ایوا لانش
کہانی کی کہانی
جہیز کی لعنت پر لکھا گیا افسانہ ہے۔ کہانی کا راوی ایک واش لائن انسپکٹر ہے، معاشی قلت کی وجہ سے اس کی دو بیٹیوں کے رشتے طے نہیں ہو پا رہے ہیں۔ راوی کے کنبہ میں چھ لوگ ہیں، جن کی ذمہ داریوں کا بوجھ اس کے کاندھے پر ہے۔ جہیز پورا کرنے کے لئے وہ رشوتیں بھی لیتا ہے لیکن پھر بھی لڑکے والوں کی فرمائشیں پوری ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ راوی غم سے نجات پانے کے لئے اخبار میں پناہ لیتا ہے۔ ایک دن اس نے پڑھا کہ ایوالانش آجانے کی وجہ سے ایک پارٹی دب کر رہ گئی۔ اسی دوران رشوت کے الزام میں راوی برطرف کر دیا جاتا ہے۔ اسی دن اس کی چھوٹی بیٹی دوڑتی ہوئی آتی ہے اور بتاتی ہے ایک رسیکیو پارٹی نے سب لوگوں کو بچا لیا۔ راوی اپنی بیٹی سے پوچھتا ہے: کیا کوئی ریسکیو پارٹی آئے گی۔۔۔ رقو۔۔۔ کیا وہ ہمیشہ آتی ہے؟
جب میں کچھ پریشان سا ہوتا ہوں اور مجھے اپنا دل ایک ناقابل برداشت بوجھ کے نیچے دبتا اور بیٹھتا ہوا محسوس ہوتا ہے، تو میں اخبار بینی کرتا ہوں۔ یہ میرا شغل ہے۔
اخبار میں سکون کو تلاش کرنا ایک بعید الفہم بات ہے۔ لیکن یہ تو درست ہے کہ اس میں قتل، اغوا اور اس قسم کی بیہودہ سی باتیں دلچسپ ہوتی ہیں اور دوسروں کی کمزوریاں اور مصیبتیں پڑھ کر دل پر سے ایک بوجھ سا اتر جاتا ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میرے ہاتھ سے کسی نے کوئی میگنی فائنگ گلاس چھین لیا ہو اور پھر کبھی کبھی ہریجن میں سے اقتباسات ہوتے ہیں۔
عجیب عجیب ناموں پر مجھے بہت ہنسی آتی ہے۔ مثلا اس خبر میں۔
’’سنگورینی کلائریز (دکن) 15دسمبر۔۔۔ کوئلے کی کان میں سخت دھماکا ہونے سے ایک شخص مسمی گوروناتھ وینکٹارمیّہ کی موت واقع ہو گئی۔متوفی۔۔۔‘‘
اس وقت میرے پاؤں میں سے سلیپر اتر جاتے ہیں۔ میں بھول جاتا ہوں کہ میں ایک معمر آدمی ہوں۔ چائے، جو کہ میں نے ابھی ابھی پی ہے، اسی کے چند قطرے میری داڑھی میں اڑے ہوئے ہیں۔ گوروناتھ وینکٹارمیہ۔۔۔ خدا کی قسم، کیسا عجیب نام ہے ہا ہا ہا ہا!!۔۔۔ شیلا۔۔۔ رقو۔۔۔
شیلا، رقو اور میری بیوی جمنا، تینوں بھاگتی ہوئی آتی ہیں۔کیسا دلچسپ نام ہے۔ تم نے دیکھا؟۔۔۔ تم نے دیکھا؟۔۔۔ گوروناتھ وین۔۔۔ کٹا۔۔۔ رمیہ۔۔۔ ہاہا ہی ہی اور ہم سب بھول جاتے ہیں کہ اس بیچارے کی موت حادثہ سے واقع ہوئی۔ ایک نہایت افسوسناک حادثہ سے، اور متوفی کی شادی ہوئے ابھی صرف تین ماہ ہی ہوئے تھے۔ جمنا، میری حساس بیوی سوچتی ہے، کس طرح بیچاری کی سرخ چوڑیاں توڑ دی گئی ہوں گی۔ بھولی! نہیں جانتی دکن میں عورتیں سرخ چوڑیاں نہیں پہنتیں۔ اگر وہ سوچے کس طرح بیچاری کی مانگ کا سیندور پونچھ دیا گیا ہو گا تو شاید کچھ بات بھی بنے۔ جمنا آنچل سے اپنی نم ناک آنکھوں کو صاف کرتی ہے۔ شیلا اور رقو کسی گہری سوچ میں غرق ہو جاتی ہیں۔ لیکن وہ تینوں پاگل ہیں۔ ہمیں گورو ناتھ کی موت سے مطلب؟ ایک سانس کے ساتھ دنیا میں سینکڑوں انسان مر جاتے ہیں اور پھر ان سے کہیں زیادہ پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ کوئی رشتہ ہے۔لیکن میرا دل دبا ہوا ہے اور۔۔۔ اخبار بینی میرا شغل ہے۔
’’نندہ دیوی کے قریب ایک چوٹی کو سر کرنے کے لیے بین الاقوامی افراد پر مشتمل ایک پارٹی آ رہی ہے۔ چونکہ آج کل سردی ہے، پہاڑوں پر برف جمی ہوئی ہو گی۔ اس لیے پارٹی کے تمام افراد عنقریب ہی چڑھائی شروع کر دیں گے۔ ان افراد میں دو روسی ہیں، ایک اطالوی اور ایک جرمن عورت ہے۔ نام الیکسی نکولائی کوراٹپکن، سائنورنکلولوپیگننی اور جرمن عورت کا نام فراؤکرپ۔۔۔ ہی ہی۔۔۔ ہی!!
موضع ہندال میں ایک معزز کھڑدنبہ خاندان کے ہاں برات آئی۔ لڑکی والوں نے جہیز میں پچیس تولے سونا، ایک ہزار روپیہ نقد، فرنیچر، بھینسیں اور بہت کچھ مال دولت دی۔ پھیرے کے بعد لڑکے نے اپنے سسرال سے کار مانگی۔۔۔
پھر کیا ہوا؟ اس کے بعد میرا دل کانپنے لگتا ہے۔ ٹانگیں ڈگمگانے لگتی ہیں۔ آنکھوں پر سے عینک گر پڑتی ہے۔ اخبار چھوٹ چھوٹ جاتا ہے۔ میں اسی طرح بے تحاشا آوازیں دیتا ہوں۔ شیلا، رقو، جمنا۔۔۔ ادھر آنا۔۔۔ کوئی نہیں آتا۔ یہ لوگ میری دیوانی عادتوں سے واقف ہو چکے ہیں۔ گویا وہ مجھے میرے اخبار کے آخری کالم اور میری زندگی کے آخری سانس تک اکیلا چھوڑ دیں گے، تن تنہا، بے یارو مددگار، دیوانہ۔۔۔ کیا کوئی کسی کا ہے؟۔۔۔ بیوی اور بچے۔۔۔ رقو آ جاتی ہے۔ اس کی آنکھیں اسی طرح نم ناک ہوتی ہیں۔ وہ اخبار کو پڑھتی ہے اور پھر آہستہ سے میرے کندھے کو چھوتے ہوئے کہتا ہے۔
’’پتا جی۔۔۔ آپ نے آگے بھی پڑھا؟‘‘
’’نہیں بیٹی۔‘‘
’’پڑھیے۔۔۔ یہاں سے۔۔۔ انکار کر دیا اور آگے۔۔۔ ہاں ہاں یہ یہ۔‘‘
اور رقو کی چھنگلی سطر کے ساتھ ساتھ دوڑتی جاتی ہے۔ سطر کے الفاظ گم ہو جاتے ہیں۔ کہیں کہیں اعراب ناچنے لگتے ہیں، ضرورت سے زیادہ لمبے ہو جاتے ہیں۔
’’لڑکے نے اپنے سسرال سے کار مانگی۔ لڑکی والوں نے اسے اپنی توہین سمجھتے ہوئے انکار کر دیا اور ڈولی روک لی۔ برات کو ناکام واپس لوٹنا پڑا، اور ندامت سے اپنے تئیں بچانے کے لیے دولہا والوں کو نوشہ کی ضلع جہلم کے ایک گاؤں میں ایک الھڑ، جاہل، دیہاتی لڑکی سے شادی کرنی پڑی۔‘‘
اس وقت مجھے یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے کوئی بہت بڑا راجہ ہے، بہت بڑا فرعون، استبدادی، جس کے ہاتھوں کسی کی بھی عزت محفوظ نہیں۔ اس کی رعایا نے اس کے جور و استبداد سے تنگ آ کر ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔۔۔ لاٹھیاں، گنڈاسے، درانتیاں، ہتھوڑے۔۔۔ بہت ہی اچھا کیا، میں کہتا ہوں، لڑکی والوں نے بہت ہی اچھا کیا۔
