کہانی کی کہانی
’’یہ ایک ایسے لاولد جوڑے کی کہانی ہے، جو ایک دوسرے کا سکھ دکھ بانٹتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن ان کے دل میں اولاد نہ ہونے کا دکھ ہمیشہ ستاتا رہتا ہے۔ ایک روز اچانک ان کے آنگن میں ایک بیر کا پیڑ اگ آتا ہے اور وہ دونوں اس کو اپنے بچے کی طرح پالتے ہیں۔ درخت پر جب پھل آتا ہے تو وہ خود کھانے کے بجائے گاؤں میں بانٹتے رہتے ہیں۔ ایک بار جب وہ گاؤں ایک ٹھاکر کے یہاں بیر دینا بھول جاتے ہیں تو غصے میں آکر ٹھاکر اس بیر کے پیڑ کو کاٹ دیتا ہے۔‘‘
قریب ڈیڑھ سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر دیوی سلکھی کا نام آج بھی زندہ ہے۔ گورداسپور کے ضلع میں کڑیالہ نام کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، جہاں زیادہ تر آبادی ہندو جاٹوں کی ہے۔ وہاں آپ کسی سے پوچھیں، وہ آپ کو دیوی سلکھی کی سمادھ کا پتہ بتا دےگا۔ اس پر ہر سال میلہ لگتا ہے۔ عورتیں رنگ برنگ کے کپڑے پہن کر آتی ہیں اور اس پر گھی کے دئے جلاتی ہیں۔ جب بیر پکتے ہیں، تو سب سے پہلے بیر دیوی سلکھی کے سمادھ پر چڑہائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد لوگ کھاتے ہیں۔ کیا مجال ہے کہ اس سمادھ پر بیر چڑھائے بغیر کوئی بیر کو منہ بھی لگا جائے۔ دیوالی کی رات کو لوگ پہلے یہاں چراغ جلاتے ہیں۔ اس کے بعد اپنے گھر میں جلاتے ہیں۔
کسی میں اتنی جرأت نہیں کہ دیوی سلکھی کی سمادھ کو روشن کئے بغیراپنے گھر میں روشنی کر جائے۔ بیاہ کے بعد بہوئیں پہلے یہاں آ کر اظہار عقیدت کرتی ہیں۔ اس کے بعد سسرال میں قدم رکھتی ہیں۔ کسی میں ہمت نہیں کہ اس ریت کو توڑ جائے۔ دیوی کی سمادھ گاؤں کے وسط میں ہے اس کے اوپر عقیدتمندوں نے سنگ مرمر کی ایک چھت بنا دی ہے۔ اس چھت کے اوپر ایک جھنڈا لہراتا ہے، جو دور دور سے نظر آتا ہے۔ دیوی سلکھی نے کوئی ملک فتح نہیں کیا، نہ کوئی سلطنت قائم کی۔ نہ اس میں کوئی ایسی ناقابل فہم روحانی طاقتیں تھیں۔ جو لوگوں کے دلوں کو پکڑ لیتیں۔ نہ اس نے رفاہِ عام کی خاطر کوئی قربانی کی۔ وہ ایک غریب ان پڑھ سدں ھی سادی مگر ستونتی براہمن لڑکی تھی جو ایک ناعاقبت اندیش، جاہل جاٹ کے غیض و غضب کا شکار ہو گئی۔ اس نے اپنے شوہر سے جو عہد کیا تھا۔ وہ اس پر اٹل رہی۔ وہ شہید وفا بھی تھی۔ مظلوم بھی تھی، معصوم بھی تھی اور یہی وہ بات ہے۔ جس نے اسے اس قدر عرصہ گذر چکنے کے بعد بھی گاؤں میں جیتی جاگتی طاقت بنا رکھا ہے۔ ہندو دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہیں۔ مسلمان پیروں فقیروں کو مانتے ہیں لیکن دیوی سلکھی کی حکومت میں مذہب و ملت کا یہ امتیاز بھی نہیں ہے۔ اس کی حکمرانی ہندو مسلمان دونوں کے دلوں پر ہے۔
دیوی سلکھی اسی گاؤں کے ایک غریب براہمن جے چند کی بیوی تھی۔ جے چند کے گھر میں کوئی بھی نہ تھا۔ نہ ماں نہ باپ۔ نہ بہن نہ بھائی۔ دونوں خاوند بیوی تھے۔ کوئی بال بچہ بھی نہ تھا۔ چند سال علاج معالجہ کرتے رہے لیکن جب تمام کوششیں بےثمر ثابت ہوئیں تو قسمت پر شاکر ہو کر بیٹھ رہے۔ اس زمانہ میں براہمن لوگ عام طور پر ملازمت وغیرہ نہ کرتے تھے۔ نہ روپیہ میں اس وقت ایسی دلکشی تھی۔ نہ لوگ اس جنس کو جنس نایاب سمجھ کر اس کے حصول کے لئے بیتاب رہتے تھے، تھوڑے ہی میں گزر ہو جاتا تھا۔ ایک کماتا تھا، دس کھا لیتے تھے۔ آج وہ زمانہ کہاں؟ دس کمانے والے ہوں ایک بیکار کو نہیں کھلا سکتے۔ سارے سارے دن پوجا پاٹ میں لگے رہتے تھے۔ کھانے پینے کو جاٹ ججمانوں کے ہاں سے آ جاتا تھا۔ دونوں کو کسی قسم کا فکر نہ تھا۔ البتہ اپنی بےاولادی پر اکثر کڑھا کرنے تھے۔ اگر ایک بھی بچہ ہو جاتا تو دونوں بہل جاتے۔ ان کی زندگیاں شیریں، منور پررونق ہو جاتیں۔ ان کو کوئی مشغلہ مل جاتا۔ اب ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے ان کا گھر سونا سونا ہے۔ جیسے ان کے لئے دنیا بالکل سیٹھی ہے۔ جیسے ان کی زندگی ایک ختم نہ ہونے والی اندھیری رات ہے۔ جس میں کوئی تارہ کوئی چاند نہیں۔ صرف یاس کے بادل گھرے ہوئے ہیں۔ ان بادلوں میں کبھی کبھی تھوڑی دیر کے لئے امید کی بجلی بھی چمک جاتی تھی لیکن اس سے ان کے دلوں کی تاریکی بڑھتی تھی، گھٹتی نہ تھی۔ اسی طرح کئی سال گزر گئے۔
