ نہ کروں گا۔ اگرچہ اب میرا اس گردونواح میں رہنا خطرہ سے خالی نہیں۔ خیر اب یہ سنو کہ جعفر نے میرے باپ کا کام کیسے تمام کیا۔ مخاصمت کی ابتدا کیونکر ہوئی اور جعفر نے میرے باپ عبداللہ کو کیوں مار ڈالا؟ اس کا مجھے صحیح علم نہیں۔ جہاں دولت و حکومت کا معاملہ ہوتا ہے وہاں خفیف سے خفیف تحریک بھائی بھائی میں خون کرا دینے کے لیے کافی ہوا کرتی ہے۔ امور سلطنت میں میرے باپ کی باتیں زیادہ مانی جاتی تھیں۔ میدان کار زار میں اس کی دھاک زیادہ بیٹھی تھی۔ شاید اس نے تمہارے باپ کے دل میں بغض وحسد پیدا کر دیا ہو۔ اس کی اس وقت تحقیق کرنا بےکار ہے۔ میں صرف یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ میرا باپ مارا کیسے گیا۔ یہ اس زمانہ کا واقعہ ہے جب کہ پسوان اغلود دین کا مشہور باغی آستانہ عالیہ کو شکست دے رہا تھا اور کوئی اس کے مقابلہ کی تاب نہ رکھتا تھا۔ جعفر پاشا اور عبداللہ پاشا نے اپنی فوجوں کو متفق کرکے اس مہم کو سر کرنے کا بیڑا اٹھایا اور وہیں جفعر نے خدمت گار کو ایک کثیر رقم بطور انعام دے کر میرے باپ کو قہوہ میں زہر دلوایا۔ اور اس نے اپنے بھائی پر شبہ بھی نہیں کیا۔ زلیخا! اگر تم کو یقین نہ ہو تو ہارون کو بلاکر جو کچھ کہہ رہا ہوں اس کی تصدیق کر لو۔ اس کے بعد پسوان کی بیخ کنی نہیں ہوسکی۔ کچھ دنوں کے لیے وہ کمزور ضرور ہو گیا تھا۔ اب جعفر نے میرے باپ کی جاگیر کو خود لے لیا۔ اس کے لیے اس کو بڑی رقم لٹانی پڑی۔ یہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ شاید اس لیے کہ میں اس وقت ایک معصوم اور بےضرر بچہ تھا۔ یا اس لیے کہ اس کے کوئی بیٹا نہ تھا اور مجھے اپنا بیٹا بنانا چاہتا تھا۔ لیکن وہ اپنی کینہ پرور طبیعت سے مجبور رہے۔ وہ کبھی اس حقیقت کو بھول نہ سکا کہ میں عبداللہ کی پشت سے ہوں اور میں بھی اپنے باپ کے خون کو نہیں بھول سکا ہوں۔‘‘
سلیم اپنی زبان تر کرنے کے لیے رک گیا۔ زلیخا ٹکٹکی باندھے اس کو دیکھتی رہی۔ اس نے پھر سلسلہ شروع کیا،
’’خود تمہارے باپ کے محل سرا میں اس کے دشمن موجود ہیں۔ زلیخا! سب نمک خوار وفادار اور خیرخواہ نہیں ہوا کرتے۔ صرف کوئی ابھارنے والا ہونا چاہیے اور جعفر کی زندگی کا خاتمہ ہے، لیکن اس خونیں واقعہ سے ہارون کے سوا کوئی دوسرا واقف نہیں۔ اس نے عبداللہ کی حرم سرا میں پرورش پائی ہے۔ عبداللہ کی موت کے بعد تمہارے باپ کی حرم سرا میں مامور ہوا۔ وہ بے چارہ غلام اپنے آقا کا انتقام کیا لے سکتا ہے؟ جب اس نے دیکھا کہ میری زندگی خراب کی جارہی ہے اور میں ناکارہ بناکر رکھ دیا گیا ہوں تو اس سے نہ رہا گیا اور ایک دن مجھے تنہائی میں لے جاکر ابتدا سے انتہا تک جو واقعات گزرے تھے بیان کردیے۔ اور مجھے معلوم ہوا کہ میں تمہارا بھائی نہیں ہوں۔ زلیخا! یہ سب باتیں تمہاری سمجھ میں نہیں آتیں۔ تم اس طرح ساکت ہو گویا تم پر بجلی گری ہے۔ مگر تم کو اس سے زیادہ خوفناک واقعات سننے اور دیکھنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اگرچہ تمہارے ننھے اور نازک دل کو دھڑکاتے ہوئے مجھے بڑا دکھ ہو رہا ہے لیکن کیا کروں مجبور ہوں۔ تم کو دھوکہ میں رکھنا نہیں چاہتا۔ تم میرا لباس دیکھ کر ششد رہو۔ مجھے اکثر یہی لباس پہننا پڑتا ہے۔ تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ تمہارا چاہنے والا جس کے ساتھ تم نے محبت نباہنے کا عہد کیا ہے بحری قزاقوں کے ایک گروہ کا سرغنہ ہے۔ تمہاری دہشت بےجا نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب تم سے ان قزاقوں کی غارت گری اور کشت و خون کے حالات بیان کیے جاتے تھے تو خوف و ہراس سے تمہاری کیا حالت ہوتی تھی اور آج خود تم کو ان سے سابقہ پڑ رہا ہے۔ لیکن! ڈرو نہیں اپنے سلیم پر بھروسہ رکھو۔ کوئی قزاق میرے حکم سے سرتابی نہیں کر سکتا اور جب تک میرے دم میں دم ہے تم کو کوئی گزند نہیں پہنچ سکتا۔ تم میری ملکہ بنو اور سب پر حکومت کرو۔ اچھا اب یہ سنو کہ میں اس حالت کو کیوں کر پہنچا۔ میں یہ کہہ چکا ہوں کہ ہارون کو اس کا بڑا صدمہ تھا کہ میں سپہ گری اور میدانِ کار زار کے اصول و قواعد سے بالکل ناواقف رکھا گیا ہوں حالانکہ ترکی امیرزادوں کو سب سے پہلے جو چیز سکھائی جاتی ہے وہ ہتھیاروں کا استعمال ہے۔ ہارون دیکھ رہا تھا کہ میں کاہل، بزدل اور نامرد بنایا جا رہا ہوں۔ وہ اس کو گوارا نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ جب جعفر مجھے حرم سرا کی چہاردیواری کے اندر اس کی نگرانی میں چھوڑ کر کسی مہم پر جاتا تو یہ نمک حلال اور وفادار نوکر مجھے آزاد کر دیتا۔ اور میں جعفر کی واپسی تک دنیا کے تجربات حاصل کرتا پھرتا۔ اسی طرح میں نے نہ صرف سپہ گری کا علم سیکھا، بلکہ مجمع الجزائر کی پوری سیر بھی کر لی۔ میں ایک اندلسی مسلمان کے ساتھ جزروں کے سفر کو روانہ ہو جایا کرتا تھا اور دنیا کے گرم و سرد آزمایا کرتا تھا۔ اسی سفر کے سلسلہ میں ان قزاقوں سے شناسائی ہوئی۔ اور رفتہ رفتہ میں ان کا حاکم بن گیا۔ یہ کہنا درست نہیں کہ قزاق کسی قانون کے پابند نہیں۔ البتہ وہ عام کے قوانین کی پروا نہیں کرتے۔ وہ ہیئت اجتماعی کے قائم کیے ہوئے نظام کو نہیں تسلیم کرتے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ان میں کوئی نظام نہیں ہوتا۔ سب کے سب ایک سردار کے ماتحت ہوتے ہیں جو ان کے لیے قواعد و قوانین منضبط کرتا ہے اور اگر ان میں سے کوئی شخص خلاف قانون کوئی حرکت کرے تو ان کو مناسب سزا دے سکتا ہے۔ میرا منصب یہی ہے۔ میں ان کے جھگڑے طے کرتا ہوں، ان کی اصلاح و بہبود کی تدبیریں سوچتا ہوں اور مال غنیمت کی تقسیم کرتا ہوں اس کے صلے میں مجھے مال کا سب سے بڑا حصہ ملتا ہے۔ زلیخا! خدا نے میرے پاس جو دولت جمع کی ہے کسی بے، یا پاشا نے خواب میں بھی نہیں دیکھی ہوگی۔ میں یہ سب تم پر سے صدقہ کر دوں گا۔ تم میری ہمدم و ہمراز بنو۔ میں اپنی زندگی میں صرف یہی ایک کمی پا رہا ہوں۔ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ بہرحال سوچ سمجھ کر جواب دو۔ میرے ساتھی ساحل پر کشتی لیے انتظار کر رہے ہیں۔ تم چلو اور میری کشتی کو آج اپنی نئی برکتوں سے معمور کر دو۔ تمہارے لیے میں نے سرسبز و شاداب جزیرے میں ایک محل تیار کرایا ہے جس کے مقابلہ میں جعفر کی حرم سرا ہیچ معلوم ہوگی۔ تم دیکھوگی تو اس کو واقعی فردوس پاؤگی۔ زلیخا! اگر تم میرے پہلو میں آ جاؤ تو میں دنیا کا بڑے سے بڑا کام انجام دے سکتا ہوں اور پھر یہ نہ سمجھو کہ تمہاری زندگی آفتوں اور مصیبتوں میں کٹےگی۔ نہیں، تمہارے لیے تمہارا سلیم دنیا کی صعوبتوں کا مقابلہ کرکے بہترین سامانِ عیش مہیا کرےگا اور تم اپنے محل میں بلاؤں سے محفوظ رہوگی۔ تم شاید اس نئی زندگی کو گناہ و معصیت کی زندگی سمجھو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب تک دنیا میں زبردست اور زیردست امیر اور فقیر، سرمایہ دار اور مزدور، چھوٹے اور بڑے کا امتیاز باقی ہے، زندگی گناہ و معصیت کے دھبوں سے پاک نہیں رہ سکتی۔ تم اپنے باپ کی زندگی پر غور کرو اور انصاف کے ساتھ بتاؤ کہ اس میں اور قزاقوں کی زندگی میں کیا فرق ہے؟ صرف نوعیت کا۔ ورنہ اصل میں دونوں ایک ہیں۔ دنیا کی ہر قوم کا، ہر قوم کے ہرفرد کا، اب تک یہی شیوہ رہا ہے، زبردست کا ہمیشہ بول بالا رہا ہے۔ لیکن زلیخا! اب وقت زیادہ نہیں جلد جواب دو، ’’بس ہاں‘‘ کر دو، اور ہم اپنی کشتی میں روانہ ہو جائیں۔ پھر لوگ تعاقب کرتے رہ جائیں گے۔ مگر ہم ان کی گرفت سے باہر ہوں گے۔ کل عثمان بے تمہارے ساتھ شادی کرنے آئےگا اور اپنا حق لے کر چلا جائےگا۔ یعنی تم کو نہیں پائےگا۔ بولو زلیخا میں تمہارے فیصلہ کا منتظر ہوں۔‘‘
سلیم ہمہ تن انتظار بن گیا۔ زلیخا تھوڑی دیر تک اس کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتی رہی۔ آخرکار جب اس کو یقین ہو گیا کہ جو کچھ وہ دیکھ رہی ہے خواب نہیں بلکہ ایک سنگین حقیقت ہے تو اس کا جمود ٹوٹا، اور اس کی قوت احساس عود کر آئی۔ اب وہ اس قابل ہوئی کہ سلیم کی باتوں کا جواب دے سکے۔ لیکن اس کے ہونٹھ ہلنے بھی نہ پائے تھے، اس کی نگاہیں سلیم کی منتظر نگاہوں سے اچھی طرح مل بھی نہ سکی تھیں کہ باغ کے اندرونی دروازہ پر کچھ روشنی سی نظر آئی اور پھر پے بہ پے مشعلیں نمودار ہونے لگیں۔ زلیخا گھبراہٹ میں مشکل سے اتنا کہہ سکی، ’’بھاگو بھاگو۔ تم اب میرے لیے بھائی سے بھی زیادہ عزیز اور محبوب ہو۔‘‘ اتنی دیر میں سارا باغ مشعل برداروں سے بھر گیا اور روشنی میں بےنیام تلواریں بجلی کی طرح چمکتی ہوئی دکھائی دیں۔ جعفر کو پتہ چل گیا تھا کہ زلیخا آج خلاف معمول محل چھوڑ کر سلیم کے ساتھ تنہائی میں کچھ راز کی باتیں کر رہی ہے۔ تو کیا، ’’اس گنج محبت‘‘ میں سلیم کا مزار تیار ہونے والا تھا۔
