کہانی کی کہانی
ہر انسان اپنے مزاج اور کردار سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ سخت مزاج بیگم بلقیس طراب علی ایک دن مالی سے بغیچے کی صفائی کرا رہی تھیں کہ وہ مہترانی اور اس کی بیٹی کی بات چیت سن لیتی ہیں۔ بات چیت میں ماں بیٹی بیگموں کے اصل نام نہ لے کر انھیں مختلف ناموں سے بلاتی ہیں۔ یہ سن کر بلقیس بانو ان دونوں کو اپنے پاس بلاتی ہیں۔ وہ ان ناموں کے اصلی نام پوچھتی ہیں اور جاننا چاہتی ہیں کہ انھوں نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ مہترانی ان کے سامنے تو منع کر دیتی ہے لیکن اس نے بیگم بلقیس کا جو نام رکھا ہوتا ہے،وہ اپنے شوپر کے سامنے لے دیتی ہے۔
پت جھڑ کا موسم شروع ہو چکا تھا۔ بیگم بلقیس تراب علی ہر سال کی طرح اب کے بھی اپنے بنگلے کے باغیچے میں مالی سے پودوں اور پیڑوں کی کانٹ چھانٹ کرارہی تھیں۔ اس وقت دن کے کوئی گیارہ بجے ہوں گے۔ سیٹھ تراب علی اپنے کام پر اور لڑکے لڑکیاں اسکولوں کالجوں میں جا چکے تھے۔ چنانچہ بیگم صاحب بڑی بے فکری کے ساتھ آرام کرسی پر بیٹھی مالی کے کام کی نگرانی کر رہی تھیں۔
بیگم تراب علی کو نگرانی کے کاموں سے ہمیشہ بڑی دلچسپی رہی تھی۔ آج سے پندرہ سال پہلے جب ان کے شوہر نے جو اس وقت سیٹھ تراب علی نہیں بلکہ شیخ تراب علی کہلاتے تھے اور سرکاری تعمیرات کے ٹھیکے لیا کرتے تھے۔ اس نواح میں بنگلہ بنوانا شروع کیا تھا تو بیگم صاحب نے اس کی تعمیرات کے کام کی بڑی کڑی نگرانی کی تھی اور یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ یہ بنگلہ بڑی کفایت کے ساتھ اور تھوڑے ہی دنوں میں بن کر تیار ہو گیا تھا۔
بیگم تراب علی کا ڈیل ڈول مردوں جیسا تھا۔ آواز اونچی اور گمبھیر اور رنگ سانولا جو غصے کی حالت میں سیاہ پڑ جایا کرتا۔ چنانچہ نوکر چاکر ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے تھر تھر کانپنے لگتے اور گھر بھر پر سناٹا چھا جاتا۔ ان کی اولاد میں سے تین لڑکے اور دو لڑکیاں سن بلوغت کو پہنچ چکے تھے مگر کیا مجال جو ماں کے کاموں میں دخل دینا یا اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرنا پسند کرتے تھے۔ چنانچہ بیگم صاحب پورے خاندان پر ایک ملکہ کی طرح حکمراں تھیں۔ عمر اور خوش حالی کے ساتھ ساتھ ان کی فربہی بھی بڑھتی جا رہی تھی اور فربہی کے ساتھ رعب اور دبدبہ بھی۔
ان پندرہ برس میں جو انہوں نے اس نواح میں گزارے تھے، وہ یہاں کے قریب قریب سبھی رہنے والوں سے بخوبی واقف ہو گئی تھیں۔ بعض گھروں سے میل ملاپ بھی تھا اور کچھ بیبیوں سے دوستی بھی۔ وہ اس علاقے کے حالات سے خود کو با خبر رکھتی تھیں۔ یہاں تک کہ املاک کی خرید و فروخت اور بنگلوں میں نئے کرایہ داروں کی آمد اور پرانے کرایہ داروں کی رخصت کی بھی انہیں پوری پوری خبر رہتی تھی۔