ایک دن جے چند نے اپنے آنگن کے کونے میں بیری کا ایک پودا دیکھا جو خود بخود اگ آیا تھا۔ پودا بہت چھوٹا تھا اور عام پودوں سے ذرا بھی مختلف نہ تھا لیکن جے چند کو ایسا معلوم ہوا جیسے یہ پودا نہ تھا قدرت کے حسن و جمال کا جلوہ تھا۔ اس کے چھوٹے چھوٹے رگ و ریشے اور چکنی چکنی ننھی ننھی خوبصورت کونپلیں دیکھ کر ان کے دل پر خود فراموشی کا عالم طاری ہو گیا۔ دوڑے دوڑے سلکھی کے پاس گئے اور بولے، ’’آؤ کچھ دکھاؤں! بھگوان نے ہمارے گھر میں بوٹا لگایا ہے۔ بڑا خوبصورت ہے۔‘‘
سلکھی نے جاکر دیکھا تو ایک ننھا سا پودا تھا۔ بولی، ’’کیا ہے یہ؟ بڑے خوش ہو رہے ہو۔‘‘
جے چند: ’’بیری کا پودا ہے۔ ابھی چھوٹا ہے، چند دنوں میں بڑا ہو جائےگا۔ اس میں سبز سبز پتے آئیں گے۔ میٹھے میٹھے پھل لگیں گے۔ لمبی لمبی ڈالیاں پھیلا کر کھڑا ہوگا۔‘‘
سلکھی نے خوش ہوکر کہا، ’’آنگن میں سایہ ہو جائےگا۔‘‘
جے چند: ’’ہر سال بیر لگیں گے۔ خوب میٹھے ہوں گے۔‘‘
سلکھی: ’’میں ہرروز پانی سے سینچا کروں گی۔ چند ہی دنوں میں بڑا ہو جائےگا۔ کب تک پھلےگا؟‘‘
جے چند: ’’(پودے کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھ کر) چار سال بعد۔ تم نے دیکھا کیسا پیارا لگتا ہے۔ بڑا ہو کر اور بھی پیارا لگے گا۔ کیسا چکنا ہے! کیسا خوبصورت ہے! دیکھ کر آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں۔‘‘
سلکھی: (سادگی سے) ’’گرمی کے دن ہیں کمہلا جائےگا مجھے تو اب بھی گھبرایا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ذرا کونپلیں تو دیکھو جیسے پیاس سے بیاکل ہو رہی ہوں۔ کہئے تازہ پانی بھر لاؤں؟ گرمی سے بڑے بڑوں کا برا حال ہے، یہ تو بالکل ننھی سی جان ہے! ابھی بھر لاؤنگی۔‘‘
جے چند: ’’ایسے وقت میں تم کہاں جاؤگی۔ میں جاتا ہوں۔
لیکن سلکھی نے کلسا اٹھایا اور چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد دونوں خاوند بیوی اس ننھے سے پودے کو پانی سے سینچ رہے تھے۔ ایسی محبت سے، جیسے ان کا جیتا جاگتا بچہ ہو۔ ایسی عقیدت سے جیسے ان کا دیوتا ہو۔ ایسی محویت سے جیسے کوئی نہایت دلکش چیز ہو۔ پودا دھوپ سے سچ مچ کمہلایا ہوا تھا۔ ٹھنڈا پانی پاکر اس نے آنکھیں کھول دیں۔ سلکھی بولی، ’’دیکھ لو اب اس میں تازگی آگئی ہے یا نہیں؟ کیوں؟‘‘
جے چند: ’’مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے یہ مسکرا رہا ہے۔‘‘
سلکھی: ’’اور مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے باتیں کر رہا ہے۔ کہتا ہے، میں تمہارا بیٹا ہوں۔‘‘
جے چند: ’’بھئی یہ بات تو تم نے میرے ہونٹوں سے چھین لی۔ میں بھی یہی کہنے جا رہا تھا۔ ہاں بیٹا تو ہے ہی۔ اس سے خوب پیار کروگی نا؟‘‘
سلکھی: ’’تمہارے کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ بیٹے سے کون پیار نہیں کرتا۔‘‘
جے چند: ’’لیکن کہیں، مجھے نہ بھول جانا۔ بڑی عمر میں لڑکا پاکر عورتیں خاوندوں کی طرف سے لاپروا ہو جاتی ہیں۔ مگر مجھ سے تمہاری لا پروائی برداشت نہ ہوگی۔ یہ ابھی سے کہے دیتا ہوں۔‘‘
سلکھی: ’’چلو ہٹو! تمہیں تو ابھی سے ڈاہ ہونے لگا۔ جے چند ہنستے ہنستے گھر کے اندر چلے گئے لیکن سلکھی کئی گھنٹے وہیں دھوپ میں کھڑی بیری کی طرف دیکھتی رہی اور خوش ہوتی رہی۔ آج بھگوان نے اس کے گھر میں بوٹا لگا دیا تھا۔ آج اس کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ بانجھ نہیں رہی۔ معصوم بچہ چھاچھ کو دودھ سمجھ کر پینے لگا۔