سلیم کے تیور سے ہمت و استقلال کے آثار نمایاں تھے۔ وہ نہ گھبرایا۔ نہ اپنی جگہ سے ہٹا۔ معلوم ہوتا تھا۔ جعفر سے بھاگنا وہ انتہائی بزدلی سمجھتا ہے۔ اس نے زلیخا کو آغوش میں لے کر کہا، ’’جس بات سے میں ڈر رہا تھا وہ آ گئی‘‘ زلیخا کے ہونٹھ چوم لیے اور پھر کہا، ’’یہ آخری بوسہ ہے۔ مگر شاید میرے ساتھیوں کو ان مشعلوں سے خطرناک حالت کا علم ہو جائے اور وہ ہماری مدد کو پہنچ جائیں۔ اس وقت میں یکہ و تنہا ان سے قسمت آزمائی کروں گا۔‘‘ سلیم تن بہ تقدیر کنج سے نکل آیا اور پستول کی آواز سے آنے والے خطرہ کی قزاقوں کو اطلاع دی۔ جب اس کو کوئی جواب نہ ملا تو اس نے مایوسی کے لہجہ میں زلیخا سے کہا، ’’شاید وہ اس قدر فاصلہ سے آواز نہیں سنتے، اور اگر وہ سن کر چل کھڑے ہوئے ہیں تو جب تک وہ یہاں پہنچیں گے میں اپنی جان کھو چکوں گا۔ خیر آج میں اپنےباپ کی تلوار کا جوہر دکھا لوں زلیخا، ’’خدا حافظ!‘‘ تم یہیں رہنا۔ یہاں سے باہر نہ نکلنا۔ کہیں غلطی سے کوئی گولی تم کو نہ لگ جائے۔ کیا تم اپنے باپ کے لیے ڈر رہی ہو؟ اطمینان رکھو۔ اگرچہ اس نے میرے باپ کو زہر دیا اور میری زندگی کو غارت کیا، مگر میں اس کو بچانے کی کوشش کروں گا اور یہ تمہارے اور صرف تمہارے خیال سے۔‘‘
سلیم یہ کہہ کر اپنے دشمنوں پر ٹوٹ پڑا اور پہلے وار میں جتنے زد میں آئے سب کے سر جسم سے الگ اچھلتے ہوئے دکھائی دیے۔ لیکن آخرکار دشمنوں کا پورا گروہ ایک ساتھ اس پر حملہ آور ہو گیا اور وہ پہلو پر پہلو بچاتا ہوا باغ کے دروازہ تک پہنچ گیا اور پھر ساحل کی طرف اس امید میں بھاگا کہ شاید اس کے لیے کمک آ رہی ہے۔ اس نے کشتی کو آتے ہوئے دیکھا مگر وہ اب بھی بہت دور تھی اور وقت پر اس تک نہ پہنچ سکتی تھی۔ کشتی والوں نے اپنے سردار کو دیکھ لیا۔ صورت حال کا اندازہ کرکے انھوں نے تلواریں نیام سے نکال لیں اور سمندر میں کود پڑے۔ سلیم امید و یاس کی کشمکش میں مبتلا وار پر وار بچارہا تھا۔ ابھی تک اس کو کوئی کاری زخم نہ لگا تھا۔ اس نےایک جست لگائی اور ساحل تک پہنچ گیا۔ وہ اب اپنے رفیقوں کے قریب تھا، لیکن جب وہ پانی کے اندر کشتی کے نزدیک پہنچا تو یہ دیکھنے کے لیے کہ زلیخا کہاں ہے اور اس کی کیا حالت ہے سلیم پیچھے مڑا۔ معاً ایک گولی اس کے سینہ سے پار ہو گئی۔ اور سلیم گردوپیش سے بےخبر ہو گیا۔ یہ جعفر کی گولی تھی جو اپنا کام کر گئی۔