میرے مکان کی گھنٹی بجی۔ میں جانتا تھا صاحب رام آتے ہی ہوں گے۔ کپور، اڑھائی گھر میں بڑی اونچی ذات ہے۔ میں نے دروازہ کھولنے سے پہلے چھجے پر سے جھانک لیا۔ یونہی۔۔۔ وہی تھے۔۔۔ کپور، امرتسری طرز کی سیدھی سی، کشتی نما پگڑی بندھی ہوئی تھی۔ کالا، بند گلے کا کوٹ اور اریب پاجامہ، شانے پر شال رکھی تھی۔
میں نے جمنا کو بلایا اور پوچھا۔
’’گدے تبدیل کیے ہیں جمنا؟‘‘
’’گدے؟ ہاں تو، کیے ہیں۔۔۔ نہیں کیے، صرف ان کے غلاف۔۔۔
’’پھولدان؟‘‘
اس دفعہ رقو آگے آئی۔ وہ جانتی ہے نا کہ میں اس کی ماں سے خواہ مخواہ کٹا رہتا ہوں۔ کسی کی بات کا غصہ اس پر نکالتا ہوں۔۔۔ شاید اس لیے کہ میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں اور اس سے بہت کچھ متوقع ہوں۔
رقو بولی۔ ’’رکھ دیے ہیں پھولدان۔۔۔ اور اپنے کاڑھے ہوئے میز پوش بچھا دیے ہیں۔‘‘
اس وقت نہ جانے مجھے اپنی بیٹی میں کیا دکھائی دیا۔ میں نے اسے اپنے پاس بلایا۔ ایک دیوانے کے آشیرواد کے ہاتھ، رقو کے سر پر چھا گئے۔ رقو نے میرے آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں گویا آنکھوں کے راستے سے وہ میرے دل کی گہرائیوں میں اتر جانا چاہتی ہے۔ اری بھولی لڑکی ! کیا یہ میرے دل کی گہرائیوں میں اترنے کا وقت ہے؟ جب میں اکیلا ہوتا ہوں تو تم تینوں میں سے میرے پاس کوئی نہیں آتا۔ کوئی بھی میرے جذبات کے ساتھ نہیں کھیلتا۔ میری پرواز کے ساتھ نہیں اڑتا۔۔۔ تم سب مجھے سطحی سمجھتے ہو اور یہی تمھاری بھول ہے۔۔۔ باہر کپور کھڑے ہیں، بازاروں میں سودے ہو رہے ہیں۔۔۔ میں نے رقو سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ ’’تم سب اپنے کمرے میں چلے جاؤ ۔۔۔ جاؤ ۔۔۔ ‘‘
صاحب رام آئے۔ جسم کے بھاری بھرکم تھے۔ نتھنے ضرورت سے زیادہ فراخ تھے۔ بھویں زیادہ گھنی تھیں اور کانوں پر لمبے لمبے سخت سے بال اگ کر پگڑی سے باہر دکھائی دے رہے تھے۔ ما تھا اندر کی طرف دھنسا ہوا تھا۔ بس بالکل کال روپ تھے۔ بار بار شال کو سنبھالتے تھے، گویا اس کا مظاہرہ کرنا کوئی بہت ضروری بات تھی۔ کرسی پر بیٹھنے کے بعد وہ کچھ دیر رقو کے ہاتھ کے کڑھے ہوئے ’’سواگتم‘‘ (خوش آمدید) وغیرہ کو دیکھتے رہے۔ پھر تصویروں پر نظر دوڑائی اور نہایت احتیاط سے کرسی کو میرے قریب سرکاتے ہوئے بولے، ’’سب سے پہلے میں آپ سے معافی چاہتا ہوں۔‘‘
میرے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔ میں نے کہا۔ ’’معافی ۔۔۔ آپ کا غلام ہوں۔ دیکھیے نا، دست بستہ غلام، آپ ہمارے صاحب ہیں، یہ رشتہ ہی کچھ۔۔۔‘‘ صاحب رام مسکرائے، جیسے کپور مسکراتے ہیں اور بولے، ’’میں نے سنا ہے، آپ کی رقو کی دو مرتبہ سگائی ہوئی تھی۔‘‘