اب جے چند اور سلکھی دونوں کو ایک مشغلہ مل گیا کبھی بیری کو پانی دیتے، کہ کمہلا نہ جائے۔ کبھی کھرپی لے کر اس کے آس پاس کی زمین کھودتے کہ اسے زمین سے خوراک حاصل کرنے میں دقت نہ ہو۔ کبھی اس کے گرد اگرد باڑ لگاتے کہ کوئی جانور نقصان نہ پہنچائے۔ کبھی دو چار پائیاں کھڑی کر کے اس پر چادر پھیلا دیتے کہ گرمی میں سوکھ نہ جائے۔ لوگ یہ دیکھتے تھے اور ہنستے تھے۔ بعض شخص کہہ بھی دیتے تھے کہ ان کے حواس بجا نہیں رہے لیکن محبت کے ان سادہ دل متوالوں کو اس کی ذرا پروا نہ تھی۔ انہیں بیری کی کونپلیں بڑھتی دیکھ کر وہی خوشی ہوتی تھی جو خوشی ماں باپ کو بچے کے ہاتھ پاؤں بڑھتے دیکھ کر ہوتی ہے۔ جے چندباہر سے آتے تو سب سے پہلے بیری کی خیرو عافیت دریافت کرتے۔ سلکھی رات کو کئی کئی مرتبہ چونک کر اٹھتی اور بیری کو دیکھنے جاتی۔ شاید اسے خطرہ تھا کہ کوئی اس انمول چیز کو اکھاڑ کر نہ لے جائے۔ ایسی محبت، ایسی احتیاط سے کسی بیوہ نے اپنے اکلوتے بیٹے کی بھی کم پرورش کی ہوگی۔ دھیرے دھیرے یہ نخل محبت بڑھنے لگا۔ اب وہ زمین سے بہت اوپر اٹھ گیا تھا۔ اس کا تنا بھی بہت موٹا ہو گیا تھا۔ ڈال بھی بڑے بڑے ہو گئے تھے۔ رات کے وقت ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ باہیں پھیلاکر کسی کو گلے لگانے کو بے قرار ہو۔ سلکھی اسے اپنی بیٹی اور جے چند اسے اپنا بیٹا کہتے تھے، اسے دیکھ کر ان کی آنکھیں روشن ہو جاتی تھیں۔ ان کے دل کے کنول کھل اٹھتے تھے۔ یہ درخت معمولی درخت نہ تھا۔ ان کی مشترکہ محنتوں کا نتیجہ تھا۔ اس کے لئے انہوں نے اپنی راتوں کی نیند قربان کی تھی۔ اس پر انہوں نے اپنے جسم و روح کی تمام خوشیاں نثار کر دی تھیں۔
اسی طرح پیار و محبت اور غور و پرداخت کے چار سال گزر گئے اور بیری کے پھلنے کا زمانہ نزدیک آ گیا۔ جے چند اور سلکھی دونوں کے پاؤں زمین پر نہ پڑتے تھے۔ ان کی خوشی کا ٹکارنا نہ تھا۔ جب بور آیا، تو دونوں سارے سارے دن آنگن میں بیٹھے اس کی حفاظت کیا کرتے تھے۔ کیا مجال جو کوئی جانور بھی قریب پھٹک جائے۔ جے چند اب پہلے کی طرح پوجا پاٹھ کے پابند نہ رہے تھے۔ سلکھی کو اب چرخہ کا خیال نہ تھا۔ معمولی درخت کی محبت نے ان کو اس طرح باندھ لیا تھا کہ ہلتے بھی نہ تھے۔ ہر وقت اسی کی باتیں کرتے تھے۔ اس وقت ان کا انداز شاعرانہ رنگ اختیار کر لیتا تھا۔ سلکھی کہتی تمہارے خیال میں یہ زرد رنگ کا بور ہوگا۔ مگر مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری بیٹی نے سونے کے زیور پہنے ہیں۔ کس شان سے کھڑی ہے کہ دیکھ کر دل خوش ہو جاتا ہے۔ جے چند کہتے یہ میرے بیٹے کی پہلی کمائی ہے۔ اسے بور کون کہتا ہے۔ یہ تو مہریں ہیں بلکہ مجھے تو اس کے سامنے مہریں بھی ہیچ معلوم ہوتی ہیں۔ انہیں آدمی بناتا ہے۔ اسے خود بھگوان اپنے ہاتھوں سے سنوارتا ہے۔ اس کے سامنے مہروں اور اشرفیوں کی حقیقت ہی کیا ہے۔ چند دن کے بعد یہ بیر بن جائیں گے۔ ان میں جو خوبصورتی، جو شباب، جو شیرینی جو حلاوت ہوگی۔ وہ سونے کے ان سکوں میں کہاں؟ سلکھی کہتی جس دن پہلے بیر اتریں گے اس دن مٹھائی بانٹوں گی۔ جے چندکہتے ہیں رت جگا کروں گا۔ گاؤں کے سارے لوگوں کو بلاؤں گا۔ ساری رات رونق لگی رہےگی۔ سلکھی کہتی خوب خرچ کرنا پڑےگا۔ جے چند جواب دیتے۔ لوگ بیٹوں کے بیاہ میں لٹاتے ہیں۔ میرے لئے یہی بیٹے کا بیاہ ہے۔ سب کچھ خرچ ہو جائے جب بھی پروا نہیں لیکن ایک مرتبہ دل کے ارمان نکل جائیں۔ کوئی حسرت باقی نہ رہ جائے۔ یہ سن کر سلکھی کسی دوسری دنیا میں پہنچ جاتی تھی۔ اس کے بحر دل میں خوشی کی ترنگیں اٹھنے لگتیں تھیں جیسے چاندنی رات میں سمندر میں جوار بھاٹا آ جائے۔