صبح کا دھند لکا نمودار ہونے لگا، بادل چھٹنے لگے اور سمندر کی شورش کم ہو گئی، آفتاب کی صبیح کرنوں نے اپنا رنگ جما لیا۔ عثمان بے اپنا جلوس لیے ہوئے پہنچا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ تھی۔ جب اس نےدیکھا کہ پائیں باغ میں بجائے جشنِ طرب کے ہر طرف کشت و خون کے آثار ہیں۔ جابجا پاؤں کے نشان اور خون کے دھبے اس طرح موجود تھے گویا چند گھنٹے پیشتر یہاں پورا کارزار برپا رہا ہے۔ اسی کے ساتھ کہیں ٹوٹی ہوئی مشعلیں نظر آئیں، کہیں تلواروں کے ٹکڑے اور کہیں خون میں نہائی ہوئی لاشیں۔ عثمان بے کی عقل کام نہ کرتی تھی اور وہ سوچ رہا تھا کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے۔ اتنے میں جعفر کی حرم سرا سےماتم کی صدائیں سنائی دیں۔ اس کو تشویش ہوئی، اور وہ جلد جلد قدم اٹھاتا ہوا حرم سرا کے دروازے تک پہنچا۔ جہاں کنیزیں ماتمی لباس پہنے ہوئے سرپیٹ رہی تھیں۔ عثمان بے کے پاؤں کےنیچے سے زمین نکل گئی۔ زلیخا اس کی دنیا بسانے سے پہلے زمین کے اندر اپنی دنیا بسا چکی تھی۔ جب سلیم اور اس کے ساتھی ایک ایک کرکے موت کےگھاٹ اتر گئے اور جعفر کی فتح ہوئی تو اس نے زلیخا کی تلاش شروع کی۔ اس کے سپاہی ڈھونڈتےڈھونڈتے اس کنج میں بھی پہنچے جہاں سلیم نے زلیخا کو چھوڑا تھا۔ زلیخا تو ملی نہیں، اس کی لاش البتہ ملی اور جعفر کی ساری برہمی نے جامہ دری اور نوحہ گری کی صورت اختیار کر لی۔ واللہ اعلم اس کی موت کا سبب کیا ہوا۔ شاید سلیم کو لقمۂ اجل ہوتا ہوا دیکھ کر اس کا دل بیٹھ گیا اور صدمہ سےجانبر نہ ہو سکی۔
زلیخا اسی کنج میں دفن کی گئی جہاں وہ اکثر سلیم کے ساتھ سیر کیا کرتی تھی اور جہاں اس ہولناک رات کو سلیم نے اس کے ہونٹھوں پر محبت کی آخری مہر ثبت کی تھی۔ کہا جاتا ہےکہ اس کے مزار کے کنارے صنوبر کاجو درخت ہے اس پر خزاں کی غارت گریوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ جو پھول اس کے مزار پر کھلتے ہیں وہ کبھی مرجھاتے نہیں۔ وہاں کی گھاس ہمیشہ ہری رہتی ہے اور ایک خوش الحان چڑیا ہر رات کو صنوبر پر بیٹھ کر ایسے دردانگیز ترانے سناتی ہے کہ سننے والوں کے دل د ہل جاتے ہیں۔ بلبل کی نواسنجیوں میں بھی یہ سوز وگداز نہیں۔ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ باوجود پیہم کوششوں کے کوئی اس کو دیکھ نہ سکا۔ بعض سننے والوں کا بیان ہے کہ یہ عجیب وغریب چڑیا زلیخا کا نام لے لے کر پکارتی ہے، اس لیے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ سلیم جس کی لاش کو تجہیز و تکفین بھی نصیب نہیں ہوئی تھی اب تک زلیخا کی محبت میں بے قرار اور سرگرداں ہے۔ وہی ہے جو روز رات کو زلیخا کی قبر پر ماتم کیا کرتا ہے اور یہ زلیخا کامحبت بھرا دل ہے جو صنوبر اور پھولوں کو ہمیشہ شگفتہ رکھتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.