اس وقت بیگم تراب علی کی تیز نظروں کے سامنے مالی کا ہاتھ بڑی پھرتی سے چل رہا تھا۔ اس نے پودوں اور چھوٹے چھوٹے پیڑوں کی کاٹ چھانٹ تو قینچی سے کھڑے کھڑے ہی کر ڈالی تھی اور اب وہ اونچے اونچے درختوں پر چڑھ کر بیگم صاحب کی ہدایت کے مطابق سوکھے یا زائد ٹہنے کلہاڑی سے کاٹ کاٹ کر نیچے پھینک رہا تھا۔
کچھ دیر بعد بیگم صاحب بیٹھے بیٹھے تھک گئیں اور کرسی سے اٹھ کر بنگلے کی چار دیواری کے ساتھ ساتھ ٹہلنے لگیں۔ بنگلے کے آگے کی دیوار کے ساتھ ساتھ جو پیڑ تھے ان میں دو ایک تو خاصے بڑے تھے جن کی چھاؤں گھنی تھی خاص کر ولائتی بادام کا پیڑ۔ اس کا سایہ نصف بنگلے کے اندر اور نصف باہر سڑک پر رہتا تھا۔ دن کو جب دھوپ تیز ہو جاتی تو کبھی کبھی کوئی راہگیر یا خوانچے والا ذرا دم لینے کو اس کے سائے میں بیٹھ جاتا تھا۔
بیگم بلقیس تراب علی جیسے ہی اس پیڑ کے پاس پہنچیں ان کے کان میں دیوار کے باہر سے کسی کے بولنے کی آواز آئی۔ انہوں نے اس آواز کو فورا پہنچان لیا۔ یہ اس علاقے کی مہترانی سگو کی آواز تھی جو اپنی بیٹی جگو سے بات کر رہی تھی۔ یہ ماں بیٹیاں بھی اکثر دوپہر کو اسی پیڑ کے نیچے سستانے یا ناشتہ پانی کرنے بیٹھ جایا کرتی تھیں۔
بیگم بلقیس تراب علی نے پہلے تو ان کی باتوں کی طرف دھیان نہ دیا۔ مگر ایکاایکی ان کے کان میں کچھ ایسے الفاظ پڑے کہ وہ چونک اٹھیں۔ سگو اپنی بیٹی سے پوچھ رہی تھی، ’’کیوں ری تو نے طوطے والی کے ہاں کام کر لیا تھا؟‘‘
’’ہاں‘‘ جگو نے اپنی مہین آواز میں جواب دیا۔
’’اور کھلونے والی کے ہاں؟‘‘
’’وہاں بھی۔‘‘
اور تپ دق والی کے ہاں؟
اب کے جگو کی آواز سنائی نہ دی۔ شائد اس نے سر ہلا دینے پر ہی اکتفا کیا ہوگا۔
’’اور کالی میم کے ہاں؟‘‘
اب تو بیگم تراب علی سے ضبط نہ ہو سکا اور وہ بےاختیار پکار اٹھیں، ’’سگو۔ اری او سگو۔ ذرا اندر تو آئیو۔‘‘
سگو کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ اس کی باتیں کوئی سن رہا ہوگا۔ خصوصا بیگم بلقیس تراب علی جن کی سخت مزاجی اور غصے سے اس کی روح کانپتی تھی۔ وہ پہلے تو گم سم رہ گئی۔ پھر مری ہوئی آواز میں بولی، ’’ابھی آئی بیگم صاحب!‘‘ تھوڑی دیر بعد وہ آنچل سے سینے کو ڈھانپتی، لہنگا ہلاتی، بنگلے کا پھاٹک کھول اندر آئی۔ جگو اس کے پیچھے پیچھے تھی۔ دونوں ماں بیٹیوں کے کپڑے میلے چکٹ ہو رہے تھے۔ دونوں نے سر میں سرسوں کا تیل خوب لیسا ہوا تھا۔