آخر وہ دن آ گیا، جس کے لئے خاوند بیوی دونوں چشم براہ تھے۔ پہلے دن بیری کے دو سو بیر اترے۔ یہ بیر اس قدر موٹے، ایسے سبز اور سرخ، اتنے خوبصورت اور چکنے چکنے تھے کہ دیکھ کر طبیعت ہری ہو جاتی تھی۔ دوپہر کا وقت تھا۔ سلکھی نے پرانے زمانہ کی ہندو عورتوں کی طرح نئے کپڑے پہنے، سرخ رنگ کا باغ اوڑھا۔ ناک میں نتھ پہنی اور جا کر جے چند کے سامنے کھڑی ہو گئی جیسے آج اس کے ہاں کوئی بیاہ شادی تھی۔ اس کو اس لباس میں دیکھ کر جے چند پر خوشی کا عالم طاری ہو گیا۔ چند لمحوں تک ان کے منہ سے کوئی بات نہ نکلی۔ آنکھیں موند کر دل ہی دل میں اس روحانی مسرت سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ تب انہوں نے بیر ٹوکری میں رکھے اور سلکھی سے کہا، ’’جا جاکر ججمانوں کے ہاں گن کر بیس بیس دے آ‘‘۔ سلکھی نے امید و بیم کی نگاہوں سے شوہر کی طرف دیکھا اور درد بھری آواز میں کہا، ’’پرماتما کرے خوب میٹھے ہوں۔ لوگ خوب تعریف کریں آ کر ودھائیاں دیں۔ کہیں ایسے بیر سارے گاؤں میں نہیں ہیں۔‘‘
جے چند نے دس بیر اپنے لئے رکھ لئے تھے۔ ان کی طرف تاکتے ہوئے بولے، ’’تو مفت میں مری جاتی ہے۔ دوسروں کے لئے میٹھے نہ ہوں گے نہ سہی۔ پر ہمارے لئے ان سے میٹھی چیز دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔ یہ میں بغیر چکھے کہہ سکتا ہوں۔ جا۔ دیر ہوئی جاتی ہے، تو بانٹ کر آ جائےگی تو ایک ساتھ کھائیں گے۔‘‘
سلکھی نے شوہر کی طرف محبت سے دیکھ کر جواب دیا، ’’میں ایک گھر میں دے لوں تو تم کھا لینا۔ میرا انتظار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
جے چند: ’’واہ ضرورت کیوں نہیں ہے۔ ایک ساتھ کھائیں گے۔ اکیلے میں ذرا مزا نہ آئےگا۔ ذرا جلدی لوٹ آنا۔‘‘سلکھی نے چھوٹا سا گھونگٹ نکالا اور بیروں کی ٹوکری اٹھا کر بانٹنے چلی، جیسے کوئی بیاہ شادی کی مٹھائی تقسیم کرنے جا رہا ہو۔ تھوڑی دیر میں ایک ججمان دوڑتا ہوا آیا اور بولا، ’’پنڈت جی! مبارک ہو۔ بیر خوب میٹھے نکلے ہیں۔‘‘
جے چند کا دل دھڑکنے لگا۔ چہرہ گلرنگ ہو گیا۔ بولے، ’’اچھا! آپ نے کھائے ہیں۔‘‘
ججمان: ’’کھائے کیا ہیں۔ ایک بیر چکھا ہے۔ مگر وا صاحب وا! گڑ سے بھی میٹھا ہے۔ آم سے بھی میٹھا ہے۔ کوئی اور بیر ہے یا نہیں؟‘‘
جے چند کی باچھیں کھلی جاتی تھیں۔ انہوں نے دوبیر اٹھا کر ججمان کے ہاتھ میں دیدیئے۔ ججمان کھاتا جاتا تھا اور تعریف کرتا جاتا تھا۔ کہتا تھا، ’’پنڈت جی یہ بیر کیا ہیں۔ کھانڈ کے کھلونے ہیں۔ میری اتنی عمر ہو گئی ایسے بیر میں نے آج تک نہیں کھائے۔ پرماتما جانے ان میں کیسا جائیکہ ہے۔ مالم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی کھوسبو بھری ہے۔ جیسے کسی نے عطر بھر دیا ہے۔‘‘
جے چند: ’’پرماتما نے ہماری محنت سپھل کر دی۔‘‘
ججمان: ’’سارے الاکے میں ایسے بیر مل جائیں تو مونچھیں کٹوا دوں دور نجدیک سے لوگ آیا کریں گے۔ مالم ہوتا ہے آپ نے ابھی تک نہیں چکھے۔‘‘
جے چند: ’’ججمانوں کو بھینٹ کر لوں پھر کھاؤں گا۔‘‘
ججمان: ’’جریان رہ جاؤ گے۔ ایسے بیر کابل۔ کندھار میں بھی نہ ہوں گے۔ ہمارے گھر میں دس بیس بیروں سے کیا بنتا ہے۔ دیکھتے دیکھتے کھتم ہو گئے اور بیر کب تک اتریں گے؟ ہم بیس اور لیں گے۔‘‘
جے چند: ’’آپ کا اپنا درخت ہے دو چار دن تک اور اتریں گے تو بھجوا دوں گا۔ مجھے کھلا کر جو خوشی حاصل ہوتی ہے۔ وہ کھا کر نہیں ہوتی۔ لیجئے دواور لے جائیے۔ چھ باقی ہیں۔ ہم دونوں تین تین کھا لیں گے۔‘‘
تھوڑی دیر بعد ایک اور ججمان آیا۔ اس نے بھی اس قدر تعریف کی، کہ جے چند کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ بولا، ’’یہ محبت کا درخت ہے، اس میں محبت کے بیر لگے ہیں۔ اس سے میٹھے بیر دنیا بھر میں نہ ہوں گے۔ صاحب اتنی محنت کون کرتا ہے۔ آپ دونوں نے ایک مثال قائم کردی۔ دوبیر کھائے ہیں۔ دو اور مل جائیں تو مزہ آ جائے۔ وافر ہیں یانہیں؟‘‘