اس وقت میں نے دروازے کے پیچھے جمنا کی انگلی ہلتی ہوئی دیکھی۔ وہ مجھے اثبات میں جواب دینے سے منع کر رہی تھی۔ پھر اس کی دھیمی دھیمی آواز سنائی دینے لگی۔ جیسے تھیٹر میں ایک پرامپٹر ہوتا ہے لیکن پرامپٹر کا ہنر اسی بات میں ہے کہ حاضرین کو اس کے وجود کا پتہ نہ چلے اور صاحب رام سن رہے تھے۔ میں حقیقت سے اتنی جلدی انکار نہ کرسکا، میں نے کہا ’’جی ہاں۔‘‘ صاحب رام بڑے مؤدبانہ انداز سے بولے۔ ’’کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ سگائی ٹوٹ کیوں گئی؟‘‘
اس وقت میرے منھ میں لعاب خشک ہو گیا۔۔۔ رقو نے گلدان اچھی طرح رکھے اور پھول سلیقہ سے کاڑھے تھے۔۔۔ میں نے اپنی ڈاڑھی کو کھجاتے ہوئے بتایا۔۔۔ وہ اس وجہ سے چھوٹ گئی کہ میں ایک غریب واش لائن انسپکٹر ہوں۔ رقو کو میں نے پڑھایا ہے لکھایا ہے۔ اچھی تعلیم دی ہے۔ آپ ایک غریب واش لائن انسپکٹر سے کیا متوقع ہو سکتے ہیں۔ کیا وہ اپنی بیٹی کو تعلیم کے لیے آکسفورڈ بھیج دے گا؟ معاف رکھیے۔۔۔ باقی رہی دینے دلانے کی بات، میں نے رقو کو استطاعت سے زیادہ دینے کے لیے خاکروبوں، جمعداروں، سب ماتحتوں کے منھ سے نوالے چھینے ہیں۔
غنی محلہ میں نالیاں بنانے کا ٹھیکہ مہتاب سنگھ کو دلوا کر اس سے کافی بڑی رقم اینٹھی ہے اور اب اس کا پتہ چل چکا ہے۔ میرے بیان ہو چکے ہیں۔ میری نوکری، میری، میرے بچوں کی، میرے دو یتیم بھتیجوں کی زندگی خطرے میں ہے اور چونکہ میں جہیز میں زیادہ دینے کے اہل نہیں تھا۔۔۔ وہ رشتے ٹوٹ گئے، ٹوٹ گئے، سنا آپ نے؟
صاحب رام نے مشکوک نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔ مجھے ان سرخ ڈوروں سے بھری ہوئی نگاہوں میں ایک رعشہ پیدا کر دینے والے معانی نظر آئے۔ گویا وہ میری رقو کو مشکوک چال چلن کی سمجھتا ہو۔۔۔ رقو۔۔۔ میری بیٹی رقو۔ کیا ایسی بھی ہو سکتی ہے؟۔۔۔ میرے ہاتھ میں ریوالور ہو تو میں صاحب رام کا دماغ پاش پاش کر دوں۔
صاحب رام بولے ’’سردار صاحب، دیکھیے، میں کل بینک میں لڑکے سے ملا تھا۔ وہ اس بات پر بہ ضد ہے کہ ایک ہزار روپیہ بدائیگی میں رکھا جائے، فرنیچر سب کا سب ساگوانی ہو۔ ریڈیو اور اگر ایک ریفرجریٹر ۔۔۔‘‘
باقی کا میں نے نہیں سنا۔ صرف آخری الفاظ صاحب رام کے چلے جانے کے بہت عرصہ بعد تک میرے کانوں میں گونجتے رہے۔۔۔ ’’اجی، با روزگار لڑکے آج کل ملتے کہاں ہیں؟‘‘۔۔۔ مجھے یاد آیا، میری نوکری، میری زندگی۔۔۔ چھ زندگیاں خطرے میں ہیں اور شاید ایک دفعہ ایک راجہ کے جور و استبداد سے تنگ آ کر رعایا نے بغاوت کی تھی اور محل کے نیچے لاٹھیاں، گنڈاسے درانتیاں، ہتھوڑے۔۔۔ اچھا کیا۔۔۔ اچھا کیا !!