’’سلام بیگم صاحب!‘‘ سگو نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ابھی تک اس کی سمجھ میں نہ آیا تھا کہ کس قصور کی بنا پر اسے بیگم صاحب کے حضور پیش ہونا پڑا۔
بیگم صاحب نے تحکمانہ لہجے میں پوچھا، ’’کیوں ری مردار یہ تو باہر بیٹھی کن لوگوں کے نام لے رہی تھی؟‘‘
’’کیسے نام بیگم صاحب؟‘‘
’’اری تو کہہ رہی تھی نا طوطے والی، کھلونے والی، تپ دق والی، کالی میم؟‘‘
سگو نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’وہ تو بیگم صاحب ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے۔‘‘
’’دیکھ سگو سچ سچ بتا دے ورنہ میں جیتا نہ چھوڑوں گی۔‘‘
سگو پل بھر خاموش رہی۔ اس نے جان لیا کہ بیگم صاحب سے بات چھپانی مشکل ہوگی اور اس نے بڑی لجاجت سے کہنا شروع کیا، وہ بات یہ ہے بیگم صاحب ہم لکھت پڑھت تو جانتے نہیں اور ہم کو لوگوں کے نام بھی معلوم نہیں۔ سو ہم نے اپنی نسانی کے لئے ان کے نام رکھ لیے ہیں۔‘‘
’’اچھا تو یہ طوطے والی کون ہے؟‘‘
’’وہ جو بڑا سا گھر ہے نہ اگلی گلی میں نکڑ والا۔۔۔‘‘
’’فاروق صاحب کا؟‘‘
’’جی بیگم صاحب وہی۔ ان کی بیوی نے طوطا پال رکھا ہے۔ ہم ان کو نسانی کے لیے طوطے والی کہتے ہیں۔‘‘
’’اور یہ کھلونے والی کون ہے؟‘‘
’’وہ جو مسیت کے برابر والے بنگلے میں رہتی ہیں۔‘‘
بیگم تراب علی نے اس علاقے کا نقشہ ذہن میں جمایا، ذرا دیر غور کیا۔ پھر بولیں، ’’اچھا بخش الٰہی صاحب کا مکان؟‘‘
’’جی سرکار وہی۔‘‘
’’اری کمبخت تو ان کی ’’بیگم کو کھلونے والی‘‘ کیوں کہتی ہے۔ جانتی بھی ہے وہ تو لکھ پتی ہیں لکھ پتی، کھلونے تھوڑا ہی بیچتے ہیں۔‘‘
’’جب دیکھو ان کی کوٹھی میں ہر طرف کھلونے ہی کھلونے بکھرے رہتے ہیں۔ بہت بڑھیا بڑھیا کھلونے۔ یہ بڑے بڑے ہوائی جہاج۔ چلنے والی باتیں کرنے والی گڑیا۔ بجلی کی ریل گاڑی، موٹریں۔۔۔‘‘
’’اری موئی یہ کھلونے تو وہ خود اپنے بچوں کے کھیلنے کے لیے ولایت سے منگواتے ہیں، بیچتے تھوڑا ہی ہیں۔‘‘
’’ہم تو نسانی کے لیے کہتے ہیں بیگم صاحب۔‘‘
’’اور یہ کالی میم کس بی صاحبہ کا خطاب ہے؟‘‘
وہ جو کرسٹان رہتے ہیں نا۔۔۔‘‘
’’مسٹر ڈی فلوری؟‘‘
’’جی ہاں وہی۔‘‘
’’ہے کم بخت تیرا ناس جائے۔۔۔اور تپ دق والی کون ہے؟‘‘
’’ادھر کو‘‘ سگو نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’وہ بڑی سڑک پر پہلی گلی کے نکڑ والا جو گھر۔ اس میں ہر وکھت ایک عورت پلنگ پر پڑی رہے ہے اور میج پر بہت سی دواؤں کی سیسیاں نجر آوے ہیں۔‘‘
بیگم صاحب بےاختیار مسکرادیں۔ ان کا غصہ اب تک اتر چکا تھا اور وہ سگو کی باتوں کو بڑی دل چسپی سے سن رہی تھیں کہ اچانک ایک بات ان کے ذہن میں آئی اور ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔ ماتھے پر بل پڑ گیے۔ ڈانٹ کر بولیں، ’’کیوں ری مردار تو نے میرا بھی تو کوئی نہ کوئی نام ضرور رکھا ہوگا۔ بتا کیا نام رکھا ہے؟ سچ سچ بتائیو، نہیں تو مارتے مارتے برکس نکال دوں گی۔‘‘