جے چند نے مسکراکر کہا، ’’چھ بچے ہیں۔ دو آپ لے جایئے۔ دو دو ہم کھا لیں گے۔‘‘
ججمان: ’’یہ تو آپ پر ظلم ہوگا۔ رہنے دیجئے۔ پھر سہی اور بیر کب تک اتریں گے۔‘‘
جے چند: ’’آپ لے جایئے۔ ہمیں ذائقہ دیکھنا ہے۔ پیٹ تھوڑا بھرنا ہے (بیر ہاتھ پر رکھتے ہوئے) رات رتجگا ہے۔ آیئے گا نا؟ کوئی بیٹے کا بیاہ کرتا ہے۔ کوئی پوتی پوتے کا منڈن کرتا ہے۔ میری زندگی میں ایک دن آیا ہے۔ یہی پہلا ہے، یہی آخری ہوگا۔‘‘
ججمان: ’’ضرور آؤں گا پنڈت جی! مگر بیر خوب میٹھے ہیں ابھی تک منہ سے خوشبو آ رہی ہے۔‘‘
یہ کہہ کر ججمان چلا گیا۔ اتنے میں دو اور آ گئے۔ پنڈت جی کے پاس چار بیر باقی تھے۔ وہ ان کی نذر ہو گئے۔ اب آپ کے پاس ایک بھی بیر نہ تھا۔ پنڈت جی دل میں ڈرے سلکھی سے کیا کہوں گا۔ کہیں خفا نہ ہو جائے، طیش میں نہ آ جائے لیکن سلکھی اس قسم کی عورت نہ تھی۔ سارا واقعہ سن کر بولی، ’’آپ نے بہت اچھا کیا ہے۔ ہمارا کیا ہے؟ پھر کھا لیں گے۔ اپنی بیری ہے کہیں مانگنے تھوڑا جانا ہے اور کیا؟‘‘
جے چند: ’’گاؤں میں دھوم مچ گئی ہے۔ کہتے ہیں ایسے بیر دور دور تک کہیں نہیں ہیں۔‘‘
سلکھی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔ نتھ کو سنبھالتے ہوئے بولی، ’’سبھی کہتے ہیں اور دو۔ بیر کیا ہیں کھوئے کے پیڑے ہیں۔‘‘
جے چند: کہتے ہیں، ان میں سگندھ بھی ہے۔‘‘
سلکھی: ’’جو کھاتا ہے، چٹخارے لیتا ہے۔ کہتے ہیں، ایسا مزہ نہ آم میں ہے نہ سنگترہ میں۔‘‘
جے چند: ’’یہ سب تمہاری محنتوں کا پھل ہے۔ روز پانی دیا کرتی تھیں، تمہارے ہاتھوں کا پانی امرت ہو گیا۔‘‘
سلکھی: ’’اور جو تم کپڑوں سے سایہ کرتے پھرتے تھے اس کا کوئی اثر ہی نہیں۔ یہ سب اسی کا نتیجہ ہے۔‘‘
جے چند: ’’تم دیر میں لوٹیں۔ ورنہ ایک ساتھ کھاتے۔ اب دو چار دن کے بعد پکیں گے۔‘‘
لیکن جے چند کی قسمت میں بیر پکانا لکھا تھا۔ بیر کھانا نہ لکھا تھا۔ رتجگا کے بعد ان کو یکایک بخار ہو گیا۔ گاؤں میں جیسا علاج ہو سکتا تھا۔ ہوا۔ حکیم نے سمجھا، تکان کا بخار ہے۔ معمولی دواؤں سے اتر جائےگا۔ مگر یہ تکان کا بخار نہ تھا۔ موت کا بخار تھا جس کی دوا دنیا کے بڑے سے بڑے حکیم کے پاس بھی نہیں۔ چوتھے دن صبح کے وقت جے چند سلکھی سے گھنٹہ بھر آہستہ آہستہ باتیں کرتے رہے۔ باتیں کیا کرتے رہے۔ روتے اور رلاتے رہے۔ دنیا داری کی باتیں سمجھاتے رہے۔ یہ باتیں ان کی زندگی کا ماحصل تھیں۔ سلکھی یہ باتیں سنتی تھی اور روتی جاتی تھی۔ اس وقت اس کا دل بس میں نہ تھا۔ وہ چاہتی تھی جس طرح بھی ہو۔ شوہر کو بچا لے، اگر اس کے اختیار میں ہوتا۔ تو وہ اپنی جان دے کر بھی انہیں بچا لیتی۔ اس سے اسے ذرا بھی عار نہ تھا لیکن جو قسمت میں بدا ہو۔ اسے کون روک سکتا ہے؟ تھوڑی دیر بعد ادھر دنیا کا آفتاب طلوع ہو رہا تھا۔ ادھر جے چند کی زندگی کا آفتاب ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا۔
اب سلکھی دنیا میں بالکل اکیلی تھی۔ اب اس کا سوائے ایک چھوٹے بھائی کے اور کوئی بھی نہ تھا۔ چند دن روتی رہی۔ اس کے بعد چپ ہو گئی۔ اس لئے نہیں کہ موت کا رنج فراموش ہو گیا۔ بلکہ اس لئے کہ اس کی آنکھوں میں آنسو نہ رہے تھے۔ رو رو کر آنسو بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس کے دل کے زخم ہمیشہ ہرے تھے۔ اسے کسی پہلو کل نہ پڑتا تھا۔ شوہر کی موت کے بعد اسے کسی نے ہنستے نہیں دیکھا۔ نہ اچھا کھاتی تھی۔ نہ اچھا پہنتی تھی۔ اس کا بیشتر وقت غریب دکھی لوگوں کی خدمت میں گزرتا تھا۔ گاؤں میں کوئی بیمار ہوتا۔ سلکھی پہنچ جاتی۔ پھر اسے سونا حرام تھا۔ کیا مجال جو سرہانے سے ٹل جائے۔ ہر وقت خدمت میں لگی رہتی تھی۔ جیسے ماں بچے کی تیمارداری کر رہی ہو۔ جب وہ تندرست ہو جاتا تب گھر لوٹتی۔ اس کی ان خدمت گزاریوں نے گاؤں والوں کے من موہ لئے۔ وہ کہتے تھے یہ عورت نہیں دیوی ہے۔ اب انہیں معلوم ہوتا تھا کہ یہ نہ ہو تو گاؤں والوں پر مصیبت ٹوٹ پڑے۔ اسے دنیا کی کسی چیز سے محبت نہ تھی۔ کسی چیز کی پروا نہ تھی جیسے اس نے سنیاس لے لیا ہو جیسے اس نے دنیا کی ہر ایک چیز ترک کر دی ہو۔