برسات کے دنوں میں دیودار کی لکڑی کے مسام پھیل جاتے ہیں اور دروازے دہلیزوں کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں۔ میں نے زور سے دروازے کو دھکا دیا۔ دروازے کے پیچھے رقو اسے پیچھے کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہی تھی۔ دروازہ پٹ سے کھلا اور رقو کی پیشانی کے ساتھ ٹکرایا۔ اس وقت میرا جی چاہا کہ میں رقو کی خوب لاتوں گھونسوں سے مرمت کروں، خوب ماروں اسے۔
لیکن ایک اور ہی جذبہ میرے دل میں عود کر آیا۔ انسان اپنے دل اور کردار کے متعلق خود نہیں جانتا کہ فلاں وقت میں کون سا جذبہ، کون سا عمل سب سے اوپر جگہ پائے گا۔ میں نے رقو کے سر کو سہلاتے ہوئے کہا۔ ’’رقا، میری بچی ۔۔۔ زیادہ تو نہیں آئی چوٹ؟‘‘
میں نے دیکھا رقو کو چوٹ کا ذرا بھی خیال نہ تھا۔ وہ کسی گہری سوچ میں غرق تھی، یا وہ کسی اور ہی چوٹ کو سہلا رہی تھی۔ اس نے آنکھیں بدستور فرش پر گاڑے ہوئے پوچھا۔’’وہ کیا کہتے تھے؟‘‘ اور پھر وہ کچھ شرما سی گئی۔
ایک پرامپٹر کے بغیر میں نے سب کچھ چھپا لیا۔ میں نے کہا، میں رقو کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔ میں نے سوچا، کوئی تعجب نہیں کہ رقو خود ہی دروازے کے پیچھے سنتی رہی ہو۔ لیکن میں رقو کو کیوں بتاؤں؟ اس کی وہی چھنگلی ایک دن بردوان کی ایک خبر پر دوڑ رہی تھی۔ اس خبر میں لکھا تھا ۔۔۔ اپنے باپ کی مجبوریوں کا خیال کرتے ہوئے ایک لڑکی نے اپنے کپڑوں پر تیل چھڑک کر آگ لگا لی۔ میں نے رقو کو بالکل بچہ سمجھتے ہوئے گودی میں اٹھا لیا۔ پہلے تو وہ شرما دی، پھر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر میرے دل کی گہرائیوں میں اترنے لگی۔
میں نے کہا۔ ’’وہ کہتے تھے لڑکی تو بہت سوشیل دکھائی دیتی ہے۔۔۔ پوچھتے تھے، یہ پھول اسی نے کاڑھے ہیں۔ میں نے کہا ، ہاں۔ کہنے لگے کیا خوب ہیں۔ میں نے کہا۔ ہاں، پھر بولے، رقمن بہت اچھے اخلاق اور اطوار کی سنی جاتی ہے۔۔۔ میں نے کہا۔۔۔ ہاں۔
اور اس سے زیادہ میں نے کچھ نہ کہا۔ میں کچھ کہہ ہی نہ سکا۔ جانے مجھے کسی نے زور سے گلے سے پکڑ لیا ہو۔۔۔ کچھ دیر بعد اپنے اصل کو چھپانے کے لیے میں نے رقو کو دروازے کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا۔ ’’جاؤ۔۔۔ رقو جاؤ۔۔۔ جب میں اکیلا ہوتا ہوں۔ تو تم میں سے کوئی بھی میرے پاس نہیں آتا۔ کوئی بھی میرے دل کی گہرائیوں میں نہیں اترتا۔ کوئی بھی میری پرواز کے ساتھ۔۔۔ کیا میں سطحی ہوں، بے وقوفو۔۔۔ اور جب میں اکیلا رہنا چاہتا ہوں۔ تو تم سب میرے پاس آ جاؤ گے۔ جاؤ، مجھے اپنے اخبار کا آخری کالم اطمینان سے پڑھنے دو۔۔۔ ہاں! جمنا سے کہہ دینا ایک انگیٹھی میں بہت سے کوئلے ڈال کر بھیج دے۔ حرامزادی کو میری ذرا پروا نہیں۔ میں اسے جان سے مار ڈالوں گا۔ آج مجھے بہت سردی لگ رہی ہے۔۔۔ ہو ہو ہو۔۔۔ مرا جاتا ہوں مارے سردی کے۔۔۔‘‘
رقو میری عادت سے واقف تھی۔ چپ چاپ چلی گئی۔ آپ ہی انگیٹھی لے آئی۔ میں نے اخبار کو اٹھایا۔ وہ بین الاقوامی افراد پر مشتمل پارٹی کنچن جنگایا نندہ دیوی کے قریب کسی چوٹی کی بلندیوں کو سر کر رہی تھی۔ چاروں طرف برف ہی برف تھی۔ یکایک برف کا ایک تودہ پھسلا۔ ایک بڑی سی ایوالانش نے انھیں آ لیا۔ پارٹی کے سب ممبر، چند تبتی مزدور، خچر، سب دب گئے۔ شاید مر بھی گئے ہوں گے۔
جب ایوالانش آتی ہے، تو بڑے بڑے درختوں، چھوٹے چھوٹے پودوں، ہر نخل و ثمر کو بہا لے جاتی ہے۔ گاؤں کے گاؤں تباہ ہو جاتے ہیں۔ انسان، مویشی، پرند مر جاتے ہیں۔ فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔۔۔ قحط سالی ہوتی ہے۔۔۔
اس وقت ان افراد کے نام پڑھ کر میں نے ہنسنے کی کوشش کی۔۔۔ الیکسی نکولائی کوراپٹکن، سائنورنکلولوپیگننی اور جرمن عورت فراؤکرپ، لی ٹن شانگ ۔۔۔لیکن مجھے ہنسی نہ آئی۔
اس کے دو تین بعد بہت سردی پڑی۔ میرا دل بیٹھا جا رہا تھا۔مجھے نوکری سے برطرف کر دیا گیا تھا۔۔۔ رشوت لینے کی وجہ سے رقو شادی کی انسٹی ٹیوشن کو بڑی طنزیہ نگاہ سے دیکھنے لگی۔ مجھے تو اس کی عادتوں میں بے اعتدالی دکھائی دینے لگی۔ مجھے تو اس کے چلن پر بھی شبہ ہونے لگا۔۔۔ جمنا، میری دو بیٹیوں، تین بھتیجیوں کی زندگی خطرے میں تھی۔۔۔ اسی دن رقو دوڑی دوڑی آئی۔ اس کے ہاتھ میں اس روز کا اخبار تھا۔ وہ بولی ’’کیا آپ نے آج کا اخبار دیکھا ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’نہیں‘‘۔۔۔ اس نے ایک کالم میری آنکھوں کے سامنے رکھ دیا۔ لکھا تھا، ایک ہوائی کموڈر کے تحت میں ایک ریسکیوپارٹی نے ایوالانش کی زد میں آئے ہوئے سب آدمیوں کو بچا لیا۔ میں نے تسکین کا ایک گہرا سانس لیتے اور اس برفانی سخت سردی میں اپنے یخ بستہ ہاتھوں کو سینک سینک کر دل پر رکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’کیا کوئی ریسکیو پارٹی آئے گی؟۔۔۔ رقو!۔۔۔ کیا وہ ہمیشہ آتی ہے؟‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.