سگو ذرا ٹھٹکی مگر فورا سنبھل گئی۔
’’بیگم صاحب چاہے ماریئے چاہے جندہ چھوڑیے ہم تو آپ کو بیگم صاحب ہی کہتے ہیں۔‘‘
’’چل جھوٹی مکار!‘‘
’’میں جھوٹ نہیں بولتی سرکار چاہے جس کی قسم لے لیجیے۔۔۔ہم بیگم صاحب کو بیگم صاحب ہی کہتے ہیں نا؟‘‘
جگو نے ماں کی طرف دیکھا اور جلدی سے منڈیا ہلا دی۔
’’مجھے تو تم ماں بیٹیوں کی بات پر یقین نہیں آتا‘‘ بیگم تراب علی بولیں۔ اس پر سگو خوشامدانہ لہجہ میں کہنے لگی، ’’اجی آپ ایسی سکھی(سخی) اور گریب پرور ہیں۔ بھلا ہم آپ کی سان میں ایسی گستاکھی کر سکتے ہیں۔‘‘ بیگم صاحب کا غصہ کچھ دھیما ہوا اور انہوں نے سگو کو نصیحت کرنی شروع کی، ’’دیکھو سگو۔ اس طرح شریف آدمیوں کے نام رکھنا ٹھیک نہیں۔ اگر ان کو پتہ چل جائے تو تجھے ایک دم نوکری سے جواب دے دیں۔‘‘
اچھا بیگم صاحب۔ اس دفعہ تو ہمیں معاف کر دیں۔ آگے کو ہم کسی کو ان ناموں سے نہیں بلائیں گے۔‘‘
سگو نے جب دیکھا کہ بیگم صاحب کا غصہ بالکل اتر گیا ہے تو اس نے زمین پر پڑے ہوئے ٹہنوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا۔
’’بیگم صاحب‘‘ اس نے بڑی لجاجت سے کہنا شروع کیا، کھدا حجور کے صاحب اور بچوں کو سدا سکھی رکھے۔ یہ جو دو ٹہنے آپ نے کٹوائے ہیں یہ تو آپ ہمیں دے دیجیئے سرکار۔ جھونپڑی کی چھت کئی دنوں سے ڈوبی ہوئی ہے۔ اس کی مرمت ہو جائےگی۔ گریب دعا دیں گے۔‘‘ بیگم بلقیس تراب علی پہلے خاموش رہیں۔ مگر جب سگو نے زیادہ گڑگڑانا شروع کیا تو پسیج گئیں۔
’’اچھا اپنے آدمی سے کہنا اٹھا لے جائے۔‘‘
’’کھدا آپ کو سدا سکھی رکھے بیگم صاحب کھدا۔۔۔‘‘
بیگم صاحب اس کی دعا پوری نہ سن سکیں۔ کیونکہ ان کو ایک ضروری کام یاد آ گیا اور وہ بنگلے کے اندر چلی گئیں۔ دوپہر کو بارہ بجے کے قریب سگو اور جگو سب کام نمٹا گھر جا رہی تھیں کہ سامنے ایک مہتر منڈاسا باندھے جھاڑو سے سڑک پر گرد غبار کے بادل اڑاتا جلد جلد چلا آ رہا تھا۔ دونوں ماں بیٹیاں اس کے قریب پہنچ کر رک گئیں، ’’آج بڑی دیر میں سڑک جھاڑنے نکلے ہو جگو کے باوا؟‘‘
’’ہاں جرا آنکھ دیر میں کھلی تھی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مہتر آگے بڑھ جانا چاہتا تھا کہ اس کی بیوی نے اسے روک لیا،، ’’سن جگو کے باوا۔ جب سڑک جھاڑ چکیو۔ تو ڈھڈو کے بنگلے پر چلے جائیو۔ وہاں دو بڑے بڑے ٹہنے کٹے پڑے ہیں انہیں اٹھا لائیو۔ میں نے ’’ڈھڈو‘‘ سے اجاجت لے لی ہے۔۔۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.