لیکن اسے ایک چیز سے اب بھی محبت تھی اور وہ اس کی بیری تھی۔ وہ اب بھی اس کا اسی طرح خیال رکھتی تھی۔ اس کو اسی طرح پانی دیتی تھی۔ اسی طرح دیکھ بھال کرتی تھی۔ گرمی میں اس کے پتوں کو کمہلائے ہوئے دیکھ کر اب بھی اسی طرح بےچین ہو جاتی تھی۔ رات کو چونک چونک کر اب بھی اسی طرح دیکھتی تھی۔ باہر جاتی تو بھائی لچھمن سے کہہ جاتی، بیری کا خیال رکھنا۔ جب بیر لگتے تو دو دو تین تین مہینے اس کے پاس سے نہ اٹھی۔ مبادا جانور آکر کتر جائیں، جب بیر اترتے تو سارے گاؤں میں بانٹتی جس طرح پہلے سال بانٹے تھے مگر آپ بیر کو منہ نہ لگاتی تھی۔ نہ پہلے سال کھائے تھے، نہ اب کھاتی تھی۔ اس کا بھائی لچھمن خوب پیٹ بھر کر کھاتا تھا۔ وہ کہتا تھا یہ بیر اس دنیا کے نہیں، سورگ پوری (جنت) کے ہیں بعض وقت کہتا ایسے بیر سورگ میں بھی نہ ہوں گے۔ بہن سے کہتا تو بھی چکھ کر دیکھ، وہ کہتی وہ کھاتے تو میں بھی کھاتی۔ انہوں نے نہیں کھائے، میں بھی نہ کھاؤں گی۔ لچھمن کہتا، تو بد قسمت ہے۔ سلکھی جواب دیتی۔ بدقسمت نہ ہوتی تو وہ کیوں مرتے۔ اب تو ساری عمر اسی طرح گزر جائےگی۔
گورداسپور کے کئی دکانداروں نے بیری خریدنی چاہی۔ مگر سلکھی نے صاف انکار کر دیا۔ کہا مرتی جاؤں گی، مگر بیری نہ دوں گی۔ ایک دوکاندار نے کہا۔ دو سو روپیہ لے لے، بیری دیدے۔ سلکھی نے جواب دیا تو دو ہزار دے جب بھی نہ بیچوں۔ دو لاکھ دے جب بھی نہ بیچوں۔
دکاندار: ’’تو عجب عورت ہے، نہ کھاتی ہے، نہ بیچتی ہے۔‘‘
سلکھی: ’’بانٹتی تو ہوں۔ میرے لئے یہی خوشی کی بات ہے میں نہیں کھاتی تو کیا ہوا۔ سارا گاؤں تو کھاتا ہے۔‘‘
دکاندار: ’’مگر اس سے تجھے کیا مل جاتا ہے؟ جس کو بیر کھانے کو خواہش ہوگی۔ پیسے دے کر خرید لےگا۔‘‘
سلکھی نے دکاندار کی طرف درد بھری نگاہوں سے دیکھا اور کہا، ’’میں براہمنی ہوں۔ کنجڑن نہیں ہوں جو اپنی بیری کے بیر بیچوں۔ نہ بھئی! یہ نہ ہوگا۔ تو اپنے روپے لے جا۔ مجھے یہ سودا منظور نہیں۔‘‘
ایک دوسرے دکاندار نے کہا، ’’تو بیری بیچ دے تو میں پانسودوں، بول! ہے ارادہ۔‘‘
سلکھی: ’’یہ بیری نہیں ہے۔ ہماری اولاد ہے۔ اپنی اولاد کو کون بیچتا ہے؟‘‘
دکاندار: ’’یہ تیرا وہم ہے۔ آدمی کی اولاد آدمی ہوتا ہے۔ درخت نہیں ہوتا۔‘‘
سلکھی: ’’یہ اپنا اپنا خیال ہے۔ کئی آدمی ایسے بھی ہیں جو ٹھاکر کو پتھر کہتے ہیں۔‘‘
دکاندار: ’’مجھے تو درخت ہی معلوم ہوتا ہے۔‘‘
سلکھی: ’’تیری آنکھوں میں وہ بینائی کہاں؟ جو اس کی اصل صورت دیکھ سکے۔ درختوں کے بیر ایسے میٹھے کہاں ہوتے ہیں۔‘‘
لچھمن اب تک خاموش تھا۔ یہ سن کر بولا، ’’ایسے میٹھے بیر تم نے کہیں اور بھی دیکھے ہیں۔ ایک ایک بیر ایک ایک آنہ کو بھی سستا ہے۔‘‘
دکاندار: ’’یہ ٹھیک ہے بھیا لیکن آخر ہے تو بیری۔‘‘
سلکھی: ’’نہیں بھیا! یہ بیری نہیں ہے۔ میرے سوامی کی یادگار ہے جو اپنے سوامی کی یادگار کو بیچ دے، اس کو مرکر نرک بھی نہ ملے۔‘‘
دکاندار: ’’اب اس کا کیا جواب دوں، پانسو روپیہ کم نہیں ہوتا۔ تیری ساری عمر سکھ سے کٹ جائےگی۔‘‘
سلکھی: ’’بھیا! جو سکھ مجھے اس کو پانی دے کر ہوتا ہے وہ سکھ یہ روپے لے کر کبھی نہ ہوگا۔‘‘
دکاندار: ’’تو پانی دینے سے تجھے کون روکتا ہے؟ جتنا چاہے پانی دے۔ اگر تیرا ہاتھ پکڑ جاؤں تو جو چور کی سزا، وہ میری سزا۔‘‘
سلکھی: ’’مگر جو بات اب ہے وہ پھر کہاں؟ اب اپنا ہے پھر پرایا ہو جائےگا۔ اب بیر سارے گاؤں میں بانٹتی ہوں پھر تو ہاتھ بھی نہ لگانے دیگا۔ گاؤں کے جن لوگوں کے پاس پیسے نہیں وہ کیا کریں گے؟ بیروں کو دیکھیں گے اور آہ سرد بھر کر رہ جائیں گے۔ مجھے کوسیں گے، دل میں گالیاں دیں گے۔ اب سب کو مفت ملتے ہیں۔ پھر کسی کو بھی نہ ملیں گے۔ گاؤں کے چھوٹے چھوٹے بچے کہیں گے؟ کیسی ظالم ہے۔ چار پیسوں کی خاطر بیری بیچ دی۔ نہ بھائی! یہ کلنک کا ٹیکا نہ خریدوں گی۔ میں غریب ہی بھلی۔‘‘
یہ کہہ کر سلکھی بیری کے پاس چلی گئی اور اس کی ڈالیوں پر ہاتھ پھیرنے لگی۔
اور یہ اس عورت کا حال تھا۔ جس نے کسی پاٹ شالا میں تعلیم نہ پائی تھی۔ جس نے کرم دھرم پر کوئی لیکچر نہ سنا تھا جس کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا جو اپنے ججمانوں کے دان پر گزارہ کرتی تھی۔ مگر اس کا دل کتنا وسیع، کتنا پاکیزہ تھا۔ اس نے پڑوسیوں کے فرائض و حقوق کو کس قدر صحیح سمجھا تھا۔ ایسی پاک نفس نیک سرشت، سیر چشم دیویاں دنیا میں روز روز نہیں پیدا ہوتیں۔
کئی سال گزر گئے۔
جیٹھ کا مہینہ تھا۔ سلکھی بیری کے تمام بیر بانٹ چکی تھی۔ اب بیری پر ایک بیر بھی باقی نہ تھا۔ سلکھی بیری کے پاس کھڑی اس کی پھلوں سے خالی ڈالیوں کو دیکھتی تھی اور خوش ہوتی تھی کہ اس سال کا فرض بھی پورا ہو گیا۔ اتنے میں اس کے ایک ججمان ہاڑی رام نے آکر سلکھی کو نمسکار کیا اور بولا، ’’پنڈتانی جی! ہمارے بیر کہاں ہیں؟‘‘
سلکھی کے سر پر جیسے بجلی سی گر پڑی۔ حیران تھی کیا کہے، کیا نہ کہے، ہاڑی رام گاؤں میں سب سے بد مزاج جاٹ تھا۔ ذرا ذرا سی بات پر جوش میں آ جاتا تھا اور مرنے مارنے کو تیار ہو جاتا تھا۔ اس کی لال آنکھیں دیکھ کر سارا گاؤں سہم جاتا تھا۔ وہ معہ اپنے بال بچوں کے دو ماہ سے کہیں باہر گیا ہوا تھا۔ سلکھی ایک دو مرتبہ اس کے مکان پر گئی اور دروازہ بند پا کر لوٹ آئی۔ اس کے بعد وہ اس کے حافظہ سے اتر گیا اور بیر ختم ہو گئے اور اب۔
ہاڑی رام اس کے سامنے کھڑا تھا۔
سلکھی نے اس کی طرف خطاوارانہ نگاہوں سے دیکھا اور کہا’’ججمان! بیر تو ختم ہو گئے۔‘‘
ہاڑی رام نے قدرے ترش رو ہو کر کہا، ’’واہ! ختم کیسے ہو گئے، ہمیں تو ملے ہی نہیں۔‘‘
سلکھی: ’’اب تم جانے کہا ں چلے گئے تھے۔ دو مرتبہ تمہارے مکان پر لے کر گئی۔ دونوں مرتبہ دروازہ بند تھا۔ لوٹ آئی۔ اس کے بعد پھر مجھے خیال نہیں رہا۔
ہاڑی رام: (تیوریاں چڑھاکر) ’’خیال کیوں نہیں رہا۔ اتنی بچی بھی تو نہیں ہو۔‘‘
سلکھی: (تحمل سے) ’’اب ججمان! تم سے بحث کون کرے۔ بھول ہو گئی۔ اگلے سال دگنے بیر لے لینا۔‘‘
ہاڑی رام: ’’کھانا تو کبھی نہیں بھولتی ہو۔ نہ فصل پر غلہ مانگنا بھولتی ہو۔ ہمارے بیروں کا وقت آیا تو بھول ہو گئی۔‘‘
ہاڑی: ’’بیری سے لگے رہنے دیتی، میں آتا، اتار لیتا۔‘‘
سلکھی: ’’اور جوپک کر گر جاتے تو پھر۔ اب کسی کے منہ میں تو پڑ گئے۔ اس حالت میں کسی کے بھی کام نہ آتے۔‘‘
ہاڑی رام کی آنکھوں سے آگ کے شرارے نکلنے لگے۔ گرج کر بولا، ’’میرے بیر جب میرے کام نہ آئے تو مجھے کیا؟ خواہ رہیں خواہ مٹی میں مل جائیں۔ میرے لئے ایک ہی بات ہے۔ تم دوسروں کو دینے والی کون تھی؟‘‘
اب سلکھی کو بھی طیش آیا۔ قدرے تیز ہو کر بولی، ’’بیری میری ہے۔ تمہاری نہیں۔ جس کو چاہوں ایک بیر بھی نہ دوں۔ جس کو چاہوں۔ سب کے سب دیدوں۔ بیری تمہاری ہاتھوں بکی ہوئی نہیں۔ تو بولنے والے کون ہو؟‘‘
ہاڑی رام: ’’اچھا اب ہم کون ہو گئے؟‘‘
سلکھی: (اسی طرح خفگی سے) ’’محنت میں کرتی ہوں۔ رات دن میں جاگتی ہوں، پھر سارے کے سارے بیر بانٹ دیتی ہوں۔ خود ایک بیر بھی نہیں کھاتی۔ اس پر بھی اس قدر خفگی۔ آخر انسان کو کچھ تو سوچنا بھی چاہئے۔ جاؤ نہیں دیئے۔ نہ سہی جو کرنا ہو کر لو۔‘‘
ہاڑی رام دانت پیستا ہوا چلا گیا۔ ادھر سلکھی بیری کے پاس جا کر اس سے لپٹ گئی اور بولی، ’’بیٹی! اگر تمہارا باپ زندہ ہوتا تو اس کی کیا مجال تھی کہ یوں میری بےعزتی کر جاتا۔‘‘
اس سے تیسرے دن سلکھی ایک ججمان کے ہاں ایک بیمار بچے کی تیمار داری کر رہی تھی کہ ایک لڑکا دوڑتا ہوا آیا اور ہانپتا ہوا بولا، ’’تمہاری بیری کوہاڑی نے کاٹ دیا۔ کئی لوگوں نے منع کیا مگر وہ کہتا تھا مجھے سلکھی نے گالی دی ہے۔‘‘
سلکھی کو ایسا معلوم ہوا۔ جیسے کسی نے گولی مار دی ہے۔ وہاں سے چلی تو اسے رستہ نظر نہ آتا تھا۔ اس کے پاؤں تلے سے زمین نکلتی جا رہی تھی۔ اس وقت اس کے جسم میں ذرا طاقت نہ تھی۔ پاؤں اس طرح لڑکھڑا رہے تھے جیسے ابھی گر پڑےگی۔ وہ جلدی سے جلدی گھر پہنچ جانا چاہتی تھی۔ رستہ کے دونوں طرف گاؤں کے آدمی کھڑے اس کو دیکھتے تھے اور ہاڑی کو گالیاں دیتے تھے۔ اس وقت انہیں سلکھی کا خیال تھا۔ ہاڑی کا ڈر نہ تھا۔ وہ سلکھی کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنا چاہتے تھے اور انہیں سوائے ہاڑی کو گالیاں دینے کے اور کوئی طریقہ نظر نہ آتا تھا۔
ادھر سلکھی کا آنگن مردوں اور عورتوں سے بھرا تھا اور درمیان میں بیری کٹی پڑی تھی۔ لوگ کہتے تھے کتنا ظالم ہے۔ ذرا سی بات پر بیری کاٹ دی۔ کاٹنے ہی پر اکتفا کیا ہوتا۔ تو بھی خیر تھی۔ اگلے سال پھر اگ آتی لیکن اس نے تو جڑیں بھی اکھاڑ دیں۔ آدمی کا ہے کو ہے چنڈال ہے۔
معاً سلکھی ایک چھوٹا سا گھونگٹ کاڑھے آئی اور آنگن میں کھڑی ہو گئی۔ اس نے بیری کے ڈالوں کو زمین پر پڑا دیکھا۔ تو اس کے دل و جگر پر چھریاں چل گئیں۔ اس کو ایسا معلوم ہوا۔ جیسے یہ درخت کی ڈالیاں نہیں۔ اس کی اولاد کے ہاتھ پاؤں ہیں۔ اس نے آگے بڑھ کر ایک ایک ڈالی کو گلے سے لگایا اور رو رو کر بین کئے۔ ان دل دوز بینوں کو سن کر سبھی لوگ رونے لگے۔ سلکھی کہتی تھی۔ ارے تونے مجھے بلا کیوں نہ لیا۔ بچہ! پتہ نہیں جب تجھ پر ظالم کا کلہاڑا چلا ہوگا۔ تیرا دل کیا کہتا ہوگا۔ تڑپتا ہوگا۔ سوچتا ہوگا۔ ماں کا ہے کوہے۔ ڈائن ہے۔ یہ جلاد میرے ہاتھ پاؤں کا ٹ رہا ہے۔ وہ باہر گھوم رہی ہے۔ بچہ! مجھے کیا معلوم تھا۔ تیرے سر پر موت کھیل رہی تھی۔ ابھی بھلا چنگا چھوڑ کر گئی تھی۔ ابھی ابھی تو باہیں پھیلا کر کھڑا تھا۔ تجھے دیکھ کر جی خوش ہو جاتا تھا۔ اتنی جلدی تیاری کرلی۔ اب لوگ تیرے بیروں کو ترسیں گے۔ ایسے میٹھے بیر اور یہاں نہیں؟ تیرے باپ نے مرتے وقت کہا تھا جب تک جیتی ہے۔ اس کی حفاظت کرنا اور اس کے بیر لوگوں میں بانٹنا۔ آج یہ دونوں باتیں ناممکن ہو گئیں۔ اب میرا زندہ بیکار ہے۔ چل دونوں ایک ساتھ چلیں۔ وہاں تینوں مل کر رہیں گے۔
یہ کہہ کر اس نے بیری کو ڈالیوں کی چتا سی چنی۔ نیچے اوپر خشک لکڑیاں ڈال کر اس پر گھی ڈالا اور آگ لگا دی۔ آگ کے شعلے آسمان کو جانے لگے۔ لوگ پیچھے ہٹ گئے۔ مگر سلکھی اسی جگہ جلتی ہوئی بیری کے پاس چپ چاپ کھڑی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
معاً وہ چتا میں کود پڑی۔ لوگوں میں ہلچل مچ گئی۔ وہ ہیں ہیں کرتے ہوئے آگے بڑھے لیکن آگ کے شعلوں نے ان کا رستہ روک لیا۔ سلکھی آگ میں بیٹھی ہوئی جل رہی تھی لیکن اس کے چہرے پر ذرا پریشانی ذرا گھبراہٹ نہ تھی بلکہ روحانی جلال تھا۔ جیسے اس کے لئے آگ آگ نہ تھی ٹھنڈا پانی تھا۔ اتنے میں شعلوں سے آواز آئی۔ میں مرتے وقت وصیت کرتی ہوں میرے خاندان کے لوگ آئندہ دان نہ لیں۔
مردوں کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ عورتیں پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں لیکن سلکھی موت کے گرجتے ہوئے شعلوں میں خاموش بیٹھی تھی۔ دیکھتے دیکھتے ماں بیٹا دونوں جل کر بھسم ہو گئے۔ کل دونوں زندہ تھے۔ آج کوئی بھی نہ تھا۔
تھوڑی دیر بعد سلکھی کا بھائی لچھمن اور گاؤں کے جاٹ لاٹھیاں لئے ہاڑی رام کو ڈھونڈتے پھرتے تھے وہ کہتے تھے آج اس کو زندہ نہ چھوڑیں گے۔ پہلے ماریں گے پھر باندھ کر آگ میں جلا دیں گے۔
لیکن ہاڑی رام جنگلوں میں بنوں میں سر چھپاتا پھرتا تھا۔ اس کے بعد اسے کسی نے نہیں دیکھا۔ کب مرا؟ کہاں مرا؟ کیسے مرا؟ یہ کسی کو بھی معلوم نہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.